مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا نے زمین کو کس مقصد کیلئے خلق کِیا ہے؟‏

خدا نے زمین کو کس مقصد کیلئے خلق کِیا ہے؟‏

تیسرا باب

خدا نے زمین کو کس مقصد کیلئے خلق کِیا ہے؟‏

خدا انسان کے لئے کیا چاہتا ہے؟‏

خدا پر کونسے جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں؟‏

آنے والی نئی دُنیا میں زمین پر کیسے حالات ہوں گے؟‏

۱.‏ خدا نے زمین کو کیوں خلق کِیا؟‏

یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ لوگ زمین پر خوشحال زندگی گزاریں۔‏ پاک صحائف میں لکھا ہے:‏ ”‏خدا نے .‏ .‏ .‏ عدؔن میں ایک باغ لگایا“‏ اور ”‏ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوشنما اور کھانے کے لئے اچھا تھا زمین سے اُگایا۔‏“‏ جب خدا نے آدم اور حوا کو خلق کِیا تو اُس نے اُنہیں باغِ‌عدن یعنی فردوس میں بسایا۔‏ پھر خدا نے اُن سے کہا:‏ ”‏پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمورومحکوم کرو۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۸؛‏ ۲:‏۸،‏ ۹،‏ ۱۵‏)‏ لہٰذا خدا نے زمین کو اس لئے خلق کِیا ہے کہ انسان اُس پر رہے،‏ اولاد پیدا کرے،‏ پوری زمین پر فردوس جیسا باغ لگائے اور جانوروں کی بھی دیکھ‌بھال کرے۔‏

۲.‏ (‏ا)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ زمین کے لئے خدا کی مرضی پوری ہوگی؟‏ (‏ب)‏ پاک صحائف کے مطابق کس قسم کے لوگ ہمیشہ کی زندگی پائیں گے؟‏

۲ کیا انسان واقعی ایک فردوس جیسی زمین پر آباد ہوگا؟‏ جی‌ہاں۔‏ زمین کے لئے خدا کی یہی مرضی تھی اور وہ کہتا ہے کہ ”‏مَیں ہی نے یہ کہا اور .‏ .‏ .‏ مَیں ہی اِسے پورا کروں گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۶:‏۹-‏۱۱؛‏ ۵۵:‏۱۱‏)‏ خدا جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ اُسے پورا بھی کرتا ہے۔‏ اور خدا کہتا ہے کہ اُس نے زمین کو ویران رہنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ ”‏اُس کو آبادی کے لئے آراستہ کِیا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۵:‏۱۸‏)‏ خدا کس قسم کے لوگوں کو زمین پر بسانے کا ارادہ رکھتا ہے؟‏ اور یہ لوگ کب تک زمین پر زندگی سے لطف اُٹھا سکیں گے؟‏ پاک صحائف میں ہمیں اِس کا یہ جواب ملتا ہے:‏ ”‏صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔‏“‏—‏زبور ۳۷:‏۲۹؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۳.‏ آجکل زمین پر کیسے حالات پائے جاتے ہیں؟‏ اس وجہ سے کونسا سوال اُٹھتا ہے؟‏

۳ البتہ آجکل لوگ بیماری اور موت کا شکار ہوتے ہیں۔‏ وہ ایک دوسرے سے لڑائی کرتے اور ایک دوسرے کا خون کرتے ہیں۔‏ اِس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زمین پر خدا کی مرضی پوری نہیں ہو رہی ہے۔‏ لیکن ایسا کیوں ہے؟‏ دراصل زمین کے حالات ایک فرشتے کی بغاوت کی وجہ سے بگڑ گئے۔‏

ایک دُشمن سر اُٹھاتا ہے

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏ سانپ کے ذریعے حوا سے دراصل کس نے بات کی تھی؟‏ (‏ب)‏ ایک ایماندار آدمی چور کیسے بن سکتا ہے؟‏

۴ بائبل کی پہلی کتاب میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا کے ایک مخالف نے باغِ‌عدن میں ”‏سانپ“‏ کی شکل میں سر اُٹھایا تھا۔‏ بائبل کی آخری کتاب میں اس سانپ کی شناخت اُس ”‏ابلیس اور شیطان“‏ سے کی گئی ہے جو ”‏سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے۔‏“‏ باغِ‌عدن میں ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بائبل میں اسے ”‏پُرانا سانپ“‏ بھی کہا گیا ہے۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏)‏ خدا کا یہ مخالف دراصل ایک فرشتہ تھا جس نے ایک سانپ کے ذریعے حوا کو ورغلانے کی کوشش کی تھی۔‏ حوا کو ایسے لگا جیسے سانپ بول رہا ہے لیکن اصل میں یہ اُسی فرشتے کی آواز تھی۔‏ یہ بالکل ایسا تھا جیسے پُتلیوں کا تماشا دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ کٹھ‌پتلی بول رہی ہے حالانکہ آواز تماشا دکھانے والے کی ہوتی ہے۔‏ بِلاشُبہ یہ فرشتہ اُس وقت حاضر تھا جب خدا نے انسان کے لئے زمین تیار کی تھی۔‏—‏ایوب ۳۸:‏۴،‏ ۷‏۔‏

۵ لیکن خدا تو کوئی بُری شے خلق نہیں کر سکتا تو پھر ”‏شیطان“‏ کیسے وجود میں آیا؟‏ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے جو فرشتے خلق کئے تھے اُن میں سے ایک نے خود کو شیطان ثابت کِیا۔‏ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‏ یہ بالکل اس طرح ہو سکتا ہے جیسے ایک ایماندار آدمی چور بن سکتا ہے۔‏ شاید اِس آدمی کے دل میں غلط خواہشیں اُبھرنے لگیں اور وہ ان کو ترک کرنے کی بجائے ان کو زور پکڑنے دے۔‏ پھر جب اُسے چوری کرنے کا موقع ملے گا تو وہ اپنی غلط خواہشوں پر عمل بھی کرے گا۔‏—‏یعقوب ۱:‏۱۳-‏۱۵‏۔‏

۶.‏ خدا کا ایک فرشتہ شیطان کیسے بن گیا؟‏

۶ جو فرشتہ شیطان بن گیا اُس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔‏ جب خدا نے آدم اور حوا کو اولاد پیدا کرنے کا حکم دیا تو وہ بھی سُن رہا تھا۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ پھر وہ سوچنے لگا کہ ”‏یہ کتنا اچھا ہوتا اگر لوگ خدا کی بجائے میری عبادت کرتے۔‏“‏ اس طرح اُس کے دل میں غلط خواہشیں اُبھرنے لگیں۔‏ آخرکار اُس نے حوا سے خدا کے بارے میں جھوٹ بول کر اُسے ورغلایا۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۵‏)‏ ایسا کرنے سے اُس نے خود کو ”‏ابلیس“‏ بنا لیا۔‏ بائبل کی اصلی زبان کے مطابق اس کا مطلب ”‏جھوٹے الزام لگانے والا“‏ ہے۔‏ اُس نے خود کو ”‏شیطان“‏ بھی بنا لیا جس کا مطلب ”‏مخالف“‏ ہے۔‏

۷.‏ (‏ا)‏ آدم اور حوا کو کیوں مرنا پڑا؟‏ (‏ب)‏ ہم سب کیوں بوڑھے ہوتے اور مر جاتے ہیں؟‏

۷ شیطان کے دھوکے میں آ کر آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کی۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۷؛‏ ۳:‏۶‏)‏ اس کے نتیجے میں اُن کو مرنا پڑا کیونکہ خدا اُن کو بتا چکا تھا کہ اُس نے نافرمانی کرنے کی سزا موت ٹھہرائی ہے۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ جب آدم نے گناہ کِیا تو اُسے گناہ کا داغ لگ گیا۔‏ اور اُس کی ہونے والی اولاد نے بھی گناہ کا یہ داغ ورثے میں پایا۔‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ اس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سانچے میں ڈھالی جانے والی چیز بالکل سانچے جیسی ہوگی۔‏ اگر سانچا ٹیڑھا ہو تو اُس میں ڈھالی گئی چیز بھی ٹیڑھی ہی ہوگی۔‏ اسی طرح آدم کی اولاد ہونے کے ناتے ہر انسان نے گناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے۔‏ اس وجہ سے ہم سب بوڑھے ہوتے اور آخرکار مر جاتے ہیں۔‏—‏رومیوں ۳:‏۲۳‏۔‏

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ شیطان نے خدا کے خلاف کونسے الزامات لگائے؟‏ (‏ب)‏ خدا نے ان باغیوں کو فوراً ختم کیوں نہیں کِیا؟‏

۸ جب شیطان نے آدم اور حوا کو خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا تو اُس نے خدا کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔‏ دراصل وہ خدا کی حکمرانی پر نکتہ‌چینی کر رہا تھا۔‏ شیطان کہہ رہا تھا کہ ”‏خدا اچھا حاکم نہیں ہے،‏ خدا جھوٹ بولتا ہے اور اپنے بندوں کو اچھی چیزوں سے محروم رکھتا ہے۔‏“‏ اُس کا دعویٰ تھا کہ ”‏انسان کو خدا کی حکمرانی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انسان خود اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کے قابل ہے۔‏ البتہ میری حکمرانی قبول کرنے سے اُن کو فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔‏“‏ ان بیہودہ الزامات پر خدا کا ردِعمل کیسا رہا؟‏ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کو اُسی وقت ان باغیوں کو ختم کر دینا چاہئے تھا۔‏ لیکن کیا اس طرح شیطان کے دعوے جھوٹے ثابت ہوتے؟‏ اور کیا ایسا کرنے سے خدا ثابت کرتا کہ وہ ہی سب سے اچھا حکمران ہے؟‏

۹ یہوواہ انصاف کرنے والا خدا ہے۔‏ اس وجہ سے وہ ان باغیوں کو فوراً ختم نہیں کرنا چاہتا تھا۔‏ خدا نے فیصلہ کِیا کہ وہ کچھ دیر تک شیطان کو من‌مانی کرنے کی اجازت دے گا تاکہ اُس کے دعوے جھوٹے ثابت ہو جائیں۔‏ اس دوران انسانوں کو ایک دوسرے پر حکومت جتانے کی بھی اجازت دی گئی۔‏ یہوواہ خدا نے ایسا کیوں کِیا؟‏ اُس نے ان باغیوں کو اپنے دعوؤں کا ثبوت پیش کرنے کے لئے اتنا زیادہ وقت کیوں دیا؟‏ ان سوالوں کا جواب اس کتاب کے گیارھویں باب میں دیا جائے گا۔‏ البتہ یہ بات قابلِ‌غور ہے کہ آدم اور حوا کے پاس جو کچھ بھی تھا یہ سب خدا کا دیا ہوا تھا۔‏ شیطان کی طرف سے اُنہیں کچھ بھی تو نہیں ملا تھا۔‏ اس کے باوجود جب شیطان نے دعویٰ کِیا کہ خدا بےرحم اور جھوٹا ہے تو اُنہوں نے فوراً اُس کی بات پر یقین کر لیا۔‏ کیا اُنہیں ایسا کرنا چاہئے تھا؟‏ اگر آپ اُن کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے؟‏

۱۰.‏ ہم شیطان کو کیسے جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں؟‏

۱۰ ان سوالوں پر غور کرنا ہمارے لئے فائدہ‌مند ہے کیونکہ ہمیں شیطان کو جھوٹا ثابت کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔‏ جب ہم یہوواہ خدا کو اپنے حاکم کے طور پر تسلیم کرتے ہیں تو دراصل ہم شیطان کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۷۳:‏۲۸؛‏ امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ یہ موقع تمام انسانوں کو دیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ دُنیا میں کم ہی لوگ ایسا کرنے کے لئے تیار ہیں۔‏ کیا اِس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شیطان دُنیا پر حکمرانی کر رہا ہے؟‏ آئیے ہم دیکھیں کہ اس کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم کیا ہے۔‏

دُنیا پر کون حکمرانی کر رہا ہے؟‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ شیطان نے یسوع سے کونسی بات کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان دُنیا کا حاکم ہے؟‏ (‏ب)‏ اس کے علاوہ ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ شیطان کو دُنیا پر اختیار دیا گیا ہے؟‏

۱۱ یسوع مسیح کو اس بات کا یقین تھا کہ شیطان دُنیا کا حاکم ہے۔‏ ایک موقعے پر شیطان نے یسوع کو ’‏دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُن کی شان‌وشوکت دکھائی۔‏‘‏ پھر شیطان نے یسوع کو یہ پیشکش کی کہ ”‏اگر تُو جھک کر مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا۔‏“‏ (‏متی ۴:‏۸،‏ ۹؛‏ لوقا ۴:‏۵،‏ ۶‏)‏ شیطان کی اس پیشکش پر ذرا غور کریں۔‏ اگر دُنیا کی سلطنتیں اُس کے اختیار میں نہ ہوتیں تو کیا وہ یسوع کو اُن کی پیشکش کر سکتا تھا؟‏ شیطان کی پیشکش سُن کر یسوع نے اُس سے یہ نہیں کہا کہ ”‏یہ سلطنتیں تیری کب ہوئیں کہ تُو انہیں مجھے پیش کر رہا ہے؟‏“‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کو دُنیا کی تمام حکومتوں پر اختیار دیا گیا ہے۔‏

۱۲ بِلاشُبہ یہوواہ خدا قادرِمطلق ہے۔‏ وہ ہی کائنات کا خالق ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ لیکن پھر بھی پاک صحائف میں کہا گیا ہے کہ شیطان ”‏دُنیا کا سردار“‏ ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۲:‏۳۱؛‏ ۱۴:‏۳۰؛‏ ۱۶:‏۱۱‏)‏ یہاں تک کہ پاک صحائف میں شیطان کو ’‏اِس جہان کا خدا‘‏ بھی کہا گیا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ یوحنا رسول نے شیطان کے بارے میں لکھا کہ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏۔‏

شیطان کی دُنیا کا خاتمہ

۱۳.‏ ایک نئی دُنیا کا آغاز کیوں کِیا جائے گا؟‏

۱۳ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دُنیا کے حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔‏ دُنیابھر میں لڑائیاں ہو رہی ہیں۔‏ بددیانت سیاستدانوں،‏ ریاکار مذہبی رہنماؤں اور بےرحم مُجرموں نے دُنیا کا سکون چھین لیا ہے۔‏ شیطان کی اِس دُنیا کی اصلاح کرنا ناممکن ہے۔‏ پاک صحائف میں بتایا گیا ہے کہ ہرمجدون یعنی خدا کے روزِعظیم کی لڑائی کا وقت قریب ہے۔‏ اس لڑائی کے بعد زمین پر ایک نئی دُنیا کا آغاز کِیا جائے گا جس میں بُرائی کا نام‌ونشان نہ ہوگا۔‏—‏مکاشفہ ۱۶:‏۱۴-‏۱۶‏۔‏

۱۴.‏ خدا نے کس کو اپنی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر مقرر کِیا ہے اور یہ کس پیشینگوئی سے ظاہر ہوتا ہے؟‏

۱۴ خدا نے آسمان میں ایک بادشاہت یا حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ اُس نے یسوع مسیح کو اس بادشاہت کا بادشاہ مقرر کِیا ہے۔‏ اس سلسلے میں پاک صحائف میں یہ پیشینگوئی درج ہے:‏ ”‏ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہوگی اور اُس کا نام .‏ .‏ .‏ سلامتی کا شاہزادہ ہوگا۔‏ اُس کی سلطنت کے اِقبال اور سلامتی کی کچھ اِنتہا نہ ہوگی۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۹:‏۶،‏ ۷‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو اس سلطنت یا بادشاہت کے بارے میں یوں دُعا کرنا سکھائی:‏ ”‏تیری بادشاہی آئے۔‏ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۰‏)‏ خدا کی بادشاہت جلد ہی دُنیا کی تمام حکومتوں کو ختم کرکے اُن کی جگہ قائم ہو جائے گی۔‏ (‏دانی‌ایل ۲:‏۴۴‏)‏ اس کے بعد خدا کی بادشاہت کے ذریعے زمین کو فردوس میں تبدیل کِیا جائے گا۔‏

خدا کی نئی دُنیا آنے والی ہے

۱۵.‏ ”‏نئی زمین“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏

۱۵ پاک صحائف میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ”‏[‏خدا]‏ کے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہے گی۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳؛‏ یسعیاہ ۶۵:‏۱۷‏)‏ جب پاک صحائف میں لفظ ”‏زمین“‏ کا ذکر آتا ہے تو کبھی‌کبھار اس کا اشارہ اُن لوگوں کی طرف ہوتا ہے جو زمین پر رہ رہے ہیں۔‏ لہٰذا ”‏نئی زمین“‏ سے مُراد ایک ایسا معاشرہ ہے جس کے تمام لوگوں کو خدا کی خوشنودی حاصل ہے۔‏

۱۶.‏ خدا اُن لوگوں کو کیا دے گا جن سے وہ خوش ہے؟‏ اسے حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

۱۶ یسوع مسیح نے وعدہ کِیا تھا کہ خدا جن لوگوں سے خوش ہے اُنہیں آنے والی نئی دُنیا میں ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ دے گا۔‏ (‏مرقس ۱۰:‏۳۰‏)‏ لیکن ہمیشہ کی زندگی پانے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏ اس کا جواب آپ کو یوحنا ۳:‏۱۶ اور ۱۷:‏۳ میں ملے گا۔‏ ذرا اپنی بائبل کو کھول کر ان دونوں حوالوں کو پڑھئے۔‏ جن لوگوں کو زمین پر فردوس میں ہمیشہ زندہ رہنے کا شرف دیا جائے گا اُنہیں بہت سی برکتیں حاصل ہوں گی۔‏ آئیے اب ہم ایسی چند برکتوں پر غور کرتے ہیں۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ ہم اس بات پر یقین کیوں کر سکتے ہیں کہ زمین پر امن اور سلامتی کا دَور آئے گا؟‏

۱۷ بُرائی،‏ جنگیں،‏ جُرم اور تشدد کو مِٹا دیا جائے گا۔‏ ‏”‏شریر نابود ہو جائے گا۔‏ .‏ .‏ .‏ لیکن حلیم مُلک کے وارث ہوں گے۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ زمین پر امن اور سلامتی ہوگی کیونکہ خدا ’‏زمین کی اِنتہا تک جنگ موقوف کرا دے گا۔‏‘‏ (‏زبور ۴۶:‏۹؛‏ یسعیاہ ۲:‏۴‏)‏ تب ”‏صادق برومند ہوں گے اور جب تک چاند قائم ہے خوب امن رہے گا۔‏“‏ اس کا مطلب ہے کہ زمین پر ہمیشہ تک امن کا دَور رہے گا۔‏—‏زبور ۷۲:‏۷‏۔‏

۱۸ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے والوں کو کسی بات کا خطرہ نہ ہوگا۔‏ جب تک کہ بنی اسرائیل نے وفاداری سے یہوواہ خدا کی عبادت کی اُنہیں خدا کا تحفظ حاصل رہا۔‏ (‏احبار ۲۵:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ اسی طرح آنے والے فردوس میں بھی لوگوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔‏—‏یسعیاہ ۳۲:‏۱۸؛‏ میکاہ ۴:‏۴‏۔‏

۱۹.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا کی نئی دُنیا میں کسی کو بھوکے پیٹ نہیں رہنا پڑے گا؟‏

۱۹ سب لوگ پیٹ بھر کر کھا سکیں گے۔‏ زبورنویس نے یوں لکھا:‏ ”‏زمین پر غلے کی اِفراط ہوگی۔‏ اُس کی پیداوار پہاڑوں کی چوٹیوں پر .‏ .‏ .‏ لہلہائے گی۔‏“‏ (‏زبور ۷۲:‏۱۶‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ خدا اپنے بندوں کو برکات سے نوازے گا جس کے نتیجے میں ’‏زمین اپنی پیداوار دے گی۔‏‘‏—‏زبور ۶۷:‏۶‏۔‏

۲۰.‏ ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ ایک دِن پوری زمین فردوس بن جائے گی؟‏

۲۰ زمین فردوس بن جائے گی۔‏ جہاں آج زمین پر تباہی مچائی جا رہی ہے انہی علاقوں میں لوگ خوبصورت باغ لگائیں گے اور اپنے لئے شاندار گھر بھی بنائیں گے۔‏ (‏یسعیاہ ۶۵:‏۲۱-‏۲۴؛‏ مکاشفہ ۱۱:‏۱۸‏)‏ اس طرح پوری زمین باغِ‌عدن کی طرح خوبصورت بن جائے گی۔‏ اور خدا ’‏اپنی مٹھی کھولے گا اور ہر جاندار کی خواہش پوری کرے گا۔‏‘‏—‏زبور ۱۴۵:‏۱۶‏۔‏

۲۱.‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ انسان اور جانوروں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہ رہے گا؟‏

۲۱ انسان اور جانوروں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔‏ جنگلی جانور اور پالتو جانور ایک دوسرے کے ساتھ چریں گے۔‏ یہاں تک کہ خطرناک جانور بھی ایسے بدل جائیں گے کہ دودھ پیتا بچہ اُن سے نہ ڈرے گا۔‏—‏یسعیاہ ۱۱:‏۶-‏۹؛‏ ۶۵:‏۲۵‏۔‏

۲۲.‏ نئی دُنیا میں بیماری کے سلسلے میں کیا ہوگا؟‏

۲۲ بیماریوں کا نام‌ونشان نہ رہے گا۔‏ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے بیماروں کو شفا بخشی۔‏ خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر وہ تمام لوگوں کو تندرست کرے گا۔‏ (‏متی ۹:‏۳۵؛‏ مرقس ۱:‏۴۰-‏۴۲؛‏ یوحنا ۵:‏۵-‏۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ نئی دُنیا ”‏کے باشندوں میں سے کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴؛‏ ۳۵:‏۵،‏ ۶‏۔‏

۲۳.‏ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ہم خوش کیوں ہوں گے؟‏

۲۳ ہمارے مرے ہوئے عزیز جی اُٹھیں گے اور وہ ہمیشہ زندہ رہنے کی اُمید رکھ سکیں گے۔‏ مُردوں میں سے خدا جن کو بھی زندہ کرنا چاہے گا اُن کو زندہ کرے گا۔‏ پاک صحائف میں لکھا ہے کہ ”‏راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔‏“‏—‏اعمال ۲۴:‏۱۵؛‏ یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

۲۴.‏ فردوسی زمین کے بارے میں جان کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

۲۴ اُن لوگوں کا مستقبل واقعی شاندار ہوگا جو خدا کے بارے میں علم حاصل کرتے اور اُس کی خدمت کرتے ہیں۔‏ جب یسوع نے ایک آدمی سے کہا تھا کہ ”‏تُو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا“‏ تو وہ آنے والی فردوسی زمین کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔‏ (‏لوقا ۲۳:‏۴۳‏)‏ زمین یسوع مسیح کے ذریعے ہی ایک فردوس میں تبدیل ہوگی۔‏ لہٰذا اگر ہم فردوس میں زندگی کا لطف اُٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں یسوع مسیح کے بارے میں علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‏

پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے

▪ خدا نے زمین کو ایک فردوس میں تبدیل کرنے کا وعدہ کِیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔‏—‏یسعیاہ ۴۵:‏۱۸؛‏ ۵۵:‏۱۱‏۔‏

▪ آجکل شیطان دُنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔‏—‏یوحنا ۱۲:‏۳۱؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏۔‏

▪ آنے والی نئی دُنیا میں خدا اپنے بندوں کو بہت سی برکتوں سے نوازے گا۔‏—‏زبور ۳۷:‏۱۰،‏ ۱۱،‏ ۲۹‏۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

اگر دُنیا کی سلطنتیں شیطان کے اختیار میں نہ ہوتیں تو کیا وہ یسوع مسیح کو اُن کی پیشکش کر سکتا تھا؟‏

‏[‏صفحہ ۴۳ پر صرف تصویر ہے]‏