خدا نے زمین کو کس مقصد کیلئے خلق کِیا ہے؟
تیسرا باب
خدا نے زمین کو کس مقصد کیلئے خلق کِیا ہے؟
خدا انسان کے لئے کیا چاہتا ہے؟
خدا پر کونسے جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں؟
آنے والی نئی دُنیا میں زمین پر کیسے حالات ہوں گے؟
۱. خدا نے زمین کو کیوں خلق کِیا؟
یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ لوگ زمین پر خوشحال زندگی گزاریں۔ پاک صحائف میں لکھا ہے: ”خدا نے . . . عدؔن میں ایک باغ لگایا“ اور ”ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوشنما اور کھانے کے لئے اچھا تھا زمین سے اُگایا۔“ جب خدا نے آدم اور حوا کو خلق کِیا تو اُس نے اُنہیں باغِعدن یعنی فردوس میں بسایا۔ پھر خدا نے اُن سے کہا: ”پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو۔“ (پیدایش ۱:۲۸؛ ۲:۸، ۹، ۱۵) لہٰذا خدا نے زمین کو اس لئے خلق کِیا ہے کہ انسان اُس پر رہے، اولاد پیدا کرے، پوری زمین پر فردوس جیسا باغ لگائے اور جانوروں کی بھی دیکھبھال کرے۔
۲. (ا) ہم کیسے جانتے ہیں کہ زمین کے لئے خدا کی مرضی پوری ہوگی؟ (ب) پاک صحائف کے مطابق کس قسم کے لوگ ہمیشہ کی زندگی پائیں گے؟
۲ کیا انسان واقعی ایک فردوس جیسی زمین پر آباد ہوگا؟ جیہاں۔ زمین کے لئے خدا کی یہی مرضی تھی اور وہ کہتا ہے کہ ”مَیں ہی نے یہ کہا اور . . . مَیں ہی اِسے پورا کروں گا۔“ (یسعیاہ ۴۶:۹-۱۱؛ ۵۵:۱۱) خدا جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ اُسے پورا بھی کرتا ہے۔ اور خدا کہتا ہے کہ اُس نے زمین کو ویران رہنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ ”اُس کو آبادی کے لئے آراستہ کِیا۔“ (یسعیاہ ۴۵:۱۸) خدا کس قسم کے لوگوں کو زمین پر بسانے کا ارادہ رکھتا ہے؟ اور یہ لوگ کب تک زمین پر زندگی سے لطف اُٹھا سکیں گے؟ پاک صحائف میں ہمیں اِس کا یہ جواب ملتا ہے: ”صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“—زبور ۳۷:۲۹؛ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
۳. آجکل زمین پر کیسے حالات پائے جاتے ہیں؟ اس وجہ سے کونسا سوال اُٹھتا ہے؟
۳ البتہ آجکل لوگ بیماری اور موت کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے لڑائی کرتے اور ایک دوسرے کا خون کرتے ہیں۔ اِس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زمین پر خدا کی مرضی پوری نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ دراصل زمین کے حالات ایک فرشتے کی بغاوت کی وجہ سے بگڑ گئے۔
ایک دُشمن سر اُٹھاتا ہے
۴، ۵. (ا) سانپ کے ذریعے حوا سے دراصل کس نے بات کی تھی؟ (ب) ایک ایماندار آدمی چور کیسے بن سکتا ہے؟
۴ بائبل کی پہلی کتاب میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا کے ایک مخالف نے باغِعدن میں ”سانپ“ کی شکل میں سر اُٹھایا تھا۔ بائبل کی آخری کتاب میں اس سانپ کی شناخت اُس ”ابلیس اور شیطان“ سے کی گئی ہے جو ”سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے۔“ باغِعدن میں ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بائبل میں اسے ”پُرانا سانپ“ بھی کہا گیا ہے۔ (پیدایش ۳:۱؛ مکاشفہ ۱۲:۹) خدا کا یہ مخالف دراصل ایک فرشتہ تھا جس نے ایک سانپ کے ذریعے حوا کو ورغلانے کی کوشش کی تھی۔ حوا کو ایسے لگا جیسے سانپ بول رہا ہے لیکن اصل میں یہ اُسی فرشتے کی آواز تھی۔ یہ بالکل ایسا تھا جیسے پُتلیوں کا تماشا دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ کٹھپتلی بول رہی ہے حالانکہ آواز تماشا دکھانے والے کی ہوتی ہے۔ بِلاشُبہ یہ فرشتہ اُس وقت حاضر تھا جب خدا نے انسان کے لئے زمین تیار کی تھی۔—ایوب ۳۸:۴، ۷۔
۵ لیکن خدا تو کوئی بُری شے خلق نہیں کر سکتا تو پھر ”شیطان“ کیسے وجود میں آیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے جو فرشتے خلق کئے تھے اُن میں سے ایک نے خود کو شیطان ثابت کِیا۔ یعقوب ۱:۱۳-۱۵۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ بالکل اس طرح ہو سکتا ہے جیسے ایک ایماندار آدمی چور بن سکتا ہے۔ شاید اِس آدمی کے دل میں غلط خواہشیں اُبھرنے لگیں اور وہ ان کو ترک کرنے کی بجائے ان کو زور پکڑنے دے۔ پھر جب اُسے چوری کرنے کا موقع ملے گا تو وہ اپنی غلط خواہشوں پر عمل بھی کرے گا۔—۶. خدا کا ایک فرشتہ شیطان کیسے بن گیا؟
۶ جو فرشتہ شیطان بن گیا اُس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ جب خدا نے آدم اور حوا کو اولاد پیدا کرنے کا حکم دیا تو وہ بھی سُن رہا تھا۔ (پیدایش ۱:۲۷، ۲۸) پھر وہ سوچنے لگا کہ ”یہ کتنا اچھا ہوتا اگر لوگ خدا کی بجائے میری عبادت کرتے۔“ اس طرح اُس کے دل میں غلط خواہشیں اُبھرنے لگیں۔ آخرکار اُس نے حوا سے خدا کے بارے میں جھوٹ بول کر اُسے ورغلایا۔ (پیدایش ۳:۱-۵) ایسا کرنے سے اُس نے خود کو ”ابلیس“ بنا لیا۔ بائبل کی اصلی زبان کے مطابق اس کا مطلب ”جھوٹے الزام لگانے والا“ ہے۔ اُس نے خود کو ”شیطان“ بھی بنا لیا جس کا مطلب ”مخالف“ ہے۔
۷. (ا) آدم اور حوا کو کیوں مرنا پڑا؟ (ب) ہم سب کیوں بوڑھے ہوتے اور مر جاتے ہیں؟
۷ شیطان کے دھوکے میں آ کر آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کی۔ (پیدایش ۲:۱۷؛ ۳:۶) اس کے نتیجے میں اُن کو مرنا پڑا کیونکہ خدا اُن کو بتا چکا تھا کہ اُس نے نافرمانی کرنے کی سزا موت ٹھہرائی ہے۔ (پیدایش ۳:۱۷-۱۹) جب آدم نے گناہ کِیا تو اُسے گناہ کا داغ لگ گیا۔ اور اُس کی ہونے والی اولاد نے بھی گناہ کا یہ داغ ورثے میں پایا۔ (رومیوں ۵:۱۲) اس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سانچے میں ڈھالی جانے والی چیز بالکل سانچے جیسی ہوگی۔ اگر سانچا ٹیڑھا ہو تو اُس میں ڈھالی گئی چیز بھی ٹیڑھی ہی ہوگی۔ اسی طرح آدم کی اولاد ہونے کے ناتے ہر انسان نے گناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے۔ اس وجہ سے ہم سب بوڑھے ہوتے اور آخرکار مر جاتے ہیں۔—رومیوں ۳:۲۳۔
۸، ۹. (ا) شیطان نے خدا کے خلاف کونسے الزامات لگائے؟ (ب) خدا نے ان باغیوں کو فوراً ختم کیوں نہیں کِیا؟
۸ جب شیطان نے آدم اور حوا کو خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا تو اُس نے خدا کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔ دراصل وہ خدا کی حکمرانی پر نکتہچینی کر رہا تھا۔ شیطان کہہ رہا تھا کہ ”خدا اچھا حاکم نہیں ہے، خدا جھوٹ بولتا ہے اور اپنے بندوں کو اچھی چیزوں سے محروم رکھتا ہے۔“ اُس کا دعویٰ تھا کہ ”انسان کو خدا کی حکمرانی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انسان خود اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کے قابل ہے۔ البتہ میری حکمرانی قبول کرنے سے اُن کو فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔“ ان بیہودہ الزامات پر خدا کا ردِعمل کیسا رہا؟ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کو اُسی وقت ان باغیوں کو ختم کر دینا چاہئے تھا۔ لیکن کیا اس طرح شیطان کے دعوے جھوٹے ثابت ہوتے؟ اور کیا ایسا کرنے سے خدا ثابت کرتا کہ وہ ہی سب سے اچھا حکمران ہے؟
۹ یہوواہ انصاف کرنے والا خدا ہے۔ اس وجہ سے وہ ان باغیوں کو فوراً ختم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خدا نے فیصلہ کِیا کہ وہ کچھ دیر تک شیطان کو منمانی کرنے کی اجازت دے گا تاکہ اُس کے دعوے جھوٹے ثابت ہو جائیں۔ اس دوران انسانوں کو ایک دوسرے پر حکومت جتانے کی بھی اجازت دی گئی۔ یہوواہ خدا نے ایسا کیوں کِیا؟ اُس نے ان باغیوں کو اپنے دعوؤں کا ثبوت پیش کرنے کے لئے اتنا زیادہ وقت کیوں دیا؟ ان سوالوں کا جواب اس کتاب کے گیارھویں باب میں دیا جائے گا۔ البتہ یہ بات قابلِغور ہے کہ آدم اور حوا کے پاس جو کچھ بھی تھا یہ سب خدا کا دیا ہوا تھا۔ شیطان کی طرف سے اُنہیں کچھ بھی تو نہیں ملا تھا۔ اس کے باوجود جب شیطان نے دعویٰ کِیا کہ خدا بےرحم اور جھوٹا ہے تو اُنہوں نے فوراً اُس کی بات پر یقین کر لیا۔ کیا اُنہیں ایسا کرنا چاہئے تھا؟ اگر آپ اُن کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے؟
۱۰. ہم شیطان کو کیسے جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں؟
۱۰ ان سوالوں پر غور کرنا ہمارے لئے فائدہمند ہے کیونکہ ہمیں شیطان کو جھوٹا ثابت کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ جب ہم یہوواہ خدا کو اپنے حاکم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں تو دراصل ہم شیطان زبور ۷۳:۲۸؛ امثال ۲۷:۱۱) یہ موقع تمام انسانوں کو دیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ دُنیا میں کم ہی لوگ ایسا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کیا اِس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شیطان دُنیا پر حکمرانی کر رہا ہے؟ آئیے ہم دیکھیں کہ اس کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم کیا ہے۔
کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔ (دُنیا پر کون حکمرانی کر رہا ہے؟
۱۱، ۱۲. (ا) شیطان نے یسوع سے کونسی بات کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان دُنیا کا حاکم ہے؟ (ب) اس کے علاوہ ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ شیطان کو دُنیا پر اختیار دیا گیا ہے؟
۱۱ یسوع مسیح کو اس بات کا یقین تھا کہ شیطان دُنیا کا حاکم ہے۔ ایک موقعے پر شیطان نے یسوع کو ’دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُن کی شانوشوکت دکھائی۔‘ پھر شیطان نے یسوع کو یہ پیشکش کی کہ ”اگر تُو جھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا۔“ (متی ۴:۸، ۹؛ لوقا ۴:۵، ۶) شیطان کی اس پیشکش پر ذرا غور کریں۔ اگر دُنیا کی سلطنتیں اُس کے اختیار میں نہ ہوتیں تو کیا وہ یسوع کو اُن کی پیشکش کر سکتا تھا؟ شیطان کی پیشکش سُن کر یسوع نے اُس سے یہ نہیں کہا کہ ”یہ سلطنتیں تیری کب ہوئیں کہ تُو انہیں مجھے پیش کر رہا ہے؟“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کو دُنیا کی تمام حکومتوں پر اختیار دیا گیا ہے۔
۱۲ بِلاشُبہ یہوواہ خدا قادرِمطلق ہے۔ وہ ہی کائنات کا خالق ہے۔ (مکاشفہ ۴:۱۱) لیکن پھر بھی پاک صحائف میں کہا گیا ہے کہ شیطان ”دُنیا کا سردار“ ہے۔ (یوحنا ۱۲:۳۱؛ ۱۴:۳۰؛ ۱۶:۱۱) یہاں تک کہ پاک صحائف میں شیطان کو ’اِس جہان کا خدا‘ بھی کہا گیا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۳، ۴) یوحنا رسول نے شیطان کے بارے میں لکھا کہ ”ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“—۱-یوحنا ۵:۱۹۔
شیطان کی دُنیا کا خاتمہ
۱۳. ایک نئی دُنیا کا آغاز کیوں کِیا جائے گا؟
۱۳ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دُنیا کے حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔ دُنیابھر میں لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ بددیانت سیاستدانوں، ریاکار مذہبی رہنماؤں اور بےرحم مُجرموں نے دُنیا کا سکون چھین لیا ہے۔ شیطان کی اِس دُنیا کی اصلاح کرنا ناممکن ہے۔ پاک صحائف میں بتایا گیا ہے کہ ہرمجدون یعنی خدا کے روزِعظیم کی لڑائی کا وقت قریب ہے۔ اس لڑائی کے بعد زمین پر ایک نئی دُنیا کا آغاز کِیا جائے گا جس میں بُرائی کا نامونشان نہ ہوگا۔—مکاشفہ ۱۶:۱۴-۱۶۔
۱۴. خدا نے کس کو اپنی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر مقرر کِیا ہے اور یہ کس پیشینگوئی سے ظاہر ہوتا ہے؟
یسعیاہ ۹:۶، ۷) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو اس سلطنت یا بادشاہت کے بارے میں یوں دُعا کرنا سکھائی: ”تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔“ (متی ۶:۱۰) خدا کی بادشاہت جلد ہی دُنیا کی تمام حکومتوں کو ختم کرکے اُن کی جگہ قائم ہو جائے گی۔ (دانیایل ۲:۴۴) اس کے بعد خدا کی بادشاہت کے ذریعے زمین کو فردوس میں تبدیل کِیا جائے گا۔
۱۴ خدا نے آسمان میں ایک بادشاہت یا حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔ اُس نے یسوع مسیح کو اس بادشاہت کا بادشاہ مقرر کِیا ہے۔ اس سلسلے میں پاک صحائف میں یہ پیشینگوئی درج ہے: ”ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہوگی اور اُس کا نام . . . سلامتی کا شاہزادہ ہوگا۔ اُس کی سلطنت کے اِقبال اور سلامتی کی کچھ اِنتہا نہ ہوگی۔“ (خدا کی نئی دُنیا آنے والی ہے
۱۵. ”نئی زمین“ سے کیا مُراد ہے؟
۱۵ پاک صحائف میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ”[خدا] کے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہے گی۔“ (۲-پطرس ۳:۱۳؛ یسعیاہ ۶۵:۱۷) جب پاک صحائف میں لفظ ”زمین“ کا ذکر آتا ہے تو کبھیکبھار اس کا اشارہ اُن لوگوں کی طرف ہوتا ہے جو زمین پر رہ رہے ہیں۔ لہٰذا ”نئی زمین“ سے مُراد ایک ایسا معاشرہ ہے جس کے تمام لوگوں کو خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔
۱۶. خدا اُن لوگوں کو کیا دے گا جن سے وہ خوش ہے؟ اسے حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
۱۶ یسوع مسیح نے وعدہ کِیا تھا کہ خدا جن لوگوں سے خوش ہے اُنہیں آنے والی نئی دُنیا میں ”ہمیشہ کی زندگی“ دے گا۔ (مرقس ۱۰:۳۰) لیکن ہمیشہ کی زندگی پانے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ اس کا جواب آپ کو یوحنا ۳:۱۶ اور ۱۷:۳ میں ملے گا۔ ذرا اپنی بائبل کو کھول کر ان دونوں حوالوں کو پڑھئے۔ جن لوگوں کو زمین پر فردوس میں ہمیشہ زندہ رہنے کا شرف دیا جائے گا اُنہیں بہت سی برکتیں حاصل ہوں گی۔ آئیے اب ہم ایسی چند برکتوں پر غور کرتے ہیں۔
۱۷، ۱۸. ہم اس بات پر یقین کیوں کر سکتے ہیں کہ زمین پر امن اور سلامتی کا دَور آئے گا؟
بُرائی، جنگیں، جُرم اور تشدد کو مِٹا دیا جائے گا۔ ”شریر نابود ہو جائے گا۔ . . . لیکن حلیم مُلک کے وارث ہوں گے۔“ (زبور ۳۷:۱۰، ۱۱) زمین پر امن اور سلامتی ہوگی کیونکہ خدا ’زمین کی اِنتہا تک جنگ موقوف کرا دے گا۔‘ (زبور ۴۶:۹؛ یسعیاہ ۲:۴) تب ”صادق برومند ہوں گے اور جب تک چاند قائم ہے خوب امن رہے گا۔“ اس کا مطلب ہے کہ زمین پر ہمیشہ تک امن کا دَور رہے گا۔—زبور ۷۲:۷۔
۱۷۱۸ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے والوں کو کسی بات کا خطرہ نہ ہوگا۔ جب تک کہ بنی اسرائیل نے وفاداری سے یہوواہ خدا کی عبادت کی اُنہیں خدا کا تحفظ حاصل رہا۔ (احبار ۲۵:۱۸، ۱۹) اسی طرح آنے والے فردوس میں بھی لوگوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔—یسعیاہ ۳۲:۱۸؛ میکاہ ۴:۴۔
۱۹. ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا کی نئی دُنیا میں کسی کو بھوکے پیٹ نہیں رہنا پڑے گا؟
۱۹ سب لوگ پیٹ بھر کر کھا سکیں گے۔ زبورنویس نے یوں لکھا: ”زمین پر غلے کی اِفراط ہوگی۔ اُس کی پیداوار پہاڑوں کی چوٹیوں پر . . . لہلہائے گی۔“ (زبور ۷۲:۱۶، کیتھولک ترجمہ) خدا اپنے بندوں کو برکات سے نوازے گا جس کے نتیجے میں ’زمین اپنی پیداوار دے گی۔‘—زبور ۶۷:۶۔
۲۰. ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ ایک دِن پوری زمین فردوس بن جائے گی؟
۲۰ زمین فردوس بن جائے گی۔ جہاں آج زمین پر تباہی مچائی جا رہی ہے انہی علاقوں میں لوگ خوبصورت باغ لگائیں گے اور اپنے لئے شاندار گھر بھی بنائیں گے۔ (یسعیاہ ۶۵:۲۱-۲۴؛ مکاشفہ ۱۱:۱۸) اس طرح پوری زمین باغِعدن کی طرح خوبصورت بن جائے گی۔ اور خدا ’اپنی مٹھی کھولے گا اور ہر جاندار کی خواہش پوری کرے گا۔‘—زبور ۱۴۵:۱۶۔
۲۱. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان اور جانوروں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہ رہے گا؟
۲۱ انسان اور جانوروں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ جنگلی جانور اور پالتو جانور ایک دوسرے کے ساتھ چریں گے۔ یہاں تک کہ خطرناک جانور بھی ایسے بدل جائیں گے کہ دودھ پیتا بچہ اُن سے نہ ڈرے گا۔—یسعیاہ ۱۱:۶-۹؛ ۶۵:۲۵۔
۲۲. نئی دُنیا میں بیماری کے سلسلے میں کیا ہوگا؟
بیماریوں کا نامونشان نہ رہے گا۔ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے بیماروں کو شفا بخشی۔ خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر وہ تمام لوگوں کو تندرست کرے گا۔ (متی ۹:۳۵؛ مرقس ۱:۴۰-۴۲؛ یوحنا ۵:۵-۹) جیہاں، نئی دُنیا ”کے باشندوں میں سے کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔“—یسعیاہ ۳۳:۲۴؛ ۳۵:۵، ۶۔
۲۲۲۳. مُردوں کے جی اُٹھنے پر ہم خوش کیوں ہوں گے؟
۲۳ ہمارے مرے ہوئے عزیز جی اُٹھیں گے اور وہ ہمیشہ زندہ رہنے کی اُمید رکھ سکیں گے۔ مُردوں میں سے خدا جن کو بھی زندہ کرنا چاہے گا اُن کو زندہ کرے گا۔ پاک صحائف میں لکھا ہے کہ ”راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔“—اعمال ۲۴:۱۵؛ یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
۲۴. فردوسی زمین کے بارے میں جان کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۲۴ اُن لوگوں کا مستقبل واقعی شاندار ہوگا جو خدا کے بارے میں علم حاصل کرتے اور اُس کی خدمت کرتے ہیں۔ جب یسوع نے ایک آدمی سے کہا تھا کہ ”تُو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا“ تو وہ آنے والی فردوسی زمین کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ (لوقا ۲۳:۴۳) زمین یسوع مسیح کے ذریعے ہی ایک فردوس میں تبدیل ہوگی۔ لہٰذا اگر ہم فردوس میں زندگی کا لطف اُٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں یسوع مسیح کے بارے میں علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے
▪ خدا نے زمین کو ایک فردوس میں تبدیل کرنے کا وعدہ کِیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔—یسعیاہ ۴۵:۱۸؛ ۵۵:۱۱۔
▪ آجکل شیطان دُنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔—یوحنا ۱۲:۳۱؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹۔
▪ آنے والی نئی دُنیا میں خدا اپنے بندوں کو بہت سی برکتوں سے نوازے گا۔—زبور ۳۷:۱۰، ۱۱، ۲۹۔
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
اگر دُنیا کی سلطنتیں شیطان کے اختیار میں نہ ہوتیں تو کیا وہ یسوع مسیح کو اُن کی پیشکش کر سکتا تھا؟
[صفحہ ۴۳ پر صرف تصویر ہے]