مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خون میں لکھی گئی تاریخ

خون میں لکھی گئی تاریخ

خون میں لکھی گئی تاریخ

کچھ سال پہلے دہشت‌گردی صرف کئی ملکوں تک محدود تھی۔‏ اِن میں شمالی آئرلینڈ،‏ شمالی سپین اور مشرقِ‌وسطیٰ کے چند علاقے شامل تھے۔‏ لیکن ۱۱ ستمبر،‏ ۲۰۰۱ میں نیو یارک میں ہونے والے دہشت‌گرد حملے کے بعد،‏ دُنیابھر میں دہشت‌گردی کی وبا پھیل گئی۔‏ یہاں تک کہ اب بالی،‏ سپین،‏ لندن،‏ سری‌لنکا،‏ تھائی‌لینڈ اور نیپال میں بھی دہشت‌گرد حملہ‌آور ہوئے ہیں۔‏ جیسا کہ ہم دیکھیں گے دہشت‌گردی کی شروعات بہت پہلے سے ہوئی تھی۔‏ لیکن آیئے پہلے ہم غور کرتے ہیں کہ دہشت‌گردی سے کیا مُراد ہے۔‏

لغت کے مطابق دہشت‌گردی سے مُراد ہے:‏ ”‏اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے تشدد کے ذریعے خوف پھیلانا۔‏“‏ تاہم ایک مصنف کا کہنا ہے کہ ”‏لفظ دہشت‌گردی کے بہت سے مختلف معنی پیش کئے جاتے ہیں .‏ .‏ .‏ لیکن دہشت‌گردی دو خاص پہلوؤں سے دوسرے قسم کے تشدد سے فرق ہے۔‏ پہلی بات تو یہ ہے کہ دہشت‌گرد فوجیوں کی بجائے عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں .‏ .‏ .‏ اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ ڈرامائی قسم کے تشدد کے ذریعے معاشرے میں خوف پھیلاتے ہیں۔‏ دہشت‌گردوں کے لئے جسمانی نقصان پہنچانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ لوگوں میں دہشت پھیلائیں۔‏ جان‌بوجھ کر ایسا خوف پھیلانا ہی دہشت‌گردی کو عام قتل اور تشدد سے مختلف بناتا ہے۔‏“‏

دہشت‌گردی جڑ پکڑتی ہے

پہلی صدی کے یہودیہ میں یہودیوں کا ایک تشددپسند گروہ رومی حکومت سے آزادی حاصل کرنا چاہتا تھا۔‏ اِس گروہ کے سب سے جوشیلے اراکین کو ”‏خنجرگزار“‏ کہا جاتا کیونکہ وہ اپنے کپڑوں کے نیچے خنجر چھپا کر رکھتے تھے۔‏ جب لوگ تہواروں کے دوران شہر یروشلیم میں جمع ہوتے تو ”‏خنجرگزار“‏ اپنے دُشمنوں کا گلہ کاٹ دیتے یا پھر اُن کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیتے۔‏ *

بحرِمُردار کے قریب مصادا کا قلعہ رومی فوج کے ہاتھوں میں تھا۔‏ سن ۶۶ میں یہودیوں کے اس گروہ نے مصادا کے قلعہ میں رومی فوجیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے اور خود اُس پر قبضہ جما لیا۔‏ کئی سال تک یہ گروہ وہاں سے رومیوں پر حملے کرکے اُن کو ستاتا رہا۔‏ سن ۷۳ میں رومی حاکم فلاویس سلوا اور اُس کی فوج نے مصادا پر تو قبضہ حاصل کر لیا لیکن وہ یہودیوں کے اِس گروہ پر فتحمند نہ ہو سکا۔‏ اُس زمانے کے ایک تاریخ‌دان کے مطابق اِن ۹۶۰ یہودیوں نے اپنے آپ کو رومی فوجیوں کے حوالے کرنے کی بجائے،‏ خودکشی کر لی۔‏ صرف دو عورتیں اور پانچ بچے اس المیہ سے زندہ بچ گئے۔‏

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ دہشت‌گردی کا آغاز اِس یہودی گروہ ہی نے کِیا تھا۔‏ چاہے یہ بات سچ ہے یا نہیں،‏ حقیقت تو یہ ہے کہ دہشت‌گردی نے انسانی تاریخ پر گہرا اثر کِیا ہے۔‏

دہشت‌گردی اور صلیبی جنگیں

سن ۱۰۹۵ عیسوی میں یورپ اور مشرقِ‌وسطیٰ میں صلیبی جنگیں شروع ہوئیں جو دو صدیوں تک جاری رہیں۔‏ یہ جنگیں ایشیا اور شمالی افریقہ کی مسلمان اور عیسائی فوجوں کے درمیان لڑی گئیں۔‏ دونوں فوجیں یروشلیم پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔‏ وہ تلواروں اور کلہاڑوں سے ایک دوسرے کے پُرزے پُرزے کر دیتے۔‏ یہاں تک کہ وہ عام شہریوں پر بھی تشدد کرتے۔‏ عیسائی فوج سن ۱۰۹۹ میں یروشلیم میں داخل ہوئی۔‏ بارھویں صدی کے ایک پادری نے اِس واقعے کے بارے میں یوں بتایا:‏

‏”‏فوجی ہاتھوں میں تلواریں اور بھالیں لئے،‏ سڑکوں پر پھرتے۔‏ جو بھی اُنہیں نظر آتا—‏مرد،‏ عورت یا بچہ،‏ وہ اُسے ہلاک کر دیتے۔‏ اُنہوں نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا .‏ .‏ .‏ اور اتنے لوگوں کا قتل کِیا کہ اگر کوئی سڑک پر نکلتا،‏ تو اُسے لاشوں پر چلنا پڑتا۔‏ .‏ .‏ .‏ اتنا خون بہایا گیا کہ نالیوں میں بھی خون ہی خون بہہ رہا تھا اور شہر کی سڑکیں لاشوں سے بچھی تھیں۔‏“‏ *

کئی صدیوں بعد دہشت‌گردوں نے اپنے حملوں میں بم اور آتشیں اسلحہ کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔‏ اس کے نتیجے میں لاتعداد لوگوں کو اذیتناک موت کا سامنا کرنا پڑا۔‏

لاکھوں ہلاک

تاریخ‌دانوں کے مطابق ۲۸ جون،‏ ۱۹۱۴ یورپ کی تاریخ کا بہت ہی اہم دِن تھا۔‏ ایک نوجوان جو کہ کچھ لوگوں کی نظر میں ہیرو کا مقام رکھتا ہے،‏ اُس نے آسٹریا کے ولی‌عہد شہزادے کو قتل کر دیا۔‏ اِس قتل کے نتیجے میں پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی۔‏ دو کروڑ جانوں کے نقصان کے بعد یہ جنگ آخر اپنے اختتام کو پہنچی۔‏

پہلی عالمی جنگ کے بعد دوسری عالمی جنگ میں لوگوں پر بڑے ستم ڈھائے گئے۔‏ لاکھوں کو اذیتی کیمپوں میں ڈالا گیا۔‏ عام شہریوں کو بم دھماکوں میں قتل کِیا گیا۔‏ دُشمن سے بدلا لینے کے لئے قیدیوں اور بےگناہ لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا۔‏ دوسری عالمی جنگ کے بعد بھی دُنیا دہشت‌گردی کے گرفت میں رہی۔‏ مثال کے طور پر سن ۱۹۷۵ سے لے کر سن ۱۹۷۹ تک ملک کمبوڈیا میں ہونے والی جنگ میں دس لاکھ لوگوں کو ہلاک کِیا گیا۔‏ سن ۱۹۹۴ میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران،‏ ملک روانڈا میں ۸ لاکھ لوگوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کِیا گیا۔‏ اُس ملک کے لوگ آج بھی اِن واقعات سے دنگ ہیں۔‏

سن ۱۹۱۴ سے لے کر آج تک کئی ممالک میں دہشت‌گرد حملے ہوئے ہیں۔‏ لگتا ہے کہ لوگوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔‏ آج بھی دہشت‌گرد حملوں میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوتے ہیں،‏ ہزاروں لوگ معذور ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگ خوف کے مارے ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔‏ بازاروں میں بم دھماکے ہوتے ہیں،‏ گاؤں کو جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے،‏ عورتوں کی آبروریزی کی جاتی ہے،‏ بچوں کو اغوا کِیا جاتا ہے،‏ بہتیری جانیں ضائع ہوتی ہیں۔‏ عام لوگوں کے نزدیک دہشت‌گرد مُجرم ہیں اور قانون بھی دہشت‌گردی کو جُرم قرار دیتا ہے،‏ لیکن پھر بھی یہ ظلم جاری ہے۔‏ کیا دہشت‌گردی کا خاتمہ ہوگا؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 اعمال ۲۱:‏۳۸ (‏کیتھولک ترجمہ‏)‏ میں رومی پلٹن کے سردار نے پولس رسول پر یہ الزام لگایا کہ وہ ۰۰۰،‏۴ ”‏خنجرگزاروں“‏ کا سردار ہے۔‏

^ پیراگراف 10 یسوع نے اپنے شاگردوں کو سکھایا تھا کہ سچے عیسائیوں کو ”‏اپنے دُشمنوں سے محبت“‏ رکھنی چاہئے۔‏ یسوع نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اُنہیں اپنے دُشمنوں سے نفرت کرنی چاہئے یا اُنہیں ہلاک کر دینا چاہئے۔‏—‏متی ۵:‏۴۳-‏۴۵‏۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر عبارت]‏

جون ۱۹۱۴ میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

استنبول ۱۵ نومبر،‏ ۲۰۰۳

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

سپین ۱۱ مارچ،‏ ۲۰۰۴

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

لندن ۷ جولائی،‏ ۲۰۰۵

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

نیو یارک ۱۱ ستمبر،‏ ۲۰۰۱

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

‏/From left to right: AP Photo/Murad Sezer; AP Photo

Paul White; Photo by Peter Macdiarmid/Getty Images

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر کا حوالہ]‏

Culver Pictures