باب 85
گُناہگاروں کی توبہ پر آسمان میں خوشی
-
کھوئی ہوئی بھیڑ اور کھوئے ہوئے دِرہم کی مثال
-
آسمان میں فرشتے خوشی مناتے ہیں
یسوع مسیح نے تعلیم دیتے وقت اکثر خاکساری کی اہمیت پر زور دیا۔ (لُوقا 14:8-11) وہ ایسے لوگوں کی تلاش میں تھے جو خاکساری سے خدا کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے اُن لوگوں سے بھی میل جول رکھا جنہیں گُناہگار خیال کِیا جاتا تھا۔
مگر فریسی اور شریعت کے عالم ایسے لوگوں کو حقیر سمجھتے تھے۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ یسوع مسیح سے تعلیم پانے کے لیے آ رہے ہیں تو وہ بڑبڑانے لگے کہ ”یہ آدمی گُناہگاروں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور اُن کے ساتھ کھاتا پیتا ہے۔“ (لُوقا 15:2) فریسی اور شریعت کے عالم خود کو بہت بڑا سمجھتے تھے اور عام لوگوں کو اپنے پیروں کی دھول سمجھتے تھے۔ وہ اپنی حقارت ظاہر کرنے کے لیے اِن لوگوں کو عبرانی میں ”اَمہاآرِتس“ کہتے تھے جس کا لفظی مطلب ”زمین کے لوگ“ ہے۔
اِس کے برعکس یسوع مسیح سب لوگوں کے ساتھ رحم اور احترام سے پیش آتے تھے۔ اِس لیے بہت سے عام لوگ، یہاں تک کہ ایسے لوگ بھی جو گُناہگاروں کے طور پر مشہور تھے، یسوع سے تعلیم پانے کا شوق رکھتے تھے۔ اور یسوع مسیح نے خوشی سے اُن سب کی مدد کی۔ لیکن جب فریسیوں اور شریعت کے عالموں نے اِس بات پر اِعتراض کِیا تو یسوع مسیح کا ردِعمل کیا تھا؟
اُنہوں نے دل کو چُھو لینے والی ایک مثال دی۔ یہ اُس مثال سے ملتی جلتی تھی جو اُنہوں نے کچھ عرصہ پہلے کفرنحوم میں دی تھی۔ (متی 18:12-14) اِس مثال میں فریسیوں کو ایسی بھیڑوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو نیک ہیں اور خدا کے گلّے میں محفوظ ہیں جبکہ عام لوگوں کو ایک ایسی بھیڑ سے تشبیہ دی گئی ہے جو گم ہو گئی ہے اور خدا کے گلّے سے دُور ہو گئی ہے۔
یسوع مسیح نے کہا: ”فرض کریں کہ ایک آدمی کے پاس 100 بھیڑیں ہیں اور اُن میں سے ایک گم ہو جاتی ہے۔ کیا وہ 99 (ننانوے) بھیڑوں کو ویرانے میں چھوڑ کر اُس وقت تک اُس بھیڑ کو نہیں ڈھونڈے گا جب تک وہ مل نہ جائے؟ اور جب وہ مل جاتی ہے تو وہ اُسے کندھے پر اُٹھاتا ہے اور بہت خوش ہوتا ہے۔ پھر جب وہ گھر پہنچتا ہے تو اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کو بلاتا ہے اور اُن سے کہتا ہے: ”میرے ساتھ خوشی مناؤ کیونکہ میری جو بھیڑ گم ہو گئی تھی، وہ مل گئی ہے۔““—لُوقا 15:4-6۔
پھر یسوع نے اِس مثال کا سبق یوں دیا: ”مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اِسی طرح 99 (ننانوے) نیک لوگوں کے لیے جنہیں توبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آسمان میں اِتنی خوشی نہیں منائی جاتی جتنی کہ ایک گُناہگار کے توبہ کرنے پر۔“—لُوقا 15:7۔
یسوع مسیح کی یہ بات سُن کر فریسیوں کو دھچکا لگا ہوگا۔ وہ خود کو بہت نیک سمجھتے تھے اور اُنہیں لگتا تھا کہ اُنہیں توبہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تقریباً دو سال پہلے چند فریسیوں نے یسوع مسیح کو ٹیکس وصول کرنے والوں اور مرقس 2:15-17) چونکہ فریسی خود کو بہت پارسا خیال کرتے تھے اِس لیے اُنہیں توبہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اِس وجہ سے آسمان میں اُن کے حوالے سے خوشی نہیں منائی جاتی تھی۔ مگر جب بھی کوئی گُناہگار دل سے توبہ کرتا ہے تو آسمان میں خوشی منائی جاتی ہے۔
گُناہگاروں کے ساتھ کھانا کھانے پر ٹوکا تھا۔ اِس پر یسوع مسیح نے اُنہیں جواب دیا تھا کہ ”مَیں دینداروں کو بلانے نہیں آیا بلکہ گُناہگاروں کو۔“ (اِس بات کو نمایاں کرنے کے لیے کہ کسی گُناہگار کے توبہ کرنے پر آسمان میں بڑی خوشی ہوتی ہے، یسوع مسیح نے ایک اَور مثال دی۔ اُنہوں نے کہا: ”فرض کریں کہ ایک عورت کے پاس دس دِرہم ہیں اور ایک دِرہم گم ہو جاتا ہے۔ کیا وہ چراغ جلا کر گھر میں جھاڑو نہیں دے گی اور اُس وقت تک اُسے نہیں ڈھونڈے گی جب تک وہ مل نہ جائے؟ اور جب وہ اُسے مل جاتا ہے تو وہ اپنی سہیلیوں اور پڑوسیوں کو بلاتی ہے اور اُن سے کہتی ہے: ”میرے ساتھ خوشی مناؤ کیونکہ میرا جو دِرہم گم ہو گیا تھا، وہ مل گیا ہے۔““—لُوقا 15:8، 9۔
اِس مثال کا بھی وہی سبق تھا جو کھوئی ہوئی بھیڑ والی مثال کا تھا۔ یسوع مسیح نے کہا: ”مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اِسی طرح جب ایک گُناہگار توبہ کرتا ہے تو خدا کے فرشتے بھی خوشی مناتے ہیں۔“—لُوقا 15:10۔
ذرا سوچیں: جب گُناہگار اِنسان توبہ کرتے ہیں تو فرشتے خوش ہوتے ہیں حالانکہ اِن گُناہگاروں میں سے کچھ آسمان پر خدا کی بادشاہت میں فرشتوں سے بھی بڑا عہدہ رکھیں گے۔ (1-کُرنتھیوں 6:2، 3) فرشتے اِن اِنسانوں سے نہیں جلتے۔ تو پھر کیا ہمیں بھی اُس وقت خوش نہیں ہونا چاہیے جب ایک گُناہگار توبہ کر کے یہوواہ خدا کے پاس لوٹ آتا ہے؟