مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوچ‌سمجھ کر بات کرنے کی اہمیت

سوچ‌سمجھ کر بات کرنے کی اہمیت

پاک صحیفوں کی روشنی میں

سوچ‌سمجھ کر بات کرنے کی اہمیت

ایک وزیرِاعظم نے ایک بوڑھی عورت کے ساتھ ٹی‌وی کیمرے کے سامنے بڑی نرمی سے بات کی۔‏ لیکن اِس کے بعد اُنہوں نے اپنے عملے سے کہا کہ ”‏یہ عورت بہت متعصّب تھی۔‏ کس نے اِسے میرے پاس آنے دیا؟‏“‏ اُنہیں پتہ نہیں تھا کہ اُن کا مائیک ابھی تک آن تھا۔‏ مائیک آن ہونے کی وجہ سے اُن کی بات پوری قوم نے سُن لی۔‏ وزیرِاعظم کے مُنہ سے ایک عورت کے بارے میں ایسے الفاظ سُن کر لوگ حیران رہ گئے۔‏ وزیرِاعظم کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا۔‏ اِس کے نتیجے میں وہ آٹھ دن بعد ہونے والے انتخابات میں دوبارہ وزیرِاعظم منتخب نہیں ہو سکے۔‏

ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔‏ (‏یعقوب ۳:‏۲‏)‏ اُوپر دئے گئے واقعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سوچ‌سمجھ کر بات کرنا بہت اہم ہے کیونکہ اِس کا اثر ہماری زندگی،‏ ہماری ساکھ یہاں تک کہ دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات پر بھی ہوتا ہے۔‏

اِس کے علاوہ ہماری باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کس قسم کے شخص ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۲:‏۳۴‏)‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری باتیں ایک طرح سے ہمارے دل کا آئینہ ہیں۔‏ ہمارے الفاظ سے ہمارے جذبات،‏ خیالات اور احساسات کا پتہ چلتا ہے۔‏ اِس لئے اِس بات پر غور کرنا بہت اہم ہے کہ ہم دوسروں سے کس طرح بات کرتے ہیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اِس سلسلے میں ہم پاک صحیفوں سے کیسے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔‏

اچھی باتیں کہنے کی عادت ڈالیں

جوکچھ ہماری زبان پر آتا ہے،‏ وہ دراصل ہمارے خیالات کی جھلک ہوتا ہے۔‏ اِس لئے اگر ہم اچھی باتیں کہنے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے دل میں کیا ہے۔‏ آئیں،‏ پاک صحیفوں کے کچھ اصولوں پر غور کریں جن پر عمل کرنے سے ہم اپنے دل کو اچھی باتوں سے بھر سکتے ہیں۔‏ اِس کے نتیجے میں ہمارے مُنہ سے اچھی باتیں نکلیں گی۔‏

اپنے دل کو اچھی باتوں سے بھریں۔‏ پاک صحیفوں میں لکھا ہے:‏ ”‏جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں اُن پر غور کِیا کرو۔‏“‏—‏فلپیوں ۴:‏۸‏۔‏

اگر ہم اِس صحیفے میں درج ہدایت پر عمل کریں گے تو ہمارے دل میں گندے خیالات کے لئے جگہ نہیں ہوگی۔‏ یاد رکھیں کہ جو کچھ ہم دیکھتے اور پڑھتے ہیں،‏ اِس کا ہماری سوچ پر گہرا اثر ہوتا ہے۔‏ لہٰذا اگر ہم اپنی سوچ کو پاک رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے مواد کو پڑھنے اور دیکھنے سے گریز کرنا چاہئے جس میں ظلم‌وتشدد اور بےحیائی پائی جاتی ہے۔‏ (‏زبور ۱۱:‏۵؛‏ افسیوں ۵:‏۳،‏ ۴‏)‏ ہمیں اپنی توجہ اچھی باتوں پر رکھنی چاہئے۔‏ اِس سلسلے میں پاک صحیفوں میں دئے گئے اصول فائدہ‌مند ثابت ہوں گے۔‏ مثال کے طور پر امثال ۴:‏۲۰-‏۲۷؛‏ افسیوں ۴:‏۲۰-‏۳۲ اور یعقوب ۳:‏۲-‏۱۲ کو پڑھیں۔‏ پھر سوچیں کہ اگر آپ اِن صحیفوں میں پائے جانے والے اصولوں پر عمل کریں گے تو آپ کی باتوں پر کیا اثر ہوگا۔‏ *

پہلے تولیں پھر بولیں۔‏ امثال ۱۲:‏۱۸ میں لکھا ہے:‏ ”‏بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں لیکن دانشمند کی زبان صحت‌بخش ہے۔‏“‏ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی باتیں اکثر دوسروں کو چھیدتی یعنی تکلیف پہنچاتی ہیں تو پھر کوشش کریں کہ آئندہ بات کرنے سے پہلے سوچیں۔‏ غور کریں کہ امثال ۱۵:‏۲۸ میں کیا لکھا ہے:‏ ”‏صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے پر شریروں کا مُنہ بُری باتیں اُگلتا ہے۔‏“‏

اِس بات کا عزم کریں کہ اگلے مہینے آپ فوراً سے وہ بات نہیں کہیں گے جو آپ کے ذہن میں آئے گی،‏ خاص طور پر اُس وقت جب آپ غصے میں ہوں۔‏ اِس مضمون میں دئے گئے صحیفوں پر غور کریں اور دوسروں سے سوچ‌سمجھ کر،‏ پیار سے اور نرمی سے بات کرنے کی پوری کوشش کریں۔‏ (‏امثال ۱۵:‏۱-‏۴،‏ ۲۳‏)‏ اِس کے ساتھ‌ساتھ آپ کچھ اَور بھی کر سکتے ہیں۔‏

خدا سے مدد مانگیں۔‏ خدا کے ایک خادم نے یہ دُعا مانگی:‏ ”‏میرے مُنہ کا کلام اور میرے دِل کا خیال تیرے حضور مقبول ٹھہرے۔‏ اَے [‏یہوواہ!‏]‏“‏ (‏زبور ۱۹:‏۱۴‏)‏ خدا سے دُعا کرتے وقت اِس خواہش کا اظہار کریں کہ آپ اپنی باتوں کے ذریعے اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔‏ پاک صحیفوں میں لکھا ہے:‏ ”‏سوچ‌سمجھ کر بات کرو گے تو تمہیں کبھی پچھتاوا نہیں ہوگا۔‏ انسان کی باتیں زندگی یا موت کا سبب بن سکتی ہیں۔‏“‏—‏امثال ۱۸:‏۲۰،‏ ۲۱‏،‏ کنٹیمپریری انگلش ورشن۔‏

خدا کے کلام کے آئینے میں خود کو پرکھیں۔‏ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے خدا کے کلام کو ایک آئینے سے تشبیہ دی جس میں ہم خود کو پرکھ سکتے ہیں۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۳-‏۲۵‏)‏ مثال کے طور پر نیچے پاک صحیفوں کے تین اصول دئے گئے ہیں۔‏ اِن پر غور کرتے وقت خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں دوسروں سے بات‌چیت کرتے وقت اِن اصولوں پر عمل کرتا ہوں؟‏“‏

‏”‏نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے پر کرخت باتیں غضب‌انگیز ہیں۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۵:‏۱‏)‏ کیا آپ دوسروں سے نرمی سے بات کرتے ہیں؟‏

‏”‏کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کے لئے اچھی ہو تاکہ اُس سے سننے والوں پر فضل ہو۔‏“‏ ‏(‏افسیوں ۴:‏۲۹‏)‏ کیا آپ کی باتوں سے دوسروں کی ترقی یعنی حوصلہ‌افزائی ہوتی ہے؟‏

‏”‏تمہاری گفتگو ایسی دل‌پسند اور مزیدار ہو کہ تُم ہر شخص کو مناسب جواب دے سکو۔‏“‏ ‏(‏کلسیوں ۴:‏۶‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ کیا آپ اُس وقت بھی اچھی اور دل‌پسند باتیں کہنے کی کوشش کرتے ہیں جب آپ غصے میں ہوتے ہیں؟‏

آئینے میں دیکھنے کے بعد جب ہمیں خود میں کوئی نقص نظر آتا ہے تو ہم اُسے ٹھیک کرتے ہیں۔‏ یوں ہم مطمئن ہو جاتے ہیں اور اعتماد کے ساتھ دوسروں کے سامنے جا سکتے ہیں۔‏ اِسی طرح جب ہم خدا کے کلام کو آئینے کے طور پر استعمال کرکے اپنی بات‌چیت کو پرکھتے ہیں تو ہم اچھا محسوس کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 اگر آپ کے پاس بائبل نہیں ہے تو آپ اِس ویب سائٹ پر اِسے پڑھ سکتے ہیں:‏ www.watchtower.org

کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ .‏ .‏ .‏

آپ کی باتوں سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏—‏لوقا ۶:‏۴۵‏۔‏

● آپ کو دوسروں سے کس طرح بات کرنی چاہئے؟‏—‏افسیوں ۴:‏۲۹؛‏ کلسیوں ۴:‏۶‏۔‏

● آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کے مُنہ سے اچھی باتیں نکلیں؟‏—‏زبور ۱۹:‏۱۴؛‏ فلپیوں ۴:‏۸‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

ہماری باتوں کا ہماری ساکھ اور دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔‏