مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تیرھواں باب

تہواروں اور رسم و رواج کے بارے میں خدا کا نظریہ

تہواروں اور رسم و رواج کے بارے میں خدا کا نظریہ

‏”‏تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔‏“‏—‏افسیوں ۵:‏۱۰‏۔‏

۱.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا کس طرح کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کیوں معلوم کرتے رہنا چاہئے کہ خدا کو کیا پسند ہے؟‏

یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۴:‏۲۳‏)‏ جب یہوواہ خدا کو ایسے نیک لوگ مل جاتے ہیں تو وہ اُنہیں اپنی طرف اور اپنے بیٹے کی طرف کھینچ لاتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۶:‏۴۴‏)‏ خدا کی خدمت کرنا واقعی ایک بہت بڑا شرف ہے۔‏ البتہ جو لوگ سچائی کی راہ پر چل دیتے ہیں اُنہیں آئندہ بھی ’‏تجربہ سے معلوم کرتے رہنا چاہئے کہ خداوند کو کیا پسند ہے‘‏ کیونکہ شیطان اُنہیں گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔‏—‏افسیوں ۵:‏۱۰؛‏ مکاشفہ ۱۲:‏۹‏۔‏

۲.‏ یہوواہ خدا ایسے لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے جو اپنی عبادت کو جھوٹے مذہب سے آلودہ کرتے ہیں؟‏

۲ ذرا اُس واقعے پر غور کریں جب بنی‌اسرائیل کوہِ‌سینا کے نزدیک ڈیرا لگائے ہوئے تھے۔‏ اُس وقت اُنہوں نے ہارون سے کہا کہ ”‏ہمارے لئے دیوتا بنا۔‏“‏ ہارون نے اُن کی درخواست پوری کی اور سونے کا ایک بچھڑا بنایا۔‏ اُس نے تاثر دیا کہ یہ مجسّمہ یہوواہ خدا تھا کیونکہ اُس نے اعلان کِیا کہ ”‏کل [‏یہوواہ]‏ کے لئے عید ہوگی۔‏“‏ سچے اور جھوٹے مذہب کے اِس ملاپ پر یہوواہ خدا کا کیا ردِعمل رہا؟‏ اُس نے تقریباً تین ہزار بُت‌پرستوں کو ہلاک کر دیا۔‏ (‏خروج ۳۲:‏۱-‏۶،‏ ۱۰،‏ ۲۸‏)‏ ہم اِس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ اگر ہم خدا کی محبت میں قائم رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں ’‏ناپاک چیزوں کو ہاتھ نہیں لگانا‘‏ چاہئے یعنی ہمیں اپنی عبادت کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک رکھنا چاہئے۔‏—‏یسعیاہ ۵۲:‏۱۱؛‏ حزقی‌ایل ۴۴:‏۲۳؛‏ گلتیوں ۵:‏۹‏۔‏

۳،‏ ۴.‏ ہمیں بائبل کے اصولوں کی روشنی میں اپنے علاقے کے رسم‌ورواج اور تہواروں پر کیوں غور کرنا چاہئے؟‏

۳ یسوع مسیح کے رسولوں نے کچھ عرصے تک مسیحی مذہب کو آلودہ ہونے سے بچائے رکھا۔‏ لیکن اُن کی موت کے بعد بہت سے مسیحیوں نے سچائی کے مطابق خدا کی عبادت کرنا چھوڑ دیا۔‏ اُنہوں نے بُت‌پرستوں کے رسم‌ورواج اور تہواروں کو اپنانا شروع کر دیا اور اِن پر مسیحی ہونے کا رنگ چڑھا دیا۔‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۷،‏ ۱۰‏)‏ اُن رسم‌ورواج اور تہواروں کی پہچان کیا ہے جو خدا کو پسند نہیں ہیں؟‏ اِن میں خدا کی روح کا نہیں بلکہ دُنیا کی روح کا عنصر پایا جاتا ہے۔‏ یہ غلط خواہشات،‏ جھوٹے عقیدوں اور جادوگری کو فروغ دیتے ہیں۔‏ غور کریں کہ بائبل میں اِن تمام باتوں کا ذکر ’‏بڑے شہر بابل‘‏ کے سلسلے میں ہوا ہے۔‏ * (‏مکاشفہ ۱۸:‏۲-‏۴،‏ ۲۳‏)‏ ذرا سوچیں کہ جب بُت‌پرستوں نے قدیم زمانے میں اپنے رسم‌ورواج شروع کئے تو یہوواہ خدا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور آج وہ دیکھ رہا ہے کہ یہی رسم‌ورواج ابھی بھی عام ہیں۔‏ خدا اُس زمانے میں بھی اِن رسم‌ورواج کو بُرا خیال کرتا تھا اور وہ آج بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہے۔‏ چونکہ ہم خدا کی محبت میں قائم رہنا چاہتے ہیں اِس لئے ہمیں بھی اِن رسم‌ورواج کے بارے میں خدا کا نظریہ اپنانا چاہئے۔‏—‏۲-‏یوحنا ۶،‏ ۷‏۔‏

۴ سچے مسیحی جانتے ہیں کہ بعض تہوار یہوواہ خدا کو پسند نہیں ہیں۔‏ لیکن یہ جاننا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں اِس بات کا عزم بھی کر لینا چاہئے کہ ہم کسی طرح سے بھی اِن میں شریک نہیں ہوں گے۔‏ اِس عزم کو مضبوط کرنے کے لئے آئیں ہم دیکھیں کہ خدا اِن تہواروں سے نفرت کیوں کرتا ہے۔‏

کرسمس—‏سورج دیوتا کا تہوار

۵.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یسوع ۲۵ دسمبر کو نہیں پیدا ہوا تھا؟‏

۵ بائبل میں اِس بات کا ذکر نہیں کِیا گیا کہ یسوع مسیح کی سالگرہ منائی گئی تھی یہاں تک کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ یسوع کس تاریخ پر پیدا ہوا‏۔‏ البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ ۲۵ دسمبر کو یعنی سردی کے موسم میں نہیں پیدا ہوا تھا۔‏ * اِس کی کیا وجہ ہے؟‏ لوقا کی انجیل میں بتایا گیا ہے کہ جب یسوع پیدا ہوا تو چرواہے ”‏رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلّہ کی نگہبانی کر رہے تھے۔‏“‏ (‏لوقا ۲:‏۸-‏۱۱‏)‏ غور کریں کہ لوقا نے خاص طور پر اِس بات کا ذکر کِیا کہ چرواہے رات کو میدان میں تھے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سال‌بھر میدان میں رات نہیں گزارتے تھے۔‏ دسمبر کے مہینے میں بیت‌لحم کے علاقے میں بارش اور برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے چرواہے بھیڑوں کو رات کے وقت بھیڑخانے میں رکھتے تھے۔‏ اِس سلسلے میں ایک اَور بات پر غور کریں۔‏ یوسف اور مریم اِس لئے بیت‌لحم گئے کیونکہ قیصر اَوگوستُس نے مردم‌شماری کا حکم دیا تھا۔‏ (‏لوقا ۲:‏۱-‏۷‏)‏ اِس مردم‌شماری کے سلسلے میں ہر شخص کو اپنےاپنے آبائی شہر کو لوٹنا پڑا۔‏ قیصر جانتا تھا کہ یہودی لوگ رومی حکومت کو ناپسند کرتے تھے۔‏ اگر وہ اُنہیں سردی کے موسم میں سفر کرنے کا حکم دیتا تو یہ بغاوت کو دعوت دینے کے برابر ہوتا۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ کرسمس کی شروعات کہاں سے ہوئی؟‏ (‏ب)‏ کرسمس کے موقعے پر لوگ جس نیت سے تحفے دیتے ہیں،‏ یہ بائبل کے کس اصول کے خلاف ہے؟‏

۶ بائبل میں کرسمس کا ذکر نہیں کِیا گیا ہے۔‏ اِس تہوار کی شروعات بُت‌پرستوں کے تہواروں سے ہوئی۔‏ مثال کے طور پر رومی لوگ دسمبر کے آخری حصے میں کھیتی‌باڑی کے دیوتا زحل کے نام پر تہوار مناتے تھے۔‏ ایک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق سورج دیوتا متھرا کے پجاری ۲۵ دسمبر کو ”‏سورج کا جنم‌دن“‏ مناتے تھے۔‏ اِس میں آگے بتایا گیا ہے کہ ”‏کرسمس کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہوا جب روم میں سورج کی پرستش زوروں پر تھی۔‏“‏ ‏(‏نیو کیتھولک انسائیکلوپیڈیا)‏ یہ تقریباً ۳۰۰ عیسوی کی بات تھی۔‏

سچے مسیحی اِس لئے تحفے دیتے ہیں کیونکہ اُنہیں دوسروں سے دلی محبت ہے

۷ اِن تہواروں کے موقعے پر بُت‌پرست ایک دوسرے کو تحفے دیتے اور جشن مناتے اور یہی رواج آج بھی کرسمس کے وقت عام ہیں۔‏ لیکن اُس زمانے کی طرح آج بھی لوگ اکثر مجبوری کے تحت تحفے دیتے ہیں۔‏ سچے مسیحی ۲-‏کرنتھیوں ۹:‏۷ میں پائے جانے والے اصول پر عمل کرتے ہیں،‏ جہاں لکھا ہے:‏ ”‏جس قدر ہر ایک نے اپنے دل میں ٹھہرایا ہے اُسی قدر دے نہ دریغ کرکے اور نہ لاچاری سے کیونکہ خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔‏“‏ سچے مسیحی دوسروں سے محبت رکھتے ہیں اِس لئے اُنہیں تحفے دینے اور سخاوت کرنے کے لئے کسی تہوار کا بہانہ نہیں چاہئے۔‏ اِس کے علاوہ وہ اِس اُمید سے تحفے نہیں دیتے کہ اُنہیں بدلے میں کچھ ملے گا۔‏ (‏لوقا ۱۴:‏۱۲-‏۱۴؛‏ اعمال ۲۰:‏۳۵‏)‏ بہت سے لوگ کرسمس کی مصروفیت کی وجہ سے ٹینشن لیتے ہیں اور اِس تہوار کا خرچہ پورا کرنے کے لئے قرض اُٹھاتے ہیں۔‏ سچے مسیحی اِس بات پر خوش ہیں کہ وہ اِس بوجھ سے آزاد ہیں۔‏—‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰؛‏ یوحنا ۸:‏۳۲‏۔‏

۸.‏ کیا مجوسیوں نے یسوع کے جنم‌دن پر اُسے تحفے دئے تھے؟‏ اِس بات کی وضاحت کریں۔‏

۸ کئی لوگ شاید اعتراض کریں کہ کیا یسوع کے جنم دن پر مجوسیوں نے اُسے تحفے نہیں دئے تھے؟‏ دراصل مجوسی اُس رات نہیں آئے تھے جب یسوع پیدا ہوا تھا۔‏ بائبل سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب مجوسی یسوع سے ملنے آئے تو وہ چند مہینوں کا بچہ تھا اور ایک اصطبل میں نہیں بلکہ ایک گھر میں رہ رہا تھا۔‏ تو پھر مجوسیوں نے یسوع کو اُس موقعے پر تحفے کیوں دئے تھے؟‏ اُنہوں نے احترام دکھانے کے لئے ایسا کِیا تھا۔‏ اُس زمانے میں جب لوگ کسی اعلیٰ شخصیت سے ملاقات کرتے تو وہ اُسے تحفوں کا نذرانہ پیش کرتے تھے۔‏—‏۱-‏سلاطین ۱۰:‏۱،‏ ۲،‏ ۱۰،‏ ۱۳؛‏ متی ۲:‏۲،‏ ۱۱‏۔‏

 

کیا سچے مسیحیوں کو سالگرہ منانی چاہئے؟‏

۹.‏ بائبل میں سالگرہ کی جن دو تقریبوں کا ذکر ہوا ہے،‏ اُن پر کیا واقع ہوا تھا اور اِس سے ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏

۹ بِلاشُبہ بچے کی پیدائش بڑی خوشی کا موقع ہے۔‏ (‏زبور ۱۲۷:‏۳‏)‏ لیکن بائبل میں اِس بات کا ذکر نہیں ہوا کہ خدا کے کسی خادم نے اپنی سالگرہ منائی تھی۔‏ اِس میں صرف دو لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنہوں نے اپنی سالگرہ منائی تھی،‏ یعنی مصر کا فرعون اور ہیرودیس اِنتپاس۔‏ (‏پیدایش ۴۰:‏۲۰-‏۲۲؛‏ مرقس ۶:‏۲۱-‏۲۹‏)‏ بائبل میں اِن تقریبوں کو اچھا قرار نہیں دیا گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر اِس میں بتایا گیا ہے کہ ہیرودیس کی سالگرہ پر یوحنا بپتسمہ دینے والے کو قتل کِیا گیا۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ پہلی صدی کے مسیحی جنم‌دن منانے کو کیسا خیال کرتے تھے،‏ اور اِس کی کیا وجہ تھی؟‏

۱۰ ایک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق ”‏پہلی صدی کے مسیحی جنم‌دن منانے کو بُت‌پرستوں کا رواج خیال کرتے تھے۔‏“‏ ‏(‏دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا)‏ مثال کے طور پر قدیم زمانے کے یونانی لوگ مانتے تھے کہ بچے کی پیدائش کے موقعے پر ایک روح موجود ہوتی ہے جو عمربھر اُس بچے کا تحفظ کرتی ہے۔‏ کتاب جنم‌دن کی تاریخ * کے مطابق یہ روح ”‏اُس دیوی یا دیوتا کے ساتھ پُراسرار بندش رکھتی تھی جس کے جنم‌دن پر بچہ پیدا ہوتا۔‏“‏ اِس کے علاوہ نجومی قدیم زمانے سے ایک شخص کی قسمت دریافت کرنے کے لئے اُس کے جنم‌دن کو بڑی اہمیت دیتے آ رہے ہیں۔‏

 

۱۱ البتہ قدیم زمانے میں خدا کے خادم سالگرہ منانے کو صرف اِس لئے غلط خیال نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ بُت‌پرستوں کا رواج تھا۔‏ خدا کے خادم فروتن تھے۔‏ وہ اپنے آپ کو اتنا اہم نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اُس دن کو منائیں جب اُنہوں نے دُنیا میں حاضری فرمائی تھی۔‏ * (‏میکاہ ۶:‏۸؛‏ لوقا ۹:‏۴۸‏)‏ اپنی بڑائی کرنے کی بجائے وہ خدا کی بڑائی کرتے تھے اور زندگی کی نعمت کے لئے اُس کا شکر ادا کرتے تھے۔‏ *‏—‏زبور ۸:‏۳،‏ ۴؛‏ ۳۶:‏۹؛‏ مکاشفہ ۴:‏۱۱‏۔‏

۱۲.‏ مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے بہتر کیوں ہے؟‏

۱۲ خدا نے اُن لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے کا وعدہ کِیا ہے جو اپنی موت تک وفاداری سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔‏ (‏ایوب ۱۴:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ اِس لئے واعظ ۷:‏۱ میں لکھا ہے کہ ”‏نیک‌نامی بیش‌بہا عطر سے بہتر ہے اور مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے۔‏“‏ اِس وجہ سے مسیحیوں کو یسوع کا جنم‌دن نہیں بلکہ اُس کی موت کی یادگاری منانے کو کہا گیا ہے۔‏ یہ موزوں ہے کیونکہ یسوع مسیح نے ہماری نجات کے لئے اپنی جان دے کر ”‏افضل نام پایا۔‏“‏—‏لوقا ۲۲:‏۱۷-‏۲۰؛‏ عبرانیوں ۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

ایسٹر کی رسموں کی جڑ

۱۳،‏ ۱۴.‏ ایسٹر کی رسموں کی جڑ کیا ہے؟‏

۱۳ ایسٹر کو یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کی عید کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن دراصل یہ تہوار جھوٹے مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔‏ قدیم یورپ کے باشندے موسمِ‌بہار کی دیوی کی پوجا کرتے تھے جس کا نام اوسٹرا تھا۔‏ اِسی نام سے انگریزی زبان کا لفظ ایسٹر لیا گیا ہے۔‏ بہت سے ممالک میں ایسٹر منانے کے سلسلے میں خرگوش اور انڈے استعمال ہوتے ہیں۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏ ایک لغت کے مطابق انڈے ”‏قدیم زمانے سے پیدائش اور زندگی کی بحالی کی طرف اشارہ کرتے ہیں“‏ جبکہ خرگوش اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کی علامت ہے۔‏ ‏(‏انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسٹر دراصل بُت‌پرستوں کا تہوار ہے جسے یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کا تہوار قرار دیا گیا ہے۔‏ *

۱۴ کیا یہوواہ خدا یہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے کہ لوگ اُس کے بیٹے کے جی اُٹھنے کی یادگاری کو بُت‌پرستوں کی بیہودہ رسموں سے مناتے ہیں؟‏ ہرگز نہیں!‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ دراصل پاک صحیفوں میں یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کی یادگاری منانے کا حکم تک نہیں پایا جاتا ہے۔‏ لہٰذا اگر لوگ اِس یادگاری کو ایسٹر کی شکل دے کر مناتے ہیں تو یہ یہوواہ خدا کی دُگنی نافرمانی کرنے کے برابر ہے۔‏

مُقدسوں کی عید،‏ مُردوں کی عید اور ہیلووین

۱۵.‏ مُقدسوں کی عید،‏ مُردوں کی عید اور ہیلووین کن جھوٹے عقیدوں پر مبنی ہیں؟‏ (‏فٹ‌نوٹ کو بھی دیکھیں۔‏)‏

۱۵ مُقدسوں کی عید کیتھولک مذہب کے مُقدسوں کی یاد میں منائی جاتی ہے۔‏ مغربی ممالک میں یہ عید نومبر کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے۔‏ نیو کیتھولک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق غالباً یورپ میں رہنے والے بُت‌پرست کلٹی قبیلوں نے اِس تاریخ کو مقرر کِیا تھا کیونکہ ”‏یکم نومبر کو .‏ .‏ .‏ کلٹی لوگوں کے موسمِ‌سرما کا آغاز تھا۔‏ ممکن ہے کہ مسیحیوں نے اِسی وجہ سے اِس دن کو اپنے مُقدسوں کی عید کے لئے مقرر کِیا ہو۔‏ اِس کے علاوہ کلٹی قبیلے مُردوں کی یاد میں سم‌ہائن نامی عید مناتے تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ مسیحیوں نے سم‌ہائن کے رسم‌ورواج اپنا کر اِسے مسیحی شکل دی ہو۔‏“‏ جہاں تک کیتھولک مذہب کی مُردوں کی عید کا تعلق ہے یہ ۲ نومبر پر منائی جاتی ہے۔‏ اِس عید کے بارے میں نیو کیتھولک انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے:‏ ”‏گزری ہوئی صدیوں میں لوگوں کا خیال تھا کہ جو روحیں برزخ میں ہیں وہ [‏۲ نومبر]‏ کو جنِ‌بھوت اور چڑیلوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں اور اُن لوگوں کو ستاتی ہیں جنہوں نے اُن کی زندگی کے دوران اُنہیں نقصان پہنچایا تھا۔‏“‏ اِس عید پر لوگ خوراک کے نذرانے چڑھاتے،‏ جلوس کی شکل میں قبرستان جاتے وغیرہ۔‏ اور یہی رسمیں آج بھی عام ہیں۔‏ یہوواہ خدا سچائی کا خدا ہے۔‏ وہ ایسی عیدوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو جھوٹے مذہب کے عقیدوں اور بُت‌پرستوں کے رسم‌ورواج پر مبنی ہیں۔‏ *

شادی کے رسم‌ورواج

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ دُلہادُلہن کو شادی سے پہلے اِس بات پر تحقیق کیوں کرنی چاہئے کہ شادی کی کونسی رسمیں بائبل کے اصولوں کے خلاف ہیں؟‏ (‏ب)‏ چاول پھینکنے جیسی رسموں کے سلسلے میں مسیحیوں کو کن باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے؟‏

۱۶ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ’‏بڑے شہر بابل‘‏ میں ”‏دُلہے اور دُلہن کی آواز“‏ بھی سنائی دیتی ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۸:‏۲۳‏)‏ دراصل شادی کے بہت سے رسم‌ورواج جھوٹے مذاہب اور جادوگری سے تعلق رکھتے ہیں۔‏ اگر دُلہادُلہن اِن سے خبردار نہیں رہتے تو وہ یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو سکتے ہیں۔‏—‏مرقس ۱۰:‏۶-‏۹‏۔‏

۱۷ شادی کی رسمیں ہر مُلک میں فرق ہوتی ہیں۔‏ حالانکہ زیادہ‌تر لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہے لیکن شادی کی بہت سی رسمیں شہر بابل کی بُت‌پرستانہ رسموں سے تعلق رکھتی ہیں۔‏ اکثر یہ رسمیں اِس لئے کی جاتی ہیں تاکہ دُلہادُلہن کے نصیب اچھے ہوں۔‏ مثال کے طور پر کئی ممالک میں شادی کے موقعے پر چاول یا دوسری اشیا پھینکنے کا رواج ہے۔‏ قدیم زمانے میں اِس رواج کو اِس لئے رائج کِیا گیا کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر بدروحوں کو کچھ کھلایا جائے تو وہ دُلہادُلہن کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔‏ اِس کے علاوہ چاول قدیم زمانے سے لمبی عمر،‏ اولاد اور خوشی پانے کے لئے رسموں میں استعمال ہوتے ہیں۔‏ جو لوگ خدا کی محبت میں قائم رہنا چاہتے ہیں وہ ایسی رسموں کو ہرگز نہیں اپنائیں گے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۴-‏۱۸‏۔‏

۱۸.‏ شادی کی تقریب کے سلسلے میں دُلہادُلہن اور مہمانوں کو بائبل کے کونسے اصول ذہن میں رکھنے چاہئیں؟‏

۱۸ خدا کے خادم ایسے طورطریقوں سے بھی گریز کرتے ہیں جن سے شادی کے موقعے پر دُنیاوی ماحول پیدا ہو یا جو کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث بنیں۔‏ مثال کے طور پر وہ ایسی شرارتیں نہیں کریں گے اور ایسے قصے نہیں سنائیں گے جن سے دُلہادُلہن یا مہمانوں کو شرمندگی اُٹھانی پڑے۔‏ اِس کے علاوہ وہ اُن کا مذاق نہیں اُڑائیں گے اور نہ ہی ذومعنی اور گندے گانے گائیں گے یا لطیفے سنائیں گے۔‏ (‏امثال ۲۶:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ لوقا ۶:‏۳۱؛‏ ۱۰:‏۲۷‏)‏ مسیحیوں کو شادی کے سلسلے میں بڑی شاندار اور مہنگی تقریب کا انتظام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا شیخی بگھارنے کے برابر ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۶‏)‏ یاد رکھیں،‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ شادی کا دن خوشیوں کا دن ہو،‏ نہ کہ بدمزگیوں کا۔‏ اِس لئے دُلہادُلہن کو اپنی شادی کی تقریب کا انتظام کرتے وقت بائبل میں دئے گئے اصولوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔‏ *

گلاس ٹکرانے کی رسم

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ ایک کتاب میں گلاس سے گلاس ٹکرانے کی رسم کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہ رسم مسیحیوں کے لئے مناسب کیوں نہیں ہے؟‏

۱۹ شادی اور دیگر موقعوں پر یہ رسم بھی عام ہے کہ لوگ پینے سے پہلے گلاس ہوا میں اُٹھا کر گلاس سے گلاس ٹکراتے ہیں اور ”‏چیرس“‏ کہتے ہیں۔‏ شراب اور رسم‌ورواج کے موضوع پر ایک کتاب میں اِس رسم کے بارے میں یوں لکھا ہے:‏ ”‏غالباً یہ رسم ایک ایسی قدیم رسم سے تعلق رکھتی ہے جس میں شراب کو دیوی‌دیوتاؤں کی نذر کِیا جاتا تھا اور لمبی عمر اور اچھی صحت کے لئے دُعا کی جاتی تھی۔‏“‏

۲۰ یہ سچ ہے کہ زیادہ‌تر لوگ گلاس اُٹھا کر اِسے دوسرے گلاس سے ٹکرانے کی رسم کو دُعا کے ساتھ وابستہ نہیں کرتے۔‏ لیکن جب ایک شخص گلاس کو آسمان کی طرف بڑھاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی روحانی مخلوق سے برکت حاصل کرنے کے لئے دُعا کر رہا ہے۔‏ تاہم اِس انداز میں دُعا کرنا پاک صحیفوں میں پائی جانے والی ہدایات کے مطابق نہیں ہے۔‏—‏یوحنا ۱۴:‏۶؛‏ ۱۶:‏۲۳‏۔‏

‏”‏بدی سے نفرت کرو“‏

۲۱.‏ مسیحیوں کو کس قسم کی تقریبوں سے کنارہ کرنا چاہئے اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟‏

۲۱ جھوٹے مذاہب اکثر خدا کے معیاروں کو نظرانداز کرتے ہیں جس کی وجہ سے آجکل دُنیا میں بیہودگی کا راج ہے۔‏ یہ اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی ممالک میں ہر سال کارنیول کے میلے منعقد ہوتے ہیں۔‏ اِن میلوں کے دوران سڑکوں پر بیہودہ ناچ‌گانا ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات ہم‌جنس‌پرستی کو بھی فروغ دیا جاتا ہے۔‏ ذرا سوچیں،‏ جو شخص ’‏یہوواہ سے محبت رکھتا‘‏ ہے کیا اُسے ایسی تقریبوں میں شریک ہونا چاہئے یا پھر انہیں ٹی‌وی پر دیکھنا چاہئے؟‏ اگر وہ اِن تقریبوں میں دلچسپی لیتا ہے تو کیا وہ واقعی بدی سے نفرت کرتا ہے؟‏ (‏زبور ۱:‏۱،‏ ۲؛‏ ۹۷:‏۱۰‏)‏ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہمیں زبورنویس کی طرح دُعا کرنی چاہئے کہ ”‏میری آنکھوں کو بیکار چیزوں کی طرف سے پھیر دے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۹:‏۳۷‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

۲۲.‏ مسیحی کس صورت میں خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ ایک تقریب یا رسم میں شریک ہوں گے یا نہیں؟‏

۲۲ جب ہمارے علاقے میں کوئی ایسا تہوار منایا جاتا ہے جو مسیحیوں کے لئے نامناسب ہے تو ہمیں محتاط رہنا چاہئے۔‏ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ ہم اِس تہوار کو منا رہے ہیں۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏تُم کھاؤ یا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱‏؛‏  صفحہ ۱۵۸ اور ۱۵۹ پر بکس ”‏سوچ‌سمجھ کر فیصلہ کریں“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ البتہ جب ایک تقریب یا رسم سیاست یا جھوٹے مذہب سے تعلق نہیں رکھتی،‏ قوم‌پرستی کو فروغ نہیں دیتی اور بائبل کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے تو ہر مسیحی خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا وہ اِس میں شریک ہوگا یا نہیں۔‏ لیکن اُسے اِس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ وہ دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ بنے۔‏

ہر کام میں خدا کی بڑائی کریں

۲۳،‏ ۲۴.‏ جب لوگ تہواروں کے سلسلے میں سوال کرتے ہیں تو ہم اِنہیں کیا جواب دے سکتے ہیں؟‏

۲۳ بہت سے لوگ اِس لئے تہواروں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک یہ عزیزوں کے ساتھ وقت گزارنے کے اچھے موقعے ہیں۔‏ اُن کے خیال میں یہوواہ کے گواہ اِس لئے تہواروں کو نہیں مناتے کیونکہ اُنہیں اپنے عزیزوں کی پرواہ نہیں ہے۔‏ اِس غلط‌فہمی کو دُور کرنے کے لئے ہم اُنہیں بتا سکتے ہیں کہ ہم اپنے رشتہ‌داروں اور عزیزوں کے ساتھ میل‌جول رکھنا بہت پسند کرتے ہیں۔‏ (‏امثال ۱۱:‏۲۵؛‏ واعظ ۳:‏۱۲،‏ ۱۳؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۹:‏۷‏)‏ لیکن ہم خدا سے بھی محبت رکھتے ہیں اور اُس کے معیاروں پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔‏ اِس لئے جب ہم اپنے عزیزوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو ہم کوئی ایسی رسم نہیں کرنا چاہتے جس سے خدا ناراض ہو۔‏—‏ صفحہ ۱۵۶ پر بکس ”‏سچے خدا کی عبادت حقیقی خوشی لاتی ہے“‏ کو دیکھیں۔‏

 

۲۴ جب لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ یہوواہ کے گواہ تہوار کیوں نہیں مناتے تو ہم اُنہیں کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے سولہویں باب سے چند نکات بتا سکتے ہیں۔‏ * یاد رکھیں کہ ایسے موقعوں پر ہم لوگوں سے بحث نہیں کرنا چاہتے بلکہ اُن کا دل جیتنا چاہتے ہیں۔‏ لہٰذا اُن کے ساتھ نرمی اور احترام سے پیش آئیں اور اِس ہدایت پر عمل کریں کہ ”‏تمہاری گفتگو ایسی دل‌پسند اور مزیدار ہو کہ تُم ہر شخص کو مناسب جواب دے سکو۔‏“‏—‏کلسیوں ۴:‏۶‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

۲۵،‏ ۲۶.‏ والدین اپنے بچوں کے دل میں ایمان اور خدا کی محبت کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

۲۵ یہوواہ خدا اپنے خادموں کو صحیح اور غلط عقیدوں اور کاموں میں امتیاز کرنا سکھاتا ہے۔‏ اِس لئے ہم سمجھ گئے ہیں کہ کچھ کام یا تقریبات مسیحیوں کے لئے نامناسب کیوں ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ مسیحی والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو بھی بائبل کے اصولوں کی بِنا پر صحیح اور غلط میں امتیاز کرنا سکھائیں۔‏ اِس طرح بچوں کا ایمان بڑھ جائے گا اور اُنہیں یقین ہو جائے گا کہ یہوواہ خدا اُن سے محبت رکھتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ جب کوئی اُن کے عقیدوں کے بارے میں سوال کرتا ہے تو وہ اُس کو بائبل سے جواب دینے کے قابل ہوں گے۔‏—‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏۔‏

۲۶ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ بہت سے تہوار اور رسم‌ورواج بائبل کے اصولوں کے خلاف ہیں اور اِس لئے ہم اِن سے کنارہ کرتے ہیں۔‏ لیکن ”‏رُوح اور سچائی سے“‏ خدا کی عبادت کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم زندگی کے ہر پہلو میں دیانت‌داری سے کام لیں‏۔‏ آجکل بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دیانت‌دار شخص کامیاب نہیں ہو سکتا۔‏ لیکن اگلے باب میں ہم دیکھیں گے کہ جو لوگ خدا کی راہ پر چلتے ہیں،‏ وہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 5 جب بائبل میں بتائے گئے واقعات کا دُنیاوی تاریخ سے موازنہ کِیا جاتا ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع سن ۲ قبل‌ازمسیح میں ایتانیم کے مہینے میں (‏یعنی ستمبر/‏اکتوبر میں)‏ پیدا ہوا۔‏

^ پیراگراف 10 یہ کتاب انگریزی میں دستیاب ہے۔‏

^ پیراگراف 11 شریعت کے مطابق جب عورت ایک بچے کو جنم دیتی تو اُسے خطا کی قربانی پیش کرنی تھی۔‏ (‏احبار ۱۲:‏۱-‏۸‏)‏ اِس سے بنی‌اسرائیل کو یاد رہتا کہ بچہ پیدائش سے ہی گُناہ کا داغ پاتا ہے۔‏ اِس لئے وہ بچے کی پیدائش کو حد سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔‏ ہو سکتا ہے کہ اِسی وجہ سے اُنہوں نے بُت‌پرست قوموں سے سالگرہ منانے کا رواج نہیں اپنایا تھا۔‏—‏زبور ۵۱:‏۵‏۔‏

^ پیراگراف 13 اوسٹرا کو ایسٹرے بھی کہا جاتا تھا اور وہ گود ہری کرنے والی دیوی بھی تھی۔‏ قصے کہانیوں کی ایک لغت میں اِس دیوی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ”‏چاند پر اُس کا ایک خرگوش رہتا تھا جس کو انڈے بہت پسند تھے۔‏ کچھ ایسی مورتیں دریافت ہوئی ہیں جن میں اِس دیوی کا سر خرگوش جیسا ہے۔‏“‏

^ پیراگراف 15 بعض ممالک میں مُقدسوں کی عید سے پہلے والی رات ہیلووین منایا جاتا ہے۔‏ اِس تہوار کے سلسلے میں گھروں کو ڈراؤنی چیزوں سے سجایا جاتا ہے مثلاً ڈھانچوں،‏ چڑیلوں اور بھتنوں کی تصویروں سے۔‏ اِس تہوار کی شروعات کلٹی قبیلوں کے تہوار سم‌ہائن میں پائی جاتی ہے۔‏ اِن بُت‌پرستوں کا خیال تھا کہ سم‌ہائن کی رات روحوں کے عالم اور انسانوں کی دُنیا کے درمیان پردہ اُٹھ جاتا ہے اور روحیں زمین پر پھرتی ہیں۔‏ چونکہ وہ مانتے تھے کہ مُردوں کی روحیں اپنے گھروں کو لوٹ آتی ہیں اِس لئے وہ اُن کو خوش کرنے کے لئے کھانےپینے کی چیزیں سجا کر رکھتے تھے۔‏ آجکل ہیلووین کے موقعے پر بچے گھرگھر جا کر دھمکی دیتے ہیں کہ اگر اُنہیں چاکلیٹ اور ٹافیاں نہ دی جائیں تو وہ شرارت کریں گے۔‏ ایسا کرنے سے وہ دراصل سم‌ہائن کے رسم‌ورواج کو رائج کرتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 18 شادیوں اور ضیافتوں کے سلسلے میں مینارِنگہبانی نومبر ۱،‏ ۲۰۰۶،‏ صفحہ ۴-‏۱۷ پر شائع ہونے والے تین مضامین کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 24 اِس کتاب کو یہوواہ کے گواہوں نے شائع کِیا ہے۔‏