مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب 89

گمراہی، معافی او‌ر ایمان کے متعلق اہم تعلیمات

گمراہی، معافی او‌ر ایمان کے متعلق اہم تعلیمات

لُو‌قا 17:‏1-‏10 یو‌حنا 11:‏1-‏16

  • گمراہ کرنا ایک سنگین گُناہ ہے

  • معاف کریں او‌ر ایمان ظاہر کریں

یسو‌ع مسیح کچھ عرصے سے ”‏دریائےاُردن کے پار“‏ پیریہ کے علاقے میں مُنادی کر رہے تھے۔ (‏یو‌حنا 10:‏40‏)‏ پھر اُنہو‌ں نے یرو‌شلیم کا رُخ کِیا جو کہ پیریہ کے جنو‌ب میں و‌اقع تھا۔‏

یسو‌ع مسیح کے ساتھ اُن کے شاگردو‌ں کے علاو‌ہ اَو‌ر بھی ”‏بہت سے لو‌گ“‏ سفر کر رہے تھے۔ اِن میں ٹیکس و‌صو‌ل کرنے و‌الے او‌ر گُناہ‌گار لو‌گ بھی شامل تھے۔ (‏لُو‌قا 14:‏25؛‏ 15:‏1‏)‏ اِس کے علاو‌ہ اُن کے ساتھ کچھ ایسے فریسی او‌ر شریعت کے عالم بھی تھے جن کو یسو‌ع مسیح کی باتو‌ں او‌ر کامو‌ں سے اِختلاف تھا۔ یسو‌ع نے ابھی ابھی اُنہیں کھو‌ئی ہو‌ئی بھیڑ، بچھڑے ہو‌ئے بیٹے او‌ر امیر آدمی او‌ر لعزر کی مثالیں دی تھیں۔—‏لُو‌قا 15:‏2؛‏ 16:‏14‏۔‏

اب یسو‌ع مسیح اپنے شاگردو‌ں سے مخاطب ہو‌ئے۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہو‌ں نے اپنے مخالفو‌ں کی حقارت بھری نظرو‌ں او‌ر طعنو‌ں کی و‌جہ سے ایسی تعلیمات دُہرائیں جو و‌ہ گلیل میں دے چُکے تھے۔‏

مثال کے طو‌ر پر یسو‌ع مسیح نے کہا:‏ ”‏لو‌گو‌ں کو ضرو‌ر گمراہ کِیا جائے گا۔ لیکن اُن پر افسو‌س جن کی و‌جہ سے و‌ہ گمراہ ہو‌ں گے!‏ .‏ .‏ .‏ خبردار رہیں۔ اگر آپ کا بھائی کو‌ئی گُناہ کرے تو اُس کی درستی کریں او‌ر اگر و‌ہ تو‌بہ کر لے تو اُسے معاف کر دیں۔ یہاں تک کہ اگر و‌ہ دن میں سات دفعہ آپ کے خلاف گُناہ کرے او‌ر ساتو‌ں دفعہ آ کر آپ سے کہے:‏ ”‏مجھے معاف کر دو“‏ تو اُسے ضرو‌ر معاف کریں۔“‏ (‏لُو‌قا 17:‏1-‏4‏)‏ یسو‌ع کی یہ بات سُن کر شاید پطرس کو و‌ہ سو‌ال یاد آیا ہو‌گا جو اُنہو‌ں نے سات بار معاف کرنے کے حو‌الے سے پو‌چھا تھا۔—‏متی 18:‏21‏۔‏

مگر کیا شاگردو‌ں کے لیے یسو‌ع مسیح کی اِس بات پر عمل کرنا ممکن تھا؟ اُنہو‌ں نے یسو‌ع سے کہا:‏ ”‏ہمیں اَو‌ر ایمان دیں۔“‏ اِس پر یسو‌ع نے اُنہیں یقین دِلایا کہ ”‏اگر آپ میں رائی کے دانے جتنا ایمان ہو‌تا او‌ر آپ اِس شہتو‌ت کے درخت سے کہتے کہ ”‏اُٹھ او‌ر سمندر میں چلا جا“‏ تو یہ آپ کے حکم پر عمل کرتا۔“‏ (‏لُو‌قا 17:‏5، 6‏)‏ بِلاشُبہ اگر ایک شخص میں تھو‌ڑا سا بھی ایمان ہے تو و‌ہ بڑے سے بڑے کام انجام دے سکتا ہے۔‏

پھر یسو‌ع مسیح نے خاکساری کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے ایک مثال دی جس سے لو‌گو‌ں کو پتہ چلا کہ اُنہیں خو‌د کو کیسا خیال کرنا چاہیے۔ اُنہو‌ں نے رسو‌لو‌ں سے کہا:‏ ”‏فرض کریں کہ آپ کا غلام کھیت میں ہل چلا رہا ہے یا گلّے کی رکھو‌الی کر رہا ہے۔ جب و‌ہ گھر و‌اپس آئے گا تو کیا آپ اُس سے کہیں گے کہ ”‏فٹافٹ آؤ او‌ر کھانا کھانے کے لیے میز پر بیٹھ جاؤ“‏؟ یا پھر کیا آپ اُس سے کہیں گے کہ ”‏کپڑے بدلو او‌ر میرے لیے شام کا کھانا تیار کرو او‌ر تب تک میری خدمت کرو جب تک مَیں کھانا نہ کھا لو‌ں او‌ر بعد میں تُم کھانا کھانا“‏؟ آپ غلام کے شکرگزار تو نہیں ہو‌ں گے نا کہ اُس نے اپنی ذمےداری پو‌ری کی؟ لہٰذا جب آپ و‌ہ کام کر لیں جو آپ کو دیا گیا ہے تو کہیں:‏ ”‏ہم نکمّے غلام ہیں۔ ہم نے تو بس اپنا فرض پو‌را کِیا ہے۔“‏“‏—‏لُو‌قا 17:‏7-‏10‏۔‏

لہٰذا خدا کے ہر خادم کو سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا کتنا اہم ہے۔ اِس کے علاو‌ہ ہم میں سے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کے گھرانے کے فرد کے طو‌ر پر اُس کی عبادت کرنا ہمارے لیے کتنا بڑا شرف ہے۔‏

اِس کے کچھ عرصے بعد ایک آدمی یسو‌ع مسیح کے پاس مریم او‌ر مارتھا کی طرف سے ایک پیغام لایا۔ یہ عو‌رتیں لعزر کی بہنیں تھیں او‌ر یہو‌دیہ کے علاقے میں بیت‌عنیاہ نامی گاؤ‌ں میں رہتی تھیں۔ اُس آدمی نے یہ پیغام دیا:‏ ”‏مالک، آپ کا پیارا دو‌ست بیمار ہے۔“‏—‏یو‌حنا 11:‏1-‏3‏۔‏

اپنے دو‌ست لعزر کی بیماری کا سُن کر یسو‌ع مسیح حد سے زیادہ افسردہ نہیں ہو‌ئے بلکہ اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏اِس بیماری کا انجام مو‌ت نہیں بلکہ خدا کی بڑائی ہے او‌ر یو‌ں خدا کے بیٹے کی بھی بڑائی ہو‌گی۔“‏ و‌ہ دو دن اَو‌ر اُسی جگہ رہے جہاں و‌ہ تھے۔ پھر اُنہو‌ں نے شاگردو‌ں سے کہا:‏ ”‏آئیں، دو‌بارہ یہو‌دیہ چلیں۔“‏ مگر شاگردو‌ں نے یہ کہہ کر اُنہیں رو‌کنے کی کو‌شش کی کہ ”‏ربّی، ابھی کچھ دن پہلے تو یہو‌دیہ کے لو‌گ آپ کو سنگسار کرنا چاہتے تھے او‌ر آپ پھر و‌ہاں جانا چاہتے ہیں؟“‏—‏یو‌حنا 11:‏4،‏ 7، 8‏۔‏

اِس پر یسو‌ع مسیح نے جو‌اب دیا:‏ ”‏کیا دن میں 12 گھنٹے رو‌شنی نہیں ہو‌تی؟ جو شخص دن کی رو‌شنی میں چلتا ہے، و‌ہ کسی چیز سے ٹھو‌کر نہیں کھاتا کیو‌نکہ و‌ہ اِس دُنیا کی رو‌شنی کو دیکھتا ہے۔ لیکن جو شخص رات میں چلتا ہے، و‌ہ ٹھو‌کر کھاتا ہے کیو‌نکہ اُس کے پاس رو‌شنی نہیں ہو‌تی۔“‏ (‏یو‌حنا 11:‏9، 10‏)‏ شاید یسو‌ع مسیح کی بات کا یہ مطلب تھا کہ خدا نے اُن کے دو‌رِخدمت کے لیے جتنا و‌قت مقرر کِیا تھا، و‌ہ ابھی ختم نہیں ہو‌ا تھا۔ ابھی اُن کے پاس تھو‌ڑا و‌قت باقی تھا جسے و‌ہ بھرپو‌ر طریقے سے اِستعمال کرنا چاہتے تھے۔‏

پھر یسو‌ع مسیح نے کہا:‏ ”‏ہمارے دو‌ست لعزر سو گئے ہیں۔ لیکن مَیں اُنہیں جگانے جا رہا ہو‌ں۔“‏ شاگردو‌ں نے اِس بات کا یہ مطلب لیا کہ لعزر آرام کر رہے ہیں۔ اِس لیے اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏مالک، اگر و‌ہ سو رہے ہیں تو و‌ہ ٹھیک ہو جائیں گے۔“‏ اِس پر یسو‌ع نے اُن کو صاف صاف بتا دیا کہ ”‏لعزر فو‌ت ہو گئے ہیں۔ .‏ .‏ .‏ آئیں، اُن کے پاس چلیں۔“‏—‏یو‌حنا 11:‏11-‏15‏۔‏

تو‌ما جانتے تھے کہ یہو‌دیہ میں یسو‌ع کی جان کو خطرہ ہے۔ و‌ہ اپنے مالک کا ساتھ دینا چاہتے تھے اِس لیے اُنہو‌ں نے باقی شاگردو‌ں سے کہا:‏ ”‏آئیں، ہم بھی اُن کے ساتھ مرنے چلیں۔“‏—‏یو‌حنا 11:‏16‏۔‏