خدا ہمیں تکلیف کیوں اُٹھانے دیتا ہے؟
نوجوان لوگ پوچھتے ہیں . . .
خدا ہمیں تکلیف کیوں اُٹھانے دیتا ہے؟
”خدا آسمان پر رہتا ہے جہاں سب کچھ اچھا ہے، جبکہ ہم یہاں زمین پر مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔“—میری۔ *
آجکل کے نوجوانوں نے ایک بےرحم دُنیا میں جنم لیا ہے۔ ہزاروں اشخاص کی زندگیوں کو ختم کرنے والے ہولناک زلزلے اور قدرتی آفات روزمرّہ کا معمول لگتی ہیں۔ جنگیں اور دہشتگردی کے حملے اخبارات کی شہسُرخیاں ہوتے ہیں۔ بیماریاں، وبائیں، جرائم اور حادثات ہم سے ہمارے عزیزوں کو جُدا کر دیتے ہیں۔ میری جسکا ذکر اُوپر کِیا گیا ہے اُسے ایسے المناک واقعات کا ذاتی طور پر تجربہ ہوا تھا۔ اُس نے ایسے تلخ الفاظ اپنے والد کی وفات کے بعد کہے تھے۔
جب ہم ذاتی طور پر مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں تو مایوسی یا غموغصہ محسوس کرنا انسانی فطرت ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ’ایسا کیوں واقع ہوتا ہے؟ کیوں یہ میرے ساتھ ہی ہوتا ہے؟ یا اس وقت کیوں یہ ہو رہا ہے؟‘ ایسے سوالات تسلیبخش جوابات کے مستحق ہیں۔ تاہم دُرست جوابات حاصل کرنے کیلئے ہمیں قابلِبھروسا ذرائع کو جاننے کی ضرورت ہے۔ ٹرل نامی ایک نوجوان نے بیان کِیا کہ بعضاوقات لوگ ”اسقدر دل کو ٹھیس پہنچاتے ہیں کہ آپ کسی معاملے پر اچھی طرح غور نہیں کر سکتے۔“ پس اپنے جذبات پر قابو پانے کا طریقہ جاننے کی ضرورت ہے تاکہ آپ درست طور پر سوچ سکیں۔
ناقابلِتردید سچائی
شاید آپکو یہ بات ماننا مشکل لگے کہ موت اور دُکھدرد زندگی کی حقیقتیں ہیں۔ ایوب نبی نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا: ”انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے۔“—ایوب ۱۴:۱۔
بائبل نئی زمین کا وعدہ کرتی ہے ”جس میں راستبازی بسی رہیگی۔“ (۲-پطرس ۳:۱۳؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴) ایسی شاندار حالتوں سے پہلے، نسلِانسانی کو شرارت کے غیرمعمولی وقت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ بائبل اسے یوں بیان کرتی ہے، ”یہ جان رکھ کہ اخیر زمانہ میں بُرے دن آئینگے۔“—۲-تیمتھیس ۳:۱۔
اخیر زمانہ کے یہ بُرے دن کتنے طویل ہونگے؟ یسوع کے شاگردوں نے کموبیش ایسا ہی سوال پوچھا تھا۔ تاہم یسوع نے کسی مقررہ دن اور گھڑی کی بابت نہیں بتایا تھا کہ یہ بدحال نظامِالعمل کب اپنے خاتمے کو پہنچے گا۔ اسکے برعکس، یسوع نے کہا: ”جو آخر تک برداشت کریگا وہ نجات پائیگا۔“ (متی ۲۴:۳، ۱۳) یسوع کے الفاظ ہمیں دُوراندیش ہونے کی حوصلہافزائی کرتے ہیں۔ ہمیں خاتمہ آنے سے پہلے خود کو بہتیری ناگہانی حالتوں کے لئے تیار رکھنا چاہئے۔
کیا خدا ذمہدار ہے؟
کیا یہ معقول بات ہے کہ آپ خدا کیساتھ اسلئے ناراض ہیں کہ اُس نے تکالیف کی اجازت دے رکھی ہے؟ جب آپ اس بات پر غور کرینگے کہ خدا نے تمام دُکھتکلیف کو ختم کرنے کا وعدہ کِیا ہے تو آپکو ایسی سوچ نامعقول لگے گی۔ یہ محسوس کرنا بھی کچھ مطلب نہیں رکھتا کہ خدا بُری باتوں کے واقع ہونے کا سبب بنتا ہے۔ بہتیری مشکلات تو حادثاتی واقعات کا نتیجہ ہیں۔ مثال کے طور پر تصور کریں کہ تیز آندھی کی وجہ سے درخت گِر جانے کے باعث کوئی شخص زخمی ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ اس واقعہ کیلئے خدا کو ذمہدار ٹھہراتے ہیں۔ مگر خدا نے اس درخت کو گِرنے کیلئے نہیں بنایا تھا۔ بائبل ہماری یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہے کہ ایسی حالتیں محض ”وقت اور حادثہ“ کا نتیجہ ہیں۔—واعظ ۹:۱۱۔
دُکھ اُٹھانے کی ایک اَور وجہ ہمارے غلط فیصلے ہیں۔ فرض کریں کہ نوجوانوں کا ایک گروہ الکحلی مشروبات پینے کے بعد گاڑی چلاتا ہے۔ جسکے نتیجے میں ایک سنگین حادثہ واقع ہوتا ہے۔ کون اسکا ذمہدار ہے؟ خدا؟ ہرگز نہیں، یہ سب اُنکے غلط فیصلے کا نتیجہ ہے۔—گلتیوں ۶:۷۔
شاید آپ پوچھیں کہ ’کیا خدا اس وقت مشکلات کو ختم کرنے کی قدرت نہیں رکھتا؟‘ بائبل وقتوں کے بعض وفادار خادم بھی ایسا ہی سوچتے تھے۔ حبقوق نبی نے خدا سے کہا: ”پھر تو دغابازوں پر کیوں نظر کرتا ہے اور جب شریر اپنے سے زیادہ صادق کو نگل جاتا ہے تب تُو کیوں خاموش رہتا ہے؟“ تاہم حبقوق نے جلدبازی میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کِیا۔ وہ بیان کرتا ہے: ”مَیں . . . انتظار کرونگا کہ وہ مجھ سے کیا کہتا ہے۔“ بعدازاں، خدا اُسے اس بات کی یقیندہائی کراتا ہے کہ وہ ”مقررہ وقت“ پر دُکھتکلیف کو ضرور ختم کریگا۔ (حبقوق ۱:۱۳؛ ۲:۱-۳) ہمیں بڑے صبر کیساتھ خدا کے مقررہ وقت کا انتظار کرنے کی ضرورت ہے جب وہ بدکاری کا خاتمہ کریگا۔
جلدبازی سے یہ نتیجہ اخذ کرنے سے گریز کریں کہ خدا چاہتا ہے کہ ہم تکلیف اُٹھائیں یا وہ ہمیں ذاتی طور پر آزما رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مشکلات ہماری خوبیوں کو ظاہر کر سکتی ہیں اور بائبل بتاتی ہے کہ خدا جن آزمائشوں کے آنے کی اجازت دیتا ہے وہ ہمارے ایمان کو مضبوط کر سکتی ہیں۔ (عبرانیوں ۵:۸؛ ۱-پطرس ۱:۷) واقعی، بہتیرے لوگ جنہوں نے پریشانیوں اور دباؤں کا سامنا کِیا ہے وہ پہلے سے زیادہ متحمل اور رحمدل ہو گئے ہیں۔ تاہم ہمیں یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ خدا اُن پر ایسی مصیبتیں لا رہا تھا۔ اسطرح کی سوچ خدا کی محبت اور حکمت کیلئے پاسولحاظ ظاہر نہیں کرتی۔ بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے، ”جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمایش خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ کیونکہ نہ تو خدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔“ اسکے برعکس، ”ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام“ خدا کی طرف سے ملتا ہے!—یعقوب ۱:۱۳، ۱۷۔
خدا بُرائی کی اجازت کیوں دیتا ہے
پس، بُرائی کا آغاز کہاں سے ہوا تھا؟ یاد کریں کہ خدا کا ایک مخالف ہے ”جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے اور سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے۔“ (مکاشفہ ۱۲:۹) خدا نے ہمارے پہلے والدین آدم اور حوا کو ایک مشکلات سے پاک دُنیا میں رکھا تھا۔ لیکن شیطان نے حوا کو یقین دلایا کہ وہ خدا کی حکمرانی کے بغیر زیادہ فائدے میں رہیگی۔ (پیدایش ۳:۱-۵) افسوس کی بات ہے کہ حوا نے شیطان کے جھوٹ کا یقین کر لیا اور خدا کی نافرمان بن گئی۔ آدم نے بھی اس بغاوت میں حوا کا ساتھ دیا۔ اسکا نتیجہ کیا نکلا؟ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔“—رومیوں ۵:۱۲۔
۱-یوحنا ۵:۱۹) اسکے علاوہ، ”ایک شخص دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اُوپر بلا لاتا ہے۔“ (واعظ ۸:۹) نسلِانسانی کے مذاہب متضاد تعلیمات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ اخلاقیات میں پہلے کبھی ایسی تنزلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ انسانی حکومتیں حکمرانی کرنے کے ہر طریقے کو آزما چکی ہیں۔ اُنہوں نے معاہدوں پر دستخط کئے اور قوانین نافذ کئے لیکن عام لوگوں کی ضروریات ابھی تک پوری نہیں ہوئیں۔ جنگیں مصیبت پر مصیبت لا رہی ہیں۔
خدا نے شیطان اور اُسکے ساتھیوں کو ختم کرنے سے اس بغاوت کو فوراً کچلنے کی بجائے وقت دینا مناسب جانا۔ اسکا انجام کیا ہوا؟ ایک بات ضرور ہے کہ شیطان جھوٹا ثابت ہو گیا ہے! یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ خدا سے خودمختاری تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ کیا ایسا ہی واقع نہیں ہوا ہے؟ ”ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“ (واضح طور پر، ہمیں خدا کی مداخلت کی ضرورت ہے کہ بُرائی کا خاتمہ کرے! مگر یہ سب صرف خدا کے مقررہ وقت پر ہوگا۔ اُس وقت تک ہمیں یہ شرف حاصل ہے کہ بائبل میں بتائے گئے آئینوقوانین پر عمل کرنے سے خدا کی حکمرانی کی تائید کریں۔ جب تکالیف آتی ہیں تو ہم دُکھوں سے پاک دُنیا کی یقینی اُمید سے تسلی پا سکتے ہیں۔
تنہا نہیں
چنانچہ جب تکلیفیں ہمیں ذاتی طور پر متاثر کرتی ہیں تو شاید ہم خود سے کہیں، ’کیوں یہ میرے ساتھ ہی ہوتا ہے؟‘ تاہم، پولس رسول ہمیں یقیندہائی کراتا ہے کہ صرف ہم ہی ان بُری حالتوں کا شکار نہیں ہیں۔ پولس یہ کہتا ہے: ”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے۔“ (رومیوں ۸:۲۲) اس حقیقت سے واقفیت مشکلات کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، نیکول پر غور کریں جسے ستمبر ۱۱، ۲۰۰۱، نیو یارک کے شہر واشنگٹن ڈی. سی. میں ہونے والی دہشتگردی سے جذباتی دھچکا لگا تھا۔ وہ تسلیم کرتی ہے، ”مَیں دہشتزدہ اور خوفزدہ تھی۔“ مگر جب اُسے پتہ چلا کہ اُسکے ساتھی مسیحیوں نے کیسے اس حادثے کا مقابلہ کِیا تو اُسکا نقطۂنظر بدل گیا۔ * ”مَیں جان گئی کہ مجھے تنہا ان حالتوں کا سامنا نہیں۔ آہستہ آہستہ مَیں نے اپنے دُکھ اور غم پر قابو پا لیا۔“
بعض معاملات میں اپنے والدین، پُختہ دوست، یا کسی مسیحی بزرگ کے ساتھ بات کرنا دانشمندی ہے۔ کسی قابلِاعتماد شخص پر اپنے احساسات کا اظہار کرنے سے آپ کو حوصلہافزائی کی ”اچھی بات“ سننے کا موقع ملے گا۔ (امثال ۱۲:۲۵) ایک نوجوان برازیلی مسیحی نے کہا: ”نو سال پہلے میرا والد مجھ سے جُدا ہو گیا تھا اور مَیں جانتا ہوں کہ یہوواہ اُسے ایک دن قیامت بخشے گا۔ لیکن اس سے میری مدد بھی ہوئی کہ اپنے احساسات کو تحریر میں لا سکوں۔ علاوہازیں مَیں اپنے مسیحی دوستوں کے ساتھ بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہوں۔“ کیا آپ کے کوئی ’اچھے دوست‘ ہیں جن کو آپ اعتماد میں لے سکتے ہیں۔ (امثال ۱۷:۱۷) تو پھر اُن کی پُرمحبت مدد سے فائدہ اُٹھائیں! رونے یا اپنے احساسات کا اظہار کرنے سے خائف نہ ہوں۔ اپنے دوست کی موت پر یسوع کے بھی ”آنسو بہنے“ لگے تھے!—یوحنا ۱۱:۳۵۔
بائبل اس بات کی یقیندہانی کراتی ہے کہ ایک دن ہم ”فنا کے قبضہ سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی“ سے استفادہ کرینگے۔ (رومیوں ۸:۲۱) اُس وقت تک بہتیرے نیک لوگوں کو مصیبتوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس علم سے تسلی حاصل کریں کہ ایسی تکالیف کیوں آتی ہیں اور یہ ہمیشہ تک نہیں رہینگی۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 بعض نام بدل دئے گئے ہیں۔
^ پیراگراف 20 جنوری ۸، ۲۰۰۲، کے اویک! کے شمارے میں سلسلہوار مضامین ”مصیبت میں جرأت“ کو دیکھیں۔
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
اپنے دُکھ کا اظہار کرنا مفید ہو سکتا ہے