ہمیں اُمید کی ضرورت کیوں ہے؟
ہمیں اُمید کی ضرورت کیوں ہے؟
آپ کے خیال میں اگر ڈینئل نے جس کا پچھلے مضمون میں ذکر ہوا تھا، اُمید نہ چھوڑی ہوتی تو کیا اُس کا کینسر ٹھیک ہو جاتا؟ کیا وہ آج بھی زندہ ہوتا؟ جو لوگ اِس بات پر پکا یقین رکھتے ہیں کہ اُمید کا صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے، وہ بھی شاید اِس بات سے اِتفاق کریں کہ اِس کا کم ہی اِمکان ہے۔ بِلاشُبہ اُمید ہر مرض کا علاج نہیں ہے۔
ذرا ڈاکٹر نیتھن چرنی کی بات پر غور کریں جنہوں نے اپنے ایک اِنٹرویو میں بتایا کہ جو مریض بہت بیمار ہوتے ہیں، اُن سے یہ کہنا غلط ہوگا کہ اُمید رکھنے سے وہ ضرور ٹھیک ہو جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا: ”ہم نے ایسے کئی کیس دیکھے ہیں کہ جب ایک بیوی بیمار ہوتی ہے اور وہ ٹھیک نہیں ہو پاتی تو اُس کا شوہر اُسی پر اِلزام لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ تُم اچھی باتوں کے بارے میں نہیں سوچتی اِسی لیے تُم ٹھیک نہیں ہو پا رہی۔“ ڈاکٹر نیتھن نے مزید کہا: ”اِس طرح کی سوچ بالکل غلط ہے کیونکہ اِس سے ایک مریض کو یہ تاثر مل سکتا ہے کہ اپنی بیماری سے ٹھیک ہونا یا نہ ہونا اُس کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اُس کا کینسر ٹھیک نہیں ہو رہا تو اِس میں اُسی کا قصور ہے۔ ایک مریض سے اِس طرح کی باتیں کہنا سراسر زیادتی ہے۔“
جو لوگ اپنی سنگین بیماری سے لڑ رہے ہوتے ہیں، وہ پہلے سے ہی بہت مایوس ہو چُکے ہوتے ہیں اور اُن کی طاقت جواب دے گئی ہوتی ہے۔ اور اگر اُن کے عزیز اُنہیں ہی اِس بات پر قصوروار ٹھہرائیں کہ وہ خود ٹھیک نہیں ہونا چاہتے تو وہ اَور ٹوٹ سکتے ہیں۔ تو کیا ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ اُمید رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا؟
ہرگز نہیں۔ ڈاکٹر نیتھن چرنی ایسے شعبے میں کام کرتے ہیں جہاں اُن مریضوں کا خیال رکھا جاتا ہے جو چند دنوں کے مہمان ہوتے ہیں۔ اِن مریضوں کی اِس طرح سے دیکھبھال کی جاتی ہے جن سے وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے پُرسکون ہو کر گزار سکیں۔ اِس شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹر علاج کے اِس طریقے کو بہت مانتے ہیں کیونکہ اِس سے وہ مریض بھی خوش رہنے کے قابل ہوتے ہیں جو بہت ہی بیمار ہیں۔ اِس بات کے کئی ثبوت موجود ہیں کہ اچھی باتوں کی اُمید رکھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
اُمید رکھنے کا فائدہ
ڈاکٹر گیفورڈ جونز نے کہا: ”اُمید ایک مؤثر دوا ہے۔“ اُنہوں نے کئی جائزوں کا مطالعہ کِیا تاکہ وہ یہ پتہ لگا سکیں کہ جب جانلیوا بیماری میں مبتلا مریضوں کی اُمید بندھائی جاتی ہے تو اِس سے مریضوں کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ جب ایسا کِیا جاتا ہے تو مریض اَور پُراُمید ہو جاتے ہیں اور مثبت سوچ رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ سن 1989ء میں کیے گئے ایک جائزے سے پتہ چلا کہ جن مریضوں کا حوصلہ بڑھایا گیا، وہ زیادہ دن زندہ رہے۔لیکن حالیہ تحقیق میں یہ بات زیادہ دیکھنے میں نہیں آئی۔البتہ کئی جائزوں سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جن مریضوں کی ہمت بڑھائی جاتی ہے، وہ دوسرے مریضوں کی نسبت کم ہی ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور اچھے سے تکلیف سہہ لیتے ہیں۔
ذرا ایک اَور تحقیق پر غور کریں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم اچھی باتوں کے بارے میں یا بُری باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو اِس کا ہمارے دل پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اِس حوالے سے تقریباً 1300 آدمیوں کا سروے کِیا گیا جس میں اِس بات کا اندازہ لگایا گیا کہ آیا وہ اپنی زندگی کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں یا منفی سوچ۔ اِس کے دس سال بعد جب اِن آدمیوں کا دوبارہ سروے کِیا گیا تو یہ دیکھنے میں آیا کہ اِن میں سے تقریباً 12 فیصد آدمی دل کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ اچھا سوچنے والوں کی نسبت بُرا سوچنے والے آدمیوں کے دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا اِمکان دو گُنا زیادہ تھا۔ امریکہ کی ایک مشہور یونیورسٹی میں پڑھانے والی پروفیسر لورا کبزانسکی کہتی ہیں: ”پہلے اِس بات کے اِتنے ٹھوس ثبوت نہیں تھے کہ مثبت سوچ کا ہماری صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ لیکن اِس تحقیق سے پہلی بار یہ سائنسی ثبوت ملا ہے کہ ایسا واقعی ہوتا ہے۔“
کچھ جائزوں سے یہ پتہ چلا ہے کہ جو لوگ اپنی صحت کے حوالے سے مثبت سوچ نہیں رکھتے تھے، اُنہوں نے آپریشن کے بعد صحتیاب ہونے میں کافی وقت لیا جبکہ وہ لوگ جلد ہی صحتیاب ہو گئے جو اپنی صحت کو لے کر اچھا سوچتے تھے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مثبت سوچ کا لمبی عمر سے بھی تعلق ہے۔ اِس حوالے سے عمررسیدہ لوگوں کا ایک جائزہ لیا گیا تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ جب اُن کو بڑھاپے کے بارے میں منفی اور مثبت باتیں بتائی جاتی ہیں تو اُن کا کیا ردِعمل ہوتا ہے۔ جب اُنہیں یہ بتایا گیا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ سمجھ اور تجربے میں اِضافہ ہوتا ہے تو اُن کے جسم میں چستی سی بھر گئی۔ اُن کی صحت میں اِتنی بہتری آئی جیسے 12 ہفتوں کی ورزش کرنے سے آتی ہے۔
اچھی باتوں کی اُمید رکھنے اور مثبت سوچ اپنانے سے ایک شخص کی صحت پر اچھا اثر کیوں پڑ سکتا ہے؟ اِس سوال کا ٹھوس جواب تو ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ شاید وہ ابھی تک اِنسانی دماغ اور جسم کو پوری طرح سے نہیں سمجھ پائے۔ لیکن اب تک جو تحقیق ہوئی ہے، اُس کی بِنا پر ماہرین یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اعصابی نظام کے ایک ماہر نے کہا: ”جو لوگ خوش رہتے ہیں اور اچھی باتوں کی اُمید رکھتے ہیں، وہ عموماً کم ہی ٹینشن کا شکار ہوتے ہیں اور اُن کی صحت اچھی رہتی ہے۔ لہٰذا پُراُمید رہنا صحتمند رہنے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔“
یہ خیال شاید بعض ڈاکٹروں، نفسیاتی ماہروں اور سائنسدانوں کے لیے تو نیا ہو لیکن اُن لوگوں کے لیے نیا نہیں ہے جو خدا کے پاک کلام بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تقریباً 3000 سال پہلے دانشمند بادشاہ سلیمان نے خدا کے اِلہام سے لکھا: ”شادمان دل صحت بخشتا ہے، لیکن افسردہ روح ہڈیوں کو خشک کر دیتی ہے۔“ (امثال 17:22، نیو اُردو بائبل ورشن) غور کریں کہ آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ شادمان دل ہر طرح کی بیماری کا علاج کر دے گا بلکہ اِس میں یہ خیال پیش کِیا گیا ہے کہ اِس سے ایک شخص کی صحت اچھی رہ سکتی ہے۔
اِس بات کے پیشِنظر شاید ہم سوچیں: ”اگر اُمید ایک دوائی ہوتی تو ہر ڈاکٹر اِسے اپنے مریضوں کو ضرور دیتا۔“ لیکن اچھی باتوں کی اُمید رکھنے سے صرف ہماری صحت پر ہی اچھا اثر نہیں پڑتا بلکہ اِس کے اَور بھی بہت سے فائدے ہیں۔
مثبت اور منفی سوچ کا اثر
تحقیقدانوں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ اچھی باتوں کے بارے میں سوچتے ہیں، اُنہیں بہت فائدے ہوتے ہیں۔ وہ عموماً سکول میں، کام کی جگہ پر، یہاں تک کہ کھیل کے میدان میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کھیل میں حصہ لینے والی کچھ لڑکیوں کا سروے کِیا گیا۔ اُن کے کوچ نے اُن میں سے ہر ایک کی صلاحیتوں کے بارے میں بتایا۔ اُن لڑکیوں سے بھی یہ پوچھا گیا کہ وہ کھیل کے حوالے سے خود سے کیا اُمید رکھتی ہیں۔ کھیل کے بعد پتہ چلا کہ لڑکیوں نے خود سے جو اُمید لگائی ہوئی تھی، وہ کوچ کے لگائے گئے اندازے سے زیادہ صحیح تھی۔ اُمید میں اِتنی طاقت کیوں ہے؟
تحقیقدانوں نے ایسے لوگوں کا بھی مشاہدہ کِیا ہے جو ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ضرور کچھ بُرا ہوگا۔ سن 1960ء کے دہے میں سائنسدانوں نے جانوروں پر کچھ ایسے تجربے کیے جن میں اُنہوں نے اُن کے اِردگِرد ایسے حالات پیدا کیے جن میں وہ جانور خود کو بےبس محسوس کرنے لگے۔ سائنسدانوں نے اِنسانوں کے بارے میں بھی یہ دیکھا کہ بعض صورتوں میں وہ بھی حالات کے آگے بےبس محسوس کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے کچھ لوگوں کو ایک جگہ پر بٹھایا اور بہت سی ناگوار آوازیں چلائیں۔ اُنہیں یہ بتایا گیا کہ وہ کچھ بٹنوں کو دبانے سے آوازوں کو روک سکتے ہیں۔ اور جب اُن سب نے ایسا کِیا تو وہ آوازوں کو روکنے میں کامیاب ہو گئے۔
لوگوں کے ایک اَور گروہ سے بھی ایسا ہی کرنے کو کہا گیا۔ لیکن جب اُنہوں نے بٹن دبائے تو آوازیں بند نہیں ہوئیں۔ اُن میں سے بہت سے تو ہمت ہی ہار بیٹھے۔ بعد میں جب اِنہی لوگوں پر کچھ اَور تجربے کیے گئے تو وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہے۔ اُنہیں لگا کہ چاہے وہ کچھ بھی کرلیں، اِس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن اِسی گروہ میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اچھا سوچتے تھے اور اُنہوں نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا۔
اِن میں سے کچھ تجربات ڈاکٹر مارٹن سیلگمن کے بنائے ہوئے تھے۔ بعد میں اُنہوں نے اِس بارے میں تحقیق کی کہ مثبت اور منفی سوچ کا ہم پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اِس بات کا بغور مطالعہ کِیا کہ کچھ لوگ ہمت کیوں ہار بیٹھتے ہیں۔ اُنہوں نے دیکھا کہ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ضرور کچھ بُرا ہو جائے گا، وہ زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ڈاکٹر مارٹن نے منفی سوچ اور اِس کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا: ”25 سالوں کی تحقیق کے بعد مجھے اِس بات پر یقین ہو گیا ہے کہ اُن لوگوں کے ساتھ بُرا ہونے کا زیادہ اِمکان ہوتا ہے جو منفی سوچ رکھتے ہیں، جو زندگی میں ہونے والی ہر بات کے لیے خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ اُن کے ساتھ کبھی کچھ اچھا نہیں ہوگا۔“
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا، یہ خیالات شاید آج کچھ لوگوں کو نئے معلوم ہوں لیکن اُن لوگوں کے لیے نئے نہیں ہیں جو بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”اگر تُو مصیبت کے دن ہمت ہار کر ڈھیلا ہو جائے تو تیری طاقت جاتی رہے گی۔“ (امثال 24:10، اُردو جیو ورشن) واقعی بائبل میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اگر ہم منفی سوچ اپنائیں گے اور ہمت ہار بیٹھیں گے تو ہم میں حالات سے لڑنے کی طاقت نہیں رہے گی۔ تو پھر ہم منفی سوچ سے لڑنے، مثبت سوچ اپنانے اور پُراُمید رہنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟
[صفحہ 4، 5 تصویر]
اُمید رکھنے کے بہت فائدے ہوتے ہیں۔