مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تیسرا باب

خدا کے دوستوں کو اپنے دوست بنائیں

خدا کے دوستوں کو اپنے دوست بنائیں

‏”‏وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا۔‏“‏—‏امثال ۱۳:‏۲۰‏۔‏

۱-‏۳.‏ (‏ا)‏ بائبل میں دوستوں کے سلسلے میں کونسی حقیقت بیان کی گئی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اچھے دوستوں کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں؟‏

آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب اسپنج کو پانی میں ڈالا جاتا ہے تو یہ پانی کو فوراً جذب کر لیتا ہے۔‏ ایک لحاظ سے انسان بھی اسپنج کی طرح ہوتے ہیں کیونکہ ہم اپنے دوستوں کی خوبیاں اور خامیاں،‏ اُن کی عادتیں اور اُن کا رویہ آسانی سے اپنا لیتے ہیں۔‏

۲ بائبل میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے:‏ ”‏وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔‏“‏ (‏امثال ۱۳:‏۲۰‏)‏ اِس آیت میں ہمیں داناؤں ’‏کے ساتھ چلنے‘‏ کا مشورہ دیا گیا ہے۔‏ بائبل کی ایک لغت میں بتایا گیا ہے:‏ ”‏اصطلاح ’‏کسی کے ساتھ چلنے‘‏ کا مطلب کسی سے محبت رکھنا اور قریبی تعلقات قائم کرنا ہے۔‏“‏ * یقیناً آپ اِس بات سے متفق ہوں گے کہ جن لوگوں سے ہم محبت رکھتے ہیں اکثر ہم اُن جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ لہٰذا ہمارے دوست ہم پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔‏ یہ اثر یا تو اچھا یا پھر بُرا ہو سکتا ہے۔‏

۳ خدا کی محبت میں قائم رہنے کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ ہم ایسے دوستوں کا انتخاب کریں جو ہم پر اچھا اثر ڈالیں گے۔‏ ہم ایسے دوست کیسے بنا سکتے ہیں؟‏ ہمیں اُن لوگوں سے محبت رکھنی چاہئے جن سے یہوواہ خدا محبت رکھتا ہے اور اُس کے دوستوں سے دوستی کرنی چاہئے۔‏ جو لوگ یہوواہ خدا کے دوست ہونے کے لائق ٹھہرتے ہیں،‏ یقیناً وہ ہمارے لئے بھی بہترین دوست ثابت ہوں گے۔‏ آئیں دیکھیں کہ یہوواہ خدا کس قسم کے لوگوں سے محبت رکھتا ہے اور کن کو اپنے دوست ہونے کے لائق ٹھہراتا ہے۔‏ اِس طرح ہم اچھے دوستوں کا انتخاب کرنے کے قابل ہوں گے۔‏

خدا کن لوگوں سے محبت رکھتا ہے؟‏

۴.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا ہر کسی کو اپنے دوست کے طور پر قبول کیوں نہیں کرتا؟‏ (‏ب)‏ خدا نے ابرہام کو ’‏میرا دوست‘‏ کیوں کہا؟‏

۴ یہوواہ خدا ہر کسی کو اپنے دوست کے طور پر قبول نہیں کرتا۔‏ وہ کائنات کا حاکمِ‌اعلیٰ ہے اور اُس کا دوست ہونا بہت بڑا شرف ہے۔‏ توپھر یہوواہ خدا کس قسم کے لوگوں کو اپنا دوست بننے کا شرف عطا کرتا ہے؟‏ یہ ایسے لوگ ہیں جو دل سے اُس پر ایمان رکھتے اور بھروسہ کرتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا ابرہام کی مثال پر غور کریں جو بڑے مضبوط ایمان کا مالک تھا۔‏ اُسے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا گیا۔‏ * یہ اُس کے ایمان کا بڑا مشکل امتحان تھا۔‏ لیکن ابرہام کو اِس بات پر یقین تھا کہ ”‏خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔‏“‏ اِس لئے وہ اپنے بیٹے کو قربان کرنے کو تیار تھا۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۷-‏۱۹‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ یہوواہ خدا نے ابرہام کی فرمانبرداری اور مضبوط ایمان کی وجہ سے اُسے ’‏میرا دوست‘‏ کہا۔‏—‏یسعیاہ ۴۱:‏۸؛‏ یعقوب ۲:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

۵.‏ یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے جو اُس کے وفادار ہیں؟‏

۵ یہوواہ خدا اِس بات کو بڑی اہمیت دیتا ہے کہ انسان اُس کے فرمانبردار ہوں۔‏ وہ اُن لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو ہر حال میں اُس کے وفادار رہتے ہیں۔‏ جیسا کہ ہم نے اِس کتاب کے پہلے باب میں دیکھا ہے،‏ یہوواہ خدا اُن لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو محبت کی بِنا پر اُس کے فرمانبردار رہتے ہیں۔‏ امثال ۳:‏۳۲ میں لکھا ہے:‏ ”‏راست‌بازوں کے ساتھ اُس کی رفاقت ہے۔‏“‏ ‏(‏نیو اُردو بائبل ورشن)‏ یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو ’‏اپنے خیمے میں رہنے‘‏ کی دعوت دیتا ہے جو اُس کی توقعات پر پورا اُترتے ہیں۔‏ وہ اُن کی عبادت کو قبول کرتا ہے اور اُن کی دُعائیں بھی سنتا ہے۔‏—‏زبور ۱۵:‏۱-‏۵‏۔‏

۶.‏ (‏ا)‏ ہم یسوع مسیح کے لئے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے جو اُس کے بیٹے سے محبت رکھتے ہیں؟‏

۶ یہوواہ خدا اُن لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو اُس کے اکلوتے بیٹے یسوع مسیح سے محبت رکھتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏اگر کوئی مجھ سے محبت رکھے تو وہ میرے کلام پر عمل کرے گا اور میرا باپ اُس سے محبت رکھے گا اور ہم اُس کے پاس آئیں گے اور اُس کے ساتھ سکونت کریں گے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۳‏)‏ ہم یسوع مسیح کے لئے محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ ہم اُس کے حکموں پر عمل کرنے سے ایسا کر سکتے ہیں۔‏ اِن حکموں میں خوشخبری کی مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کے حکم بھی شامل ہیں۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ یوحنا ۱۴:‏۱۵،‏ ۲۱‏)‏ اِس کے علاوہ ہم یسوع مسیح کے ’‏نقشِ‌قدم پر چلنے‘‏ سے بھی اُس کے لئے محبت ظاہر کرتے ہیں۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں اُس کی طرح بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ یہوواہ خدا اُن لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو اُس کے بیٹے سے محبت رکھتے ہیں اور اُس کے نقشِ‌قدم پر چلتے ہیں۔‏

۷.‏ یہوواہ خدا کے دوستوں کو اپنے دوست بنانا دانشمندی کی بات کیوں ہے؟‏

۷ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ یہوواہ خدا صرف ایسے لوگوں کو اپنے دوستوں کے طور پر قبول کرتا ہے جو ایمان،‏ فرمانبرداری اور وفاداری ظاہر کرتے ہیں اور یسوع مسیح سے محبت رکھتے ہیں۔‏ لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏کیا یہ تمام خوبیاں میرے دوستوں میں بھی پائی جاتی ہیں؟‏ کیا میرے دوست یہوواہ خدا کے دوست ہیں؟‏“‏ ایسے لوگوں سے دوستی کرنا دانشمندی کی بات ہے کیونکہ ہم اُن کی خوبیوں کو اپنائیں گے۔‏ وہ شوق سے بادشاہت کی مُنادی کرتے ہیں اور اِس لئے ہم بھی شوق سے اِس کام میں حصہ لیں گے۔‏ یوں ہم یہوواہ خدا کو خوش کرنے کے عزم پر قائم رہیں گے۔‏—‏ صفحہ ۲۹ پر بکس ”‏اچھے دوستوں کی پہچان کیا ہے؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏

دوستی کی عمدہ مثالوں سے سیکھیں

۸.‏ آپ اِن لوگوں کی دوستی سے کیا سیکھ سکتے ہیں:‏ (‏ا)‏ نعومی اور رُوت؟‏ (‏ب)‏ سدرک،‏ میسک اور عبدنجو؟‏ (‏ج)‏ پولس رسول اور تیمتھیس؟‏

۸ بائبل میں بہت سے ایسے لوگوں کی مثالیں دی گئی ہیں جنہوں نے اچھے دوست بنائے تھے۔‏ اِس سلسلے میں آپ نعومی اور اُس کی بہو رُوت کی دوستی،‏ سدرک،‏ میسک اور عبدنجو کی دوستی،‏ اور پولس رسول اور تیمتھیس کی دوستی کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔‏ (‏روت ۱:‏۱۶؛‏ دانی‌ایل ۳:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۱۷؛‏ فلپیوں ۲:‏۲۰-‏۲۲‏)‏ آئیں ہم دوستی کی ایک اچھی مثال پر تفصیل سے غور کریں۔‏ یہ یونتن اور داؤد کی دوستی ہے۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ داؤد اور یونتن کی دوستی کس بنیاد پر قائم تھی؟‏

۹ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ جب داؤد نے جولیت کو مار ڈالا تو ”‏یونتنؔ کا دل داؔؤد کے دل سے اَیسا مل گیا کہ یونتنؔ اُس سے اپنی جان کے برابر محبت کرنے لگا۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۸:‏۱‏)‏ حالانکہ اُن دونوں کی عمر میں کافی فرق تھا لیکن وہ دونوں گہرے دوست بن گئے اور اُن کی دوستی زندگیبھر قائم رہی۔‏ * (‏۲-‏سموئیل ۱:‏۲۶‏)‏ اُن کی دوستی کس بنیاد پر قائم تھی؟‏

۱۰ داؤد اور یونتن دونوں یہوواہ خدا سے محبت رکھتے تھے اور اُنہوں نے اُس کے وفادار رہنے کی ٹھان لی تھی۔‏ یہی اُن کی دوستی کی بنیاد تھی۔‏ اُنہیں ایک دوسرے کی خوبیاں پسند تھیں۔‏ یونتن اِس بات سے بہت متاثر ہوا کہ داؤد نے خدا کے نام کی خاطر بڑی بہادری دکھائی تھی۔‏ داؤد اِس لئے یونتن کا احترام کرتا تھا کیونکہ یونتن نے یہوواہ خدا کے فیصلوں کو قبول کِیا اور داؤد کی خاطر خطرہ مول لینے کو تیار تھا۔‏ ذرا اُس واقعے پر غور کریں جب داؤد اپنے دوست یونتن کے باپ ساؤل سے بچنے کے لئے بیابان میں رہنے پر مجبور ہو گیا تھا۔‏ اُس وقت داؤد بڑی افسردگی کا شکار تھا۔‏ یونتن اُس کے لئے اپنی وفاداری ظاہر کرتے ہوئے ”‏داؔؤد کے پاس .‏ .‏ .‏ گیا اور خدا میں اُس کا ہاتھ مضبوط کِیا۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۳:‏۱۶‏)‏ بِلاشُبہ داؤد بہت خوش ہوا ہوگا کہ اُس کا عزیز دوست اُس کی ہمت بڑھانے کے لئے اُس سے ملنے آیا۔‏ *

۱۱.‏ ہم یونتن اور داؤد کی مثال سے دوستی کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۱ ہم یونتن اور داؤد کی مثال سے دوستی کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہمیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنی چاہئے جو اپنی زندگی میں خدا کو پہلا درجہ دیتے ہیں۔‏ یہ ایسے لوگ ہیں جو بائبل میں پائے جانے والے اصولوں پر عمل کرتے ہیں اور خدا کے وفادار رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔‏ ایسے لوگوں کی رفاقت سے ہماری حوصلہ‌افزائی ہوگی اور ہم تازہ‌دم ہو جائیں گے۔‏ (‏رومیوں ۱:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ ایسے دوست ہمیں صرف یہوواہ خدا کے خادموں میں مل سکتے ہیں۔‏ لیکن کیا اِس کا مطلب ہے کہ ہر کوئی جو ہمارے اجلاسوں پر آتا ہے،‏ اچھا دوست ثابت ہوگا؟‏

سوچ‌سمجھ کر دوستوں کا انتخاب کریں

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ ہمیں کلیسیا میں بھی سوچ‌سمجھ کر دوستوں کا انتخاب کیوں کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ پہلی صدی میں کئی کلیسیاؤں میں کونسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی؟‏ (‏ج)‏ اِس صورتحال کی وجہ سے پولس رسول نے مسیحیوں کو کونسی آگاہیاں دیں؟‏

۱۲ ہمیں کلیسیا میں بھی سوچ‌سمجھ کر دوستوں کا انتخاب کرنا چاہئے۔‏ یاد رکھیں کہ ایک درخت کے کئی پھل جلد پک جاتے ہیں جبکہ دوسروں کو پکنے میں زیادہ دیر لگتی ہے۔‏ اِسی طرح ہر کلیسیا میں ایسے مسیحی ہیں جن کا ایمان پُختہ ہوتا ہے جبکہ دوسروں کو اپنے ایمان کو پُختہ بنانے میں زیادہ دیر لگتی ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۲–‏۶:‏۳‏)‏ اِس لئے ہمیں ایسے مسیحیوں سے دوستی کرنی چاہئے جن کی رفاقت میں رہ کر ہمارا ایمان پُختہ ہو جائے گا۔‏ لیکن اِس کے ساتھ‌ساتھ ہم اُن مسیحیوں سے کنارہ نہیں کریں گے جن کا ایمان کمزور ہے یا جنہوں نے حال ہی میں یہوواہ خدا کی عبادت کرنا شروع کی ہے۔‏ اِس کی بجائے ہم بڑے صبر اور پیار سے اُن کی مدد کریں گے تاکہ وہ بھی خدا کی سوچ اپنانے میں ترقی کر سکیں۔‏—‏رومیوں ۱۴:‏۱؛‏ ۱۵:‏۱‏۔‏

۱۳ کبھی‌کبھار کلیسیا کے چند افراد کا چال‌چلن معیاری نہیں ہوتا یا پھر وہ بزرگوں پر بڑبڑاتے ہیں اور دوسروں کی نکتہ‌چینی کرتے ہیں۔‏ ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ قریبی دوستی نہیں رکھنی چاہئے۔‏ پہلی صدی عیسوی میں کئی کلیسیاؤں میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔‏ اِن کے زیادہ‌تر افراد یہوواہ خدا کے وفادار تھے لیکن بعض افراد خدا کے معیاروں کے مطابق نہیں چل رہے تھے۔‏ شہر کرنتھس کی کلیسیا میں ایسے لوگ تھے جنہوں نے چند مسیحی عقیدوں کو ترک کر دیا تھا۔‏ پولس رسول نے اِس کلیسیا کو یوں خبردار کِیا:‏ ”‏فریب نہ کھاؤ۔‏ بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۱۲،‏ ۳۳‏)‏ اُس نے تیمتھیس کو اِس بات سے آگاہ کِیا کہ کئی مسیحیوں کا چال‌چلن اچھا نہیں ہے اور اُسے تاکید کی کہ وہ ایسے مسیحیوں سے الگ رہے اور اِن سے دوستی نہ کرے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۰-‏۲۲‏۔‏

۱۴.‏ ہم پولس رسول کی آگاہیوں سے کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ ہم پولس رسول کی آگاہیوں سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمیں ایسے لوگوں سے رفاقت نہیں رکھنی چاہئے جو ہم پر بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔‏ یہ اصول اُس صورت میں بھی لاگو ہوتا ہے اگر ایسے لوگ کلیسیا کے رُکن ہوں۔‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۶،‏ ۷،‏ ۱۴‏)‏ یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے کے لئے ہمیں اپنی سوچ اور اپنے چال‌چلن پر نظر رکھنی چاہئے۔‏ یاد رکھیں کہ جس طرح اسپنج پانی کو جذب کرتا ہے اِسی طرح ہم اپنے دوستوں کی سوچ اور طورطریقوں کو اپنا لیتے ہیں۔‏ اگر ہم اسپنج کو گندے پانی کی بالٹی میں ڈالیں گے تو کیا اسپنج صاف رہے گا؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اِسی طرح اگر ہم ایسے لوگوں سے رفاقت رکھیں گے جو بُری عادتیں رکھتے ہیں تو ہماری عادتیں بھی بگڑ جائیں گی۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۶‏۔‏

یہوواہ خدا کے دوست آپ کے لئے بہترین دوست ثابت ہوں گے

۱۵.‏ آپ کلیسیا میں ایسے دوست کیسے بنا سکتے ہیں جو خدا کی عبادت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے ہیں؟‏

۱۵ خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا کے زیادہ‌تر خادم ہمارے لئے اچھے دوست ثابت ہوں گے۔‏ (‏زبور ۱۳۳:‏۱‏)‏ آپ کلیسیا میں ایسے لوگوں کی دوستی کیسے حاصل کر سکتے ہیں جو خدا کی عبادت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے ہیں؟‏ خود میں ایسی خوبیاں پیدا کریں جو خدا کو پسند ہیں اور اپنا چال‌چلن نیک رکھیں۔‏ اِس طرح ایسے لوگ جو خدا کے قریب ہیں آپ سے دوستی کرنا چاہیں گے۔‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کو نئے دوست بنانے کے لئے کچھ عملی قدم اُٹھانے پڑیں۔‏ (‏ صفحہ ۳۰ پر بکس ”‏اُنہوں نے اچھے دوست بنائے“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ اُن لوگوں کے ساتھ دوستی کریں جو ایسی خوبیاں رکھتے ہیں جنہیں آپ خود میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‏ بائبل کے اِس مشورے پر عمل کریں کہ ”‏کشادہ دل ہو جاؤ۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں کسی مسیحی سے دوستی کرتے وقت اِس بات کو اہمیت نہیں دینی چاہئے کہ وہ کس قوم،‏ طبقے یا تہذیب سے تعلق رکھتا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۳؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏)‏ اپنے ہم‌عمروں کے علاوہ دوسروں سے بھی دوستی کریں۔‏ یاد رکھیں کہ یونتن داؤد سے عمر میں بہت بڑا تھا۔‏ اپنے سے بڑی عمر والے مسیحیوں سے دوستی کرنے سے آپ اُن کے تجربے اور دانشمندی سے فائدہ حاصل کر سکیں گے۔‏

جب مسیحیوں میں مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں

۱۶،‏ ۱۷.‏ اگر کوئی مسیحی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے تو ہمیں اجلاسوں پر جانا بند کیوں نہیں کرنا چاہئے؟‏

۱۶ چونکہ مسیحی طرح‌طرح کی شخصیتوں کے مالک ہیں اور اُن کا پس‌منظر ایک دوسرے سے فرق ہے اِس لئے کبھی‌کبھار کلیسیا میں مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‏ شاید ایک مسیحی کوئی ایسی بات کہے یا کرے جس سے ہمیں ٹھیس پہنچے۔‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۸‏)‏ بعض اوقات مسئلے اِس لئے بھی پیدا ہوتے ہیں کیونکہ کلیسیا کے ایک فرد کو دوسرے کے طورطریقے پسند نہیں ہیں،‏ یا شاید بعض بہن‌بھائیوں میں کوئی غلط‌فہمی ہو جائے یاپھر وہ ایک معاملے کے بارے میں فرق رائے رکھتے ہوں۔‏ جب ایسے مسئلے کھڑے ہوتے ہیں تو کیا ہم اجلاسوں پر جانا بند کر دیں گے؟‏ اگر یہوواہ خدا اور اُس کے خادموں کے لئے ہماری محبت سچی ہے تو ہم ایسا رویہ نہیں اپنائیں گے۔‏

۱۷ یہوواہ خدا ہمارا خالق اور پروردگار ہے۔‏ وہ ہماری محبت اور عبادت کا مستحق ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ وہ مسیحی کلیسیا کے ذریعے اپنے خادموں کی راہنمائی کرتا ہے اِس لئے ہمیں کلیسیا کی حمایت کرنی چاہئے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۷‏)‏ لہٰذا اگر ایک بہن یا بھائی ہمیں ٹھیس پہنچاتا ہے یا مایوس کرتا ہے تو ہمیں اجلاسوں پر جانا بند نہیں کرنا چاہئے۔‏ ذرا سوچیں کہ ایسا کرنا کس قدر غلط ہوتا۔‏ یہوواہ خدا نے تو ہمیں ٹھیس نہیں پہنچائی۔‏ اگر ہم یہوواہ خدا سے گہری محبت رکھتے ہیں تو ہم اُس سے اور اُس کے خادموں سے کبھی مُنہ نہیں موڑیں گے۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۱۶۵‏۔‏

۱۸.‏ (‏ا)‏ ہم کلیسیا میں امن کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ دوسروں کو معاف کرنے سے ہمیں کونسی برکتیں حاصل ہوں گی؟‏

۱۸ اگر ہم واقعی اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں سے محبت رکھتے ہیں تو ہم کلیسیا میں امن کو فروغ دیں گے۔‏ یہوواہ خدا اِس بات کی توقع نہیں کرتا کہ ہم کبھی غلطی نہیں کریں گے۔‏ لہٰذا ہمیں بھی اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں سے ایسی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔‏ یاد رکھیں کہ ہم سب سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔‏ اِس لئے ہمیں دوسروں کی چھوٹی‌موٹی غلطیوں کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔‏ (‏امثال ۱۷:‏۹؛‏ ۱-‏پطرس ۴:‏۸‏)‏ اگر ہمارے دل میں اپنے بہن‌بھائیوں کے لئے سچی محبت ہے تو ہم ’‏ایک دوسرے کے قصور معاف کرنے‘‏ کو تیار ہوں گے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۳‏)‏ ایسا کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ اگر ہم اپنے بھائی یا بہن کی غلطی کے بارے میں سوچتے رہیں گے تو ہم اپنے دل میں غصے کو جڑ پکڑنے دیں گے۔‏ شاید ہم سوچنے لگیں کہ اُس سے خفا رہنے سے ہم اُس کو سزا دے رہے ہیں۔‏ لیکن دل میں غصہ بٹھانے سے ہم دراصل اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔‏ اِس لئے ہمیں دوسروں کو معاف کر دینا چاہئے،‏ خاص طور پر جب وہ ہم سے معافی مانگتے ہیں۔‏ (‏لوقا ۱۷:‏۳،‏ ۴‏)‏ ایسا کرنے سے ہمیں بہت سی برکتیں حاصل ہوں گی،‏ مثلاً ہمیں اطمینان حاصل ہوگا،‏ کلیسیا کا اتحاد برقرار رہے گا اور ہم خدا کی قربت میں رہیں گے۔‏—‏متی ۶:‏۱۴،‏ ۱۵؛‏ رومیوں ۱۴:‏۱۹‏۔‏

جب کسی کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے

۱۹.‏ ہمیں کس صورت میں کلیسیا کے کسی فرد سے تعلق توڑنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۹ بعض اوقات ہمیں ایک ایسے شخص سے تعلق توڑنا پڑتا ہے جو کلیسیا کا رُکن ہوا کرتا تھا۔‏ ایسی صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب ایک شخص سنگین گُناہ کرنے پر تائب نہیں ہوتا اور اُسے کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے یا جب ایک شخص جھوٹے عقیدوں کی تعلیم دیتا ہے یا پھر جب وہ خود کلیسیا سے تعلق توڑ دیتا ہے۔‏ خدا کے کلام میں ہمیں تاکید کی گئی ہے کہ ایسے لوگوں سے ”‏صحبت نہ رکھو۔‏“‏ * (‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۱-‏۱۳؛‏ ۲-‏یوحنا ۹-‏۱۱‏)‏ اگر یہ شخص ہمارا دوست یا رشتہ‌دار ہے تو اُس سے تعلق توڑنا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔‏ ایسی صورت میں کیا ہم یہوواہ خدا کے وفادار رہیں گے؟‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا ہم سے توقع رکھتا ہے کہ ہم ہر حال میں اُس کے وفادار اور فرمانبردار رہیں۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ (‏ا)‏ بدکار لوگوں کو کلیسیا سے خارج کرنا محبت کی راہ کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ یہ کیوں اہم ہے کہ ہم سوچ‌سمجھ کر دوستوں کا انتخاب کریں؟‏

۲۰ بدکار لوگوں کو کلیسیا سے خارج کرنا محبت کی راہ ہے۔‏ اِس بندوبست کی وجہ سے ہمیں یہوواہ خدا کے پاک نام کے لئے احترام ظاہر کرنے کا موقع ملتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ کلیسیا کے رُکن اُن لوگوں کے بُرے اثر سے محفوظ رہتے ہیں جو جان‌بوجھ کر گُناہ کرتے ہیں۔‏ اِس طرح کلیسیا کی پاکیزگی برقرار رہتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُس کے رُکن سکون سے خدا کی عبادت کر سکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کلیسیا میں خطروں سے محفوظ ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۷؛‏ عبرانیوں ۱۲:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ ایک بدکار شخص سے تعلق توڑنے سے ہم اُس کے لئے بھی محبت ظاہر کرتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ ہوش میں آ کر دوبارہ سے یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قدم اُٹھائے۔‏—‏عبرانیوں ۱۲:‏۱۱‏۔‏

۲۱ ہم اِس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتے کہ ہم اپنے دوستوں کی خوبیوں اور خامیوں کو اپناتے ہیں۔‏ اِس لئے یہ بہت اہم ہے کہ ہم سوچ‌سمجھ کر دوستوں کا انتخاب کریں۔‏ جب ہم اُن لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جن سے یہوواہ خدا محبت رکھتا ہے تو ہم اُس کے دوستوں کو اپنے دوست بنائیں گے۔‏ ایسے لوگ ہمارے لئے بہترین دوست ثابت ہوں گے۔‏ اُن کے اچھے اثر کی وجہ سے ہم یہوواہ خدا کی محبت میں قائم رہیں گے۔‏

^ پیراگراف 2 امثال ۱۳:‏۲۰ میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”‏ساتھی“‏ کِیا گیا ہے اِس کا مطلب ’‏دوست بنانا‘‏ یا ’‏دوستی کرنا‘‏ بھی ہے۔‏—‏قضاة ۱۴:‏۲۰؛‏ امثال ۲۲:‏۲۴‏۔‏

^ پیراگراف 4 ابرہام کو ایسا حکم دینے سے یہوواہ خدا نے اِس بات کی جھلک پیش کی کہ وہ خود انسانوں کے لئے اپنا اکلوتا بیٹا قربان کرنے کو تیار تھا۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ خدا نے ابرہام کو اپنا بیٹا قربان کرنے سے روک لیا اور اُس کے بدلے میں ایک مینڈھے کی قربانی قبول کر لی۔‏—‏پیدایش ۲۲:‏۱،‏ ۲،‏ ۹-‏۱۳‏۔‏

^ پیراگراف 9 جب داؤد نے جولیت کو مار ڈالا تو وہ ”‏محض لڑکا“‏ یعنی نوجوان تھا۔‏ یونتن ۶۰ سال کا تھا جب وہ فوت ہو گیا۔‏ اُس وقت داؤد تقریباً ۳۰ سال کا تھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۷:‏۳۳؛‏ ۳۱:‏۲؛‏ ۲-‏سموئیل ۵:‏۴‏)‏ لہٰذا اُن کی عمر میں تقریباً ۳۰ سال کا فرق تھا۔‏

^ پیراگراف 10 پہلے سموئیل ۲۳:‏۱۷ کے مطابق یونتن نے داؤد کی ہمت بڑھانے کے لئے پانچ باتوں کا ذکر کِیا:‏ (‏۱)‏ اُس نے اُس سے کہا:‏ ”‏تُو مت ڈر۔‏“‏ (‏۲)‏ اُس نے داؤد کو یقین دلایا کہ ساؤل بادشاہ اُسے قتل کرنے میں ناکام رہے گا۔‏ (‏۳)‏ اُس نے داؤد کو خدا کے وعدے کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ”‏تُو اؔسرائیل کا بادشاہ ہوگا۔‏“‏ (‏۴)‏ اُس نے داؤد کا وفادار رہنے کا وعدہ کِیا۔‏ (‏۵)‏ اُس نے داؤد کو بتایا کہ اُس کے باپ ساؤل کو بھی معلوم ہے کہ وہ داؤد کا ساتھ دے رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 19 خارج‌شُدہ اشخاص کے سلسلے میں پیدا ہونے والے چند سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لئے اِس کتاب کے صفحہ ۲۰۷ تا ۲۰۹ کو دیکھیں۔‏