مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مرنے پر کیا واقع ہوتا ہے؟‏

مرنے پر کیا واقع ہوتا ہے؟‏

چھٹا باب

مرنے پر کیا واقع ہوتا ہے؟‏

مرنے پر انسان کے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟‏

انسان کیوں مرتا ہے؟‏

مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جاننے سے ہم تسلی کیسے پا سکتے ہیں؟‏

۱-‏۳.‏ موت کے بارے میں لوگ کون سے سوال پوچھتے ہیں اور مختلف مذاہب کے رہنما ان کا کیا جواب دیتے ہیں؟‏

ہزاروں سال سے لوگ ان سوالات کے جواب کی تلاش میں رہے ہیں۔‏ اور واقعی ان کا جواب حاصل کرنا اہم ہے کیونکہ موت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جسے ہم سب کو ماننا پڑتا ہے۔‏

۲ پانچویں باب میں ہم نے دیکھا کہ یسوع مسیح نے اپنی جان قربان کرکے ہمیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع فراہم کِیا ہے۔‏ ہم نے یہ بھی سیکھا ہے کہ پاک صحائف میں ایک ایسے دَور کے بارے میں بتایا گیا ہے جب ’‏موت نہ رہے گی۔‏‘‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۴‏)‏ لیکن جب تک کہ یہ دَور نہ آئے ہم سب کو موت کا سامنا رہے گا۔‏ بادشاہ سلیمان نے کہا کہ ”‏زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے۔‏“‏ (‏واعظ ۹:‏۵‏)‏ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود لوگ اپنی زندگی کو بڑھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏ اور ہمیں یہ سوال ستاتا رہتا ہے کہ ”‏مرنے پر انسان کے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟‏“‏

۳ جب ہمارا کوئی عزیز مرتا ہے تو ہمیں سخت صدمہ ہوتا ہے اور اکثر ہمارے دل میں ایسے سوال اُٹھتے ہیں:‏ ”‏مُردے کس حالت میں ہیں؟‏ کیا وہ تکلیف سہہ رہے ہیں؟‏ کیا وہ ہماری حفاظت کر سکتے ہیں؟‏ کیا ہمیں اُن کی تسکین کے لئے دُعائیں مانگنی چاہئیں؟‏ کیا ہمیں ہمیشہ تک ان کی قربت سے محروم رہنا پڑے گا؟‏“‏ ہر مذہب کے رہنما ان سوالوں کے جواب اپنے اپنے مذہبی عقیدوں کے مطابق دیتے ہیں۔‏ کئی مذاہب میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ موت کے بعد نیک لوگ آسمان پر جائیں گے اور بُرے لوگوں کو دوزخ کی آگ میں ڈال دیا جائے گا۔‏ دوسرے مذاہب کے مطابق انسان کی روح ایک ایسے مقام میں اپنے باپ‌دادا کی روحوں کے ساتھ جا ملے گی جہاں روحیں قیام کرتی ہیں۔‏ اور ایسے بھی مذاہب ہیں جن میں لوگوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مُردے پاتال یعنی زمین کے سب سے نچلے حصے میں جاتے ہیں۔‏ وہاں اُن سے حساب لیا جاتا ہے جس کے بعد وہ کسی اَور جسم میں دوبارہ سے جنم لیتے ہیں۔‏

۴.‏ زیادہ‌تر مذاہب میں لوگوں کو مُردوں کے بارے میں کیا سکھایا جاتا ہے؟‏

۴ ان تمام مذہبی عقیدوں میں ایک بات ملتی‌جلتی ہے۔‏ ان کے مطابق مرنے پر انسان کسی اَور روپ میں زندہ رہتا ہے۔‏ زیادہ‌تر مذاہب میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ انسان کا وجود ہمیشہ تک ہے اور وہ مرنے کے بعد بھی دیکھنے،‏ سننے اور سوچنےسمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‏ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‏ سچ تو یہ ہے کہ انسان اپنے دماغ ہی کی وجہ سے دیکھنے،‏ سننے اور سوچنےسمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‏ موت پر دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے۔‏ اور دماغ کے بغیر انسان نہ تو سوچ سکتا ہے اور نہ ہی دیکھ یا سُن سکتا ہے۔‏

مرنے پر کیا واقع ہوتا ہے؟‏

۵،‏ ۶.‏ پاک صحائف مُردوں کی حالت کے بارے میں کیا تعلیم دیتے ہیں؟‏

۵ یہوواہ خدا نے انسان کو خلق کِیا ہے۔‏ وہ ہی جانتا ہے کہ مرنے پر انسان کے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے۔‏ اور اُس نے اپنے کلام میں مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی آشکارا کی ہے۔‏ پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ جب انسان مرتا ہے تو اُس کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔‏ موت زندگی کی ضد ہے۔‏ مُردے نہ تو سوچ سکتے اور نہ ہی دیکھ یا سُن سکتے ہیں۔‏ جب انسان مرتا ہے تو اُس کے جسم میں سے کوئی شے نکل کر زندہ نہیں رہتی۔‏ انسان ایک غیرفانی روح نہیں رکھتا۔‏ *

۶ اس بات کا ذکر کرنے کے بعد کہ ”‏زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے“‏ بادشاہ سلیمان نے کہا:‏ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔‏“‏ پھر اُس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مُردے محبت اور حسد جیسے تمام احساسات سے محروم ہیں اور قبر میں ”‏نہ کام ہے نہ منصوبہ۔‏ نہ علم نہ حکمت۔‏“‏ (‏واعظ ۹:‏۵،‏ ۶،‏ ۱۰‏)‏ اسی طرح زبور ۱۴۶:‏۴ میں لکھا ہے کہ جب انسان مرتا ہے تو ”‏اُس کے منصوبے فنا ہو جاتے ہیں۔‏“‏ ہماری زندگی موم‌بتی کی لو کی طرح ہے۔‏ جب لو بجھ جاتی ہے تو اس لو کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔‏ اسی طرح جب انسان مرتا ہے تو اُس کا وجود مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے۔‏

یسوع مسیح نے موت کے بارے میں کیا سکھایا؟‏

۷.‏ یسوع نے مُردوں کی حالت کے بارے میں کیا کہا؟‏

۷ مُردوں کی حالت کے بارے میں یسوع مسیح نے کونسی تعلیم دی تھی؟‏ ایک موقعے پر جب یسوع کو پتا چلا کہ اُس کا دوست لعزر مر گیا ہے تو اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏ہمارا دوست لعزؔر سو گیا ہے۔‏“‏ لیکن اُس کے شاگرد اُس کی بات کو نہ سمجھ پائے۔‏ وہ جانتے تھے کہ لعزر بیمار تھا اس لئے اُنہوں نے سوچا کہ اگر لعزر سو گیا ہے تو وہ جلد تندرست ہو جائے گا۔‏ لہٰذا یسوع نے اُن سے صاف صاف کہہ دیا کہ ”‏لعزؔر مر گیا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۱۱-‏۱۴‏)‏ اس موقعے پر یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ مرنا،‏ سو جانے کی طرح ہوتا ہے۔‏ لعزر نہ تو آسمان پر تھا اور نہ ہی دوزخ میں۔‏ وہ کسی ایسی جگہ پر قیام نہیں کر رہا تھا جہاں اُس کے باپ‌دادا اور فرشتے تھے۔‏ اُس نے کسی دوسرے شخص کے طور پر جنم بھی نہیں لیا تھا۔‏ لعزر موت کی نیند سو رہا تھا۔‏ اُس کی حالت ایسی تھی جیسے اُس شخص کی ہوتی ہے جو گہری نیند سو رہا ہوتا ہے۔‏ اس کے علاوہ پاک صحائف کے دوسرے حوالوں میں بھی مُردوں کی حالت کو ایک سوئے ہوئے شخص کی حالت سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ مثال کے طور پر جب لوگوں نے یسوع کے شاگرد ستفنس کو سنگسار کرکے مار ڈالا تو بائبل میں کہا گیا کہ وہ ”‏سو گیا۔‏“‏ (‏اعمال ۷:‏۶۰‏)‏ اسی طرح پولس رسول نے بھی کئی ایسے لوگوں کا ذکر کِیا جو ”‏سو گئے“‏ یعنی فوت ہو گئے تھے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۶‏۔‏

۸.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے یہ طے نہیں کِیا کہ انسان کو ایک دن مرنا پڑے گا؟‏

۸ جب خدا نے انسان کو خلق کِیا تو کیا اُس نے یہ بھی طے کِیا کہ انسان کو ایک نہ ایک دن مرنا پڑے گا؟‏ جی‌نہیں۔‏ یہوواہ خدا نے انسان کو زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لئے خلق کِیا تھا۔‏ جیسا کہ ہم اس کتاب میں سیکھ چکے ہیں خدا نے آدم اور حوا کو ایک خوبصورت باغ میں رکھا تھا۔‏ وہ مکمل طور پر تندرست تھے۔‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں خوشیاں ہی خوشیاں عطا کی تھیں۔‏ ذرا سوچیں،‏ کیا والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے بڑھاپے کی تکالیف سہہ سہہ کر مر جائیں؟‏ ہرگز نہیں،‏ بلکہ وہ تو اپنی اولاد کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔‏ اسی طرح یہوواہ خدا کو اپنے بندوں سے محبت ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے بندے زمین پر ہمیشہ تک زندگی کا لطف اُٹھائیں۔‏ پاک صحائف میں انسانوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے ابدیت کو بھی اُن کے دل میں جاگزین کِیا ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱۱‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ یہوواہ خدا نے ہمیں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی خواہش کے ساتھ خلق کِیا ہے۔‏ اور اُس نے اس خواہش کو پورا کرنے کا بندوبست بھی کِیا ہے۔‏

انسان کیوں مرتا ہے؟‏

۹.‏ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو کس بات سے منع کِیا تھا؟‏ کیا اس حکم پر عمل کرنا مشکل تھا؟‏

۹ اگر خدا نہیں چاہتا تھا کہ انسان موت کا شکار ہوں تو پھر ہم کیوں مرتے ہیں؟‏ اس کا جواب پانے کے لئے ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ اُس وقت کیا واقع ہوا جب زمین پر صرف آدم اور حوا ہی تھے۔‏ پاک صحائف میں لکھا ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ خدا نے ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوشنما اور کھانے کے لئے اچھا تھا زمین سے اُگایا۔‏“‏ (‏پیدایش ۲:‏۹‏)‏ یہوواہ خدا نے آدم سے کہا کہ ”‏تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بےروک‌ٹوک کھا سکتا ہے۔‏“‏ البتہ اُس نے آدم کو ایک بات سے منع کِیا اور وہ یہ تھی کہ ”‏نیک‌وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‏“‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اس حکم پر عمل کرنا مشکل نہ تھا۔‏ باغِ‌عدن میں بہت سے اَور بھی درخت تھے اور آدم اور حوا کو ان کے پھل کھانے کی اجازت تھی۔‏ اُنہیں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔‏ دراصل یہوواہ خدا آدم اور حوا کو اپنی شکرگزاری ظاہر کرنے کا موقع دینا چاہتا تھا اس لئے اُس نے اُن کو اُس ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کِیا۔‏ اس حکم پر عمل کرنے سے آدم اور حوا یہ بھی ظاہر کر سکتے تھے کہ وہ اُس کی راہنمائی چاہتے ہیں اور اُنہیں خدا کی حکمرانی منظور ہے۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کیسے کی؟‏ (‏ب)‏ آدم اور حوا کی نافرمانی اتنا سنگین گُناہ کیوں تھا؟‏

۱۰ افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ شیطان نے ایک سانپ کے ذریعے حوا سے پوچھا:‏ ”‏کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟‏“‏ اس پر حوا نے جواب دیا کہ ”‏باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔‏ پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تُم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاؤ گے۔‏“‏—‏پیدایش ۳:‏۱-‏۳‏۔‏

۱۱ تب شیطان نے حوا سے کہا:‏ ”‏تُم ہرگز نہ مرو گے۔‏ بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خدا کی مانند نیک‌وبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ شیطان نے حوا کو اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی کہ اُس درخت کا پھل کھانے میں اُس کا اپنا ہی فائدہ ہے۔‏ شیطان کے مطابق انسان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق پہنچتا ہے کہ اچھائی کیا ہے اور بُرائی کیا ہے۔‏ اُس نے حوا کو احساس دلایا کہ اپنی من‌مانی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‏ اِس کے علاوہ شیطان نے یہوواہ خدا پر الزام لگایا۔‏ اُس نے دعویٰ کِیا کہ خدا نے آدم اور حوا کو درخت سے کھانے کی سزا کے بارے میں سچی بات نہیں بتائی۔‏ حوا نے شیطان کی بات پر یقین کر لیا۔‏ اُس نے درخت کا پھل توڑا اور اسے کھا لیا۔‏ پھر اُس نے یہ پھل اپنے شوہر آدم کو بھی دیا اور اُس نے بھی اسے کھایا۔‏ اُنہوں نے یہ حرکت انجانے میں نہیں کی۔‏ وہ دونوں جانتے تھے کہ پھل کھانے سے وہ کھلم‌کُھلا خدا کے حکم کی نافرمانی کر رہے ہیں۔‏ اُنہوں نے اپنے پروردگار اور حکمران کو حقیر جانا۔‏ جی‌ہاں،‏ آدم اور حوا نے جان‌بوجھ کر اپنے خالق کی توہین کی۔‏ یہ ایک ایسا سنگین گُناہ تھا جسے معاف نہیں کِیا جا سکتا تھا۔‏

۱۲.‏ آدم اور حوا کی نافرمانی پر یہوواہ خدا کے احساسات کو سمجھنے کے لئے ہم کونسی تمثیل استعمال کر سکتے ہیں؟‏

۱۲ آدم اور حوا کی اس حرکت پر یہوواہ خدا نے کیسا محسوس کِیا ہوگا؟‏ فرض کریں کہ آپ نے بڑے پیار سے ایک بیٹے یا بیٹی کی پرورش کی ہے۔‏ لیکن اس نے آپ کی نافرمانی کرکے آپ کی محبت کو ٹھکرا دیا اور آپ کی توہین کی ہے۔‏ اس پر آپ کیسا محسوس کریں گے؟‏ یقیناً آپ کو دلی صدمہ ہوگا۔‏ اس تمثیل سے ہم اس صدمے کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو یہوواہ خدا نے اُس وقت محسوس کِیا تھا جب آدم اور حوا نے اُس کی مخالفت کی۔‏

۱۳.‏ خدا نے آدم کو سزا سناتے وقت کیا کہا اور اس کا کیا مطلب ہے؟‏

۱۳ یہوواہ خدا نے کہا تھا کہ نافرمانی کی سزا موت ہے اس لئے آدم اور حوا مر گئے۔‏ مرنے پر اُن کا وجود ختم ہو گیا۔‏ اُن کی روح کسی اَور جہان میں زندہ نہیں رہی۔‏ ہم یہ اس لئے جانتے ہیں کیونکہ خدا نے آدم کو سزا سناتے وقت کہا تھا:‏ ’‏تُو پھر زمین میں لوٹ جائے گا اس لئے کہ تُو اُس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔‏‘‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۹‏)‏ خدا نے آدم کو زمین کی مٹی سے بنایا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۷‏)‏ خلق کئے جانے سے پہلے آدم کا کوئی وجود نہیں تھا۔‏ اس لئے جب خدا نے کہا کہ آدم خاک میں لوٹ جائے گا تو دراصل وہ کہہ رہا تھا کہ آدم کا وجود ختم ہو جائے گا۔‏ یعنی کہ آدم اُس خاک کی طرح بےجان ہو جائے گا جس سے اُس کو بنایا گیا تھا۔‏

۱۴.‏ ہم کیوں مرتے ہیں؟‏

۱۴ اگر آدم اور حوا خدا کی نافرمانی نہ کرتے تو وہ آج تک زندگی کا لطف اُٹھا رہے ہوتے۔‏ لیکن اُنہوں نے جان‌بوجھ کر گُناہ کِیا۔‏ لہٰذا تمام انسانوں نے آدم کی اولاد ہونے کے ناتے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے۔‏ اسی وجہ سے ہم سب مرتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ گُناہ کا یہ داغ ایک ایسی بیماری کی طرح ہے جو والدین کے ذریعے بچوں کو لگ جاتی ہے۔‏ ہم میں سے کوئی بھی گُناہ کے اِس داغ سے نہیں بچ سکتا۔‏ گُناہ کرنے کا نتیجہ موت ہے اور موت ایک لعنت ہے۔‏ موت دوست نہیں بلکہ انسان کا جانی دُشمن ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۶‏)‏ ہم کتنے شکرگزار ہیں کہ یہوواہ خدا نے ہمیں اس دُشمن سے چھڑانے کے لئے فدیے کا بندوبست کِیا ہے۔‏

موت کے بارے میں سچائی جاننے کے فائدے

۱۵.‏ مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جاننے سے ہم تسلی کیوں پاتے ہیں؟‏

۱۵ پاک صحائف میں مُردوں کی حالت کے بارے میں جو تعلیم دی جاتی ہے اس سے ہم تسلی پا سکتے ہیں۔‏ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے مُردے تکلیف نہیں سہتے۔‏ وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‏ لہٰذا ہمیں اُن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ اُن کی تسکین کے لئے دُعائیں کرنا فضول ہے۔‏ وہ ہماری مدد کو نہیں آ سکتے۔‏ ہم اُن سے بات نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔‏ بہت سے مذاہب کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ مُردوں کی مدد کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے کے لئے وہ لوگوں سے پیسے وصول کرتے ہیں۔‏ لیکن مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جاننے سے ہم ان کے دھوکے میں نہیں پڑیں گے۔‏

۱۶.‏ بہت سے مذاہب کے عقیدوں پر کس کا اثر ہے اور اُس نے ان پر کیسے اثر کِیا ہے؟‏

۱۶ پاک صحائف مُردوں کی حالت کے بارے میں جو تعلیم دیتے ہیں کیا زیادہ‌تر مذاہب میں بھی یہی تعلیم دی جاتی ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے ان مذاہب کے عقیدوں پر اثر کِیا ہے۔‏ وہ جھوٹے مذاہب کے ذریعے لوگوں کو اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ جب انسان کا جسم مر جاتا ہے تو اُس کی روح کسی اَور جہان میں زندہ رہتی ہے۔‏ اس جھوٹ کی بنیاد پر شیطان نے لوگوں کو خدا سے دُور کرنے کے لئے اَور بھی بہت سے جھوٹ گھڑے ہیں۔‏ آئیے ہم اس کی ایک مثال پر غور کرتے ہیں۔‏

۱۷.‏ دوزخ کے عقیدے سے خدا کی توہین کیوں ہوتی ہے؟‏

۱۷ کچھ مذاہب میں لوگوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد بُرے لوگوں کو دوزخ میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں وہ ہمیشہ تک اذیت جھیلیں گے۔‏ اس عقیدے سے خدا کی توہین ہوتی ہے۔‏ یہوواہ خدا جس کی ذات ہی محبت ہے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کبھی نہیں کرے گا۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ فرض کریں کہ آپ کو بتایا جائے کہ ایک آدمی نے اپنے بچے کو سزا دینے کے لئے اُس کا ہاتھ آگ میں ڈال دیا۔‏ کیا آپ ایک ایسے آدمی کے لئے اپنے دل میں احترام محسوس کریں گے؟‏ بالکل نہیں۔‏ ایک ایسے ظالم آدمی سے واقفیت تک پیدا کرنا آپ کو ناگوار لگے گا۔‏ یاد رکھیں کہ شیطان ہی ہمیں اس بات کا یقین دلانا چاہتا ہے کہ یہوواہ خدا لوگوں کو ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں تڑپائے گا۔‏

۱۸.‏ لوگ کس عقیدے کی بنیاد پر مُردوں کی پوجا کرتے ہیں؟‏

۱۸ کئی مذاہب کے ذریعے شیطان لوگوں کو سکھاتا ہے کہ مرنے پر وہ روحوں کا روپ اختیار کر لیں گے اور یہ کہ ان روحوں کا احترام کرنا لازمی ہے۔‏ اس عقیدے کے مطابق مُردے یا تو لوگوں کے دوست بن کر اُن کی مدد کرتے ہیں یا پھر اُن کے دُشمن بن کر اُنہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔‏ بہت سے لوگ شیطان کے اس جھوٹ پر یقین کرتے ہیں۔‏ وہ مُردوں سے ڈرتے ہیں اور اُن کی پوجا کرتے ہیں۔‏ لیکن پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے کہ مُردے گہری نیند سو رہے ہیں اور یہ بھی کہ ہمیں صرف اپنے خالق اور پروردگار یہوواہ خدا کی عبادت کرنی چاہئے۔‏—‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏۔‏

۱۹.‏ موت کے بارے میں سچائی جاننے سے ہم کس بات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے؟‏

۱۹ مُردوں کی حالت کے بارے میں سچائی جاننے سے ہم جھوٹے مذاہب کے دھوکے میں پڑنے سے بچے رہیں گے۔‏ اس کے علاوہ ہم پاک صحائف کی دوسری تعلیمات کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔‏ مثال کے طور پر جب آپ سمجھ جاتے ہیں کہ مُردے کسی اَور جہان میں زندہ نہیں ہیں تو اس بات پر آپ کا ایمان زیادہ مضبوط ہو جائے گا کہ ہم ایک فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کا لطف اُٹھا سکیں گے۔‏

۲۰.‏ اگلے مضمون میں کس بات پر غور کِیا جائے گا؟‏

۲۰ بہت عرصہ پہلے خدا کے بندے ایوب نے سوال کِیا کہ ”‏اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟‏“‏ (‏ایوب ۱۴:‏۱۴‏)‏ ایک شخص جو موت کی نیند سو رہا ہے کیا اُسے واقعی زندہ کِیا جا سکتا ہے؟‏ اس سلسلے میں پاک صحائف میں جو تعلیم پائی جاتی ہے اُس سے ہمیں دلی تسلی ملتی ہے۔‏ اس بات پر اگلے مضمون میں غور کِیا جائے گا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 لفظ ”‏روح“‏ اور ”‏جان“‏ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے اس کتاب کے صفحہ ۲۰۸-‏۲۱۱ کو دیکھیں۔‏

پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے

▪ مُردے نہ تو دیکھ سکتے،‏ نہ سُن سکتے اور نہ ہی سوچ سکتے ہیں۔‏—‏واعظ ۹:‏۵‏۔‏

▪ مُردے تکلیف نہیں سہتے۔‏ وہ گہری نیند سو رہے ہیں۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۱۱‏۔‏

▪ ہم سب اس لئے مرتے ہیں کیونکہ ہم نے آدم سے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے۔‏—‏رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۵۹ پر تصویر]‏

جب موم‌بتی کی لو بُجھتی ہے تو لو کا وجود ختم ہو جاتا ہے

‏[‏صفحہ ۶۰ پر تصویر]‏

یہوواہ خدا نے انسان کو ہمیشہ تک زمین پر زندہ رہنے کے لئے خلق کِیا ہے

‏[‏صفحہ ۶۲ پر تصویر]‏

آدم خاک سے بنایا گیا تھا اور خاک میں لوٹ گیا