سوگواروں کے لیے غم سے نکلنے کا راستہ
غم کے اثرات
اگرچہ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ غم کے مختلف مرحلے ہوتے ہیں لیکن ہر شخص اپنے غم کا اِظہار فرق فرق طریقے سے کرتا ہے۔ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے عزیز کی موت پر کم دُکھی ہوتے ہیں یا اپنے احساسات کو چھپا رہے ہوتے ہیں؟ یہ لازمی نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ اپنے غم کو تسلیم کرنے اور اِس کا اِظہار کرنے سے غم بُھلانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن غم ظاہر کرنے کا کوئی ایک طریقہ نہیں ہے۔ اِس کا اِنحصار ایک شخص کی ثقافت، شخصیت، زندگی کے تجربات اور اِس بات پر ہو سکتا ہے کہ اُس کے عزیز کی موت کس طرح ہوئی۔
غم کے اثرات کتنے شدید ہو سکتے ہیں؟
شاید سوگوار لوگ یہ نہ جانتے ہوں کہ اپنے عزیز کی موت کے بعد اُن پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ کچھ ایسے جذبات و احساسات اور مسائل کی توقع کر سکتے ہیں جن کا عام طور پر لوگوں کو سامنا ہوتا ہے۔ آئیں، اِن میں سے چند پر غور کریں:
جذباتی ٹوٹ پھوٹ۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے عزیز کو موت کے ہاتھوں کھو دینے کے بعد ایک سوگوار شخص ایک دم سے رونے لگے، اپنے عزیز کی کمی شدت سے محسوس کرنے لگے اور اچانک سے اُس کا مزاج بدل جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عزیز کی یادوں کی وجہ سے یا اُسے خواب میں دیکھ کر اَور زیادہ جذباتی ہو جائے۔ لیکن اپنے عزیز کی موت کا سُن کر شاید سب سے پہلے اُس پر صدمے اور بےیقینی کی کیفیت طاری ہو۔ ٹینا کا بھی اُس وقت کچھ ایسا ہی ردِعمل تھا جب اُن کے شوہر ٹیمو کی اچانک سے موت ہو گئی۔ ٹینا کہتی ہیں کہ ”مَیں ایک دم سے سکتے میں آ گئی۔ شروع میں تو مجھے رونا بھی نہیں آیا۔ مَیں اِتنی جذباتی ہو گئی تھی کہ کبھی کبھی تو مجھے سانس لینا بھی مشکل لگتا تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ ٹیمو یوں اچانک سے مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔“
پریشانی اور غصے کے دورے اور پچھتاوے کا احساس۔ آئیون بتاتے ہیں: ”جب ہمارا بیٹا ایرک فوت ہوا تو اُس کی عمر 24 سال تھی۔ اُس کی موت کے کچھ عرصے بعد تک مَیں اور میری بیوی یولانڈا بہت غصے میں تھے۔ ہمیں اِس سے پہلے کبھی اِتنا غصہ نہیں آیا تھا اِس لیے ہم اپنے اُوپر حیران تھے۔ ہمیں یہ سوچ کر پچھتاوا بھی ہوتا تھا کہ ہم اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے اَور کیا کر سکتے تھے۔“ الیخاندرو کو بھی جن کی بیوی طویل بیماری کے بعد فوت ہو گئی، پچھتاوے کا احساس ہوتا تھا۔ وہ کہتے ہیں: ”شروع میں مجھے لگا کہ اگر خدا مجھے اِتنی زیادہ تکلیف سے گزرنے دے رہا ہے تو مَیں ضرور کوئی بُرا شخص ہوں گا۔ لیکن پھر مجھے اِس بات پر پچھتاوا ہوا کہ مَیں اپنی بیوی کی موت کے لیے خدا کو ذمےدار ٹھہرا رہا ہوں۔“ کوستاس جن کا پچھلے مضمون میں ذکر کِیا گیا، کہتے ہیں: ”کبھی کبھی تو مجھے صوفیہ پر غصہ آتا تھا کہ وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔ لیکن پھر مجھے اپنی اِس سوچ پر پچھتاوا ہوتا تھا۔ اِس میں بھلا اُن کا کیا قصور تھا۔“
پریشان کر دینے والے خیالات۔ کبھی کبھی سوگوار شخص کے خیالات اِدھر اُدھر بھٹکنے لگتے ہیں یا وہ فضول باتیں سوچنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر شاید وہ یہ تصور کرے کہ وہ اپنے فوتشُدہ عزیز کی آواز سُن سکتا ہے، اُس کی موجودگی کو محسوس کر سکتا ہے یا اُسے دیکھ سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک سوگوار شخص کو کسی بات پر توجہ دینا یا یاد رکھنا مشکل لگے۔ ٹینا کہتی ہیں: ”کبھی کبھی مَیں کسی سے بات کر رہی ہوتی تھی لیکن مجھے احساس ہوتا تھا کہ میرا دھیان کہیں اَور ہے۔ مَیں ٹیمو کی موت کے واقعات کے بارے میں سوچ رہی ہوتی تھی۔ اور جب مَیں کسی بات پر توجہ نہیں دے پاتی تھی تو مَیں اَور مایوس ہو جاتی تھی۔“
دوسروں سے الگ رہنے کی خواہش۔ شاید ایک سوگوار شخص دوسروں کی موجودگی سے چڑچڑا یا پریشان ہو جائے۔ کوستاس کہتے ہیں: ”جب مَیں شادیشُدہ جوڑوں کے ساتھ ہوتا تھا تو مجھے لگتا تھا کہ مَیں گاڑی کے پانچویں پہیے کی طرح ہوں۔ لیکن کنوارے لوگوں کے ساتھ بھی مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا تھا۔“ آئیون کی بیوی یولانڈا بتاتی ہیں کہ ”مجھے اُس وقت بہت مشکل لگتا تھا جب مَیں ایسے لوگوں کے آسپاس ہوتی تھی جو اپنے اُن مسئلوں کے بارے میں شکایت کرتے تھے جو ہمارے مسئلوں کے مقابلے میں اِنتہائی معمولی تھے۔ کچھ لوگ ہمیں یہ بھی بتاتے تھے کہ اُن کے بچوں کی زندگی کتنی اچھی چل رہی ہے۔ مجھے اُن کی باتیں سُن کر خوشی ہوتی تھی لیکن ایسی باتیں سننا مشکل بھی لگتا تھا۔ مَیں اور میرے شوہر جانتے تھے کہ زندگی چلتی رہتی ہے لیکن ہم میں دوسروں کی ایسی باتیں سننے کی نہ تو خواہش تھی اور نہ ہی ہمت۔“
صحت کے مسائل۔ کسی عزیز کی موت کے بعد اکثر ایک سوگوار شخص کی بھوک، نیند اور وزن متاثر ہوتا ہے۔ ایرن کو اپنے ابو کی موت کے ایک سال بعد تک صحیح نیند
نہیں آتی تھی۔ وہ کہتے ہیں: ”مَیں ٹھیک سے سو نہیں پاتا تھا۔ اپنے ابو کی موت کے بارے میں سوچنے کی وجہ سے ہر رات ایک ہی وقت پر میری آنکھ کُھل جاتی تھی۔“الیخاندرو بتاتے ہیں کہ اُنہیں صحت کے ایسے مسائل کا سامنا تھا جو ڈاکٹر کو بھی سمجھ نہیں آتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”ڈاکٹر نے کئی بار میرا معائنہ کِیا اور مجھے یقین دِلایا کہ مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے اندیشہ تھا کہ غم کی وجہ سے میری صحت پر اثر پڑ رہا ہے۔“ آخرکار میری صحت بہتر ہونے لگی۔ لیکن پھر بھی الیخاندرو نے عقلمندی کی کہ اُنہوں نے ڈاکٹر کو چیک کرانے کا فیصلہ کِیا۔ غم کی وجہ سے ایک شخص کا مدافعتی نظام کمزور ہو سکتا ہے، صحت کا کوئی ایسا مسئلہ بگڑ سکتا ہے جو پہلے سے چل رہا ہو، یہاں تک کہ کوئی نیا مسئلہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
ضروری کام نمٹانے میں مشکل۔ آئیون کہتے ہیں: ”ایرک کی موت کے بعد ہمیں نہ صرف اپنے دوستوں اور رشتےداروں کو اِطلاع کرنی تھی بلکہ کئی اَور لوگوں کو بھی بتانا تھا جیسے کہ اُس کے باس اور مالک مکان کو۔ اِس کے علاوہ ہمیں کئی قانونی دستاویز بھی پُر کرنی تھیں۔ پھر ہمیں ایرک کے سامان کی چھانٹی بھی کرنی تھی۔ اِن تمام کاموں کو ایک ایسے وقت میں کرنے کے لیے کافی توجہ کی ضرورت تھی جب ہم ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر نڈھال تھے۔“
لیکن کچھ لوگوں کے لیے اصل مشکل تب ہوتی ہے جب اُنہیں وہ کام خود کرنے پڑتے ہیں جو پہلے اُن کا وہ عزیز کرتا تھا جو فوت ہو گیا ہے۔ ٹینا کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ کہتی ہیں: ”ہمیشہ ٹیمو ہی ہمارے بینک اکاؤنٹ اور دوسرے کاروباری معاملات دیکھتے تھے۔ لیکن اب یہ ذمےداری مجھ پر آ گئی تھی جس کی وجہ سے میری پریشانی میں اِضافہ ہو گیا۔ مَیں سوچتی تھی کہ مَیں کوئی گڑبڑ کیے بغیر اِن معاملات کو نمٹا پاؤں گی یا نہیں؟“
جن جذباتی، ذہنی اور جسمانی مشکلات کا اُوپر ذکر کِیا گیا ہے، اُن کے بارے میں پڑھ کر شاید آپ کے ذہن میں غم کی ایک خوفناک تصویر اُبھرے۔ سچ ہے کہ کسی عزیز کو کھونے کا درد بہت شدید ہو سکتا ہے لیکن اگر کسی سوگوار شخص کو اِس غم کی شدت کا پہلے سے اندازہ ہو تو اُس کے لیے اِس غم پر قابو پانا آسان ہو سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ لازمی نہیں کہ ہر شخص کو غم کے نتیجے میں ایسی ہی مشکلات کا سامنا ہو۔ سوگوار شخص کو اِس بات سے بھی تھوڑی تسلی مل سکتی ہے کہ اپنے عزیز کی موت کے بعد شدید غم محسوس کرنا فطری بات ہے۔
کیا مَیں کبھی اِس غم کو بُھلا پاؤں گا؟
حقیقت: کسی عزیز کی موت کے غم کی شدت ہمیشہ برقرار نہیں رہتی بلکہ آخرکار اِس میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک سوگوار شخص اپنے غم پر مکمل طور پر قابو پا لیتا ہے یا اپنے عزیز کو بالکل بھول جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے عزیز کی کچھ یادوں یا خاص موقعوں جیسے کہ شادی کی تاریخ یا موت کی تاریخ پر اچانک سے اُس کی موت کا غم تازہ ہو جائے۔ لیکن آخرکار زیادہتر لوگ جذباتی طور پر سنبھل جاتے ہیں اور روزمرہ زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ ایسا خاص طور پر اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب سوگوار شخص کے گھر والے یا دوست اُس کی مدد کرتے ہیں اور وہ خود بھی اپنے غم پر قابو پانے کے لیے مناسب اِقدام اُٹھاتا ہے۔
اِس میں کتنا عرصہ لگے گا؟ کچھ لوگوں کو اپنے غم کی شدت پر قابو پانے میں کئی مہینے لگتے ہیں، کچھ کو ایک دو سال جبکہ کچھ کو اِس سے بھی زیادہ عرصہ لگتا ہے۔ * الیخاندرو کہتے ہیں: ”مجھے اپنے غم کی شدت پر قابو پانے میں تقریباً تین سال لگے۔“
صبر سے کام لیں۔ جتنا آپ کر سکتے ہیں صرف اُتنا کریں اور یہ یاد رکھیں کہ غم کی شدت ہمیشہ برقرار نہیں رہتی۔ لیکن کیا کوئی ایسے طریقے ہیں جن سے آپ نہ صرف ابھی اپنے غم کی شدت کو کم کر سکتے ہیں بلکہ اِسے غیرضروری طور پر طویل ہونے سے بھی بچا سکتے ہیں؟
اپنے عزیز کی موت کے بعد شدید غم محسوس کرنا فطری بات ہے۔
^ پیراگراف 17 بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا غم اِتنا شدید ہوتا ہے اور اِتنے طویل عرصے تک چلتا ہے کہ اُنہیں کسی ماہرِنفسیات سے مدد لینی پڑتی ہے۔