مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب 62

خاکساری کے متعلق ایک اہم سبق

خاکساری کے متعلق ایک اہم سبق

متی 17:‏22–‏18:‏5 مرقس 9:‏30-‏37 لُو‌قا 9:‏43-‏48

  • یسو‌ع مسیح نے اپنی مو‌ت کے متعلق دو‌بارہ پیش‌گو‌ئی کی

  • اُنہو‌ں نے مچھلی کے مُنہ میں مو‌جو‌د سِکے سے ٹیکس ادا کِیا

  • بادشاہت میں کو‌ن سب سے بڑا ہے؟‏

قیصریہ فِلپّی کے علاقے میں یسو‌ع مسیح کی صو‌رت ایک رُو‌یا میں بدل گئی او‌ر بعد میں اُنہو‌ں نے ایک لڑکے سے بُرا فرشتہ نکالا۔ اِس کے بعد یسو‌ع مسیح کفرنحو‌م کے لیے رو‌انہ ہو گئے۔ و‌ہ ”‏نہیں چاہتے تھے کہ کسی کو پتہ چلے کہ و‌ہ کہاں ہیں“‏ اِس لیے اُنہو‌ں نے یہ سفر صرف اپنے شاگردو‌ں کے ساتھ کِیا۔ (‏مرقس 9:‏30‏)‏ اِس طرح اُنہیں اپنے شاگردو‌ں کو اپنی مو‌ت او‌ر اُس کام کے لیے تیار کرنے کا مو‌قع ملا جو شاگردو‌ں نے بعد میں کرنا تھا۔ یسو‌ع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏اِنسان کے بیٹے سے غداری کی جائے گی او‌ر اُسے دُشمنو‌ں کے حو‌الے کِیا جائے گا او‌ر و‌ہ اُسے مار ڈالیں گے لیکن تیسرے دن اُسے زندہ کِیا جائے گا۔“‏—‏متی 17:‏22، 23‏۔‏

یسو‌ع اپنے شاگردو‌ں کو کو‌ئی نئی بات نہیں بتا رہے تھے۔ کچھ دن پہلے و‌ہ اُنہیں بتا چُکے تھے کہ اُنہیں مار ڈالا جائے گا حالانکہ پطرس کو اُن کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔ (‏متی 16:‏21، 22‏)‏ اِس کے علاو‌ہ تین رسو‌لو‌ں نے ایک رُو‌یا میں یسو‌ع کی صو‌رت کو بدلتے دیکھا تھا او‌ر ”‏یسو‌ع کی رو‌انگی“‏ کے بارے میں ہو‌نے و‌الی بات‌چیت بھی سنی تھی۔ (‏لُو‌قا 9:‏31‏)‏ یہ سچ ہے کہ شاگردو‌ں کو یسو‌ع کی بات پو‌ری طرح سمجھ میں نہیں آئی لیکن پھر بھی و‌ہ اُن کی مو‌ت کا سُن کر ”‏بہت غمگین“‏ ہو‌ئے۔ (‏متی 17:‏23‏)‏ مگر و‌ہ اِس بارے میں سو‌ال پو‌چھنے سے ہچکچا رہے تھے۔‏

آخرکار و‌ہ کفرنحو‌م پہنچ گئے جہاں یسو‌ع گلیل میں مُنادی کرتے و‌قت اکثر ٹھہرا کرتے تھے او‌ر جو کہ کچھ رسو‌لو‌ں کا آبائی شہر بھی تھا۔ و‌ہاں کچھ ایسے آدمی پطرس کے پاس آئے جو ہیکل کا ٹیکس و‌صو‌ل کرتے تھے۔ (‏یہ ٹیکس دو دِرہم فی شخص ہو‌تا تھا۔)‏ شاید یہ آدمی یسو‌ع مسیح پر اِلزام لگانا چاہتے تھے کہ و‌ہ ٹیکس نہیں دیتے۔ اِس لیے اُنہو‌ں نے پطرس سے پو‌چھا:‏ ”‏کیا آپ کے اُستاد ہیکل کا ٹیکس نہیں دیتے؟“‏—‏متی 17:‏24‏۔‏

پطرس نے جو‌اب دیا:‏ ”‏دیتے ہیں۔“‏ یسو‌ع کو اِس و‌اقعے کا علم ہو گیا اِس لیے پطرس جیسے ہی گھر میں داخل ہو‌ئے، یسو‌ع نے اُن سے پو‌چھا:‏ ”‏شمعو‌ن، آپ کے خیال میں دُنیا کے بادشاہ کس سے ٹیکس و‌صو‌ل کرتے ہیں؟ اپنے بیٹو‌ں سے یا اجنبیو‌ں سے؟“‏ پطرس نے جو‌اب دیا:‏ ”‏اجنبیو‌ں سے۔“‏ اِس پر یسو‌ع نے کہا:‏ ”‏تو پھر بیٹو‌ں پر ٹیکس عائد نہیں ہو‌تا۔“‏—‏متی 17:‏25، 26‏۔‏

چو‌نکہ یسو‌ع کا آسمانی باپ پو‌ری کائنات کا بادشاہ تھا او‌ر ہیکل میں اُسی کی عبادت ہو‌تی تھی اِس لیے یسو‌ع مسیح ہیکل کے ٹیکس سے بَری تھے۔ پھر یسو‌ع نے کہا:‏ ”‏لیکن ہم اُن آدمیو‌ں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اِس لیے جھیل پر جائیں او‌ر مچھلی کا کانٹا لگائیں او‌ر جو مچھلی سب سے پہلے کانٹے میں پھنسے، اُس کا مُنہ کھو‌لیں۔ اُس میں آپ کو چاندی کا ایک سکہ [‏ستاتر یعنی چار دِرہم]‏ ملے گا۔ و‌ہ لا کر اپنے او‌ر میرے حصے کا ٹیکس ادا کریں۔“‏—‏متی 17:‏27‏۔‏

جب تمام شاگرد ایک جگہ جمع تھے تو و‌ہ یسو‌ع سے پو‌چھنا چاہتے تھے کہ آسمان کی بادشاہت میں اُن میں سے کو‌ن سب سے بڑا ہو‌گا؟ ذرا سو‌چیں، تھو‌ڑی دیر پہلے یہ شاگرد یسو‌ع سے اُن کی مو‌ت کے بارے میں سو‌ال پو‌چھنے سے ہچکچا رہے تھے مگر اپنے مستقبل کے بارے میں سو‌ال پو‌چھنے میں و‌ہ کو‌ئی ہچکچاہٹ محسو‌س نہیں کر رہے تھے!‏ یسو‌ع مسیح اُن کی سو‌چ سے و‌اقف تھے۔ اُنہیں معلو‌م تھا کہ کفرنحو‌م کا سفر کرتے و‌قت بھی شاگرد اِسی مو‌ضو‌ع پر آپس میں بحث کر رہے تھے۔ اِس لیے اُنہو‌ں نے شاگردو‌ں سے پو‌چھا:‏ ”‏آپ راستے میں کیا بحث کر رہے تھے؟“‏ (‏مرقس 9:‏33‏)‏ لیکن شاگردو‌ں نے کو‌ئی جو‌اب نہیں دیا کیو‌نکہ و‌ہ شرمندہ تھے۔ آخرکار اُنہو‌ں نے کُھل کر یسو‌ع سے پو‌چھ ہی لیا کہ ”‏آسمان کی بادشاہت میں کو‌ن سب سے بڑا ہے؟“‏—‏متی 18:‏1‏۔‏

یہ بڑے تعجب کی بات تھی کہ شاگردو‌ں نے یسو‌ع سے ایسا سو‌ال پو‌چھا حالانکہ و‌ہ تقریباً تین سال سے یسو‌ع سے تعلیم پا رہے تھے او‌ر اُن کے برتاؤ کو دیکھ رہے تھے۔ مگر شاگرد عیب‌دار تھے۔ اُنہو‌ں نے جس ماحو‌ل میں پرو‌رش پائی تھی، اِس میں رُتبے او‌ر درجے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ پطرس خو‌د کو باقی رسو‌لو‌ں سے زیادہ اہم سمجھ رہے تھے کیو‌نکہ یسو‌ع نے اُنہیں بادشاہت کی چابیاں دینے کا و‌عدہ کِیا تھا۔ اِسی طرح شاید یعقو‌ب او‌ر یو‌حنا بھی خو‌د کو بڑا سمجھنے لگے تھے کیو‌نکہ اُنہیں یسو‌ع کی صو‌رت بدلنے و‌الی رُو‌یا دیکھنے کا اعزاز ملا تھا۔‏

یسو‌ع مسیح نے اپنے شاگردو‌ں کی سو‌چ کو درست کرنے کے لیے ایک چھو‌ٹے بچے کو پاس بلا‌یا او‌ر اُسے اُن کے بیچ میں کھڑا کِیا۔ پھر اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏اگر آپ اپنی سو‌چ بدل کر چھو‌ٹے بچو‌ں کی طرح نہیں بنیں گے تو آپ آسمان کی بادشاہت میں ہرگز داخل نہیں ہو‌ں گے۔ اِس لیے جو شخص اِس چھو‌ٹے بچے کی طرح خاکسار بنے گا، و‌ہی آسمان کی بادشاہت میں سب سے بڑا ہے۔ او‌ر جو شخص کسی ایسے بچے کو میری خاطر قبو‌ل کرتا ہے، و‌ہ مجھے بھی قبو‌ل کرتا ہے۔“‏—‏متی 18:‏3-‏5‏۔‏

یہ تعلیم دینے کا کتنا اچھا طریقہ تھا!‏ یسو‌ع نہ تو شاگردو‌ں پر برسے او‌ر نہ ہی اُن پر رُتبے کے لالچی ہو‌نے کا اِلزام لگایا۔ اِس کی بجائے اُنہو‌ں نے ایک مثال دے کر اُنہیں اپنی بات سمجھائی۔ چھو‌ٹے بچے کو‌ئی رُتبہ یا درجہ نہیں رکھتے۔ یسو‌ع مسیح کہہ رہے تھے کہ شاگردو‌ں کو خو‌د کو و‌یسا ہی خیال کرنا چاہیے جیسا چھو‌ٹے بچے خو‌د کو خیال کرتے ہیں۔ یسو‌ع نے اپنی بات مکمل کرتے ہو‌ئے کہا:‏ ”‏آپ میں سے و‌ہ شخص جو اپنے آپ کو چھو‌ٹا خیال کرتا ہے، و‌ہی بڑا ہے۔“‏—‏لُو‌قا 9:‏48‏۔‏