باب 80
اچھا چرواہا اور بھیڑخانے
-
یسوع مسیح نے اچھے چرواہے اور بھیڑخانوں کی مثال دی
یسوع مسیح ابھی بھی یہودیہ میں تعلیم دے رہے تھے۔ اب وہ ایسی چیزوں کا ذکر کرنے لگے جن سے یہودی اچھی طرح واقف تھے یعنی بھیڑوں اور بھیڑخانوں کا۔ اُنہوں نے ایک مثال دی جسے سُن کر یہودیوں کو شاید داؤد کے یہ الفاظ یاد آئے ہوں: ”[یہوواہ] میرا چوپان [یعنی چرواہا] ہے۔ مجھے کمی نہ ہوگی۔ وہ مجھے ہری ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔“ (زبور 23:1، 2) ایک اَور زبور میں داؤد نے بنیاِسرائیل سے کہا: ”آؤ ہم . . . اپنے خالق [یہوواہ] کے حضور گھٹنے ٹیکیں کیونکہ وہ ہمارا خدا ہے اور ہم اُس کی چراگاہ کے لوگ . . . ہیں۔“ (زبور 95:6، 7) لہٰذا یہودی جانتے تھے کہ خدا کے کلام میں بنیاِسرائیل کو اکثر بھیڑوں سے تشبیہ دی گئی تھی۔
یہ ”بھیڑیں“ یعنی اِسرائیلی اِس لحاظ سے ایک ”بھیڑخانے“ میں تھیں کہ وہ پیدائشی طور پر موسیٰ کی شریعت کے تحت تھیں۔ یہ شریعت ایک باڑ کی طرح تھی جس کے ذریعے بنیاِسرائیل دوسری قوموں جیسے بُرے کام کرنے سے باز رہتے تھے۔ البتہ کچھ اِسرائیلیوں نے خدا کے گلّے کے ساتھ بُرا سلوک کِیا تھا۔ اِس لیے یسوع مسیح نے کہا: ”مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ جو شخص بھیڑخانے میں دروازے سے داخل نہیں ہوتا بلکہ کہیں اَور سے چڑھ کر آتا ہے، وہ چور اور ڈاکو ہے۔ لیکن جو دروازے سے اندر آتا ہے، وہ بھیڑوں کا چرواہا ہے۔“—یوحنا 10:1، 2۔
یسوع کی یہ بات سُن کر وہاں موجود یہودیوں کے ذہن میں شاید ایسے آدمی آئے ہوں جنہوں نے مسیح ہونے کا دعویٰ کِیا تھا۔ یہ آدمی چور اور ڈاکو کی طرح تھے۔ یسوع مسیح نے کہا کہ لوگوں کو اِن کے پیچھے نہیں جانا چاہیے بلکہ اُنہیں ’بھیڑوں کے چرواہے‘ کے پیچھے پیچھے جانا چاہیے۔
اُنہوں نے اِس چرواہے کے بارے میں کہا: ”چوکیدار اُس کے لیے دروازہ کھولتا ہے اور بھیڑیں اُس کی آواز سنتی ہیں۔ وہ اپنی بھیڑوں کو نام سے بلاتا ہے اور اُنہیں باہر نکالتا ہے۔ جب وہ اپنی سب بھیڑوں کو نکال لیتا ہے تو وہ اُن کے آگے آگے چلتا ہے اور بھیڑیں اُس کے پیچھے پیچھے جاتی ہیں کیونکہ وہ اُس کی آواز پہچانتی ہیں۔ وہ کسی اجنبی کے پیچھے بالکل نہیں جاتیں بلکہ اُس سے بھاگتی ہیں کیونکہ وہ اجنبیوں کی آواز نہیں پہچانتیں۔“—یوحنا 10:3-5۔
یوحنا بپتسمہ دینے والے اُس چوکیدار کی طرح تھے۔ کچھ عرصہ پہلے اُنہوں نے واضح کِیا کہ یسوع ہی وہ چرواہے ہیں جس کے پیچھے بھیڑوں یعنی یہودیوں کو جانا چاہیے۔ خوشی کی بات تھی کہ پہلے گلیل میں اور اب یہودیہ میں بھی کچھ بھیڑوں نے یسوع کی آواز پہچان لی۔ یسوع مسیح نے اِن بھیڑوں کو کہاں لے جانا تھا؟ اور یسوع کے پیچھے پیچھے جانے سے اُن کو کون سی برکتیں ملنی تھیں؟ وہاں موجود بعض یہودیوں کے ذہن میں کچھ ایسے ہی سوال اُٹھے ہوں گے کیونکہ ’اُن کو یسوع کی بات سمجھ نہیں آئی۔‘—یوحنا 10:6۔
یسوع مسیح نے اپنی بات کی وضاحت کرنے کے لیے کہا: ”مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ مَیں بھیڑوں کے لیے دروازہ ہوں۔ جو لوگ میری جگہ آئے ہیں، وہ سب چور اور ڈاکو ہیں۔ لیکن بھیڑوں نے اُن کی نہیں سنی۔ مَیں دروازہ ہوں۔ جو کوئی مجھ سے داخل ہوتا ہے، وہ نجات پائے گا اور اندر جائے گا اور باہر آئے گا اور اُسے چراگاہیں ملیں گی۔“—یوحنا 10:7-9۔
وہاں موجود لوگ جانتے تھے کہ یسوع، موسیٰ کی شریعت کا دروازہ نہیں تھے کیونکہ یہ شریعت صدیوں سے قائم تھی۔ لہٰذا وہ اُن کی باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے تھے کہ یسوع بھیڑوں کو شریعت سے ’باہر نکال‘ کر کسی اَور بھیڑخانے میں لے جانے کی بات کر رہے تھے۔ اِس سے بھیڑوں کو کون سی برکتیں ملنی تھیں؟
یسوع نے اپنے آنے کے مقصد کے متعلق کہا: ”مَیں اِس لیے آیا ہوں کہ بھیڑوں کو زندگی ملے بلکہ کثرت سے ملے۔ مَیں اچھا چرواہا ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لیے اپنی جان دے دیتا ہے۔“ (یوحنا 10:10، 11) کچھ عرصہ پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے یہ حوصلہافزا بات کہی تھی: ”گھبرائیں مت، چھوٹے گلّے کیونکہ آپ کے باپ نے آپ کو بادشاہت دینے کا فیصلہ کِیا ہے۔“ (لُوقا 12:32) لہٰذا یسوع اِسی ”چھوٹے گلّے“ کی بھیڑوں کو ایک نئے بھیڑخانے میں لے جانے والے تھے تاکہ اُنہیں ”زندگی ملے بلکہ کثرت سے ملے۔“ اِس گلّے کا حصہ ہونا واقعی بہت بڑی برکت تھی!
مگر یسوع مسیح نے بات یہیں ختم نہیں کی بلکہ آگے کہا: ”میری اَور بھی بھیڑیں ہیں جو اِس بھیڑخانے کی نہیں ہیں۔ لازمی ہے کہ مَیں اُن کو بھی اندر لاؤں۔ وہ یوحنا 10:16) یہ بھیڑیں ”چھوٹے گلّے“ کے ’بھیڑخانے کی نہیں ہیں‘ جن کو بادشاہت ورثے میں ملے گی۔ لہٰذا اِن کا بھیڑخانہ فرق ہے۔ دونوں بھیڑخانوں میں موجود بھیڑوں کی اُمیدیں فرق ہیں۔ لیکن پھر بھی اِن دونوں بھیڑخانوں کی بھیڑوں کو یسوع مسیح کی قربانی سے فائدہ ہوگا۔ یسوع نے کہا: ”میرا باپ اِس لیے مجھ سے محبت کرتا ہے کیونکہ مَیں اپنی جان دیتا ہوں۔“—یوحنا 10:17۔
میری آواز سنیں گی اور میری سب بھیڑیں ایک گلّہ بن جائیں گی اور اُن کا ایک چرواہا ہوگا۔“ (یہ سُن کر بہت سے لوگ یسوع کے بارے میں کہنے لگے: ”اِس میں کوئی بُرا فرشتہ گھسا ہوا ہے۔ اِس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔“ مگر کچھ لوگ یسوع کی باتوں کو بڑے شوق سے سُن رہے تھے اور اِس اچھے چرواہے کی پیروی کرنے پر راضی تھے۔ اِن لوگوں نے کہا: ”کیا ایسا شخص جس میں بُرا فرشتہ ہو، ایسی باتیں کہہ سکتا ہے؟ ایک بُرا فرشتہ تو اندھوں کی آنکھیں ٹھیک نہیں کر سکتا نا؟“ (یوحنا 10:20، 21) بِلاشُبہ وہ اُس واقعے کا ذکر کر رہے تھے جب یسوع مسیح نے ایک پیدائشی اندھے کو شفا دی تھی۔