مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بچے دہشت‌گردی کا شکار

بچے دہشت‌گردی کا شکار

بچے دہشت‌گردی کا شکار

شام ہوتے ہی ملک یوگینڈا کے شمالی علاقے میں ہزاروں بچے سڑکوں پر ننگے پاؤں چلتے دکھائی دیتے ہیں۔‏ یہ بچے رات پڑنے سے پہلے ہی اپنے اپنے گاؤں چھوڑ کر شہروں کو چلے آتے ہیں۔‏ وہاں پہنچتے ہی وہ مختلف عمارتوں،‏ بس کے اڈّوں،‏ باغوں اور صحنوں میں چھپ جاتے ہیں۔‏ سورج نکلتے ہی یہ بچے سڑکوں پر چلتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹتے نظر آتے ہیں۔‏ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‏

کئی لوگ ان بچوں کو ”‏رات کے مسافر“‏ کا نام دیتے ہیں۔‏ یہ بچے رات کے وقت کام کرنے کے لئے اِس سفر کو طے نہیں کرتے۔‏ وہ اِس لئے گھر سے نکلتے ہیں کیونکہ اندھیرا پھیلتے ہی دیہات میں رہنا اُن کے لئے بہت خطرناک بن جاتا ہے۔‏

تقریباً ۲۰ سال سے گوریلا فوجی اِن دیہی علاقوں پر حملہ کرکے بچوں کو اغوا کر رہے ہیں۔‏ یہ فوجی ہر سال سینکڑوں بچوں کو اغوا کر لیتے ہیں اور پھر گھنے جنگلات میں چھپ جاتے ہیں۔‏ اِن بچوں کو زیادہ‌تر رات کے وقت اپنے گھروں سے اُٹھا لیا جاتا ہے۔‏ یہ باغی فوجی کئی بچوں کو سپاہیوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں،‏ اور کئی بچوں کو قلی کے طور پر۔‏ لڑکیوں کے ساتھ وہ جنسی بدسلوکی کرتے ہیں۔‏ اگر یہ بچے تعاون کرنے سے انکار کرتے ہیں تو فوجی اُن کی ناک یا ہونٹ کاٹ دیتے ہیں۔‏ اگر ایک بچہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تو پکڑے جانے پر اُسے اتنے خوفناک طریقے سے قتل کِیا جاتا ہے کہ اِس کا تصور بھی نہیں کِیا جا سکتا۔‏

دُنیا میں اَور بھی بہت سے بچے دہشت‌گردی کا شکار بنتے ہیں۔‏ ملک سیرالیون میں کئی نوجوان صرف بچے ہی تھے،‏ جب دہشت‌گردوں نے بڑے بڑے چھروں سے اُن کے ہاتھ پیر کاٹ دئے۔‏ افغانستان میں لڑکے اور لڑکیاں،‏ تتلیوں کی شکل میں بنی ہوئی بارودی سرنگوں سے کھیلتے ہیں۔‏ اور جب یہ رنگین تتلیاں پھٹتی ہیں تو یہ بچے اپنی اُنگلیوں اور آنکھوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔‏

کئی بچے دہشت‌گردی کا نشانہ بن کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر سن ۱۹۹۵ میں امریکہ کے شہر اوکلاہوما میں ایک بم دھماکے میں مر جانے والے ۱۶۸ لوگوں میں ۱۹ بچے شامل تھے۔‏ یہ کھیلتے کودتے،‏ ہنستے مسکراتے بچے تھے۔‏ اِس دہشت‌گرد حملے نے ایک تیز آندھی کی طرح اِن ننھی شمعوں کو بجھا دیا۔‏

یہ تمام واقعات حال ہی میں ہو رہے ہیں۔‏ لیکن جیسا کہ ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے،‏ دہشت‌گردی تو صدیوں سے انسان کی زندگی کو کچلتی چلی آ رہی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۳ پر بکس]‏

بچوں پر موت کا سایہ

”‏آج صبح جب مَیں نے اپنے گیارہ سالہ بیٹے کو جگایا تو اُس نے مجھ سے پوچھا:‏ کیا آج کا دہشت‌گرد حملہ ہو چکا ہے؟‏“‏ یہ تھے مصنف ڈیو گروس‌مین کے الفاظ جو اُس نے اپنے ملک میں ہونے والے تشدد کے بارے میں لکھے۔‏ اُس نے آگے کہا:‏ ”‏میرا بیٹا بہت خوفزدہ ہے۔‏“‏

حال ہی میں بہت سے بچے دہشت‌گرد حملوں میں مارے گئے ہیں۔‏ اس لئے اب کچھ والدین اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لیتے ہیں،‏ تاکہ اگر اُن کا ایک بچہ دہشت‌گردی کا نشانہ بن جائے تو وہ اس صورتحال سے نپٹ سکیں۔‏ گروس‌مین اپنی کتاب میں ایک جوان جوڑے کے بارے میں لکھتا ہے:‏ ”‏اُنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے تین بچے ہوں۔‏ صرف دو بچے نہیں بلکہ تین،‏ تاکہ اگر اُن کا ایک بچہ دہشت‌گرد حملوں میں مر بھی جائے تو دو بچے باقی رہ جائیں۔‏“‏

اُس جوڑے نے یہ نہیں کہا کہ وہ ایسی صورتحال میں کیا کرتے اگر اُن کے دو یا پھر تینوں بچے دہشت‌گردی کا نشانہ بن جاتے۔‏ *

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 12 حوالے ڈیو گروس‌مین کی کتاب ”‏موت،‏ زندگی کا معمول“‏ (‏انگریزی میں)‏ سے لئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

Sven Torifnn/Panos Pictures ©