مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

چودھواں باب

ہر معاملے میں دیانت دار ہوں

ہر معاملے میں دیانت دار ہوں

‏”‏ہم ہر بات میں نیکی کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ یہوواہ خدا ہماری دیانت‌داری کو دیکھ کر کیوں خوش ہوتا ہے؟‏ تمثیل دے کر واضح کریں۔‏

ایک ماں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ دُکان سے نکلتی ہے۔‏ اچانک بچہ رُک جاتا ہے۔‏ اُس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کھلونا ہے جو اُسے دُکان میں پسند آ گیا تھا۔‏ وہ اُسے شلف پر واپس رکھنا بھول گیا تھا۔‏ بچہ چلّا اُٹھتا ہے:‏ ”‏امی یہ دیکھیں۔‏ اب کیا ہوگا؟‏“‏ ماں اُس کو تسلی دیتی ہے اور اُسے دُکان پر واپس لے جاتی ہے تاکہ وہ کھلونا واپس کر سکے اور معافی مانگ سکے۔‏ اُس ماں کا دل فخر سے پھولے نہیں سماتا۔‏

۲ والدین یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں کہ اُن کے بچے دیانت‌داری کی اہمیت سمجھ گئے ہیں۔‏ اِسی طرح ہمارا آسمانی باپ ہماری دیانت‌داری کو دیکھ کر بھی خوش ہوتا ہے کیونکہ وہ ’‏سچائی کا خدا‘‏ ہے۔‏ (‏زبور ۳۱:‏۵‏)‏ روحانی طور پر پُختہ لوگ زندگی کے ہر پہلو میں دیانت‌دار ہونے کا عزم رکھتے ہیں۔‏ ہم یہوواہ خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور اُس کی محبت میں قائم رہنا چاہتے ہیں اِس لئے ہم بھی پولس رسول کی طرح ”‏ہر بات میں نیکی کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏)‏ اِس آیت میں جس لفظ کا ترجمہ ”‏نیکی“‏ کِیا گیا ہے،‏ یونانی زبان میں یہ لفظ دیانت‌داری اور سچ بولنے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔‏ آئیں اب ہم دیکھیں کہ دیانت‌داری سے کام لینا کن صورتحال میں مشکل ہو سکتا ہے۔‏ اِس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ دیانتدار لوگوں کو کونسی برکات حاصل ہوتی ہیں۔‏

خود کو دھوکا نہ دیں

۳-‏۵.‏ (‏ا)‏ خدا کے کلام میں خود کو دھوکا دینے کے خطروں سے کیسے آگاہ کِیا جاتا ہے؟‏ (‏ب)‏ اپنی خامیوں سے آگاہ ہونے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۳ دیانت‌داری میں یہ شامل ہے کہ ہم اپنی خامیوں کو تسلیم کریں۔‏ البتہ یہ کسی بھی شخص کے لئے آسان نہیں ہوتا۔‏ انسان بڑی آسانی سے خود کو دھوکے میں ڈالتا ہے۔‏ اِس کی ایک مثال پر غور کریں۔‏ یسوع مسیح نے لودیکیہ کے مسیحیوں کو آگاہ کِیا کہ وہ خود کو دھوکا دے رہے ہیں۔‏ وہ اپنے آپ کو بڑا دولت‌مند سمجھتے تھے جبکہ وہ روحانی طور پر ’‏غریب اور اندھے اور ننگے‘‏ تھے۔‏ (‏مکاشفہ ۳:‏۱۷‏)‏ یہ مسیحی خود کو دھوکے میں رکھنے کی وجہ سے بڑے خطرے میں تھے۔‏

۴ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے یہ آگاہی دی:‏ ”‏اگر کوئی اپنے آپ کو دیندار سمجھے اور اپنی زبان کو لگام نہ دے بلکہ اپنے دل کو دھوکا دے تو اُس کی دینداری باطل ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۶‏)‏ کئی مسیحی اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتے۔‏ اِس کے باوجود وہ سوچتے ہیں کہ یہوواہ خدا اُن کی عبادت قبول کرتا ہے۔‏ لیکن وہ خود کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ اصل میں یہوواہ خدا اُن کی عبادت قبول نہیں کرتا۔‏ ہم اِس غلط سوچ میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۵ یعقوب نے خدا کے کلام میں پائی جانے والی سچائیوں کو ایک آئینے سے تشبیہ دی۔‏ اُس نے مسیحیوں کو ہدایت دی کہ وہ خدا کی کامل شریعت پر غور سے نظر کریں اور پھر خود میں بہتری لائیں۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۳-‏۲۵‏)‏ جب ہم بائبل کو پڑھتے ہیں تو ہم اپنی خامیوں سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور یوں ہم اپنی روش میں بہتری لانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏ (‏نوحہ ۳:‏۴۰؛‏ حجی ۱:‏۵‏)‏ اِس کے علاوہ ہم دُعا بھی کر سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں جانچے اور ہمیں اپنی خامیوں سے آگاہ کرے تاکہ ہم اِن کو دُور کر سکیں۔‏ (‏زبور ۱۳۹:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ بددیانتی ایک ایسی خامی ہے جو ہمارے اندر آہستہ‌آہستہ جڑ پکڑتی ہے اور ہمیں اِس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔‏ اِس سے بچنے کے لئے ہمیں بددیانتی کے بارے میں خدا کا نظریہ اپنانا چاہئے۔‏ امثال ۳:‏۳۲ میں لکھا ہے کہ ”‏کجرو [‏یا دھوکاباز]‏ سے [‏یہوواہ]‏ کو نفرت ہے لیکن راستباز اُس کے محرمِ‌راز ہیں۔‏“‏ یہوواہ خدا کی مدد سے ہم بھی بددیانتی سے نفرت کرنا سیکھ سکتے ہیں۔‏ یاد کریں کہ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم ہر بات میں نیکی کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔‏“‏ بِلاشُبہ ہم دیانت‌دار ہونے کی دلی خواہش رکھتے ہیں اور اِس خوبی کو اپنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏

خاندانی حلقے میں دیانت‌داری

کوئی ایسا کام نہ کریں جسے آپ اپنے جیون‌ساتھی سے چھپانا چاہیں

۶.‏ جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا شادی‌شُدہ زندگی کے لئے نقصان‌دہ کیوں ہے؟‏

۶ ایک مسیحی خاندان کی پہچان یہ ہے کہ اِس کے افراد ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولتے اور ایک دوسرے کو دھوکا نہیں دیتے۔‏ لہٰذا شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے سے کُھل کر بات کرنی چاہئے اور ہمیشہ ایک دوسرے سے سچ بولنا چاہئے۔‏ اِس کے علاوہ اُنہیں کسی اَور کے ساتھ عشق‌بازی نہیں کرنی چاہئے،‏ انٹرنیٹ کے ذریعے کسی غیر مرد یا عورت سے دوستی نہیں کرنی چاہئے اور فحش تصویروں،‏ فلموں اور گانوں وغیرہ سے کنارہ کرنا چاہئے۔‏ کئی مسیحیوں نے ایسے ناپاک اور نقصان‌دہ کام کرنا شروع کر دئے ہیں اور اِس بات کو اپنے جیون‌ساتھی سے چھپا رکھا ہے۔‏ ایسا کرنا دھوکا دینے کے برابر ہے۔‏ غور کریں کہ داؤد بادشاہ نے کہا:‏ ”‏مَیں دغابازوں کی صحبت میں نہیں بیٹھتا،‏ اور نہ ریاکاروں کے ہمراہ چلتا ہوں۔‏“‏ (‏زبور ۲۶:‏۴‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ اگر آپ شادی‌شُدہ ہیں تو کبھی کوئی ایسا کام نہ کریں جسے آپ اپنے جیون‌ساتھی سے چھپانا چاہیں۔‏

۷،‏ ۸.‏ بائبل میں کونسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن کے ذریعے والدین بچوں کو دیانت‌داری کی اہمیت سکھا سکتے ہیں؟‏

۷ والدین اپنے بچوں کو دیانت‌داری کی اہمیت سکھانے کے لئے بائبل میں سے اچھی اور بُری مثالیں استعمال کر سکتے ہیں۔‏ بائبل میں بہت سے بددیانت لوگوں کا ذکر ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر عکن نے چوری کی اور پھر اِس بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔‏ جیحازی نے دولت کے لالچ میں آکر جھوٹ بولا۔‏ یہوداہ اسکریوتی نے چوری کی اور یسوع مسیح کو دھوکا دینے کی کوشش کی۔‏—‏یشوع ۶:‏۱۷-‏۱۹؛‏ ۷:‏۱۱-‏۲۵؛‏ ۲-‏سلاطین ۵:‏۱۴-‏۱۶،‏ ۲۰-‏۲۷؛‏ متی ۲۶:‏۱۴،‏ ۱۵؛‏ یوحنا ۱۲:‏۶‏۔‏

۸ بائبل میں بہت سے دیانت‌دار لوگوں کا ذکر بھی ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ وہ اُن پیسوں کو واپس کر دیں جو اُن کے بوروں میں سے ملے تھے۔‏ اُس کا خیال تھا کہ شاید کسی نے یہ پیسے غلطی سے اُن کے بوروں میں رکھے تھے۔‏ اِفتاح اور اُس کی بیٹی نے اُس وعدے کو نبھایا جسے اِفتاح نے یہوواہ خدا سے کِیا تھا حالانکہ ایسا کرنا اُن کے لئے آسان نہیں تھا۔‏ یسوع مسیح نے بڑی دلیری سے سپاہیوں کی پلٹن کے سامنے اعتراف کِیا کہ وہ ہی یسوع ہے۔‏ اِس طرح اُس نے اپنے دوستوں کی جان بچا لی اور پیشینگوئیوں کو پورا کِیا۔‏ (‏پیدایش ۴۳:‏۱۲؛‏ قضاة ۱۱:‏۳۰-‏۴۰؛‏ یوحنا ۱۸:‏۳-‏۱۱‏)‏ بائبل میں ایسی اَور بھی مثالیں پائی جاتی ہیں جن کے ذریعے والدین اپنے بچوں کے دل پر دیانت‌داری کی اہمیت نقش کر سکتے ہیں۔‏

۹.‏ (‏ا)‏ اپنے بچوں کو دیانت‌داری کا درس دینے کے ساتھ‌ساتھ والدین کو کن کاموں سے گریز کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ والدین کو دیانت‌داری کی اچھی مثال کیوں قائم کرنی چاہئے؟‏

۹ بچوں کو دیانت‌داری کی اہمیت سکھانا ہی کافی نہیں بلکہ والدین کو اِس سلسلے میں خود بھی اچھی مثال قائم کرنی چاہئے۔‏ پولس رسول نے پوچھا:‏ ”‏تُو جو اَوروں کو سکھاتا ہے اپنے آپ کو کیوں نہیں سکھاتا؟‏ تُو جو وعظ کرتا ہے کہ چوری نہ کرنا آپ خود کیوں چوری کرتا ہے؟‏“‏ (‏رومیوں ۲:‏۲۱‏)‏ بعض والدین اپنے بچوں کو دیانت‌داری کا درس تو دیتے ہیں لیکن پھر وہ خود کئی معاملوں میں بددیانتی سے کام لیتے ہیں۔‏ والدین شاید اپنی ملازمت کی جگہ سے کوئی چیز غائب کرکے کہیں کہ ”‏یہ تو صرف چھوٹی‌موٹی چیز ہے۔‏ اِس سے کمپنی کا نقصان نہیں ہوگا۔‏“‏ یا پھر وہ جھوٹ بول کر کہیں کہ ”‏یہ تو بس چھوٹا سا جھوٹ ہے۔‏ اِس میں کوئی ہرج نہیں۔‏“‏ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چاہے چیز بڑی ہو یا چھوٹی،‏ چوری چوری ہوتی ہے اور چاہے بات بڑی ہو یا چھوٹی،‏ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے۔‏ * (‏لوقا ۱۶:‏۱۰‏)‏ بچے جلد ہی پہچان لیتے ہیں کہ اُن کے والدین دُہرے معیار رکھتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں شاید وہ خود بھی بددیانتی سے کام لینے لگیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۴‏)‏ اِس کے برعکس اگر والدین دیانت‌داری کی اچھی مثال قائم کرتے ہیں تو اِس بات کا زیادہ امکان ہوگا کہ بچے بھی راستی کی راہ اختیار کرکے یہوواہ خدا کی بڑائی کریں گے۔‏—‏امثال ۲۲:‏۶‏۔‏

کلیسیائی حلقے میں دیانت‌داری

۱۰.‏ کلیسیا کے بہن‌بھائیوں سے بات‌چیت کرتے وقت ہمیں کن باتوں سے خبردار رہنا چاہئے؟‏

۱۰ کلیسیا کے بہن‌بھائیوں سے رفاقت رکھتے وقت بھی ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم سچ بولیں اور دیانت‌داری سے کام لیں۔‏ جیسا کہ ہم نے بارھویں باب میں دیکھا ہے،‏ ہمیں بولنے کی صلاحیت کو غلط طریقے سے استعمال کرنے سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ کسی سے بات‌چیت کرتے وقت ہم آسانی سے دوسروں کے بارے میں افواہیں یا جھوٹ پھیلانے کے پھندے میں پھنس سکتے ہیں۔‏ اگر ہم ایک بات کے بارے میں یہ بھی نہیں جانتے کہ آیا یہ سچ ہے کہ نہیں اور اِسے کسی اَور کو بتاتے ہیں تو شاید ہم جھوٹی بات پھیلا رہے ہوں۔‏ اِس لئے ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہئے۔‏ (‏امثال ۱۰:‏۱۹‏)‏ اور اگر ایک بات سچی بھی ہو تو ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”‏کیا اِس کو دُہرانا فائدہ‌مند ہوگا؟‏“‏ مثال کے طور پر شاید یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ہمیں دخل نہیں دینا چاہئے یا جسے دُہرانے سے ہم کسی کو دُکھ پہنچائیں گے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۵‏)‏ کئی لوگ بےادبی سے بات کرتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ”‏مَیں تو سیدھی بات کرتا ہوں۔‏“‏ لیکن یاد رکھیں کہ ہمیں ہمیشہ ادب اور شفقت سے بات کرنی چاہئے۔‏—‏کلسیوں ۴:‏۶‏۔‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ سنگین گُناہ کرنے کے بعد بعض مسیحی کونسی غلط روش اختیار کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ شیطان سنگین گُناہوں کے سلسلے میں کونسے جھوٹ پھیلاتا ہے اور ہم اُس کے فریب میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ (‏ج)‏ یہوواہ خدا کی تنظیم کو معلومات فراہم کرتے وقت ہم دیانت‌داری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ ہمیں کلیسیا کے بزرگوں سے بھی ہمیشہ سچ بولنا چاہئے۔‏ کئی مسیحی سنگین گُناہ کرتے ہیں اور اِس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ پھر جب کلیسیا کے بزرگ اُن سے اِس کے متعلق بات کرتے ہیں تو وہ جھوٹ بول کر بات گول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ اِس طرح معاملہ زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔‏ شاید وہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا دکھاوا کرتے ہیں اور اِس کے ساتھ‌ساتھ اپنی بُری روش کو جاری رکھتے ہیں۔‏ یوں وہ سرتا پا جھوٹ بن جاتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۲:‏۲‏)‏ بعض مسیحی،‏ کلیسیا کے بزرگوں کو کسی سنگین معاملے کے بارے میں بتاتے وقت اہم معلومات چھپاتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۵:‏۱-‏۱۱‏)‏ شاید وہ اِس لئے ایسا کریں کیونکہ وہ شیطان کے چند جھوٹے نظریات کو ماننے لگے ہیں۔‏—‏ صفحہ ۱۶۴ اور ۱۶۵ پر بکس ”‏سنگین گُناہوں کے سلسلے میں شیطان کے جھوٹ“‏ کو دیکھیں۔‏

۱۲ ہمیں اُس وقت بھی سچی معلومات پیش کرنی چاہئے جب یہوواہ خدا کی تنظیم ہم سے کوئی فارم بھرنے یا پھر رپورٹ تیار کرنے کی درخواست کرتی ہے۔‏ مثال کے طور پر جب ہم مہینے کے آخر میں مُنادی کے کام کے سلسلے میں رپورٹ ڈالتے ہیں تو ہمیں اعدادوشمار میں کمی‌بیشی نہیں کرنی چاہئے۔‏ جب ہم کسی شرف کے لئے درخواست ڈالتے ہیں تو اکثر ہمیں فارم پُر کرنے پڑتے ہیں۔‏ اِن میں ہماری صحت اور زندگی کے بارے میں کچھ باتیں پوچھی جاتی ہیں جن کا ہمیں سچ‌سچ جواب دینا چاہئے۔‏—‏امثال ۶:‏۱۶-‏۱۹‏۔‏

۱۳.‏ ہمیں ملازمت اور کاروبار کے سلسلے میں اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟‏

۱۳ ہمیں ملازمت اور کاروبار کے سلسلے میں بھی اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے ساتھ دیانت‌داری سے پیش آنا چاہئے۔‏ اگر مسیحی ایک دوسرے سے خریدوفروخت کرتے ہیں یا پھر ملکر کوئی کاروبار چلاتے ہیں تو اُنہیں کنگڈم‌ہال یا مُنادی کے کام کے دوران اِس کے بارے میں بات‌چیت نہیں کرنی چاہئے۔‏ کبھی‌کبھار ایک ایسا مسیحی جو کسی کمپنی یا دُکان کا مالک ہے،‏ دوسرے مسیحیوں کو ملازمت پر لگاتا ہے۔‏ اِس صورت میں اُسے چاہئے کہ وہ اُنہیں وقت پر مقررہ تنخواہ دے،‏ تنخواہ میں کمی‌بیشی نہ کرے اور اُنہیں وہ تمام سہولتیں مہیا کرے جو حکومت کی طرف سے مقرر ہوں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۱۸؛‏ یعقوب ۵:‏۱-‏۴‏)‏ اگر ہم کسی دوسرے مسیحی کے لئے ملازمت کرتے ہیں تو ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ جی لگا کر کام کرنا چاہئے۔‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۱۰‏)‏ ہمیں اِس بات کی توقع نہیں کرنی چاہئے کہ ہمارا آجر دوسرے ملازموں کی نسبت ہمیں زیادہ تنخواہ یا چھٹی دے یا کسی اَور لحاظ سے ہمیں ترجیح دے۔‏—‏افسیوں ۶:‏۵-‏۸‏۔‏

۱۴.‏ کاروباری معاملوں میں مسیحیوں کو بائبل کے کس اصول پر عمل کرنا چاہئے اور یہ اہم کیوں ہے؟‏

۱۴ کبھی‌کبھار مسیحی دوسرے مسیحیوں سے قرض لیتے ہیں،‏ ملکر کوئی کاروبار چلاتے ہیں یا سرمایہ لگاتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال کے لئے خدا کے کلام میں یہ اصول پایا جاتا ہے کہ فریقین اُن شرائط کو تحریری شکل دیں جو اِن کے درمیان طے ہوئی ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب یرمیاہ نبی نے ایک کھیت خریدا تو اُس نے دو دستاویزات تیار کیں جن میں فروخت کی تفصیلات لکھی تھیں۔‏ اُس نے گواہوں کے سامنے اِن پر دستخط کئے اور پھر انہیں ایک محفوظ جگہ میں رکھوا دیا۔‏ (‏یرمیاہ ۳۲:‏۹-‏۱۲‏؛‏ اِس کے علاوہ پیدایش ۲۳:‏۱۶-‏۲۰ پر بھی غور کریں۔‏)‏ اِسی طرح جب دو مسیحیوں کے درمیان کوئی کاروباری معاملہ طے ہو جاتا ہے تو اُنہیں تمام تفصیلات کی دستاویز تیار کرنی چاہئے اور اِس پر گواہوں کے سامنے دستخط کرنے چاہئیں۔‏ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں پر اعتماد نہیں ہے۔‏ لیکن ایسا کرنے سے غلط‌فہمیاں،‏ بدمزگیاں اور اختلافات پیدا نہیں ہوں گے۔‏ یاد رکھیں کہ کوئی کاروباری معاملہ اِتنا اہم نہیں ہے کہ اِس پر کلیسیا کا امن‌واتحاد قربان کِیا جائے۔‏ *‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۱-‏۸‏۔‏

ہر بات میں دیانت‌دار ہوں

۱۵.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا کاروباری معاملوں میں بددیانتی کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ کاروباری معاملوں کے سلسلے میں مسیحیوں کے معیار دُنیا کے معیاروں سے کیسے فرق ہیں؟‏

۱۵ ہمیں صرف اُس وقت دیانت‌داری سے کام نہیں لینا چاہئے جب ہم اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہم ہر بات میں نیکی کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏)‏ جیسا کہ اِس آیت سے ظاہر ہوتا ہے،‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم زندگی کے ہر پہلو میں دیانت‌دار ہوں۔‏ امثال کی کتاب میں چار مختلف آیتوں میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ خدا کے خادموں کو صحیح ترازو استعمال کرنے چاہئیں۔‏ (‏امثال ۱۱:‏۱؛‏ ۱۶:‏۱۱؛‏ ۲۰:‏۱۰،‏ ۲۳‏)‏ پُرانے زمانے میں بددیانت تاجر اپنے گاہکوں کو دھوکا دینے کے لئے دو طرح کے باٹ اور جھوٹے ترازو استعمال کرتے تھے۔‏ * آجکل بھی بہت سے لوگ کاروباری معاملوں میں بددیانتی کرتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا کو ایسے کاموں سے نفرت ہے۔‏ اُس کی محبت میں قائم رہنے کے لئے ہمیں کاروباری معاملوں میں ہر قسم کی بددیانتی سے کنارہ کرنا ہوگا۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ دُنیا میں لوگ اکثر کن معاملوں میں بددیانتی سے کام لیتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ سچے مسیحیوں نے کیا کرنے کی ٹھان لی ہے؟‏

۱۶ ہم اِس بات پر حیران نہیں کہ دُنیا میں بددیانتی کا راج ہے کیونکہ شیطان اِس دُنیا کا حاکم ہے۔‏ ایسی دُنیا میں ہماری دیانت‌داری روزانہ آزمائی جاتی ہے۔‏ بہتیرے لوگ ملازمت کے لئے درخواست ڈالتے وقت اپنی مہارت کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتے ہیں یا جعلی سندیں پیش کرتے ہیں۔‏ لوگ اکثر امیگریشن،‏ ٹیکس اور بیمہ کے سلسلے میں فارم پُر کرتے وقت غلط‌بیانی کرتے ہیں تاکہ اُن کا کام بن جائے۔‏ بہت سے طالبعلم امتحانات میں نقل کرتے ہیں یا پھر ہوم‌ورک کرتے وقت انٹرنیٹ سے کسی اَور کا مضمون نقل کرکے اِسے اپنے مضمون کے طور پر پیش کرتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ بہتیرے لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے سرکاری ملازمین کو رشوت دیتے ہیں۔‏ ہم اِس بات پر حیران نہیں کہ اِس آخری زمانے میں لوگ ’‏خودغرض،‏ زردوست اور نیکی کے دُشمن‘‏ ہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏۔‏

۱۷ سچے مسیحیوں نے اِس بات کی ٹھان لی ہے کہ وہ ہر قسم کی بددیانتی سے کنارہ کریں گے۔‏ لیکن ایسا کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ اکثر یوں لگتا ہے کہ بددیانت لوگ ہی اِس دُنیا میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۷۳:‏۱-‏۸‏)‏ چونکہ ہم ”‏ہر بات میں“‏ دیانت‌دار ہونا چاہتے ہیں اِس لئے ہو سکتا ہے کہ ہمیں مالی طور پر نقصان اُٹھانا پڑے۔‏ لیکن اِس کے بدلے میں ہمیں بہت سی برکات ملتی ہیں۔‏ یہ کونسی برکات ہیں؟‏

دیانت‌داری کا اَجر

۱۸.‏ دیانت‌دار شخص کو کونسے فائدے حاصل ہوتے ہیں؟‏

۱۸ مالی فائدے حاصل کرنے کی نسبت یہ کہیں زیادہ اہم ہے کہ ہم ایک دیانت‌دار شخص کے طور پر جانے جائیں۔‏ (‏ صفحہ ۱۶۷ پر بکس ”‏کیا مَیں ہر معاملے میں دیانتداری سے کام لیتا ہوں؟‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ ایسی نیک‌نامی حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ایک شخص امیر،‏ ہنرمند یا خوبصورت ہو یا پھر کسی خاص طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔‏ لہٰذا نیک‌نامی حاصل کرنا ہر ایک کی پہنچ میں ہے۔‏ لیکن درحقیقت بہت سے لوگ دیانت‌دار نہیں ہیں۔‏ (‏میکاہ ۷:‏۲‏)‏ ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ آپ کی دیانت‌داری کو دیکھ کر آپ کا مذاق اُڑائیں۔‏ البتہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو آپ کی دیانت‌داری کی قدر کرتے ہیں اور اِس لئے آپ کا احترام کرتے ہیں۔‏ بہتیرے یہوواہ کے گواہوں کو دیانت‌دار ہونے کی وجہ سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب کوئی کمپنی ملازمین کو فارغ کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو اکثر اوقات یہوواہ کے گواہوں کو فارغ نہیں کِیا جاتا۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ کے گواہوں کو اکثر اِس لئے ملازمت پر لگایا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی دیانت‌داری کے لئے مشہور ہیں۔‏

۱۹.‏ دیانت‌دار شخص کو کونسی مزید برکتیں ملتی ہیں؟‏

۱۹ دیانت‌دار شخص کو اَور بھی بہت سی برکتیں ملتی ہیں۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہمیں یقین ہے کہ ہمارا دل صاف ہے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏)‏ واقعی،‏ اگر ہم دیانت‌دار ہیں تو ہمارا ضمیر صاف ہوگا۔‏ یہوواہ خدا دیانت‌دار لوگوں سے محبت رکھتا ہے اور اُن کی قدر کرتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۱،‏ ۲؛‏ امثال ۲۲:‏۱‏)‏ اِس کے علاوہ آپ دیانت‌دار ہونے سے خدا کی محبت میں قائم رہیں گے۔‏ بھلا اِس سے قیمتی اَور کیا انعام ہو سکتا ہے!‏ آئیں اب ہم روزی کمانے کے سلسلے میں یہوواہ خدا کے نظریے پر غور کریں۔‏

^ پیراگراف 9 اگر کلیسیا کا کوئی فرد ہٹ‌دھرمی سے دوسروں کی بدنامی کرنے کے لئے اُن کے بارے میں جھوٹ پھیلاتا ہے تو کلیسیا کے بزرگوں کی عدالتی کمیٹی کو کارروائی کرنے کی ضرورت ہوگی۔‏

^ پیراگراف 14 کاروباری معاملوں میں اختلافات کو حل کرنے کے سلسلے میں صفحہ ۲۲۲ اور ۲۲۳ کو دیکھیں‏۔‏

^ پیراگراف 15 تاجر ایک ہی قسم کے دودو باٹ رکھتے تھے تاکہ وہ مال خریدتے وقت ہلکا باٹ اور فروخت کرتے وقت بھاری باٹ استعمال کر سکیں۔‏ اِسی طرح اُن کے ترازو کا ایک بازو دوسرے کی نسبت زیادہ بھاری یا لمبا ہوتا تھا تاکہ وہ منافع میں رہیں۔‏