باب 99
اندھے فقیروں کی شفایابی اور زکائی کی توبہ
متی 20:29-34 مرقس 10:46-52 لُوقا 18:35–19:10
-
یسوع مسیح نے یریحو میں دو اندھے فقیروں کو شفا دی
-
ٹیکس وصول کرنے والے زکائی نے توبہ کی
یسوع مسیح اور اُن کے ساتھ سفر کرنے والے لوگ شہر یریحو پہنچے جو کہ یروشلیم سے ایک دن کے فاصلے پر تھا۔ یریحو دو شہروں پر مشتمل تھا۔ نیا شہر رومیوں کے زمانے میں تعمیر کِیا گیا تھا اور یہ پُرانے شہر سے 6.1 کلومیٹر (1 میل) دُور تھا۔ جب یسوع مسیح اور اُن کے پیچھے آنے والی بِھیڑ ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہر جا رہے تھے تو دو اندھے فقیروں نے بِھیڑ کو گزرتے سنا۔ اِن میں سے ایک کا نام برتمائی تھا۔
جب برتمائی اور اُن کے ساتھی کو پتہ چلا کہ یسوع وہاں سے گزر رہے ہیں تو وہ چلّا کر کہنے لگے: ”مالک! داؤد کے بیٹے! ہم پر رحم کریں۔“ (متی 20:30) اِس پر بِھیڑ میں سے کچھ لوگوں نے اُن کو ٹوکا اور چپ رہنے کو کہا لیکن وہ دونوں اَور بھی اُونچی آواز میں چلّانے لگے۔ یہ سُن کر یسوع رُک گئے۔ اُنہوں نے اپنے پاس کھڑے کچھ لوگوں سے کہا کہ وہ فقیروں کو اُن کے پاس لائیں۔ یہ لوگ فقیروں کے پاس گئے اور اُن میں سے ایک سے کہا: ”حوصلہ کرو! اُٹھو، وہ تمہیں بلا رہے ہیں۔“ (مرقس 10:49) اُس فقیر نے فوراً اپنی چادر اُتار پھینکی اور جلدی سے اُٹھ کر یسوع کے پاس گیا۔
یسوع مسیح نے اُن فقیروں سے پوچھا: ”آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟“ اُنہوں نے کہا: ”مالک، ہماری آنکھوں کو ٹھیک کر دیں۔“ (متی 20:32، 33) یسوع مسیح کو اُن پر بڑا ترس آیا۔ اُنہوں نے اُن کی آنکھوں کو چُھوا اور کہا: ”جائیں، آپ اپنے ایمان کی وجہ سے ٹھیک ہو گئے ہیں۔“ (مرقس 10:52) اِس پر فقیروں کو فوراً دِکھائی دینے لگا اور وہ خدا کی تعظیم کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر لوگوں نے بھی خدا کی بڑائی کی۔ پھر وہ فقیر یسوع کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔
جب یسوع یریحو کے بیچ سے گزر رہے تھے تو اُن کے گِرد بہت بڑی بِھیڑ جمع ہو گئی۔ سب لوگ اُس آدمی کو دیکھنا چاہتے تھے جس نے اندھے فقیروں کو شفا دی تھی۔ لوگ ہر طرف سے بھاگے آ رہے تھے۔ وہاں اِتنا رش ہو گیا کہ کچھ کے لیے یسوع کی ایک جھلک دیکھنا بھی مشکل ہو گیا۔ بِھیڑ میں زکائی نامی ایک آدمی بھی تھا۔ وہ یریحو اور اِس کے گِردنواح میں ٹیکس وصول کرنے والوں کے افسر تھے۔ زکائی بھی یسوع کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن چونکہ اُن کا قد چھوٹا تھا اِس لیے وہ اُن کو دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ لہٰذا وہ بھاگ کر ایک جنگلی اِنجیر کے درخت پر چڑھ گئے کیونکہ یسوع وہاں سے گزرنے والے تھے۔ جب یسوع وہاں پہنچے اور زکائی کو درخت پر چڑھے دیکھا تو اُنہوں نے کہا: ”زکائی، جلدی سے نیچے اُتریں کیونکہ آج مَیں آپ کے گھر ٹھہروں گا۔“ (لُوقا 19:5) یہ سُن کر زکائی جلدی سے درخت سے اُترے، بھاگے بھاگے اپنے گھر گئے اور اِس مُعزز مہمان کے اِستقبال کی تیاریاں کرنے لگے۔
مگر لوگوں کو یہ بات بالکل اچھی نہیں لگی۔ اُن کی نظر میں زکائی ایک گُناہگار شخص تھے کیونکہ وہ ٹیکس وصول کرتے وقت بےایمانی کرتے تھے اور لوگوں سے ناحق پیسے بٹور کر امیر بن گئے تھے۔ اِس لیے لوگوں کو لگ رہا تھا کہ یسوع کو ایک ایسے شخص کے گھر نہیں جانا چاہیے۔
جب یسوع، زکائی کے گھر میں داخل ہوئے تو لوگ بڑبڑانے لگے: ”دیکھو! وہ ایک گُناہگار کے گھر میں ٹھہر رہا ہے۔“ لیکن یسوع نے بھانپ لیا تھا کہ زکائی توبہ کرنے کو تیار ہیں۔ اور زکائی نے بھی اُنہیں مایوس نہیں کِیا کیونکہ اُنہوں نے اُٹھ کر کہا: ”مالک! دیکھیں، مَیں اپنا آدھا مال غریبوں کو دے رہا ہوں اور جن لوگوں لُوقا 19:7، 8۔
سے مَیں نے ناحق پیسے بٹورے تھے، اُن کو مَیں چار گُنا واپس کروں گا۔“—یوں زکائی نے ثابت کِیا کہ اُنہوں نے واقعی توبہ کر لی ہے۔ بِلاشُبہ وہ ٹیکس کے ریکارڈ سے اِس بات کا حساب لگا سکتے تھے کہ اُنہوں نے کس کس یہودی سے کتنی رقم بٹوری تھی۔ زکائی نے اِن لوگوں کو چار گُنا معاوضہ دینے کا وعدہ کِیا۔ یہ اُس معاوضے سے زیادہ تھا جو شریعت میں مقرر کِیا گیا تھا۔ (خروج 22:1؛ احبار 6:2-5) اِس کے علاوہ زکائی نے اپنا آدھا مال غریبوں میں بانٹنے کا بھی وعدہ کِیا۔
زکائی کی بات کو سُن کر یسوع نے خوش ہو کر کہا: ”آج اِس آدمی اور اِس کے گھر والوں کو نجات مل گئی ہے کیونکہ یہ بھی ابراہام کا بیٹا ہے۔ اِس لیے کہ اِنسان کا بیٹا اُن لوگوں کو تلاش کرنے اور بچانے آیا ہے جو بھٹک گئے ہیں۔“—لُوقا 19:9، 10۔
کچھ عرصہ پہلے یسوع مسیح نے بچھڑے ہوئے بیٹے کی مثال دے کر واضح کِیا کہ سیدھی راہ سے بھٹک جانے والوں کی صورتحال کیسی ہوتی ہے۔ (لُوقا 15:11-24) اب لوگوں کے سامنے زکائی کی جیتی جاگتی مثال تھی جو بھٹکے ہوئے تھے مگر یسوع کی مدد سے سیدھی راہ پر لوٹ آئے تھے۔ یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں اور اُن کے پیروکاروں کو یہ بات بالکل اچھی نہیں لگتی تھی کہ یسوع، زکائی جیسے گُناہگاروں کو توجہ دیتے ہیں۔ لیکن یسوع کو اُن کی تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ ابراہام کے بھٹکے ہوئے بیٹوں کی تلاش میں رہے تاکہ اُنہیں نجات کی راہ دِکھا سکیں۔