مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

روح اور جان کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم

روح اور جان کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم

مزید معلومات

روح اور جان کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم

کئی لوگ مانتے ہیں کہ انسان کے جسم کے اندر ایک اَن‌دیکھی شے موجود ہے جو کبھی مرتی نہیں۔‏ وہ اسے ”‏جان“‏ یا ”‏روح“‏ کہتے ہیں۔‏ بہتیرے لوگوں کے خیال میں جب انسان مر جاتا ہے تو یہ شے جسم سے نکل جاتی ہے اور کہیں اَور زندہ رہتی ہے۔‏ حالانکہ یہ عقیدہ بہت عام ہے لیکن پاک صحائف میں یہ تعلیم نہیں پائی جاتی۔‏ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاک صحائف میں جان اور روح کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏

جان کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم

پاک صحائف میں لفظ ”‏جان“‏ کو کیسے استعمال کِیا گیا ہے؟‏ آپ جانتے ہوں گے کہ بائبل اصل میں عبرانی اور یونانی زبان میں لکھی گئی تھی۔‏ جس لفظ کا ترجمہ کئی آیتوں میں ”‏جان“‏ سے کِیا گیا ہے،‏ اس کے لئے عبرانی زبان میں لفظ نفش اور یونانی زبان میں لفظ پسیخے استعمال ہوا ہے۔‏ پاک صحائف میں یہ دو الفاظ ۸۰۰ سے زیادہ مرتبہ آتے ہیں۔‏ اگر ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ خدا کے کلام میں لفظ نفش اور پسیخے کیسے استعمال ہوئے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان الفاظ کے تین بنیادی معنی ہیں۔‏ یہ الفاظ (‏۱)‏ انسان،‏ (‏۲)‏ جانور یا (‏۳)‏ زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ لفظ نفش یا پسیخے کے تین معنوں کی چند مثالوں پر غور کیجئے۔‏

انسان۔‏ ‏”‏نوؔح کے وقت میں .‏ .‏ .‏ وہ کشتی تیار ہو رہی تھی جس پر سوار ہو کر تھوڑے سے آدمی یعنی آٹھ جانیں ‏[‏پسیخے]‏ پانی کے وسیلہ سے بچیں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۲۰‏)‏ اس آیت میں لفظ پسیخے سے مُراد انسان ہے یعنی نوح،‏ اُس کی بیوی،‏ اُن کے تین بیٹے اور بیٹوں کی بیویاں۔‏ ایک اَور مثال خروج ۱۶:‏۱۶ میں پائی جاتی ہے۔‏ یہوواہ خدا نے خوراک یعنی من جمع کرنے کے سلسلے میں بنی‌اسرائیل کو یوں حکم دیا:‏ ”‏ہر شخص اتنے ہی آدمیوں ‏[‏نفش]‏ کے لئے جمع کرے جتنے اُس کے ڈیرے میں ہوں۔‏“‏ بنی‌اسرائیل کو اپنے اپنے ڈیرے میں رہنے والے لوگوں کے شمار کے مطابق من جمع کرنا تھا۔‏ نیچے کئی اَور آیتیں ہیں جن میں لفظ نفش یا پسیخے انسانوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ ہر آیت کے بعد ظاہر کِیا گیا ہے کہ اس میں لفظ نفش یا پسیخے کا ترجمہ کیسے کِیا گیا ہے۔‏—‏پیدایش ۴۶:‏۱۸ (‏کیتھولک ترجمہ:‏ ‏”‏سولہ جانیں“‏)‏؛‏ یشوع ۱۱:‏۱۱ (‏”‏لوگوں“‏)‏؛‏ اعمال ۲۷:‏۳۷ (‏”‏آدمی“‏)‏؛‏ رومیوں ۱۳:‏۱ (‏”‏شخص“‏)‏۔‏

جانور۔‏ خدا کے کلام میں تخلیق کے سلسلے میں یوں بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏خدا نے کہا کہ پانی جانداروں ‏[‏نفش]‏ کو کثرت سے پیدا کرے اور پرندے زمین کے اُوپر فضا میں اُڑیں۔‏ اور خدا نے کہا کہ زمین جانداروں ‏[‏نفش]‏ کو اُن کی جنس کے موافق چوپائے اور رینگنے والے جاندار اور جنگلی جانور اُن کی جنس کے موافق پیدا کرے اور اَیسا ہی ہوا۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۰،‏ ۲۴‏)‏ اس حوالے میں مچھلیوں،‏ چوپایوں اور جنگلی جانوروں کے سلسلے میں لفظ نفش استعمال ہوا ہے۔‏ اِس کے علاوہ پیدایش ۹:‏۱۰،‏ احبار ۱۱:‏۴۶ اور گنتی ۳۱:‏۲۸ میں لفظ نفش پرندوں سمیت مختلف جانوروں کے سلسلے میں استعمال ہوا ہے۔‏

زندگی۔‏ بعض دفعہ لفظ نفش یا پسیخے سے مُراد انسان کی زندگی بھی ہوتا ہے۔‏ یہوواہ نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏وہ سب جو تیری جان ‏[‏نفش]‏ کے خواہاں تھے مر گئے۔‏“‏ (‏خروج ۴:‏۱۹‏)‏ موسیٰ کے دُشمن اُسے جان سے مارنے یعنی اُس کی زندگی کو ختم کرنے کی کوشش میں تھے۔‏ پھر اس موقع پر غور کیجئے جب راخل،‏ بنیمین کو جنم دے رہی تھی۔‏ بائبل میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏موت کے وقت اُس کی جان ‏[‏نفش]‏ نکلنے سے پیشتر“‏ اُس نے اپنے بیٹے کا نام رکھا۔‏ (‏پیدایش ۳۵:‏۱۶-‏۱۹‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ اس کے بعد راخل فوت ہو گئی یعنی اُس کی زندگی ختم ہو گئی۔‏ اس کے علاوہ یسوع مسیح کے ان الفاظ پر بھی غور کیجئے:‏ ”‏اچھا چرواہا مَیں ہوں۔‏ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان ‏[‏پسیخے]‏ دیتا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۱‏)‏ یسوع نے اپنی جان یعنی اپنی زندگی انسان کے لئے قربان کر دی۔‏ اِن تمام آیتوں میں لفظ نفش یا پسیخے ایک شخص کی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ نیچے دئے گئے حوالوں میں بھی لفظ نفش یا پسیخے سے مُراد انسان کی زندگی ہے۔‏ ان تمام آیتوں میں ان الفاظ کا ترجمہ ”‏جان“‏ سے کِیا گیا ہے۔‏—‏۱-‏سلاطین ۱۷:‏۱۷-‏۲۳؛‏ متی ۱۰:‏۳۹؛‏ یوحنا ۱۵:‏۱۳؛‏ اعمال ۲۰:‏۱۰‏۔‏

کیا جان (‏یعنی نفش اور پسیخے‏)‏ واقعی ایک ایسی شے ہے جو انسان کے اندر رہتی ہے اور کبھی نہیں مرتی؟‏ خدا کے کلام کی پڑھائی کرتے ہوئے آپ کو کوئی ایسی آیت نہیں ملے گی جس میں غیرفانی یا کبھی نہ مرنے والی جان کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ اس کے برعکس پاک صحائف بتاتے ہیں کہ جان مر سکتی ہے۔‏—‏حزقی‌ایل ۱۸:‏۴،‏ ۲۰‏۔‏

روح کے بارے میں پاک صحائف کی تعلیم

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ”‏جان“‏ اور ”‏روح“‏ ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔‏ لیکن جن زبانوں میں پاک صحائف لکھے گئے تھے ان میں لفظ ”‏جان“‏ اور ”‏روح“‏ دو مختلف چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ کیا روح انسان کے اندر رہنے والی اور کبھی نہ مرنے والی شے ہے؟‏ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاک صحائف میں لفظ ”‏روح“‏ کیسے استعمال ہوا ہے۔‏

پاک صحائف میں جس لفظ کا ترجمہ اکثر ”‏روح“‏ سے کِیا گیا ہے،‏ عبرانی زبان میں اس کے لئے لفظ رُوأخ اور یونانی زبان میں لفظ پنوئما استعمال ہوا ہے۔‏ لفظ رُوأخ اور پنوئما خدا کے کلام میں جس طرح استعمال ہوئے ہیں،‏ اِس سے ہم ان الفاظ کے اصلی معنی معلوم کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر زبور ۱۰۴:‏۲۹ میں یہوواہ خدا کے بارے میں لکھا ہے:‏ ”‏تُو ان کا دم ‏[‏رُوأخ]‏ روک لیتا ہے اور یہ مر جاتے ہیں اور پھر مٹی میں مل جاتے ہیں۔‏“‏ اور یعقوب ۲:‏۲۶ میں کہا گیا ہے کہ ”‏بدن بغیر روح ‏[‏پنوئما]‏ کے مُردہ ہے۔‏“‏ ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ رُوأخ اور پنوئما انسان کے دم یعنی زندگی برقرار رکھنے والی قوت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ جب جسم میں دم نہیں ہوتا تو وہ مُردہ ہوتا ہے۔‏ اس لئے لفظ رُوأخ کا ترجمہ اکثر ”‏زندگی کا دم“‏ سے بھی کِیا گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر نوح کے زمانے میں خدا نے یوں کہا:‏ ”‏مَیں خود زمین پر پانی کا طوفان لانے والا ہوں تاکہ ہر بشر کو جس میں زندگی کا دم ‏[‏رُوأخ]‏ ہے دُنیا سے ہلاک کر ڈالوں۔‏“‏ ‏(‏پیدایش ۶:‏۱۷؛‏ ۷:‏۱۵،‏ ۲۲‏)‏ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”‏روح“‏ یعنی رُوأخ اور پنوئما سے مُراد وہ قوت ہے جس کے ذریعے تمام جانداروں کی زندگی برقرار رہتی ہے۔‏

لہٰذا،‏ جن زبانوں میں پاک صحائف لکھے گئے تھے ان میں ”‏جان“‏ اور ”‏روح“‏ دو مختلف چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‏ جسم روح ہی کی قوت سے زندہ ہے۔‏ ہم جسم کی تشبیہ ریڈیو سے کر سکتے ہیں۔‏ بجلی کے بغیر ریڈیو کام نہیں کرتا۔‏ جب آپ ریڈیو میں بیٹری ڈالتے یا بجلی کی تار لگاتے ہیں تو ریڈیو آواز دینے لگتا ہے۔‏ بیٹری یا بجلی کے بغیر ریڈیو مُردہ سا رہتا ہے۔‏ اسی طرح روح وہ قوت ہے جو ہمارے جسم کو زندہ کر دیتی ہے۔‏ بجلی کی طرح روح بھی نہ تو سوچ سکتی ہے اور نہ ہی کچھ محسوس کر سکتی ہے۔‏ وہ محض ایک قوت ہے۔‏ روح یعنی زندگی کے دم کے بغیر ہم ”‏مر جاتے ہیں اور پھر مٹی میں مل جاتے ہیں۔‏“‏—‏زبور ۱۰۴:‏۲۹‏۔‏

واعظ ۱۲:‏۷ میں بیان کِیا گیا ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو ’‏خاک [‏یعنی جسم]‏ خاک سے جا ملتی ہے جس طرح آگے ملی ہوئی تھی اور رُوح خدا کے پاس جس نے اُسے دیا تھا واپس جاتی ہے۔‏‘‏ ہمارا جسم خاک سے بنا ہوا ہے اس لئے جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو جسم پھر سے خاک میں مل جاتا ہے۔‏ اسی طرح روح یعنی زندگی کی قوت بھی اُسی کے پاس واپس جاتی ہے جس نے جسم میں روح ڈالی تھی۔‏ (‏ایوب ۳۴:‏۱۴،‏ ۱۵؛‏ زبور ۳۶:‏۹‏)‏ اس کا مطلب یہ نہیں کہ روح واقعی آسمان کی طرف پرواز کرتی ہے۔‏ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔‏ صرف خدا ہی ہمیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔‏

بِلاشُبہ ہمیں اس بات سے تسلی ملتی ہے کہ خدا اُن لوگوں کو یاد کرے گا جو ”‏قبروں میں ہیں“‏ اور اُن کو دوبارہ زندگی بخشے گا۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ اُس وقت خدا اِن مُردوں کے لئے ایک نیا بدن بنائے گا اور اِس میں روح یعنی زندگی کا دم پھونک دے گا۔‏ جب مُردے جی اُٹھیں گے تو ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔‏

اگر آپ جان اور روح کے سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہوواہ کے گواہوں کا شائع‌کردہ کتابچہ مرنے پر ہمارے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟‏ پڑھیں۔‏