مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سترھواں باب

اپنی شخصیت میں بہتری لانے کا عزم کریں

اپنی شخصیت میں بہتری لانے کا عزم کریں

‏”‏اپنے پاک‌ترین اِیمان میں اپنی ترقی کرکے .‏ .‏ .‏ اپنے آپ کو خدا کی محبت میں قائم رکھو۔‏“‏—‏یہوداہ ۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ ہر مسیحی کس قسم کی عمارت تعمیر کر رہا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ کو اِس عمارت پر معیاری کام کیوں کرنا چاہئے؟‏

فرض کریں کہ آپ ایک عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔‏ اِس کی تعمیر میں آپ نے بہت وقت صرف کِیا ہے اور بڑی محنت لگائی ہے۔‏ آپ جانتے ہیں کہ ابھی بھی بہت سا کام باقی ہے۔‏ تعمیر کے دوران آپ کو طرح‌طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن زیرِتعمیر عمارت کی ترقی دیکھ کر آپ کو خوشی بھی ہوتی ہے۔‏ آپ نے اِس عمارت پر معیاری کام کرنے کا عزم کِیا ہے کیونکہ یہ عمارت آپ کے مستقبل سے وابستہ ہے۔‏

۲ یسوع مسیح کے شاگرد یہوداہ نے ظاہر کِیا کہ ہر مسیحی ایک ایسی عمارت تعمیر کر رہا ہے۔‏ اُس نے مسیحیوں سے کہا:‏ ”‏اپنے پاک‌ترین اِیمان میں اپنی ترقی کرکے .‏ .‏ .‏ اپنے آپ کو خدا کی محبت میں قائم رکھو۔‏“‏ (‏یہوداہ ۲۰،‏ ۲۱‏)‏ بائبل کی اصلی زبان میں یہوداہ نے اِس آیت میں کہا کہ ”‏خود کو پاک‌ترین ایمان پر تعمیر کرکے خدا کی محبت میں قائم رہو۔‏“‏ اِس طرح اُس نے مسیحیوں کو ایک ایسی عمارت سے تشبیہ دی جو ایمان کی بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہے۔‏ اگر عمارت کی بنیاد مضبوط ہے تو پوری عمارت پائدار ہوگی۔‏ اِسی طرح اگر ہمارا ایمان مضبوط ہے تو ہم اپنی شخصیت میں بہتری لائیں گے اور خدا کی محبت میں قائم رہیں گے۔‏ اپنی شخصیت میں بہتری لانے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏ آئیں ہم اِس سلسلے میں تین باتوں پر غور کریں۔‏

خدا کے حکموں کی قدر کریں

۳-‏۵.‏ (‏ا)‏ شیطان ہمارے دل میں خدا کے حکموں اور اصولوں کے بارے میں کونسا تاثر پیدا کرنا چاہتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خدا کے حکموں اور اصولوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏ تمثیل دے کر واضح کریں۔‏

۳ سب سے پہلے تو ہمیں اِس بات پر مضبوط ایمان رکھنا چاہئے کہ خدا کے حکم ہمارے فائدے کے لئے ہیں۔‏ اِس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ نے خدا کے کئی حکموں اور اصولوں پر غور کِیا ہے۔‏ آپ اِن کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ شیطان چاہتا ہے کہ ہم اِن حکموں اور اصولوں کو سخت اور ناگوار خیال کریں۔‏ اُس نے باغِ‌عدن میں بھی یہ چال استعمال کی تھی۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶‏)‏ کیا آپ بھی شیطان کی اِس چال کا شکار ہو جائیں گے؟‏ اِس سے بچنے کے لئے آپ کو خدا کے اصولوں پر عمل کرنے کے فائدوں پر غور کرنا چاہئے۔‏

۴ اِس سلسلے میں ذرا ایک تمثیل پر غور کریں۔‏ آپ ایک خوبصورت باغ میں ٹہل رہے ہیں۔‏ اچانک راستے میں ایک جنگلا آ جاتا ہے۔‏ جنگلے کی دوسری طرف بڑا حسین منظر ہے۔‏ آپ جنگلے کو دیکھ کر ناراض ہو جاتے ہیں کیونکہ اِس کی وجہ سے آپ آگے نہیں بڑھ سکتے۔‏ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ جنگلے کی اُس طرف ایک ببرشیر اپنے شکار کا پیچھا کر رہا ہے۔‏ آپ شکر کرتے ہیں کہ اِس جنگلے نے آپ کا راستہ روک لیا ہے۔‏ اب آپ جان گئے ہیں کہ یہ جنگلا آپ کے تحفظ کے لئے بنایا گیا ہے۔‏ دراصل ایک خطرناک حیوان واقعی آپ کا شکار کر رہا ہے۔‏ خدا کے کلام میں یہ آگاہی دی گئی ہے:‏ ”‏ہوشیار اور بیدار رہو۔‏ تمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏۔‏

۵ شیطان ایک خون‌خوار شیر کی طرح ہے۔‏ یہوواہ خدا نہیں چاہتا کہ ہم اُس کا شکار بن جائیں۔‏ اِس لئے اُس نے ہمیں ایسے حکم دئے ہیں جن کے ذریعے ہم شیطان کے ”‏منصوبوں“‏ یا پھندوں سے بچ سکتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۱‏)‏ لہٰذا ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہوواہ خدا اپنے حکموں اور اصولوں کے ذریعے ہمارے لئے اپنی محبت ظاہر کرتا ہے۔‏ اگر ہم اِن حکموں کو اِس نظر سے دیکھتے ہیں تو وہ ہمارے لئے تحفظ اور برکت کا باعث ہوں گے۔‏ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏جو شخص آزادی کی کامل شریعت پر غور سے نظر کرتا رہتا ہے وہ اپنے کام میں اِس لئے برکت پائے گا کہ سُن کر .‏ .‏ .‏ عمل کرتا ہے۔‏“‏—‏یعقوب ۱:‏۲۵‏۔‏

۶.‏ کچھ مثالیں دے کر واضح کریں کہ ہم خدا کے حکموں کی قدر کرنا کیسے سیکھ سکتے ہیں۔‏

۶ ہم تب ہی خدا کے حکموں کی قدر کرنا سیکھتے ہیں جب ہم اِن پر عمل کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم جان جاتے ہیں کہ اُس کے حکموں کے بہت سے فائدے ہیں اور اِس طرح خدا پر ہمارا ایمان اَور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر ”‏مسیح کی شریعت“‏ میں یہ حکم شامل ہے کہ دوسروں کو ”‏یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا [‏یسوع]‏ نے تُم کو حکم دیا۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۲؛‏ متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ مسیحیوں کو یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی عبادت کرنے اور ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے جمع ہوں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ اِس کے علاوہ ہمیں باقاعدگی سے دلی دُعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‏ (‏متی ۶:‏۵-‏۸؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۷‏)‏ خدا کے اِن حکموں پر عمل کرنے سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ خدا اِن کے ذریعے ہماری راہنمائی کرتا ہے اور اپنی محبت ظاہر کرتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں ایسی خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے جو شیطان کی دُنیا ہمیں نہیں فراہم کر سکتی۔‏ بِلاشُبہ خدا کے حکموں کے اِن فائدوں پر غور کرنے سے آپ کا ایمان زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔‏

۷،‏ ۸.‏ خدا کا کلام ہمیں کس طرح یقین دلاتا ہے کہ ہم عمربھر اپنی راست روش پر قائم رہ سکتے ہیں؟‏

۷ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عمربھر یہوواہ خدا کے حکموں کے مطابق زندگی گزارنا بہت مشکل ہوگا۔‏ اُنہیں یہ فکر ہے کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں گے۔‏ اگر آپ بھی ایسا محسوس کرتے ہیں تو یہوواہ خدا کے اِن الفاظ پر دھیان دیں:‏ ”‏مَیں ہی [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا ہوں جو تجھے فائدہ‌مند باتیں سکھاتا ہوں اور اُس راہ کی تجھے ہدایت کرتا ہوں جس میں تجھے چلنا ہے۔‏ کاش کہ تُو میرے حکموں کا شنوا ہوتا تو تیری سلامتی دریا کی طرح اور تیری راستبازی سمندر کی موجوں کی مانند ہوتی۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ یہوواہ خدا کے یہ الفاظ ہمارے لئے تسلی کا باعث کیوں ہیں؟‏

۸ اِن آیات میں یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ اُس کے فرمانبردار رہنے سے ہمیں دو طرح کے فائدے ہوں گے۔‏ اوّل تو ہماری سلامتی ایک ایسے دریا کی طرح ہو گی جس میں بہت سا پانی ہوتا ہے اور جو کبھی نہیں سوکھتا۔‏ دوم،‏ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ ہماری راستبازی سمندر کی موجوں کی مانند ہوگی۔‏ ذرا تصور کریں کہ آپ سمندر کے ساحل پر کھڑے ہیں۔‏ ایک لہر کے بعد دوسری آکر ساحل سے ٹکراتی ہے۔‏ آپ جانتے ہیں کہ یہ سلسلہ مُدتوں تک جاری رہے گا۔‏ یہوواہ خدا نے کہا کہ آپ کی راست روش اِن موجوں کی طرح ہمیشہ تک قائم رہ سکتی ہے۔‏ جب تک کہ آپ اُس کے وفادار رہنے کی پوری کوشش کریں گے،‏ وہ آپ کو ناکام نہیں ہونے دے گا۔‏ (‏زبور ۵۵:‏۲۲‏)‏ یقیناً اِن وعدوں پر غور کرنے سے یہوواہ خدا پر ہمارا ایمان مضبوط ہو جائے گا اور ہم اُس کے حکموں کی اَور بھی قدر کریں گے۔‏

روحانی لحاظ سے ’‏پوری عمر والے‘‏ بنیں

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ مسیحیوں کو روحانی لحاظ سے ’‏پوری عمر والے‘‏ بننے کا عزم کیوں رکھنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ روح کے مطابق زندگی گزارنے سے ہمیں حقیقی خوشی کیوں حاصل ہوتی ہے؟‏

۹ اپنی شخصیت میں بہتری لانے کے لئے ہمیں روحانی لحاظ سے ’‏پوری عمر والے‘‏ بننے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴؛‏ ۶:‏۱‏)‏ یہ سچ ہے کہ فی‌الحال ہم میں سے کوئی مکمل طور پر خدا کے معیاروں پر پورا نہیں اُتر سکتا۔‏ لیکن ہم سب روحانی لحاظ سے ’‏پوری عمر والے‘‏ یعنی پُختہ مسیحی بننے کا عزم رکھ سکتے ہیں۔‏ جوں‌جوں ہم اِس منزل کی طرف قدم بڑھائیں گے،‏ ہمیں خدا کی خدمت میں زیادہ خوشی حاصل ہو گی۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏

۱۰ روحانی لحاظ سے ’‏پوری عمر والے‘‏ مسیحی خدا کی سوچ رکھتے ہیں اور اُس کے ساتھ گہری دوستی بھی رکھتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۲۳‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏جو لوگ جسم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اُن کے خیالات نفسانی خواہشات کی طرف لگے رہتے ہیں۔‏ لیکن جو لوگ روح کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اُن کے خیالات روحانی خواہشوں کی طرف لگے رہتے ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۸:‏۵‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ ایسے لوگ جو جسم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں،‏ وہ خودغرض ہوتے ہیں،‏ جلدبازی سے کام لیتے ہیں اور زندگی کی آسائشیں حاصل کرنے کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‏ اِن لوگوں کو سچی خوشی نہیں ملتی۔‏ اِس کے برعکس جو لوگ روح کے مطابق زندگی گزارتے ہیں وہ حقیقی خوشی محسوس کرتے ہیں کیونکہ اُن کی توجہ یہوواہ خدا کی خدمت پر ہوتی ہے۔‏ پُختہ مسیحی خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏ وہ آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت بھی اپنی خوشی برقرار رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وفادار رہنے سے وہ شیطان کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں اور اپنے آسمانی باپ کو خوش کرتے ہیں۔‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱؛‏ یعقوب ۱:‏۲،‏ ۳‏۔‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ پولس رسول کے مطابق مسیحی اپنے حواس کس طرح تیز کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ عبرانیوں ۵:‏۱۴ میں اصطلاح ”‏کام کرتےکرتے“‏ کا ترجمہ کیسے کِیا جا سکتا ہے؟‏ (‏ج)‏ انسان جسمانی لیاقتیں کیسے پیدا کرتا ہے؟‏

۱۱ پُختہ مسیحی بننے کے لئے ہمیں اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کی لیاقت پیدا کرنی ہوگی۔‏ ذرا اِس صحیفے پر غور کریں:‏ ”‏سخت غذا پوری عمر والوں کے لئے ہوتی ہے جن کے حواس کام کرتےکرتے نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ جب پولس رسول نے کہا کہ ہمارے حواس ”‏کام کرتےکرتے“‏ تیز ہو گئے ہیں تو اُس نے ایک ایسا لفظ استعمال کِیا جو عام طور پر یونان کی ورزش‌گاہوں میں استعمال ہوتا تھا۔‏ اِس لفظ کا ترجمہ ”‏جمناسٹ کی ورزش“‏ بھی کِیا جا سکتا ہے۔‏ آئیں غور کریں کہ ایک کھلاڑی کو جمناسٹک میں مہارت پیدا کرنے کے لئے کتنی ورزش کرنی پڑتی ہے۔‏

جمناسٹک میں ماہر بننے کے لئے کھلاڑی کو روزانہ ورزش کرنی پڑتی ہے

۱۲ یوں تو جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ چلنےپھرنے کی لیاقت بھی نہیں رکھتا۔‏ مثال کے طور پر آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ایک ننھا بچہ ہاتھ‌پیر ہلاتے وقت اکثر اپنے ہی مُنہ پر تھپڑ مارتا اور پھر ناراض ہو کر رونے لگتا ہے۔‏ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ بچے اپنے بازوؤں اور ٹانگوں کی حرکت پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے۔‏ پہلے تو وہ گھٹنوں کے بل چلنا سیکھتے ہیں،‏ پھر وہ کھڑے ہو کر چلنا اور آخرکار دوڑنا بھی سیکھ لیتے ہیں۔‏ * چلنےپھرنے کی لیاقت پیدا کرنا تو ایک بات ہے لیکن ذرا جمناسٹ کی لیاقت پر غور کریں۔‏ وہ چھلانگیں لگاتا،‏ ہوا میں قلابازیاں کھاتا اور اپنے جسم کو یوں مروڑتا ہے جیسا کہ وہ رَبر کا بنا ہو۔‏ اِس قسم کی لیاقت پیدا کرنے کے لئے اُسے روزانہ کئی گھنٹوں تک ورزش کرنی پڑتی ہے۔‏ البتہ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏جسمانی ریاضت کا فائدہ کم ہے“‏ جبکہ نیک‌وبد میں تمیز کرنے کی لیاقت پیدا کرنے کے بہت سے فائدے ہیں۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۸‏۔‏

۱۳.‏ ہم اپنے حواس کو نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کے لئے کیسے تیز کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ اِس کتاب میں ہم نے بائبل کے بہت سے اصولوں پر غور کِیا ہے۔‏ اِن کی مدد سے آپ نیک‌وبد میں تمیز کرنے کی اپنی لیاقت کو تیز کر سکتے ہیں اور اِس طرح آپ یہوواہ خدا کے وفادار رہ سکیں گے۔‏ جب آپ کو زندگی میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں تو یہوواہ خدا سے دُعا کریں اور اُس کے حکموں اور اصولوں پر غور کریں۔‏ مثال کے طور پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے خود سے پوچھیں:‏ ”‏بائبل کے کونسے حکم اور اصول اِس معاملے پر لاگو ہوتے ہیں؟‏ مَیں اِن پر کیسے عمل کر سکتا ہوں؟‏ مَیں اپنے آسمانی باپ کے دل کو کیسے خوش کر سکتا ہوں؟‏“‏ (‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶؛‏ یعقوب ۱:‏۵‏)‏ جب بھی آپ اِس طریقے سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں،‏ آپ اپنے حواس کو نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز کرتے ہیں۔‏ یوں آپ پُختہ مسیحی بننے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور روح کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ مسیحیوں کو کس چیز کی خواہش رکھنی چاہئے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کس بات سے خبردار رہنا چاہئے؟‏

۱۴ جب ایک شخص بالغ ہو جاتا ہے تو اُس کا قد بڑھنا بند ہو جاتا ہے۔‏ لیکن مسیحیوں کو پُختہ بننے کے بعد بھی اپنی شخصیت میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏ یاد کریں کہ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏سخت غذا پوری عمر والوں کے لئے ہوتی ہے۔‏“‏ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم باقاعدگی سے روحانی خوراک حاصل کرتے رہیں۔‏ جب آپ اُن باتوں پر عمل کرتے ہیں جو آپ نے بائبل سے سیکھی ہیں تو آپ حکمت پیدا کرتے ہیں۔‏ خدا کے کلام میں کہا گیا ہے کہ ”‏حکمت اعلیٰ‌ترین شے ہے۔‏“‏ لہٰذا ہمیں اُن سچائیوں کی گہری خواہش رکھنی چاہئے جو ہمارا آسمانی باپ ہمیں فراہم کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۴:‏۵-‏۷‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۲‏)‏ البتہ ہمیں کبھی اِس بات پر غرور نہیں کرنا چاہئے کہ ہم نے بائبل سے علم اور حکمت حاصل کی ہے۔‏ اِس لئے ہمیں باقاعدگی سے اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں ہمارے دل میں غرور یا کوئی اَور کمزوری جڑ تو نہیں پکڑ رہی ہے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏تُم اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔‏ اپنے آپ کو جانچو۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۵‏۔‏

۱۵.‏ اپنی شخصیت میں بہتری لانے کے لئے محبت کیوں ضروری ہے؟‏

۱۵ جب عمارت کی تعمیر مکمل ہو جاتی ہے تو اِس کا مطلب نہیں کہ آئندہ اِس پر کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا۔‏ عمارت کو اچھی حالت میں رکھنے کے لئے مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے اور کبھی‌کبھار گھر میں مزید کمرے بھی بنائے جاتے ہیں۔‏ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ مسیحیوں کو بھی ایک عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم روحانی طور پر اچھی حالت میں رہیں؟‏ ہمیں یہوواہ خدا اور اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کے لئے اَور زیادہ محبت پیدا کرنی چاہئے۔‏ محبت کے بغیر ہمارا سارا علم اور ہمارے سارے کام بےفائدہ ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۱-‏۳‏)‏ محبت ہی کی بِنا پر ہم پُختہ بن سکتے ہیں اور اپنی شخصیت میں بہتری لا سکتے ہیں۔‏

اپنی نظر اُمید پر جمائے رکھیں

۱۶.‏ (‏ا)‏ شیطان کس قسم کی سوچ کو فروغ دیتا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ خدا نے ہمیں اِس سوچ سے محفوظ رکھنے کے لئے کونسا سامان مہیا کِیا؟‏

۱۶ آئیں ایک اَور بات پر غور کریں جو اپنی شخصیت میں بہتری لانے کے لئے ضروری ہے۔‏ سچے مسیحیوں کو غلط قسم کی سوچ سے کنارہ کرنا چاہئے۔‏ شیطان اِس دُنیا کا حاکم ہے۔‏ وہ بڑی مہارت سے لوگوں کی سوچ کو بگاڑ دیتا ہے تاکہ وہ شکی‌مزاج ہو جائیں اور نااُمیدی اور مایوسی کا شکار بن جائیں۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۲‏)‏ ایسی سوچ مسیحیوں کے لئے اِتنی ہی خطرناک ہے جتنا کہ کسی عمارت کے لئے دیمک خطرناک ہوتی ہے۔‏ ہم غلط قسم کی سوچ میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ یہوواہ خدا نے ہمیں ایسی سوچ سے محفوظ رکھنے کے لئے سامان مہیا کِیا ہے۔‏ یہ سامان اُمید کا خود ہے۔‏

۱۷.‏ خدا کے کلام میں اُمید کی اہمیت کس مشابہت کے ذریعے ظاہر کی گئی ہے؟‏

۱۷ بائبل میں مسیحیوں کو ایسے فوجیوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو شیطان اور اُس کی دُنیا کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔‏ اُن کے جنگی سازوسامان میں ”‏نجات کی اُمید کا خود“‏ یعنی ہیلمٹ بھی شامل ہے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۸‏)‏ قدیم زمانے میں ہیلمٹ عام طور پر دھات کے ہوتے تھے اور چمڑے یا کپڑے کی ٹوپی پر پہنے جاتے تھے۔‏ فوجی جانتے تھے کہ ہیلمٹ اُن کے سر کو دُشمنوں کے واروں سے محفوظ رکھتا ہے۔‏ اگر وہ ہیلمٹ پہنے بغیر لڑائی میں حصہ لیتے تو وہ جلد ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔‏ جس طرح ہیلمٹ سر کو محفوظ رکھتا ہے اِسی طرح اُمید آپ کی سوچ کو محفوظ رکھتی ہے۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے اُمید کے سلسلے میں کونسی مثال قائم کی؟‏ (‏ب)‏ ہم یسوع مسیح کی طرح اُمید کو اپنی نظروں کے سامنے کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۸ یسوع مسیح نے اُمید کی شمع کو روشن رکھنے کی بہترین مثال قائم کی۔‏ یاد کریں کہ اُس نے زمین پر اپنی آخری رات کیا کچھ سہا۔‏ اُس کے قریبی دوست نے اُسے پیسوں کے لالچ میں آ کر دُشمن کے ہاتھ بیچ دیا۔‏ ایک اَور دوست نے اِس بات سے انکار کِیا کہ وہ اُس کا ساتھی ہے۔‏ اُس کے باقی دوست اُس کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے۔‏ اُس کی اپنی قوم کے لوگوں نے اُس کی مخالفت کی اور اُسے رومی سپاہیوں کے حوالے کِیا تاکہ وہ اُس پر تشدد کرکے اُسے مار ڈالیں۔‏ غالباً ہم میں سے کسی کو اِتنا کٹھن وقت نہیں دیکھنا پڑے گا جتنا کہ یسوع مسیح کو دیکھنا پڑا۔‏ وہ اِن تمام مشکلات میں خدا کا وفادار کیسے رہا؟‏ عبرانیوں ۱۲:‏۲ میں لکھا ہے کہ اُس نے ”‏اُس خوشی کے لئے جو اُس کی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا نہ کرکے صلیب کا دُکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔‏“‏ یسوع مسیح نے اُس خوشی کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھا جو اُسے مستقبل میں ملنے والی تھی۔‏

۱۹ یسوع مسیح کو کونسی خوشی ملنے والی تھی؟‏ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ مشکلات کے باوجود خدا کا وفادار رہے گا تو وہ اپنے باپ کے نام کی بڑائی کرے گا اور تمام مخلوقات کے سامنے شیطان کو جھوٹا ثابت کرے گا۔‏ یہ اُمید اُس کے لئے بےانتہا خوشی کا باعث تھی۔‏ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے آسمانی باپ کے ساتھ جا ملے گا اور خدا اُسے وفاداری کا اَجر دے گا۔‏ یسوع مسیح نے اِس اُمید کو مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنے سامنے رکھا۔‏ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔‏ ہماری اُمید بھی خوشی کا باعث ہے۔‏ خدا ہمیں اپنے پاک نام کی بڑائی کرنے کا شرف عطا کرتا ہے۔‏ یہوواہ خدا کو اپنے حاکم کے طور پر تسلیم کرنے سے ہم بھی شیطان کو جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم آزمائشوں اور مشکلات کا سامنا کرتے وقت خدا کا وفادار رہنے سے اُس کی محبت میں قائم رہ سکتے ہیں۔‏

۲۰.‏ آپ شیطان کی دُنیا کی بُری سوچ سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟‏

۲۰ یہوواہ خدا اپنے خادموں کو اُن کی وفاداری کا اَجر دینے کی دلی خواہش رکھتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۰:‏۱۸؛‏ ملاکی ۳:‏۱۰‏)‏ وہ اُن کی مناسب خواہشات کو پورا کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۴‏)‏ لہٰذا،‏ اپنی نظریں اُس اُمید پر جمائے رکھیں جو آپ کے سامنے ہے۔‏ شیطان کی دُنیا کی گھٹیا اور بُری سوچ کو نہ اپنائیں۔‏ اگر آپ کو لگتا ہے کہ دُنیا کی سوچ آپ کے دل میں جڑ پکڑ رہی ہے تو ’‏خدا کے اطمینان‘‏ کے لئے دُعا کریں۔‏ یہ اطمینان آپ کے دل اور آپ کی سوچ کو محفوظ رکھے گا۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

۲۱،‏ ۲۲.‏ (‏ا)‏ ”‏بڑی بِھیڑ“‏ میں شامل مسیحی کونسی شاندار اُمید رکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ خدا کے کن وعدوں کی تکمیل کو دیکھنے کے مشتاق ہیں؟‏ (‏ج)‏ آپ نے کس بات کا عزم کر رکھا ہے؟‏

۲۱ ذرا سوچیں کہ آپ کتنی شاندار اُمید رکھتے ہیں۔‏ اگر آپ اُس ”‏بڑی بِھیڑ“‏ میں شامل ہیں جو ”‏بڑی مصیبت“‏ میں سے نکل آنے کی اُمید رکھتی ہے تو تصور کریں کہ مستقبل میں زندگی کتنی خوبصورت ہوگی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹،‏ ۱۴‏)‏ جب شیطان اور اُسکے بُرے فرشتوں کو ہٹا دیا جائیگا تو آپ چین کا سانس لے سکیں گے۔‏ زندگی میں پہلی بار ہم ایک ایسی دُنیا میں رہنے کا لطف اُٹھائینگے جو شیطان کے بُرے اثر سے پاک ہوگی۔‏ اُس وقت ہم یسوع مسیح اور اُسکے ساتھ حکمرانی کرنے والے ۱ لاکھ ۴۴ ہزار بادشاہوں کی راہنمائی میں اِس زمین کو فردوس میں تبدیل کر دینگے۔‏ بیماری کا نام‌ونشان مٹ جائے گا اور ہمارے اُن عزیزوں کو زندہ کِیا جائے گا جو فوت ہو گئے ہیں۔‏ تب ہم ایسی زندگی گزاریں گے جو یہوواہ خدا شروع سے ہی انسان کیلئے چاہتا تھا۔‏ واقعی یہ بڑی خوشی کا وقت ہوگا!‏ آخرکار جب ہم پیدائشی گُناہ سے پاک ہو جائیں گے تو رومیوں ۸:‏۲۱ میں پایا جانے والا وعدہ بھی پورا ہوگا اور ہم ”‏خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں“‏ داخل ہو جائیں گے۔‏

۲۲ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ آپ اِس آزادی کو حاصل کریں کیونکہ اِس سے بڑھ کر کوئی آزادی نہیں۔‏ اِسے حاصل کرنے کے لئے ہمیں فرمانبرداری کی راہ پر چلنا ہوگا،‏ چاہے یہ کتنا مشکل کیوں نہ ہو۔‏ یقین کریں کہ یہوواہ خدا آپ کو فرمانبرداری کا اَجر ضرور دے گا۔‏ لہٰذا اپنی شخصیت میں بہتری لانے کا عزم کریں تاکہ آپ ہمیشہ تک خدا کی محبت میں قائم رہیں!‏

^ پیراگراف 12 سائنسدانوں کے مطابق انسان ایک ایسی حس رکھتا ہے جس کے ذریعے اُسے شعور ہے کہ اُس کے ہاتھ‌پیر کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔‏ اِس حس کی مدد سے ہم آنکھیں بند کرکے تالیاں بجا سکتے ہیں۔‏ ایک عورت جو یہ حس کھو بیٹھی،‏ وہ چلنےپھرنے،‏ کھڑے ہونے،‏ یہاں تک کہ اُٹھ بیٹھنے کے قابل نہیں رہی۔‏