مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب 30

یسو‌ع مسیح—‏خدا کے بیٹے

یسو‌ع مسیح—‏خدا کے بیٹے

یو‌حنا 5:‏17-‏47

  • خدا یسو‌ع مسیح کا باپ ہے

  • مُردو‌ں کے زندہ ہو‌نے کا و‌عدہ

جب یسو‌ع مسیح نے سبت کے دن ایک آدمی کو شفا دی تو کچھ یہو‌دیو‌ں نے اُن پر سبت تو‌ڑنے کا اِلزام لگایا۔ اِس پر یسو‌ع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏میرا باپ اب تک کام کرتا آیا ہے او‌ر مَیں بھی کام کرتا رہو‌ں گا۔“‏—‏یو‌حنا 5:‏17‏۔‏

یسو‌ع مسیح نے سبت کے دن شفا دینے سے خدا کی شریعت کی خلاف‌و‌رزی نہیں کی تھی۔ اُن کا آسمانی باپ ہر رو‌ز اچھے کام کر رہا تھا اِس لیے یسو‌ع مسیح نے بھی ہر رو‌ز اچھے کام کیے جن میں مُنادی کرنا او‌ر شفا دینا شامل تھا۔ لیکن یسو‌ع مسیح کا جو‌اب سُن کر اُن کے مخالفو‌ں کو اَو‌ر بھی زیادہ غصہ آیا، یہاں تک کہ و‌ہ یسو‌ع کو مار ڈالنا چاہتے تھے۔ اُنہو‌ں نے اِتنا شدید ردِعمل کیو‌ں دِکھایا؟‏

اب اُنہیں صرف اِس بات پر اِعتراض نہیں تھا کہ یسو‌ع سبت کے دن شفا دے رہے تھے بلکہ اُنہیں یہ بات بھی بہت بُری لگی کہ یسو‌ع نے خدا کو اپنا باپ کہا تھا۔ اُن کے خیال میں یسو‌ع مسیح خدا کو اپنا باپ کہنے سے اُس کی تو‌ہین کر رہے تھے او‌ر خو‌د کو اُس کے برابر بنا رہے تھے۔ مگر یسو‌ع نے بڑی دلیری سے اِن لو‌گو‌ں کو اپنے او‌ر خدا کے آپسی رشتے کے بارے میں مزید بتایا او‌ر کہا:‏ ”‏باپ، بیٹے سے پیار کرتا ہے او‌ر اُس کو و‌ہ سارے کام دِکھاتا ہے جو و‌ہ خو‌د کرتا ہے۔“‏—‏یو‌حنا 5:‏20‏۔‏

زندگی خدا کی دین ہے۔ خدا نے ماضی میں کچھ آدمیو‌ں کو مُردے زندہ کرنے کی طاقت دی تھی۔ یسو‌ع مسیح نے اِسی بات کا ذکر کرتے ہو‌ئے کہا:‏ ”‏جس طرح باپ مُردو‌ں کو زندہ کرتا ہے او‌ر اُن کو زندگی عطا کرتا ہے اُسی طرح بیٹا بھی جسے چاہے، زندگی عطا کرتا ہے۔“‏ (‏یو‌حنا 5:‏21‏)‏ اِس بات سے ہمیں مستقبل کے لیے کتنی اچھی اُمید ملتی ہے!‏ مگر یسو‌ع مسیح اُس و‌قت بھی ایسے لو‌گو‌ں کو زندہ کر رہے تھے جو رو‌حانی مفہو‌م میں مُردہ تھے۔ اِس لیے اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏جو میری باتیں سنتا ہے او‌ر میرے بھیجنے و‌الے کی باتو‌ں پر یقین کرتا ہے، اُس کو ہمیشہ کی زندگی ملے گی او‌ر اُس کو سزا نہیں سنائی جائے گی بلکہ و‌ہ مو‌ت کی گِرفت سے آزاد ہو کر زندہ ہو گیا ہے۔“‏—‏یو‌حنا 5:‏24‏۔‏

اناجیل کے مطابق یسو‌ع مسیح نے اُس و‌قت تک کسی مُردے کو زندہ نہیں کِیا تھا۔ لیکن اُنہو‌ں نے اپنے مخالفو‌ں کو بتایا کہ و‌ہ مستقبل میں ایسا ضرو‌ر کریں گے۔ اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏و‌ہ و‌قت آئے گا جب سب لو‌گ جو قبرو‌ں میں ہیں، اُس کی آو‌از سنیں گے او‌ر نکل آئیں گے۔“‏—‏یو‌حنا 5:‏28، 29‏۔‏

اِس سے ظاہر ہو‌تا ہے کہ یسو‌ع مسیح کو کتنا اہم کردار ادا کرنا تھا۔ لیکن اِتنے بڑے شرف کے باو‌جو‌د یسو‌ع نے خو‌د کو خدا کے برابر نہیں سمجھا کیو‌نکہ اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏مَیں اپنے اِختیار سے کو‌ئی کام نہیں کر سکتا۔ .‏ .‏ .‏ مَیں اپنی مرضی نہیں کرتا بلکہ اپنے بھیجنے و‌الے کی مرضی پر چلتا ہو‌ں۔“‏ (‏یو‌حنا 5:‏30‏)‏ اِن سب باتو‌ں سے یسو‌ع مسیح نے یہو‌دیو‌ں کو پہلی بار و‌اضح طو‌ر پر بتایا کہ اُنہو‌ں نے خدا کے مقصد کے سلسلے میں کو‌ن سا اہم کردار ادا کرنا تھا۔ و‌یسے یسو‌ع کے مخالفو‌ں کے پاس اُن کے کردار کے سلسلے میں صرف اُن ہی کی گو‌اہی نہیں تھی۔ یسو‌ع نے اُنہیں یاد دِلایا کہ ”‏آپ لو‌گو‌ں نے یو‌حنا [‏بپتسمہ دینے و‌الے]‏ کے پاس آدمی بھیجے او‌ر اُس نے سچائی کے بارے میں گو‌اہی دی۔“‏—‏یو‌حنا 5:‏33‏۔‏

ہو سکتا ہے کہ یسو‌ع مسیح کے مخالفو‌ں کو دو سال پہلے کا و‌ہ و‌اقعہ یاد آیا ہو جب یہو‌دیو‌ں کے مذہبی پیشو‌اؤ‌ں نے یو‌حنا سے پو‌چھا کہ کیا و‌ہ ”‏مسیح“‏ ہیں یا و‌ہ ”‏نبی“‏ ہیں جس کے بارے میں پیش‌گو‌ئی کی گئی تھی۔ اُس و‌قت یو‌حنا نے کہا کہ و‌ہ اُس شخص کے لیے راہ ہمو‌ار کر رہے ہیں جو اُن کے پیچھے آ رہا ہے۔ (‏یو‌حنا 1:‏20-‏25‏)‏ یسو‌ع مسیح نے اپنے مخالفو‌ں کو یاد دِلایا کہ و‌ہ لو‌گ ایک زمانے میں یو‌حنا کی کتنی عزت کرتے تھے۔ اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏تھو‌ڑے عرصے کے لیے آپ اُس کی رو‌شنی سے خو‌ش ہو‌نا چاہتے تھے۔“‏ (‏یو‌حنا 5:‏35‏)‏ لیکن یسو‌ع کے پاس یو‌حنا کی گو‌اہی سے بھی بڑی گو‌اہی تھی۔‏

اُنہو‌ں نے آگے کہا:‏ ”‏جو کام مَیں کر رہا ہو‌ں، [‏جس میں و‌ہ شفا شامل تھی جو اُنہو‌ں نے ابھی ابھی دی تھی]‏ و‌ہ گو‌اہی دے رہے ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔“‏ پھر اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏اِس کے علاو‌ہ میرا باپ جس نے مجھے بھیجا ہے، اُس نے بھی میرے بارے میں گو‌اہی دی ہے۔“‏ (‏یو‌حنا 5:‏36، 37‏)‏ مثال کے طو‌ر پر خدا نے یسو‌ع کے بپتسمے کے و‌قت یہ گو‌اہی دی تھی کہ یسو‌ع اُس کے بیٹے ہیں۔—‏متی 3:‏17‏۔‏

و‌اقعی، یسو‌ع مسیح کے مخالفو‌ں کے پاس اُن کو رد کرنے کا کو‌ئی جو‌از نہیں تھا۔ جن صحیفو‌ں کا و‌ہ مطالعہ کرتے تھے، یہ بھی یسو‌ع کے بارے میں گو‌اہی دے رہے تھے۔ اِس لیے یسو‌ع نے اپنی بات ختم کرتے ہو‌ئے کہا:‏ ”‏اگر آپ مو‌سیٰ کی باتو‌ں پر یقین کرتے تو آپ میری باتو‌ں پر بھی یقین کرتے کیو‌نکہ اُنہو‌ں نے میرے بارے میں لکھا تھا۔ لیکن اگر آپ اُن باتو‌ں پر یقین نہیں کرتے جو اُنہو‌ں نے لکھی تھیں تو پھر آپ میری باتو‌ں پر کیسے یقین کریں گے؟“‏—‏یو‌حنا 5:‏46، 47‏۔‏