لوگ ظلموتشدد کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟
لوگ ظلموتشدد کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟
کوسابامُلک سپین میں رہتے ہیں۔ وہ ایک عسکریتپسند گروہ میں شامل ہو گئے تھے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ اِس گروہ میں کیوں شامل ہوئے تھے تو اُنہوں نے کہا: ”مَیں ایک بڑے شہر، بلباؤ میں رہتا تھا۔ اکثر وہاں پولیس لوگوں کے گھروں میں گھس جاتی تھی، اُنہیں مارتی پیٹتی تھی اور گرفتار کرکے لے جاتی تھی۔ ہمارے ساتھ اِتنی ناانصافی اور ظلم ہو رہا تھا کہ اِسے برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا۔“
کوسابا نے مزید کہا: ”جب مَیں نے پولیس کی حرکتوں کے خلاف آواز اُٹھائی تو مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ مَیں اِتنے غصے میں تھا کہ مَیں اِن حالات کو بدلنے کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا، چاہے اِس کیلئے مجھے ظلموتشدد کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑتا۔“
ظلم اور ناانصافی
پاک صحیفوں میں ظلموتشدد کرنے سے منع کِیا گیا ہے۔ لیکن پاک صحیفوں میں یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے: ”ظلم دانشور آدمی کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔“ (واعظ ۷:۷) بہت سے لوگ اُس وقت آپے سے باہر ہو جاتے ہیں جب اُن کی قوم، نسل یا مذہب کے لوگوں کے ساتھ بُرا سلوک کِیا جاتا ہے۔
پچھلے مضمون میں ہم نے حفانی کے بارے میں پڑھا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”ہمارا مُلک ہم سے چھین لیا گیا تھا۔ جب جانور اپنے علاقے کے لئے لڑ سکتے ہیں تو ہم اپنی زمین اور اپنے حق کے لئے کیوں نہ لڑتے۔“ ایک خودکش حملہآور کی موت کے بعد اُس کا یہ بیان منظرِعام پر آیا: ”جب تک تُم ہمارے لوگوں پر بم برسانا، اُنہیں زہریلی گیسوں کے ذریعے مارنا، قید کرنا اور اذیت دینا بند نہیں کرو گے تب تک ہم لڑتے رہیں گے۔“
مذہبی مقاصد
آجکل لوگ مذہبی مقاصد حاصل کرنے کے لئے بھی دہشتگردی کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک عسکریتپسند گروہ کے نمائندے نے ایک سیاسی رہنما کو یہ فیکس بھیجا: ”ہم نہ تو پاگل ہیں اور نہ ہی ہمیں اختیار کا لالچ ہے۔ ہم تو بس خدا کی راہ میں لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔“
دو مصنفوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا: ”لوگ زیادہ مذہبی ہوتے جا رہے ہیں۔ بڑےبڑے مذاہب اور تیزی سے پھیلتے ہوئے نئےنئے فرقے ظلموتشدد کو خدا کی عبادت کا حصہ بنا رہے ہیں۔“ ایک اَور ماہر نے دہشتگردی کے مختلف واقعات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا: ”اِن واقعات
میں ملوث سبھی دہشتگردوں کا یہ ماننا تھا کہ اُن کے کاموں کو خدا کی پسندیدگی حاصل تھی اور خدا نے ہی اُنہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا۔“لیکن بہت سے مذہبی عسکریتپسند ایسے انتہاپسند نظریات رکھتے ہیں جو اُن کے مذہب کی تعلیمات اور معیاروں کے مطابق نہیں ہیں۔
دل میں نفرت
اِس مضمون کے شروع میں کوسابا کا ذکر کِیا گیا تھا۔ اُن کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے اُن کے ساتھ بہت بُرا سلوک کِیا۔ کوسابا نے کہا: ”پولیس نے مجھ سے جو سلوک کِیا، اُس سے مجھے پورا یقین ہو گیا کہ اُن کے لئے میری نفرت بالکل جائز ہے۔ اگر اِن حالات کو بدلنے کے لئے مجھے اپنی جان بھی دینی پڑتی تو مَیں نہ ہچکچاتا۔“
ایک عسکریت پسند گروہ کے ارکان اکثر اِس لئے بھی دہشتگردی کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں ایسا کرنے پر اُکسایا جاتا ہے۔ حفانی نے کہا: ”جب ہم پناہگزین کیمپوں میں تھے تو وہاں پر اجتماعات ہوتے تھے۔ اِن میں ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ گورے لوگ مسلسل اِس کوشش میں ہیں کہ کالے لوگوں کو دبا سکیں۔“ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟
حفانی نے کہا: ”میرے دل میں گوروں کے لئے نفرت بڑھنے لگی۔ مجھے اُن میں سے کسی پر بھی بھروسا نہیں تھا۔ میری نفرت اِتنی بڑھ گئی کہ مَیں سوچنے لگا کہ ہمیں کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔“
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ کوسابا اور حفانی دونوں نے شدید غصے اور نفرت کو اپنے دل سے نکال پھینکا۔ لیکن اُن کی سوچ کیسے تبدیل ہوئی؟ اِس سوال کے جواب کے لئے اگلے مضمون کو پڑھیں۔
[صفحہ ۶ پر عبارت]
”پولیس نے مجھ سے جو سلوک کِیا، اُس سے مجھے پورا یقین ہو گیا کہ اُن کے لئے میری نفرت بالکل جائز ہے۔ اگر اِن حالات کو بدلنے کے لئے مجھے اپنی جان بھی دینی پڑتی تو مَیں نہ ہچکچاتا۔“—کوسابا