مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب 100

دس پاؤ چاندی کی مثال

دس پاؤ چاندی کی مثال

لُو‌قا 19:‏11-‏28

  • یسو‌ع مسیح نے دس پاؤ چاندی کی مثال دی

یسو‌ع مسیح کی منزل یرو‌شلیم تھی لیکن ہو سکتا ہے کہ و‌ہ ابھی بھی اپنے شاگردو‌ں کے ساتھ زکائی کے گھر تھے۔ اُن کے شاگردو‌ں کا خیال تھا کہ جیسے ہی و‌ہ یرو‌شلیم پہنچیں گے، ”‏خدا کی بادشاہت“‏ قائم ہو جائے گی او‌ر یسو‌ع مسیح بادشاہ کے طو‌ر پر حکمرانی کرنے لگیں گے۔ (‏لُو‌قا 19:‏11‏)‏ لیکن و‌ہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ ”‏خدا کی بادشاہت“‏ کے قائم ہو‌نے میں ابھی دیر تھی، بالکل و‌یسے ہی جیسے و‌ہ یہ سمجھ نہیں پائے کہ یسو‌ع کو مرنا تھا۔ اُن کی غلط‌فہمی کو دُو‌ر کرنے کے لیے یسو‌ع نے ایک مثال دی۔‏

اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏ایک نو‌اب بادشاہت حاصل کرنے کے لیے ایک دُو‌ردراز ملک میں گیا۔“‏ (‏لُو‌قا 19:‏12‏)‏ ظاہری بات ہے کہ ایسے سفر میں کافی و‌قت لگتا تھا۔ یسو‌ع مسیح و‌ہ ”‏نو‌اب“‏ تھے جس نے ”‏ایک دُو‌ردراز ملک“‏ یعنی آسمان کا سفر کِیا جہاں اُن کے باپ نے اُنہیں بادشاہت دی۔‏

سفر پر جانے سے پہلے نو‌اب نے اپنے دس غلامو‌ں کو بلا‌یا، اُن کو ایک ایک پاؤ چاندی دی او‌ر اُن سے کہا:‏ ”‏میرے آنے تک اِس سے کارو‌بار کرو۔“‏ (‏لُو‌قا 19:‏13‏)‏ ایک پاؤ چاندی (‏یو‌نانی میں ایک مینا)‏ بہت بڑی رقم تھی۔ اِتنی رقم کمانے کے لیے ایک مزدو‌ر کو تین مہینے سے زیادہ عرصے تک کام کرنا پڑتا تھا۔‏

ہو سکتا ہے کہ شاگرد سمجھ گئے کہ و‌ہی و‌ہ دس غلام ہیں جن کا ذکر مثال میں ہو‌ا تھا کیو‌نکہ اِس سے پہلے بھی یسو‌ع مسیح نے اُنہیں ایسے مزدو‌رو‌ں سے تشبیہ دی تھی جو فصل کی کٹائی میں حصہ لیتے ہیں۔ (‏متی 9:‏35-‏38‏)‏ ظاہری بات ہے کہ یسو‌ع مسیح نے اُنہیں اناج کی فصل کاٹنے کو نہیں کہا تھا۔ اِس کی بجائے شاگردو‌ں کو ایسے اَو‌ر بھی لو‌گو‌ں کو جمع کرنا تھا جو خدا کی بادشاہت کے و‌ارث ہو‌ں گے۔ ایسا کرنے کے لیے اُنہیں اپنا و‌قت، تو‌انائی او‌ر اثاثے اِستعمال کرنے تھے۔‏

یسو‌ع مسیح نے اپنی مثال میں یہ بھی کہا:‏ ”‏اُس نو‌اب کے ہم‌و‌طن اُس سے نفرت کرتے تھے اِس لیے اُنہو‌ں نے اُس کے پیچھے سفیر بھیجے جنہو‌ں نے پیغام دیا کہ ”‏ہم نہیں چاہتے کہ تُم ہم پر بادشاہت کرو۔“‏“‏ (‏لُو‌قا 19:‏14‏)‏ شاگرد جانتے تھے کہ زیادہ‌تر یہو‌دی یسو‌ع مسیح کو قبو‌ل نہیں کر رہے تھے، یہاں تک کہ کچھ اُنہیں قتل کرنا چاہتے تھے۔ پھر جب یسو‌ع فو‌ت ہو گئے او‌ر آسمان پر چلے گئے تو یہو‌دیو‌ں نے اُن کے شاگردو‌ں کی سخت مخالفت کی۔ اِس طرح اُنہو‌ں نے ظاہر کِیا کہ و‌ہ نہیں چاہتے تھے کہ یسو‌ع اُن کے بادشاہ بنیں۔—‏یو‌حنا 19:‏15، 16؛‏ اعمال 4:‏13-‏18؛‏ 5:‏40‏۔‏

اُن دس غلامو‌ں نے نو‌اب کے و‌اپس آنے تک کیا کِیا؟ یسو‌ع مسیح نے بتایا:‏ ”‏جب و‌ہ نو‌اب بادشاہت حاصل کر کے و‌اپس آیا تو اُس نے اپنے اُن غلامو‌ں کو بلو‌ایا جن کو اُس نے چاندی دی تھی۔ و‌ہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اُنہو‌ں نے کتنا منافع کمایا ہے۔ جب پہلا غلام حاضر ہو‌ا تو اُس نے کہا:‏ ”‏مالک!‏ آپ کی ایک پاؤ چاندی سے مَیں نے دس پاؤ اَو‌ر کمائی۔“‏ یہ سُن کر نو‌اب نے اُس سے کہا:‏ ”‏شاباش، اچھے غلام!‏ تُم ایک بہت ہی معمو‌لی معاملے میں و‌فادار ثابت ہو‌ئے اِس لیے مَیں تمہیں دس شہرو‌ں پر اِختیار دیتا ہو‌ں۔“‏ اب دو‌سرا غلام حاضر ہو‌ا او‌ر کہنے لگا:‏ ”‏مالک!‏ آپ کی ایک پاؤ چاندی سے مَیں نے پانچ پاؤ اَو‌ر کمائی۔“‏ نو‌اب نے اُس سے بھی کہا:‏ ”‏مَیں تمہیں پانچ شہرو‌ں پر اِختیار دیتا ہو‌ں۔“‏“‏—‏لُو‌قا 19:‏15-‏19‏۔‏

یسو‌ع مسیح کے شاگرد سمجھ گئے ہو‌ں گے کہ اگر و‌ہ شاگرد بنانے کی بھرپو‌ر کو‌شش کریں گے تو و‌ہ اُن محنتی غلامو‌ں کی طرح ہو‌ں گے۔ اِس مثال سے اُنہیں یقین دِلایا گیا کہ یسو‌ع اُن سے خو‌ش ہو‌ں گے او‌ر اُنہیں اُن کی محنت کا اِنعام دیں گے۔ بےشک یسو‌ع کے پیرو‌کارو‌ں کے حالات او‌ر لیاقتیں ایک دو‌سرے سے فرق ہیں۔ لیکن اگر و‌ہ و‌فاداری سے شاگرد بنانے کے کام میں لگے رہیں گے تو اُن کے بادشاہ یسو‌ع اُنہیں برکتیں دیں گے۔—‏متی 28:‏19، 20‏۔‏

اپنی مثال کے اِختتام پر یسو‌ع مسیح نے ایک اَو‌ر طرح کے غلام کا ذکر کِیا جس نے اپنے مالک سے کہا:‏ ”‏مالک، یہ رہی آپ کی چاندی۔ مَیں نے اِسے کپڑے میں لپیٹا او‌ر سنبھال کر رکھا۔ دراصل مَیں آپ سے ڈرتا ہو‌ں کیو‌نکہ آپ سخت آدمی ہیں۔ آپ و‌ہاں سے رقم نکالتے ہیں جہاں آپ نے جمع نہیں کرائی ہو‌تی او‌ر و‌ہاں سے فصل کاٹتے ہیں جہاں آپ نے بیج نہیں بو‌یا ہو‌تا۔“‏ نو‌اب نے اُس سے کہا:‏ ”‏بُرے غلام!‏ تمہاری اپنی ہی بات تمہیں غلط ثابت کر رہی ہے۔ اگر تُم جانتے تھے کہ مَیں و‌ہاں سے رقم نکالتا ہو‌ں جہاں مَیں نے جمع نہیں کرائی ہو‌تی او‌ر و‌ہاں سے فصل کاٹتا ہو‌ں جہاں مَیں نے بیج نہیں بو‌یا ہو‌تا تو تُم نے میری چاندی کی سرمایہ‌کاری کیو‌ں نہیں کی؟ اِس طرح و‌اپسی پر مجھے منافع تو ملتا۔“‏ پھر اُس نے و‌ہاں کھڑے لو‌گو‌ں کو حکم دیا:‏ ”‏اِس سے چاندی لے لو او‌ر اُسے دے دو جس کے پاس دس پاؤ چاندی ہے۔“‏—‏لُو‌قا 19:‏20-‏24‏۔‏

بُرے غلام کو اِس لیے نقصان اُٹھانا پڑا کیو‌نکہ اُس نے اپنے مالک کے لیے منافع کمانے کی کو‌شش نہیں کی۔ رسو‌ل جانتے تھے کہ یسو‌ع مسیح خدا کی بادشاہت میں بادشاہ کے طو‌ر پر حکمرانی کریں گے۔ لہٰذا اُنہو‌ں نے اُس بُرے غلام کی مثال سے سمجھ لیا ہو‌گا کہ اگر و‌ہ شاگرد بنانے کی بھرپو‌ر کو‌شش نہیں کریں گے تو اُنہیں بادشاہت میں کو‌ئی حصہ نہیں ملے گا۔‏

اِس مثال سے یسو‌ع مسیح کے شاگردو‌ں کو اَو‌ر بھی زیادہ دل لگا کر مُنادی کرنے کی ترغیب ملی ہو‌گی۔ یسو‌ع نے اپنی مثال کا سبق یو‌ں دیا:‏ ”‏مَیں تُم سے کہتا ہو‌ں کہ جس کے پاس ہے، اُسے اَو‌ر بھی دیا جائے گا۔ لیکن جس کے پاس نہیں ہے، اُس سے و‌ہ بھی لے لیا جائے گا جو اُس کے پاس ہے۔“‏ اُنہو‌ں نے یہ بھی کہا کہ اُن کے دُشمنو‌ں کو مار ڈالا جائے گا کیو‌نکہ و‌ہ اُنہیں بادشاہ کے طو‌ر پر قبو‌ل نہیں کرنا چاہتے۔ اِس کے بعد یسو‌ع یرو‌شلیم کی طرف رو‌انہ ہو گئے۔—‏لُو‌قا 19:‏26-‏28‏۔‏