مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زندگی کے بارے میں خدا کا نظریہ اپنائیں

زندگی کے بارے میں خدا کا نظریہ اپنائیں

تیرھواں باب

زندگی کے بارے میں خدا کا نظریہ اپنائیں

خدا زندگی کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

حمل گِرانے کے بارے میں خدا کا کیا نظریہ ہے؟‏

ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم زندگی کو خدا کی بخشش جانتے ہیں؟‏

۱.‏ تمام جانداروں کو کس نے خلق کِیا؟‏

یرمیاہ نبی نے کہا کہ یہوواہ ”‏سچا خدا“‏ اور ”‏زندہ خدا“‏ ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۱۰:‏۱۰‏)‏ یہوواہ خدا تمام جانداروں کا خالق ہے۔‏ ایک موقع پر آسمانی ہستیوں نے اُس سے کہا:‏ ”‏تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ اور داؤد بادشاہ نے خدا کی تمجید کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏زندگی کا چشمہ تیرے پاس ہے۔‏“‏ (‏زبور ۳۶:‏۹‏)‏ واقعی،‏ زندگی یہوواہ خدا کی بخشش ہے۔‏

۲.‏ یہوواہ خدا ہماری زندگی کو کیسے برقرار رکھتا ہے؟‏

۲ یہوواہ خدا ہماری زندگی کو برقرار بھی رکھتا ہے۔‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۸‏)‏ جو خوراک ہم کھاتے ہیں،‏ جو پانی ہم پیتے ہیں،‏ اور جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں یہاں تک کہ جس زمین پر ہم رہتے ہیں،‏ یہ سب کچھ یہوواہ خدا کا دیا ہوا ہے۔‏ (‏اعمال ۱۴:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ اُس نے سب کچھ اس طرح سے بنایا ہے کہ ہم زندگی سے لطف‌اندوز ہو سکیں۔‏ لیکن زندگی کا بھرپور لطف اُٹھانے کے لئے ہمیں اُس کے حکموں کے بارے میں سیکھنا اور ان پر عمل بھی کرنا ہوگا۔‏—‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷،‏ ۱۸‏۔‏

زندگی کو خدا کی بخشش جانیں

۳.‏ خدا نے ہابل کے قتل کے بارے میں کیسا محسوس کِیا؟‏

۳ خدا چاہتا ہے کہ ہم نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی قیمتی خیال کریں۔‏ یہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے جو آدم اور حوا کے زمانے میں پیش آیا تھا۔‏ اُن کا بڑا بیٹا قائن اپنے چھوٹے بھائی ہابل سے نفرت کرنے لگا۔‏ یہوواہ خدا نے اُسے خبردار کِیا کہ ایسے احساسات رکھنے کی وجہ سے وہ ایک بہت ہی سنگین گُناہ کرنے کے خطرے میں ہے۔‏ لیکن قائن نے اس آگاہی کو نظرانداز کرتے ہوئے ”‏اپنے بھائی ہابلؔ پر حملہ کِیا اور اُسے قتل کر ڈالا۔‏“‏ (‏پیدایش ۴:‏۳-‏۸‏)‏ اس قتل کی وجہ سے خدا قائن سے بہت ناراض ہوا اور اُس نے قائن کو سزا دی۔‏—‏پیدایش ۴:‏۹-‏۱۱‏۔‏

۴.‏ موسیٰ کی شریعت میں خدا نے زندگی کے بارے میں اپنا نظریہ کیسے ظاہر کِیا؟‏

۴ اس واقعے کے ہزاروں سال بعد یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل پر ظاہر کِیا کہ اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اُن کو کونسے کاموں سے کنارہ کرنا تھا۔‏ موسیٰ نبی کے ذریعے اُس نے اُنہیں شریعت دی۔‏ اس لئے اس شریعت کو اکثر موسیٰ کی شریعت بھی کہا جاتا ہے۔‏ اس میں خدا کا یہ حکم بھی شامل تھا:‏ ”‏تُو خون نہ کرنا۔‏“‏ (‏استثنا ۵:‏۱۷‏)‏ اس حکم سے بنی‌اسرائیل اندازہ لگا سکتے تھے کہ خدا کی نظروں میں انسان کی زندگی بیش‌قیمت ہے اور اُنہیں بھی دوسروں کی زندگی کو قیمتی خیال کرنا چاہئے۔‏

۵.‏ ہمیں حمل گِرانے کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

۵ خدا ایک بچے کی زندگی کو کیسا خیال کرتا ہے جو ماں کے پیٹ میں پل رہا ہے؟‏ موسیٰ کی شریعت میں ایک ایسے بچے کی جان لینے کو سنگین گُناہ قرار دیا گیا تھا۔‏ جی‌ہاں،‏ بچے کی زندگی اُس کی پیدائش سے پہلے ہی خدا کی نظروں میں بیش‌قیمت ہوتی ہے۔‏ (‏خروج ۲۱:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ زبور ۱۲۷:‏۳‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ حمل گِرا کر بچوں کو ضائع کرنا گُناہ ہے۔‏

۶.‏ دوسروں سے نفرت کرنا کیوں غلط ہے؟‏

۶ دوسروں کی زندگی کی قدر کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنے دل سے نفرت کو دُور کریں۔‏ پاک صحائف میں لکھا ہے:‏ ”‏جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے اور تُم جانتے ہو کہ کسی خونی میں ہمیشہ کی زندگی موجود نہیں رہتی۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۵‏)‏ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے لئے یہ لازمی ہے کہ ہم اپنے دل سے نفرت کو دُور کریں کیونکہ اکثر اوقات نفرت ہی تشدد کا باعث بنتی ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سب لوگوں سے محبت رکھیں۔‏

۷.‏ ایک شخص کیسے ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو خدا کی پاک بخشش خیال نہیں کرتا؟‏

۷ اپنی زندگی کی قدر کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ بہت سے لوگ لطف اُٹھانے کی غرض سے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر وہ تمباکونوشی کرتے،‏ پان اور چھالیا کھاتے یا پھر منشیات استعمال کرتے ہیں۔‏ ایسی عادتوں سے جسم کو بڑا نقصان پہنچتا ہے اور وہ جان‌لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔‏ خدا کی نظروں میں ایسی عادتیں ناپاک ہیں۔‏ ظاہر ہے کہ ایک شخص جو ایسے کام کرتا ہے وہ اپنی زندگی کو خدا کی پاک بخشش خیال نہیں کرتا۔‏ (‏رومیوں ۶:‏۱۹؛‏ ۱۲:‏۱؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۷:‏۱‏)‏ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہمیں ایسی عادتیں چھوڑنا ہوں گی۔‏ ایسا کرنا بہت مشکل ہو سکتا ہے لیکن یہوواہ خدا کی مدد سے ہم کامیاب ہوں گے۔‏ جب ہم زندگی کو خدا کی بخشش جان کر ایسی جان‌لیوا عادتوں کو چھوڑنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں تو خدا بہت خوش ہوتا ہے۔‏

۸.‏ ہمیں اپنی اور دوسروں کی جان کو کیوں خطروں سے محفوظ رکھنا چاہئے؟‏

۸ اگر ہم زندگی کو خدا کی بیش‌قیمت بخشش سمجھتے ہیں تو ہم اپنی اور دوسروں کی جان کو خطروں سے محفوظ رکھیں گے۔‏ ہم نہ تو لاپرواہی سے کام لیں گے اور نہ ہی جوش میں آ کر اپنی جان کو خطرے میں ڈالیں گے۔‏ ہم گاڑی یا موٹرسائیکل چلاتے وقت اپنی یا دوسروں کی جان کو داؤ پر نہیں لگائیں گے۔‏ اس کے علاوہ ہم پُرتشدد یا خطرناک کھیلوں میں حصہ نہیں لیں گے۔‏ (‏زبور ۱۱:‏۵‏)‏ خدا نے بنی‌اسرائیل کو یوں حکم دیا:‏ ”‏جب تُو کوئی نیا گھر بنائے تو اپنی چھت پر منڈیر [‏یعنی اس کے گِرد دیوار]‏ ضرور لگانا تا نہ ہو کہ کوئی آدمی وہاں سے گِرے اور تیرے سبب سے وہ خون تیرے ہی گھروالوں پر ہو۔‏“‏ (‏استثنا ۲۲:‏۸‏)‏ اس حکم میں پائے جانے والے اصول کے مطابق ہمیں اپنے گھر اور سازوسامان کو بھی اچھی حالت میں رکھنا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر ٹوٹی پھوٹی سیڑھیوں پر لوگ گِر کر زخمی ہو سکتے ہیں۔‏ یا پھر اگر آپ کی گاڑی یا موٹرسائیکل میں کوئی خرابی ہے تو اسے چلاتے وقت آپ کو اور دوسروں کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔‏ زندگی کو قیمتی جان کر ہم نہ تو اپنی اور نہ ہی دوسروں کی جان کو خطرے میں ڈالیں گے۔‏

۹.‏ اگر ہم زندگی کو پاک خیال کرتے ہیں تو ہم جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے؟‏

۹ جانوروں کی زندگی کے بارے میں ہمارے خالق کا کیا نظریہ ہے؟‏ اُس کے نزدیک اُن کی زندگی بھی قیمتی ہے۔‏ خدا صرف اس مقصد کے لئے جانوروں کی جان لینے کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اُن سے خوراک اور لباس حاصل کریں یا جب ہمیں ان سے جان کا خطرہ ہو۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۲۱؛‏ ۹:‏۳؛‏ خروج ۲۱:‏۲۸‏)‏ لیکن جانوروں پر ظلم کرنا یا کھیل کی خاطر ان کا شکار کرنا خدا کی نظروں میں غلط ہے۔‏ جو شخص ایسا کرتا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ زندگی کو پاک نہیں خیال کرتا۔‏—‏امثال ۱۲:‏۱۰‏۔‏

خون کو بیش‌قیمت جانیں

۱۰.‏ خدا نے کس طرح واضح کِیا کہ خون،‏ زندگی کی نشانی ہے؟‏

۱۰ جب قائن نے اپنے بھائی ہابل کو قتل کِیا تھا تو یہوواہ خدا نے اُس سے کہا:‏ ”‏تیرے بھائی کا خون زمین سے مجھ کو پکارتا ہے۔‏“‏ (‏پیدایش ۴:‏۱۰‏)‏ ہابل کے خون کا ذکر کرتے ہوئے خدا اصل میں اُس کی جان یعنی زندگی کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔‏ ہابل کو جان سے مارنے کی وجہ سے قائن سزا کے لائق تھا۔‏ اب ہابل کا خون یہوواہ خدا سے انصاف کے لئے پکار رہا تھا۔‏ خون اور زندگی کا تعلق نوح نبی کے زمانے میں آنے والے طوفان کے بعد اَور بھی واضح کر دیا گیا۔‏ طوفان سے پہلے لوگ صرف پھل،‏ سبزیاں،‏ اناج اور میوے وغیرہ کھاتے تھے۔‏ البتہ طوفان کے بعد یہوواہ خدا نے نوح نبی اور اُس کے بیٹوں سے کہا:‏ ”‏ہر چلتا پھرتا جاندار تمہارے کھانے کو ہوگا۔‏ ہری سبزی کی طرح مَیں نے سب کا سب تُم کو دے دیا۔‏“‏ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدا نے یہ حکم بھی دیا:‏ ”‏تُم گوشت کے ساتھ خون کو جو اُس کی جان ہے نہ کھانا۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۹؛‏ ۹:‏۳،‏ ۴‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا کے نزدیک کسی جاندار کا خون اس کی جان (‏یعنی زندگی)‏ کی نشانی ہے۔‏

۱۱.‏ نوح نبی کے زمانے سے خون کے استعمال کے بارے میں خدا کا حکم کیا تھا؟‏

۱۱ اگر ہم خون کو بیش‌قیمت جانتے ہیں تو ہم اسے ہرگز نہیں کھائیں گے۔‏ یہوواہ نے بنی‌اسرائیل کو یوں حکم دیا:‏ ”‏جو کوئی شکار میں ایسے جانور یا پرندہ کو پکڑے جس کو کھانا ٹھیک ہے تو وہ اُس کے خون کو نکال کر اُسے مٹی سے ڈھانک دے۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں نے بنی‌اؔسرائیل کو حکم کِیا ہے کہ تُم کسی قسم کے جانور کا خون نہ کھانا۔‏“‏ (‏احبار ۱۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ خون کے بارے میں جو حکم تقریباً ۸۰۰ سال پہلے نوح نبی کو دیا گیا تھا اس پر بنی‌اسرائیل کو بھی عمل کرنا تھا۔‏ اس بات سے یہوواہ خدا کا نظریہ صاف ظاہر ہوتا ہے۔‏ اُس نے اپنے خادموں کو جانوروں کا گوشت کھانے کی اجازت تو دی تھی لیکن اُنہیں خون کھانے سے منع کِیا تھا۔‏ اُنہیں خون کو زمین پر اُنڈیل دینا تھا۔‏ اس طرح وہ علامتی طور پر جانور کی جان اس کے خالق کو واپس کر رہے ہوتے۔‏

۱۲.‏ روحُ‌القدس کے ذریعے مسیحیوں کو کونسا حکم دیا گیا ہے؟‏

۱۲ پہلی صدی عیسوی میں مسیحیوں کو خون کے سلسلے میں ایسا ہی حکم دیا گیا تھا۔‏ یسوع مسیح کی موت کے بعد اُس کے رسول اور دوسرے بزرگ یسوع کے پیروکاروں کی راہنمائی کرنے لگے۔‏ جب یہ سوال اُٹھا کہ مسیحیوں کو کونسے حکموں پر عمل کرنا ہے تو ان رہنماؤں نے یوں فیصلہ کِیا:‏ ”‏روحُ‌القدس نے اور ہم نے مناسب جانا کہ ان ضروری باتوں کے سوا تُم پر اَور بوجھ نہ ڈالیں۔‏ کہ تُم بُتوں کی قربانیوں کے گوشت سے اور لہو اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں [‏جن کا خون بہایا نہیں گیا]‏ اور حرامکاری سے پرہیز کرو۔‏“‏ (‏اعمال ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ ۲۱:‏۲۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ مسیحیوں کو ’‏لہو سے پرہیز‘‏ کرنا ہے۔‏ خدا کی نظروں میں یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ بُت‌پرستی اور حرامکاری سے کنارہ کرنا۔‏

۱۳.‏ خون کی بوتل لگوانا لہو سے پرہیز کرنے کے حکم کی خلافورزی کیوں ہے؟‏ مثال دے کر واضح کریں۔‏

۱۳ کیا ’‏لہو سے پرہیز‘‏ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انتقالِ‌خون یعنی خون کی بوتل لگوانا بھی منع ہے؟‏ جی‌ہاں!‏ اس سلسلے میں ایک مثال پر غور کیجئے۔‏ فرض کریں کہ ایک ڈاکٹر مریض کو شراب پینے سے منع کرتا ہے۔‏ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کو شراب پینا تو نہیں چاہئے لیکن وہ بوتل لگوا کر شراب کو رگوں کے ذریعے جسم میں ڈلوا سکتا ہے؟‏ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر اِس کی بھی اجازت نہیں دے گا۔‏ اسی طرح ’‏لہو سے پرہیز کرنے‘‏ کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں خون نہیں لیں گے۔‏ اور ہم کسی ڈاکٹر کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں خون کی بوتل لگائے۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ اگر خدا کے ایک خادم کو بتایا جائے کہ اُسے خون لینے کی ضرورت ہے تو وہ کیا کرے گا،‏ اور اس ردِعمل کی کیا وجہ ہے؟‏

۱۴ اس صورت میں کیا کِیا جائے جب خدا کا ایک خادم شدید زخمی ہو جائے یا اُسے آپریشن کی ضرورت پڑے؟‏ ڈاکٹر شاید اُس سے کہیں کہ ”‏اگر آپ نے خون لینے سے انکار کِیا تو آپ مر جائیں گے۔‏“‏ ظاہر ہے کہ خدا کا کوئی بھی خادم مرنا نہیں چاہتا۔‏ ہم خدا کی عطا کی ہوئی زندگی کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‏ اس لئے ہم اپنا علاج کروانے کے لئے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔‏ اور جس علاج میں خون کا استعمال نہیں کِیا جاتا،‏ ہم اسے قبول کرتے ہیں۔‏

۱۵ کیا خدا کا ایک خادم اپنی زندگی کو کچھ عرصہ تک بڑھانے کی کوشش میں خدا کے حکموں کی خلاف‌ورزی کرے گا؟‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اُسے پائے گا۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۲۵‏)‏ ہم میں سے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا۔‏ لیکن اگر ہم اپنی جان بچانے کے لئے خدا کے حکموں کو توڑیں گے تو ہم ہمیشہ کی زندگی سے ہاتھ دھونے کے خطرے میں ہوں گے۔‏ ہمیں خدا پر بھروسہ رکھنا چاہئے کہ اُس کے حکم واقعی ہماری بھلائی کے لئے ہیں۔‏ ہم اس بات پر اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم کسی نہ کسی وجہ سے اپنی جان کھو بیٹھیں گے تو ہمارا خالق ہمیں یاد کرے گا اور دوبارہ سے زندگی کی بیش‌قیمت بخشش عطا کرے گا۔‏—‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ عبرانیوں ۱۱:‏۶‏۔‏

۱۶.‏ خون کے سلسلے میں خدا کے خادموں نے کیا کرنے کی ٹھان لی ہے؟‏

۱۶ خدا کے خادموں نے ہر صورت میں خون سے پرہیز کرنے کی ٹھان لی ہے۔‏ وہ کوئی ایسی چیز نہیں کھائیں گے جس میں خون ملایا گیا ہو۔‏ اور نہ ہی وہ خون لینے سے اپنا علاج کروائیں گے۔‏ ان کو پورا یقین ہے کہ جو بھی حکم ہمارا خالق ہمیں دیتا ہے وہ ہماری بھلائی کے لئے ہے۔‏ کیا آپ کو بھی اس بات پر پورا یقین ہے؟‏

خون کا جائز استعمال

۱۷.‏ قدیم اسرائیلیوں کو کس بات کے لئے خون استعمال کرنے کی اجازت تھی؟‏

۱۷ موسیٰ کی شریعت میں خون استعمال کرنے کی اجازت صرف ایک ہی بات کے لئے دی گئی تھی۔‏ یہوواہ خدا نے حکم دیا:‏ ”‏جسم کی جان [‏یعنی زندگی]‏ خون میں ہے اور مَیں نے مذبح پر تمہاری جانوں کے کفارہ کے لئے اُسے تُم کو دیا ہے کہ اُس سے تمہاری جانوں کے لئے کفارہ ہو کیونکہ جان رکھنے ہی کے سبب سے خون کفارہ دیتا ہے۔‏“‏ (‏احبار ۱۷:‏۱۱‏)‏ جب اسرائیلی گُناہ کرتے تو وہ خدا سے معافی حاصل کرنے کے لئے ایک جانور کی قربانی دے سکتے تھے۔‏ اس جانور کا خون مذبح یعنی قربان‌گاہ پر اُنڈیل دیا جاتا تھا۔‏ ایسی نذر پیش کرنے کا انتظام شروع میں خیمۂ‌اجتماع میں اور بعد میں ہیکل میں کِیا گیا تھا۔‏ خون کا استعمال صرف ان ہی قربانیوں کے سلسلے میں جائز تھا۔‏

۱۸.‏ یسوع کے بہائے گئے خون کی بِنا پر ہمیں کونسے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟‏

۱۸ مسیحی آجکل موسیٰ کی شریعت کے پابند نہیں ہیں۔‏ اس لئے اُنہیں جانوروں کی قربانی پیش کرنے اور ان کا خون مذبح پر اُنڈیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۱‏)‏ البتہ،‏ جو خون بنی‌اسرائیل مذبح پر پیش کرتے تھے،‏ اس کا اشارہ یسوع مسیح کی جان کی قربانی کی طرف تھا۔‏ اس کتاب کے پانچویں باب میں ہم نے سیکھا ہے کہ یسوع نے اپنا بیش‌قیمت خون ہمارے گُناہوں کے لئے بہا دیا تھا۔‏ پھر جب یسوع آسمان پر واپس چلا گیا تو اُس نے خدا کو اپنے خون کی قیمت پیش کی۔‏ (‏عبرانیوں ۹:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ یسوع کے خون کی بِنا پر ہم اپنے گُناہوں کی معافی اور ہمیشہ کی زندگی پا سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸؛‏ یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ کیا آپ یسوع کے خون کی اہمیت سمجھ گئے ہیں؟‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ ہم صرف اس شرط پر نجات حاصل کر سکتے ہیں کہ ہم یسوع کے بہائے گئے خون پر ایمان لائیں۔‏

۱۹.‏ ”‏سب آدمیوں کے خون سے پاک“‏ ہونے کے لئے ہمیں کونسی ذمہ‌داری پوری کرنی پڑے گی؟‏

۱۹ ہم یہوواہ خدا کے بہت ہی شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمیں زندگی بخشی ہے۔‏ کیا آپ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی اس بخشش کی قدر کریں؟‏ توپھر ان کو بتائیں کہ یسوع مسیح کی جان کی قربانی پر ایمان لانے سے وہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اگر خدا کی طرح ہم بھی لوگوں کی جان بچانے کے خواہشمند ہیں تو ہم جوش‌وخروش کے ساتھ انہیں یہ پیغام پہنچائیں گے۔‏ (‏حزقی‌ایل ۳:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ اور اگر ہم اس ذمہ‌داری پر پورا اُتریں گے تو ہم پولس رسول کی طرح کہہ سکیں گے:‏ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ سب آدمیوں کے خون سے پاک ہوں۔‏ کیونکہ مَیں خدا کی ساری مرضی تُم سے پورے طور پر بیان کرنے سے نہ جھجکا۔‏“‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ لوگوں کو خدا اور اُس کی مرضی کے بارے میں بتانے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم زندگی کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‏

پاک صحائف کی تعلیم یہ ہے

▪ زندگی خدا کی بخشش ہے۔‏—‏زبور ۳۶:‏۹؛‏ مکاشفہ ۴:‏۱۱‏۔‏

▪ خدا کی نظروں میں ایک بچے کی زندگی پیدائش سے پہلے بھی بیش‌قیمت ہے۔‏ اسلئے حمل گِرانے سے بچوں کو ضائع کرنا گُناہ ہے۔‏—‏خروج ۲۱:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ زبور ۱۲۷:‏۳‏۔‏

▪ اپنی یا دوسروں کی جان کو خطروں سے محفوظ رکھنے اور خون سے پرہیز کرنے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم زندگی کو خدا کی بخشش جانتے ہیں۔‏—‏استثنا ۵:‏۱۷؛‏ اعمال ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲۶ پر بکس/‏تصویریں]‏

ہم زندگی کی قدر کرتے ہیں اس لئے .‏ .‏ .‏

▪ ہم ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچے کو ضائع نہیں کرتے

▪ ہم اپنے دل سے نفرت کو دُور کرتے ہیں

▪ ہم ناپاک عادتوں کو ترک کرتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۳۱ پر تصویر]‏

اگر ڈاکٹر کسی مریض کو شراب پینے سے منع کرے تو کیا مریض بوتل لگوا کر شراب کو رگوں کے ذریعے جسم میں ڈلوائے گا؟‏

‏[‏صفحہ ۱۳۲ پر تصویر]‏

آپ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ زندگی اور خون کو خدا کی بخشش جانتے ہیں؟‏