مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جب آپ دودھ میں موجود شکر کو ہضم نہیں کر پاتے

جب آپ دودھ میں موجود شکر کو ہضم نہیں کر پاتے

جب آپ دودھ میں موجود شکر کو ہضم نہیں کر پاتے

آپ تقریباً ایک گھنٹہ پہلے اپنی پسندیدہ آئس‌کریم کھا کر فارغ ہوئے ہیں۔‏ اچانک آپکے معدے میں جلن ہونے لگتی ہے اور پیٹ میں مڑور اُٹھنے لگتے ہیں۔‏ اسکے ساتھ ساتھ آپکو گیس ہوتی ہے۔‏ آپکو اکثر ایسا ہونے لگا ہے اِسلئے آپ آرام پانے کیلئے دوائی اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔‏ آپکے ذہن میں یہ سوال اُٹھنے لگا ہے کہ ”‏میرے معدے میں تکلیف کیوں رہتی ہے؟‏“‏

اگر دودھ پینے یا اِس سے بنی ہوئی چیزیں کھانے کے بعد آپکا جی متلانے اور پیٹ پھولنے لگتا ہے یا اِس میں مڑور یا پھر گیس یا پیچش (‏ڈائیریا)‏ کی تکلیف ہونے لگتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ لیکٹوز کو ہضم نہیں کر سکتے۔‏ بہتیرے لوگ اِس مرض میں مبتلا ہیں۔‏ ذیابیطس،‏ ہاضمے اور گردوں کی بیماریوں کے ایک ادارے کے مطابق ”‏امریکہ میں تین تا پانچ کروڑ اشخاص لیکٹوز کو ہضم نہیں کر سکتے۔‏“‏ ایک طبّی سکول کی شائع‌کردہ کتاب حساس معدہ ‏(‏انگریزی میں)‏ میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏دُنیا کی کُل آبادی میں سے ۷۰ فیصد کو لیکٹوز ہضم کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔‏“‏ لیکن لیکٹوز کیا ہے اور بعض لوگ اِسے ہضم کرنا کیوں مشکل پاتے ہیں؟‏

دودھ کی شکر کو لیکٹوز کہا جاتا ہے۔‏ چھوٹی آنت میں لیک‌ٹیز پیدا ہوتی ہے۔‏ یہ دودھ میں موجود شکر کو گلوکوز اور گلک‌ٹوز میں تبدیل کرتی ہے۔‏ اسطرح گلوکوز خون میں جذب ہو سکتا ہے۔‏ اگر بدن میں لیک‌ٹیز کی کمی ہو تو دودھ شکر میں تبدیل ہوئے بغیر بڑی آنت میں چلا جاتا ہے جہاں وہ خمیر ہوکر کھٹاس اور گیس پیدا کرتا ہے۔‏

اِس بیماری کو انگریزی میں لیکٹوز اِنٹولیرنس کہا جاتا ہے۔‏ اسکے مریضوں کو متذکرہ تمام علامات یا اِن میں سے کچھ ہوتی ہیں۔‏ زندگی کے پہلے دو سال میں بدن بڑی مقدار میں لیک‌ٹیز پیدا کرتا ہے۔‏ لیکن جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے بدن اِسکی مقدار کم کر دیتا ہے اور بیماری کا سلسلہ آہستہ آہستہ شروع ہوتا ہے۔‏ اِسلئے اکثر اشخاص یہ نہیں جانتے کہ وہ اِس بیماری کا شکار ہیں۔‏

کیا یہ ایک الرجی ہے؟‏

کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں دودھ سے الرجی ہے کیونکہ جب بھی وہ دودھ کی بنی ہوئی کوئی چیز کھاتے ہیں تو اِن پر اِسکا اثر ہونے لگتا ہے۔‏ لیکن اِن اثرات کی کیا وجہ ہے؟‏ کیا اِن لوگوں کو واقعی الرجی * ہے؟‏ الرجیز کے بعض ماہرین کے مطابق لوگوں کی کُل آبادی میں سے ۱ یا ۲ فیصد ہی کو غذا کی وجہ سے الرجی ہوتی ہے۔‏ بچوں کو اس قسم کی الرجیز زیادہ ہوتی ہیں لیکن پھر بھی بچوں کی کُل تعداد میں سے صرف ۸ فیصد سے کم ہی اس میں مبتلا ہوتے ہیں۔‏ الرجی اور دودھ کے شکر کو ہضم نہ کرنے کی علامتیں ایک حد تک ملتی‌جلتی ہیں۔‏

جب آپ کوئی ایسی چیز کھا لیتے ہیں جس سے آپکو الرجی ہو جاتی ہے یا پھر یہ آپکی جِلد کو متاثر کرتی ہے تو بدن اپنے دفاع میں ہسٹامین پیدا کرنے لگتا ہے۔‏ اسکی کچھ علامتیں ہونٹوں اور زبان کا پھولنا،‏ سُرخ‌باد اور دمہ ہیں۔‏ لیکن جب آپ دودھ کو ہضم نہیں کر سکتے تو اسکے اثرات مختلف ہوتے ہیں کیونکہ تب بدن اپنا دفاع نہیں کر رہا ہوتا بلکہ غذا کو ہضم نہ کرنے کی وجہ سے تکلیف میں ہوتا ہے۔‏

آپ کیسے معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا آپکو دودھ سے الرجی ہے یا آپ اِسے ہضم نہیں کر سکتے؟‏ کتاب حساس معدہ میں لکھا ہے:‏ ”‏جب کسی شخص کو غذا سے الرجی ہوتی ہے .‏ .‏ .‏ تو کھانے کے ایک دو لمحے بعد ہی بدن پر اسکا اثر نمایاں ہونے لگتا ہے۔‏ لیکن اگر کوئی شخص ایک غذا کو ہضم نہیں کر سکتا تو کھانے کے کم از کم ایک گھنٹے بعد اُسے تکلیف ہونے لگتی ہے۔‏“‏

اس بیماری کا بچوں پر اثر

جب ایک شیرخوار یا چھوٹے بچے پر دودھ پینے سے بُرا اثر پڑتا ہے تو یہ بڑی پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔‏ اگر بچے کو دودھ پینے سے پیچش ہو جائے تو اُسے پانی اور نمکیات کی سخت کمی بھی ہو سکتی ہے۔‏ ایسی صورتحال میں بچے کو ڈاکٹر کو دکھانا چاہئے۔‏ اگر بچے دودھ میں موجود شکر کو ہضم نہیں کر سکتے تو ڈاکٹر اکثر مشورہ دیتے ہیں کہ دودھ کی بجائے اِسے کوئی اَور متوازن غذا دی جائے۔‏ نتیجتاً بچے تندرست ہو جاتے ہیں۔‏

لیکن جب بچے کو دودھ سے الرجی ہوتی ہے تو صورتحال زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔‏ بعض ڈاکٹر بچے کو الرجی کی خاص دوا (‏اینٹی‌ہسٹامین)‏ دیتے ہیں۔‏ لیکن اگر بچے کو سانس لینے میں بھی دقت ہو تو دوا دینے کے علاوہ مزید علاج کرنے کی ضرورت ہوگی۔‏ کبھی‌کبھار مریض کی حالت اتنی بگڑ جاتی ہے کہ وہ مر بھی سکتا ہے۔‏

اگر بچہ اُلٹیاں کرنے لگے تو ہو سکتا ہے کہ اُسے گلک‌ٹوزیمیا نامی بیماری ہو۔‏ لیکن عام طور پر یہ بیماری کم بچوں کو لگتی ہے۔‏ جسطرح ہم پہلے بیان کر چکے ہیں لیک‌ٹیز دودھ کے شکر کو گلوکوز اور گلک‌ٹوز میں تبدیل کرتی ہے۔‏ لیکن صحیح طرح سے ہضم ہونے کیلئے گلک‌ٹوز کو بھی گلوکوز میں تبدیل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اگر بدن میں گلک‌ٹوز جمع ہو جائے تو نتیجتاً ذہنی معذوری،‏ گردوں اور جگر کو نقصان اور خون میں شکر کی کمی کے علاوہ نظر بھی کمزور پڑ سکتی ہے۔‏ اِسلئے یہ بہت اہم ہے کہ بچے کو جلد از جلد دودھ یا دودھ سے بنی ہوئی غذا دینا بند کر دیا جائے۔‏

یہ بیماری کتنی خطرناک ہے؟‏

ایک جوان عورت کو لگاتار گیس اور پیٹ میں مروڑ کی شکایت تھی۔‏ اُس کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ اُسے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔‏ بہت سے ٹیسٹ کروانے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ اُسکو آئی بی ڈی کی بیماری ہے (‏اِس بیماری میں مبتلا لوگوں کو مستقل طور پر انتڑیوں کی سوزش رہتی ہے جسکی وجہ سے اَور بھی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں)‏۔‏ * اِس بیماری پر قابو پانے کیلئے اُسے دوائی دی گئی۔‏ اُس نے دوائی تو لینا شروع کر دی لیکن وہ دودھ سے بنی ہوئی چیزوں سے پرہیز نہیں کرتی تھی۔‏ اسلئے اُسے آرام نہ آیا۔‏ اپنی بیماری کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد اُسے پتہ چلا کہ اُسے پرہیز کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‏ اِسلئے اُس نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اُسے کن چیزوں کے کھانے سے تکلیف ہوتی ہے۔‏ جب اُس نے دودھ سے بنی ہوئی تمام چیزوں کو کھانا چھوڑ دیا تو اُسے آرام آنے لگا۔‏ اُس نے مزید ٹیسٹ کروائے اور ایک سال کے اندر ہی اندر اُسے پتہ چلا کہ وہ آئی بی ڈی کی مریضہ نہیں ہے بلکہ وہ محض دودھ میں موجود شکر کو ہضم نہیں کر سکتی۔‏ یہ سُن کر وہ بہت ہی خوش ہوئی۔‏

ابھی تک کوئی ایسا علاج دریافت نہیں ہوا جسکی بِنا پر بدن قدرتی طور پر زیادہ مقدار میں لیک‌ٹیز پیدا کر سکے۔‏ لیکن لیک‌ٹیز کی کمی زندگی کیلئے خطرناک ثابت نہیں ہوتی۔‏ اِس بیماری سے چھٹکارا پانے کیلئے آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

کئی لوگوں نے تجربے سے سیکھ لیا ہے کہ وہ کس حد تک دودھ سے بنی ہوئی غذائیں ہضم کر سکتے ہیں۔‏ آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‏ اِس بات کو نوٹ کریں کہ آپ دن میں کتنی غذائیں کھاتے ہیں جن میں دودھ شامل ہے اور ایسا کرنے سے آپکے بدن پر کیا اثر پڑتا ہے۔‏ اِسطرح آپکو پتہ چل جائیگا کہ آپ کتنی مقدار میں ایسی غذائیں ہضم کر سکتے ہیں۔‏

بعض لوگوں نے دودھ سے بنی ہوئی ہر غذا سے پرہیز کرنے کو ہی بہتر سمجھا ہے۔‏ دودھ میں کیلشیم ہوتا ہے جو ہماری صحت کیلئے اہم ہے۔‏ اِسلئے کئی اشخاص نے اسکے بارے میں معلومات حاصل کی ہے کہ کیلشیم دودھ کے علاوہ کونسی غذاؤں میں شامل ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر بعض ہری سبزیوں،‏ مچھلی کی کچھ اقسام اور اخروٹ،‏ مونگ‌پھلی وغیرہ میں کیلشیم کثرت سے پائی جاتی ہے۔‏

جب لوگ دودھ کی بنی ہوئی غذا کو چھوڑنا نہیں چاہتے تو وہ ایسی دوائیاں کھا سکتے ہیں جو لیک‌ٹیز پر مشتمل ہیں۔‏ اِن ادویات کی مدد سے انتڑیوں میں دودھ کا شکر ہضم ہو جاتا ہے۔‏ اِسطرح یہ اشخاص دودھ والی غذا بغیر تکلیف کے کھا سکتے ہیں۔‏

آجکل کی دُنیا میں صحتمند رہنا آسان نہیں۔‏ طبّی تحقیقات اور ہمارے بدن کی قدرتی توانائی کی وجہ سے ہم کسی حد تک بیماریوں پر قابو پا لیتے ہیں۔‏ لیکن ہم اس وقت کے منتظر ہیں جب ”‏کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴؛‏ زبور ۱۳۹:‏۱۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 الرجی سے مُراد بدن کا کسی چیز کے معاملے میں بہت ہی حساس ہونا ہے۔‏

^ پیراگراف 15 آئی بی ڈی کی دو اقسام ہیں۔‏ یہ بہت خطرناک بیماری ہے۔‏ اسکی وجہ سے چھوٹی آنت کے حصوں کو اکثر بدن سے نکالنا پڑتا ہے اور یہ موت کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر بکس/‏تصویریں]‏

اِن غذاؤں میں بھی دودھ کا شکر ہو سکتا ہے:‏

▪ ڈبل‌روٹی اور ڈبل‌روٹی سے بنے ہوئے کھانے

▪ کیک اور بسکٹ

▪ ٹافیاں اور مختلف قسم کی مٹھائیاں

▪ پیکٹ والے آلو

▪ مارِجرین

▪ ڈاکٹر کے نسخے پر ملنے والی مختلف ادویات

▪ ڈاکٹری نسخے کے بغیر بکنے والی بہتیری ادویات

▪ فرنی،‏ کھیر،‏ کیک وغیرہ کے تیارشُدہ پاؤڈر

▪ کیمیاوی عمل سے گزرے ہوئے اناج کے دلیے

▪ سلاد پر ڈالنے کیلئے مختلف چٹنیاں

▪ ڈبوں میں بند گوشت

▪ مختلف قسم کے سوپ