مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

جدید اہمیت کیساتھ ایک قدیمی عہد

جدید اہمیت کیساتھ ایک قدیمی عہد

جدید اہمیت کیساتھ ایک قدیمی عہد

تقریباً ۴۰۰ ق.‏س.‏ع.‏ میں،‏ بابائےطب کے طور پر مشہور ایک یونانی طبیب بقراط نے بقراطی حلف کو لکھا۔‏ اخلاقیات کے اُصولوں پر مشتمل یہ حلف آجکل طبی پیشے سے وابستہ لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔‏ کیا آپکو یہی سکھایا گیا ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔‏ مگر کیا یہ واقعی سچ ہے؟‏

حقائق بیان کرتے ہیں کہ شاید بقراط اپنے نام کے حامل اس حلف کو لکھنے والا نہیں تھا۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ طبی پیشہ آج اس حلف کی اُسی طرح تائید نہیں کرتا جیسا یہ اصل میں تحریر کِیا گیا تھا۔‏

کیا ہم جانتے ہیں کہ اس قدیم حلف کو کس نے تحریر کِیا تھا؟‏ نیز اگر ہم جانتے بھی ہیں تو کیا یہ حلف آج ہمارے لئے کسی اہمیت کا حامل ہے؟‏

کیا بقراط نے یہ حلف تحریر کِیا؟‏

یہ سوال کرنے کی مختلف وجوہات ہیں کہ آیا بقراط نے ہی یہ حلف تحریر کِیا تھا۔‏ پہلی بات تو یہ کہ اس حلف کا آغاز مختلف دیوتاؤں سے التجا کرنے کیساتھ ہوتا ہے۔‏ جبکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بقراط طب کو مذہب سے الگ کرنے اور بیماری کی مافوق‌اُلفطرت وجوہات کی بجائے طبیعی وجوہات پر غور کرنے والا پہلا شخص تھا۔‏

مزیدبرآں،‏ اس حلف میں جن چیزوں سے منع کِیا گیا ہے اُن میں سے کئی بقراط کے زمانے میں طب کے مخالف نہیں تھیں۔‏ (‏صفحہ ۲۱ کے بکس کو دیکھیں۔‏)‏ مثال کے طور پر،‏ بقراط کے زمانے میں اسقاط اور خودکشی قانوناً یا بیشتر مذہبی معیاروں کے مطابق ممنوع نہیں تھی۔‏ حلف اُٹھانے والا بھی یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ سرجری نہیں کریگا۔‏ اسکے باوجود،‏ جراحی کے قاعدے بقراطی مجموعے،‏ جوکہ بقراط سے منسوب طبی لٹریچر اور دیگر قدیم مصنّفین کے مجموعہ کا ایک حصہ ہیں۔‏

پس اگرچہ یہ سوال ابھی تک بحث‌وتکرار کا موضوع بنا ہوا ہے توبھی یہ صاف نظر آتا ہے کہ بقراطی حلف کا لکھنے والا درحقیقت بقراط نہیں تھا۔‏ اس حلف میں پیش‌کردہ نظریہ چوتھی صدی ق.‏س.‏ع.‏ کے فیثاغورث سے مطابقت‌پذیر ہے جس نے زندگی کے تقدس کی بابت نظریات پیش کئے جوکہ عملِ‌جراحی کے بالکل مخالف تھے۔‏

عروج‌وزوال

اس سے قطع‌نظر کہ اس حلف کا مصنف کون تھا ایک مصدقہ حقیقت یہ ہے کہ اس حلف نے مغربی طبی میدان اور بالخصوص اخلاقیات کے شعبے کو بہت زیادہ متاثر کِیا ہے۔‏ اس حلف کو ”‏طب کے سخت اخلاقی نظریات کے فروغ کا عروج،‏“‏ ”‏ترقی‌پذیر ممالک کے اندر ڈاکٹر اور مریض کے مابین تعلقات کی بنیاد“‏ اور ”‏پیشہ‌ورانہ اخلاقیت کا عروج“‏ کہا جاتا ہے۔‏ پیچھے ۱۹۱۳ میں،‏ ایک کینیڈین ڈاکٹر سر ولیم اوس‌لر نے کہا:‏ ”‏اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آیا اس حلف کا تعلق بقراط سے ہے یا نہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ ۲۵ صدیوں سے یہ طبی میدان کا بنیادی اُصول رہا ہے اور بیشتر یونیورسٹیوں میں یہ ابھی تک روایتی طور پر دہرایا جاتا ہے جسکے بعد ڈاکٹروں کو طب کی ڈگری دی جاتی ہے۔‏“‏

تاہم بیسویں صدی میں شاید سائنسی ترقی کی وجہ سے یہ حلف اتنا مقبول نہ رہا۔‏ عقلیت‌پسندی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے شاید اس حلف کو پُرانا اور بےمحل بنا دیا ہے۔‏ مگر سائنسی ترقی کے باوجود،‏ اخلاقی رہبری کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔‏ شاید اسی لئے حالیہ دہوں میں اس حلف کی مقبولیت میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔‏

ایک بار پھر حلف اُٹھانا بہت سے ڈاکٹروں کیلئے طبی سکول میں داخلہ لینے یا اس سے گریجویشن کرنے کیلئے ضروری بن گیا ہے۔‏ سن ۱۹۹۳ میں،‏ یو.‏ایس.‏ اور کینیڈا کے میڈیکل سکولز کے سروے نے ظاہر کِیا کہ جن سکولوں کا سروے کِیا گیا اُنکا ۹۸ فیصد کسی نہ کسی قسم کا حلف اُٹھاتا تھا۔‏ پیچھے ۱۹۲۸ میں صرف ۲۴ فیصد ایسا کرتے تھے۔‏ برطانیہ میں،‏ اسی طرح کے ایک سروے نے ظاہر کِیا کہ اس وقت تقریباً ۵۰ فیصد سکول حلف یا کسی نہ کسی طرح کے اقرارنامے کا استعمال کرتے ہیں۔‏ آسٹریلیا اور نیوزی‌لینڈ میں بھی یہ تعداد تقریباً ۵۰ فیصد ہے۔‏

وقت کیساتھ ساتھ تبدیلی

تاہم،‏ بقراطی حلف لاتبدیل نہیں ہے؛‏ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں دُنیائےمسیحیت کے عقائد کی عکاسی کرنے کیلئے ردوبدل کِیا گیا۔‏ بعض‌اوقات دیگر وجوہات کی بِنا پر جیسےکہ وباؤں سے متاثرہ اشخاص سے نپٹنے کیلئے تبدیلیاں کی گئی تھیں۔‏ حال ہی میں،‏ اسے جدید نظریات سے ہم‌آہنگ کرنے کیلئے تبدیل کِیا گیا ہے۔‏

حلف کے مختلف ترجموں میں،‏ جدید طب سے تعلق نہ رکھنے والے نظریات کو تلف کر دیا گیا ہے جبکہ موجودہ معاشرے سے متعلق اہم نظریات کو شامل کر لیا گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ مریض کی خودمختاری کا اُصول جدید طب میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے،‏ جبکہ قدیم یونانی طب میں اور بقراطی حلف میں اسکی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔‏ مریض کے حقوق کا نظریہ بہت سے جدید اقرارناموں کا نہایت اہم حصہ ہے۔‏

اسکے علاوہ،‏ ڈاکٹر اور مریض کے مابین تعلق بھی تبدیل ہو گیا ہے،‏ جس میں مریض کی رائے جاننا جیسے نظریات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہو گئے ہیں۔‏ پس یہ قابلِ‌فہم بات ہے کہ چند ایک طبی سکول ہی ابتدائی بقراطی حلف کو استعمال کر رہے ہیں۔‏

اس حلف میں دیگر تبدیلیاں شاید زیادہ حیران‌کُن ہیں۔‏ سن ۱۹۹۳ میں،‏ ریاستہائےمتحدہ اور کینیڈا میں پیش کئے جانے والے صرف ۴۳ فیصد حلف میں ایک ایسا عہد شامل ہوتا تھا جس میں ڈاکٹر اپنی کارکردگی کیلئے جوابدہ تھے جبکہ جدید زمانے کے بیشتر حلف اسطرح کی کوئی پابندی عائد نہیں کرتے۔‏ لاعلاج مرض میں مبتلا اشخاص کو تکلیف دئے بغیر ہلاک کرنے کا عمل اور اسقاط اور کسی دیوتا سے اپیل کرنے کا رواج عام نہیں تھا،‏ نیز جن سکولوں کا سروے کِیا گیا اُن میں سے صرف ۳ فیصد ایسے اقرارنامے استعمال کرتے تھے جن میں مریضوں کیساتھ جنسی تعلقات سے گریز کرنے کا ذکر ملتا ہے۔‏

ایک حلف کی اہمیت

بقراطی حلف میں بہت سی تبدیلیوں کے باوجود،‏ اپنے پیشے سے مخلص لوگ اکثر بنیادی طور پر قابلِ‌قدر اور اخلاقی نظریات کے حامل حلف‌ناموں کو اہمیت دیتے ہیں۔‏ سن ۱۹۹۳ میں مذکورہ‌بالا سروے نے یہ تحقیق کی کہ حلف جو رائج ہیں اُن میں سے بیشتر اُس اقرارنامے پر زور دیتے ہیں جو ڈاکٹر اپنے مریضوں سے وعدہ کرتے ہیں اور ان سے تقاضا کِیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مریضوں میں دیکھ‌بھال کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے۔‏ ایسا اقرارنامہ اُن اخلاقی اُصولوں کی طرف توجہ دلاتا ہے جو طبی پیشے کی بنیاد ہیں۔‏

دی میڈیکل جرنل آف آسٹریلیا میں شائع ہونے والے اداریے میں،‏ پروفیسر ایڈمنڈ پیلی‌گرینو نے لکھا:‏ ”‏شاید اکثریت کیلئے آجکل طبی حلف‌نامہ قدیم نظریے کا ایک محض چھوٹا سا حصہ ہے۔‏ تاہم اس قدیم نظریے کا بڑا حصہ آج بھی اس پیشے میں موجود ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اسے یکسر فراموش کر دینا طب کو ایک تجارتی،‏ صنعتی یا کسی منافع‌بخش کاروبار بنانے کے مترادف ہے۔‏“‏

بقراطی حلف‌نامہ یا جدید اقرارنامے جنکی یہ حلف بنیاد ہے آج بھی رائج ہیں اور شاید یہ تعلیمی نزاع کا مرکز بنے رہینگے۔‏ تاہم اسکا انجام خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو،‏ ڈاکٹروں کا مریضوں کی دیکھ‌بھال کرنے کا عہد ایک قابلِ‌قدر امر ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر بکس]‏

بقراطی حلف

ترجمہ از لڈوگ اڈلسٹن

مَیں قسم کھاتا ہوں اپالو فزیشن اور اسکلیپی‌ایس اور آئی‌جیا اور پیناسیا اور دیگر تمام دیوی دیوتاؤں کی اور اُنہیں گواہ بناکر کہتا ہوں کہ مَیں اپنی تمام‌تر صلاحیت اور بصیرت کے مطابق اس حلف اور اس عہد کی تعمیل کرونگا:‏

جس کسی نے بھی مجھے یہ کام سکھایا ہے مَیں اُسے والدین کے برابر سمجھونگا اور اُس سے تاحیات تعاون کرونگا اور اگر اُسے پیسے کی ضرورت ہوگی تو اُسے اپنا حصہ بھی دینے سے دریغ نہیں کرونگا اور اُسکی اولاد کو اپنے بھائی جانونگا اور اگر وہ سیکھنا چاہیں تو اُنہیں بھی بِلامعاوضہ اور بغیر کسی معاہدے کے اس کام کی تربیت دونگا؛‏ نیز جس نے مجھے تعلیم دی ہے اُسکی اولاد اور اُنکی اگلی پشتوں کو بھی اور اُن تمام طالبعلموں کو بھی جنہوں نے اس عہد پر دستخط کئے ہیں اور جنہوں نے یہ طبی حلف اُٹھایا ہے ان اُصولوں کی تعلیم دونگا اور زبانی ہدایات دونگا۔‏

مَیں اپنی صلاحیت اور دانش کے مطابق بیماروں کی غذا کا خیال رکھونگا اور اُنہیں ہر طرح کے نقصان اور ناانصافی سے بچاؤنگا۔‏

مَیں نہ تو کسی کو کوئی ایسی دوا دونگا جس سے کسی کی موت واقع ہو جائے اور نہ ہی اسکا مشورہ دونگا۔‏ اِسی طرح مَیں کسی عورت کو اسقاط کی دوا نہیں دونگا۔‏ مَیں اپنی زندگی اور پیشے کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دونگا۔‏

مَیں نہ تو خود کسی کی جراحی کرونگا اور نہ ہی ایسا کام کرنے والوں کی حمایت کرونگا۔‏

مَیں جہاں کہیں بھی جاؤنگا،‏ بیماروں کی مدد کو فوراً پہنچونگا اور جان‌بوجھ کر ناانصافی کرنے،‏ تمام طرح کی جنسی بدفعلی اور خاص طور پر آدمیوں اور عورتوں کیساتھ خواہ وہ غلام ہوں یا آزاد بداخلاقی سے کنارا کرونگا۔‏

مَیں علاج کے دوران جوکچھ سنتا اور دیکھتا ہوں اور اسکے علاوہ بھی لوگوں کی زندگیوں کی بابت ایسی تمام معلومات کو راز میں رکھونگا جنکا بیان کرنا شرم کی بات ہے۔‏

اگر مَیں اس حلف پر پورا اُترتا ہوں اور اسکی خلاف‌ورزی نہیں کرتا تو دُعا ہے کہ مَیں سدا طبی پیشے سے خوشی حاصل کروں،‏ مجھے تمام لوگوں کے درمیان عزت اور شہرت حاصل ہو؛‏ اگر مَیں اسکی خلاف‌ورزی کروں اور جھوٹی قسم کھاؤں تو اسکی لعنت مجھ پر پڑے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر]‏

بقراطی مجموعے کا ایک ورق

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر کا حوالہ]‏

‏:Hippocrates and page

Courtesy of the National

Library of Medicine