مواد فوراً دِکھائیں

بائبل ہمارے زمانے تک محفوظ کیسے رہی؟‏

بائبل ہمارے زمانے تک محفوظ کیسے رہی؟‏

بائبل ہمارے زمانے تک محفوظ کیسے رہی؟‏

بائبل کا ہمارے زمانے تک محفوظ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔‏ کیوں؟‏ اِس کی تحریر تقریباً 1900 سال پہلے مکمل ہوئی۔‏ اِسے تحریر کرنے کے لیے پپائرس کی چھال اور جانوروں کی چمڑی سے بنے طوماروں کو اِستعمال کِیا گیا جو خراب ہو سکتے تھے۔‏ اِس کے علاوہ بائبل کو لکھنے والوں نے اِسے اُن زبانوں میں لکھا جو آج بہت ہی کم لوگ بولتے ہیں۔‏ اَور تو اَور بہت سے بااِختیار آدمیوں جیسے کہ شہنشاہوں اور مذہبی رہنماؤں نے اِس کا نام‌ونشان مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‏

بائبل صدیوں کے دوران کڑے اِمتحانوں کا سامنا کیسے کر پائی اور اِنسانی تاریخ کی سب سے مشہور کتاب کیسے بن پائی؟‏ اِس کی دو وجوہات پر غور کریں۔‏

بائبل کی بہت سی نقلیں تیار کی گئیں

قدیم زمانے میں بائبل کے محافظوں یعنی بنی‌اِسرائیل نے اصلی طوماروں کو بہت ہی سنبھال کر رکھا اور اِن کی کئی نقلیں تیار کیں۔‏ مثال کے طور پر خدا نے بنی‌اِسرائیل کے ہر بادشاہ کو یہ حکم دیا تھا کہ ”‏وہ اُس شریعت کی جو لاوی کاہنوں کے پاس رہے گی ایک نقل اپنے لئے ایک کتاب میں اُتار لے۔‏“‏—‏اِستثنا 17:‏18‏۔‏

بہت سے اِسرائیلی پاک صحیفوں کو پڑھنا بہت پسند کرتے تھے اور اِنہیں خدا کا کلام مانتے تھے۔‏ لہٰذا اصلی طوماروں کی نقلیں تیار کرتے وقت بہت ہی احتیاط سے کام لیا جاتا تھا اور شریعت کے تربیت‌یافتہ عالم ہی یہ نقلیں تیار کرتے تھے۔‏ اِن میں سے ایک عالم عزرا تھے جن کے بارے میں بائبل میں لکھا ہے کہ وہ ’‏پاک نوشتوں کے اُستاد اور اُس شریعت کے عالم تھے جو یہوواہ اِسرائیل کے خدا نے موسیٰ کی معرفت دی تھی۔‏‘‏ (‏عزرا 7:‏6‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ چھٹی اور دسویں صدی عیسوی کے عرصے میں کچھ یہودی عالموں نے جو مسوری کہلاتے تھے،‏ عبرانی صحیفوں (‏یا پُرانے عہدنامے)‏ کی نقل‌نویسی کی۔‏ ایسا کرتے وقت اُنہوں نے لفظوں اور حروف کو گنا تاکہ غلطی کی کوئی گنجائش نہ رہے۔‏ اِتنی ایمان‌داری اور دھیان سے کی گئی نقل‌نویسی کی وجہ سے بائبل میں کوئی ردوبدل نہیں ہوئی اور مخالفوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اِس کا نام‌ونشان نہیں مٹا۔‏

مثال کے طور پر تقریباً 168 قبل‌ازمسیح میں سُوری بادشاہ آنتیوخوس چہارم نے پورے فلسطین سے عبرانی صحیفوں کی نقلوں کا نام‌ونشان مٹانے کی جی‌توڑ کوششیں کیں۔‏ یہودی تاریخ کی ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ آنتیوخوس کی حکومت کے افسروں کو ”‏جہاں بھی شریعت کے طومار ملتے،‏ وہ اِنہیں پھاڑ دیتے اور جلا دیتے تھے۔‏“‏ ”‏جُوئیش اِنسائیکلوپیڈیا‏“‏ کے مطابق ”‏جن افسروں کو عبرانی صحیفوں کو مٹانے کا حکم دیا گیا تھا،‏ اُنہوں نے بڑی ہی سختی سے اِس حکم پر عمل کِیا۔‏ .‏.‏.‏ اگر اُنہیں کسی شخص کے پاس عبرانی صحیفے ملتے تو وہ اُس شخص کو موت کے گھاٹ اُتار دیتے۔‏“‏ لیکن صحیفوں کی نقلیں نہ صرف فلسطین میں رہنے والے یہودیوں کے پاس بلکہ دوسرے ملکوں میں رہنے والے یہودیوں کے پاس بھی محفوظ رہیں۔‏

جب یونانی صحیفوں (‏یا نئے عہدنامے)‏ کو لکھنے والوں نے اِنہیں تحریر کِیا تو اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد اُن کے لکھے اِلہامی خطوں،‏ پیش‌گوئیوں اور تاریخی واقعات کی نقلیں جگہ جگہ پھیل گئیں۔‏ مثال کے طور پر یوحنا رسول نے اپنی اِنجیل کو شہر اِفسس یا اِس کے آس‌پاس کے کسی علاقے میں لکھا تھا۔‏ لیکن اِس اِنجیل کی نقل کا ایک حصہ سینکڑوں میل دُور مصر میں پایا گیا۔‏ ماہرین کا کہنا ہے کہ نقل کا یہ حصہ یوحنا کے اپنی اِنجیل لکھنے کے 50 سال سے بھی کم عرصے بعد تیار کِیا گیا تھا۔‏ اِس دریافت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دُوردراز ملکوں میں رہنے والے مسیحیوں کے پاس بائبل کی اُن کتابوں کی نقلیں موجود تھیں جنہیں حال ہی میں خدا کے اِلہام سے لکھا گیا تھا۔‏

ایک اَور وجہ جس کی بِنا پر خدا کا کلام مسیح کے زمانے سے لے کر آج تک محفوظ رہا،‏ وہ یہ ہے کہ یہ جگہ جگہ دستیاب رہا۔‏ مثال کے طور پر رومی شہنشاہ ڈایوکلیشین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 23 فروری 303ء کو سورج کے طلوع ہوتے ہی اُس کی نگرانی میں اُس کے فوجیوں نے چرچ کے دروازے توڑ ڈالے اور بائبل کی نقلوں کو جلا ڈالا۔‏ ڈایوکلیشین کا خیال تھا کہ اِلہامی صحیفوں کو مٹانے سے وہ مسیحیت کا نام‌ونشان مٹا دے گا۔‏ اگلے دن اُس نے یہ حکم جاری کِیا کہ رومی سلطنت میں بائبل کی تمام نقلوں کو سب کے سامنے جلا دیا جائے۔‏ البتہ کچھ نقلیں محفوظ رہیں اور یوں اِن سے اَور نقلیں تیار کی گئیں۔‏ دراصل یونانی صحیفوں کی دو نقلوں کے بڑے حصے جن کے بارے میں یہ خیال کِیا جاتا ہے کہ اِنہیں شاید ڈایوکلیشین کی مخالفت کے کچھ ہی عرصے بعد لکھا گیا تھا،‏ آج تک محفوظ ہیں۔‏ ایک نقل روم میں موجود ہے جبکہ دوسری نقل لندن میں برٹش لائبریری میں موجود ہے۔‏

سچ ہے کہ آج ہمارے پاس بائبل کی وہ اصلی کتابیں نہیں ہیں جو اِن کو تحریر کرنے والوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھیں۔‏ لیکن ہم پوری بائبل یا اِس کے کچھ حصوں کی وہ ہزاروں نقلیں دیکھ سکتے ہیں جو آج ہمارے زمانے تک محفوظ ہیں۔‏ اِن میں سے کچھ نقلیں تو بہت ہی قدیم ہیں۔‏ کیا اِن نقلوں میں وہ پیغام موجود ہے جو اصلی متن میں تھا؟‏ اِس سلسلے میں ذرا بائبل کے عالم وِلیم ہینری گرین کے بیان پر غور کریں جو اُنہوں نے عبرانی صحیفوں کے حوالے سے دیا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ قدیم زمانے کی کسی بھی کتاب کی نقل اِتنے درست طریقے سے نہیں کی گئی جتنی کہ پُرانے عہدنامے کی۔‏“‏ اِس کے علاوہ بائبل کے نسخوں کے ماہر سر فریڈرک کینیون نے مسیحی یونانی صحیفوں کے بارے میں لکھا:‏ ”‏اصلی متن کی تحریر اور اُن کی جو قدیم نقلیں آج موجود ہیں،‏ اُن کے درمیان وقفہ اِتنا مختصر ہے کہ یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔‏ ہمارے پاس اِس بات پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی کہ جو کلام ہمارے پاس ہے،‏ وہ اپنی اصلی حالت میں ہے۔‏ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نئے عہدنامے کی کتابیں قابلِ‌بھروسا ہیں۔‏“‏ اُنہوں نے یہ بھی کہا:‏ ”‏ہم پورے یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر بائبل کا متن بدلا نہیں ہے۔‏ .‏.‏.‏ یہ بات دُنیا کی کسی اَور قدیم کتاب کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔‏“‏

بائبل کا ترجمہ کِیا گیا

دوسری وجہ جس کی بِنا پر بائبل اِنسانی تاریخ کی سب سے مشہور کتاب بنی،‏ وہ یہ ہے کہ یہ بہت سی زبانوں میں دستیاب ہے۔‏ یہ بات خدا کے مقصد کے عین مطابق ہے جو یہ چاہتا ہے کہ سب قوموں اور زبانوں کے لوگ اُسے جانیں اور ”‏روح اور سچائی“‏ سے اُس کی عبادت کریں۔‏—‏یوحنا 4:‏23،‏ 24؛‏ میکاہ 4:‏2‏۔‏

عبرانی صحیفوں کے سب سے پہلے تحریری ترجمے کو ”‏سپتواجنتا“‏ کہا جاتا ہے جو کہ ایک یونانی ترجمہ ہے۔‏ اِس ترجمے کو اُن یونانی بولنے والے یہودیوں کے لیے تیار کِیا گیا جو فلسطین سے باہر رہتے تھے اور اِسے یسوع کے زمین پر خدمت شروع کرنے سے دو صدیاں پہلے مکمل کِیا گیا۔‏ جب پوری بائبل جن میں یونانی صحیفے بھی شامل ہیں،‏ مکمل ہو گئی تو اِس کے بعد چند ہی صدیوں کے اندر اندر اِس کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ کِیا گیا۔‏ لیکن بعد میں بادشاہوں،‏ یہاں تک کہ پادریوں نے بائبل کو لوگوں کی پہنچ سے باہر رکھا جبکہ اصولی طور پر اُنہیں اِسے لوگوں تک پہنچانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تھی۔‏ اُنہوں نے خدا کے کلام کا اُن زبانوں میں ترجمہ نہیں ہونے دیا جو لوگ بولتے تھے اور یوں اُن تک اِس کی روشنی نہیں پہنچنے دی۔‏

البتہ کچھ ایسے دلیر لوگ بھی تھے جنہوں نے چرچ اور حکومت کی مخالفت کو مول لیا اور اپنی جان خطرے میں ڈالی تاکہ وہ اُس زبان میں بائبل کا ترجمہ کر سکیں جو لوگ روزمرہ زندگی میں بولتے تھے۔‏ مثال کے طور پر 1530ء میں آکسفورڈ سے تعلیم‌یافتہ ایک انگریز نے جس کا نام وِلیم ٹینڈیل تھا،‏ توریت یعنی عبرانی صحیفوں کی پہلی پانچ کتابوں کا ایک ایڈیشن تیار کِیا۔‏ وِلیم ٹینڈیل وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اِتنی سخت مخالفت کے باوجود عبرانی سے انگریزی میں بائبل کا ترجمہ کِیا۔‏ وِلیم وہ پہلے انگریز ترجمہ‌نگار بھی تھے جنہوں نے اپنے ترجمے میں خدا کا نام یہوواہ اِستعمال کِیا۔‏ ایک سپینش بائبل کے عالم کی مثال پر بھی غور کریں جن کا نام کاسیوڈورو ڈی رئینا تھا۔‏ رئینا اُن پہلے ترجمہ‌نگاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے سپینش زبان میں بائبل کا ترجمہ کِیا۔‏ جب وہ بائبل کا ترجمہ کر رہے تھے تو اُنہیں کیتھولکوں کی طرف سے مسلسل جان کا خطرہ تھا۔‏ بائبل کے ترجمے کو مکمل کرنے کے لیے وہ اِنگلینڈ،‏ جرمنی،‏ فرانس،‏ ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ گئے۔‏ *

آج بھی بائبل کا ترجمہ اَور زیادہ زبانوں میں ہو رہا ہے اور اِس کی لاکھوں کاپیاں شائع کی جا رہی ہیں۔‏ بائبل کا ہمارے زمانے تک محفوظ رہنا اور اِنسانی تاریخ کی سب سے مشہور کتاب ہونا اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پطرس رسول کی کہی یہ بات واقعی سچ ہے:‏ ”‏ گھاس سُوکھ جاتی ہے اور پھول مُرجھا جاتے ہیں لیکن یہوواہ کا کلام ہمیشہ تک رہتا ہے۔‏“‏—‏1-‏پطرس 1:‏24،‏ 25‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 14 رئینا کا ترجمہ 1569ء میں شائع ہوا جس کا نظرثانی ایڈیشن 1602ء میں سیپریانو ڈی والیرا نے تیار کِیا۔‏

‏[‏صفحہ نمبر 14 پر بکس/‏تصویریں]‏

مجھے بائبل کا کون سا ترجمہ پڑھنا چاہیے؟‏

بہت سی زبانوں میں بائبل کے کئی ترجمے دستیاب ہیں۔‏ کچھ ترجموں میں بہت ہی پُرانی اور مشکل زبان اِستعمال کی گئی ہے جبکہ کچھ ترجموں میں اِس بات پر دھیان دینے کی بجائے کہ ترجمہ درست ہو،‏ خیالات کو واضح کرنے کے لیے اُنہیں اپنے لفظوں میں بیان کِیا گیا ہے تاکہ یہ پڑھنے میں آسان ہو۔‏ اور کچھ ترجمے تو بالکل لفظ بہ لفظ ہیں۔‏

انگریزی زبان میں یہوواہ کے گواہوں کا شائع‌کردہ ترجمہ ”‏کتابِ‌مُقدس‏—‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏ اُن زبانوں سے براہِ‌راست تیار کِیا گیا ہے جن میں بائبل لکھی گئی تھی۔‏ اِس کا ترجمہ کرنے والی کمیٹی میں جو لوگ شامل تھے،‏ اُن کے ناموں کو گم‌نام رکھا گیا۔‏ اِس ترجمے کو بنیاد بنا کر 60 اَور زبانوں میں ترجمہ کِیا گیا۔‏ البتہ اُن زبانوں کے ترجمہ‌نگاروں نے بڑی گہرائی سے اپنے ترجمے کا موازنہ اصلی زبان میں موجود صحیفوں کے ساتھ بھی کِیا۔‏ ”‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏ کو تیار کرتے وقت اِس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ جہاں تک ممکن ہو،‏ اِصطلاحوں کا لفظ بہ‌لفظ ترجمہ کِیا جائے بشرطیکہ یہ عجیب نہ لگیں اور اصلی متن سے ہٹ کر کوئی خیال پیش نہ کریں۔‏ ترجمہ‌نگاروں کی کوشش ہے کہ اُن کے زمانے میں لوگ ترجمے کو پڑھتے وقت بائبل کو اُتنی ہی آسانی سے سمجھیں جتنی آسانی سے اُس زمانے کے لوگ سمجھتے تھے جب بائبل لکھی گئی تھی۔‏

زبانوں کے کچھ ماہرین نے بائبل کے جدید ترجموں میں غلطیاں یا بگاڑ تلاش کرنے کے لیے اِن کا جائزہ لیا۔‏ اِن ترجموں میں ”‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏ بھی شامل تھی۔‏ ایک ماہر کا نام جیسن ڈیوڈ بیدون تھا جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں مذہبی علوم کے پروفیسر تھے۔‏ 2003ء میں اُنہوں نے 200 صفحوں کی ایک کتاب شائع کی جو انگریزی زبان میں موجود بائبل کے اُن نو مشہور ترجموں کے بارے میں تھی جو ”‏انگریزی بولنے والے ممالک میں سب سے زیادہ اِستعمال ہوتے ہیں۔‏“‏ اُنہوں نے کئی ایسی آیتوں کا جائزہ لیا جن کے مطلب پر عالم ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے کیونکہ یہ ایسی آیتیں تھیں ”‏جن کا ترجمہ لوگوں نے غالباً اپنے نظریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کِیا تھا۔‏“‏ بیدون نے نو انگریزی ترجموں کی ہر آیت کا موازنہ یونانی متن سے کِیا تاکہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ آیا اِن ترجموں میں معنی کو بدلنے کی کوشش کی گئی ہے یا نہیں۔‏ وہ کس نتیجے پر پہنچے؟‏

بیدون نے بتایا کہ بہت سے لوگوں اور بائبل کے عالموں کے خیال میں ”‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏ دوسرے ترجموں سے اِس لیے فرق ہے کیونکہ اِس کے ترجمہ‌نگاروں کے عقیدے دوسروں سے مختلف ہیں۔‏ لیکن اُنہوں نے کہا:‏ ”‏‏[‏‏”‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏‏]‏ کے فرق ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اِس میں اُن اِصطلاحوں کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کِیا گیا ہے جو نئے عہدنامے کو تحریر کرنے والوں نے اِستعمال کی تھیں۔‏“‏ حالانکہ بیدون ”‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏ میں پائی جانے والی کچھ اِصطلاحوں کے ترجمے سے متفق نہیں لیکن پھر بھی اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اِن تمام ترجموں میں سے ‏[‏‏”‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏‏]‏ سب سے درست ترجمہ ہے۔‏“‏ اُنہوں نے تو اِسے ”‏بڑا ہی زبردست“‏ ترجمہ کہا۔‏

اِسرائیل سے عبرانی زبان کے عالم پروفیسر بینجمن قیدار نے بھی ”‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏ کے بارے میں کچھ ایسا ہی کہا۔‏ 1989ء میں اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اِس ترجمے میں بڑی ایمان‌داری سے خیالات کو درست طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‏ .‏.‏.‏ مَیں نے ”‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏ میں کہیں بھی یہ نہیں دیکھا کہ اِس میں اصل متن کے مطلب کو بدلنے کی کوشش کی گئی ہو۔‏“‏

خود سے پوچھیں:‏ ”‏مَیں بائبل کو کس مقصد سے پڑھنا چاہتا ہوں؟‏ کیا مَیں بائبل کا ایک ایسا ترجمہ پڑھنا چاہتا ہوں جو پڑھنے میں آسان تو ہے لیکن درست نہیں ہے؟‏ یا کیا مَیں ایک ایسا ترجمہ پڑھنا چاہتا ہوں جس میں اُن خیالات کو ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے جو اصلی متن میں تھے؟‏“‏ (‏2-‏پطرس 1:‏20،‏ 21‏)‏ آپ جس مقصد سے بائبل کو پڑھنا چاہتے ہیں،‏ اُسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اُس کے ترجمے کا اِنتخاب کریں۔‏

‏[‏تصویر]‏

بائبل کا ترجمہ ”‏کتابِ‌مُقدس‏—‏ترجمہ نئی دُنیا‏“‏ بہت سی زبانوں میں دستیاب ہے۔‏

‏[‏صفحہ نمبر 12،‏ 13 پر تصویر]‏

مسوراتی نسخے

‏[‏صفحہ نمبر 13 پر تصویر]‏

ایک حصہ جس پر لُوقا 12:‏7 کا اِقتباس ہے .‏.‏.‏ ”‏آپ تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ اہم ہیں۔‏ .‏.‏.‏ اِس لیے فکر مت کریں۔‏“‏

‏[‏صفحہ نمبر 13 پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

‏.Petersburg; second and third: Bibelmuseum, Münster; background: © The Trustees of the Chester Beatty Library, Dublin Foreground page: National Library of Russia, St