مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب نمبر 5

فدیہ—‏خدا کی طرف سے بیش‌قیمت تحفہ

فدیہ—‏خدا کی طرف سے بیش‌قیمت تحفہ

1،‏ 2.‏ (‏الف)‏ آپ کے خیال میں ایک بیش‌قیمت تحفہ کون سا ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ فدیہ خدا کی طرف سے سب سے بیش‌قیمت تحفہ کیوں ہے؟‏

کیا آپ کو کبھی کوئی ایسا تحفہ ملا ہے جو آپ کی نظر میں بہت بیش‌قیمت ہے؟‏ تحفے کی اہمیت کا اندازہ اُس کی قیمت سے نہیں لگایا جا سکتا۔‏ جب ہمیں کوئی ایسا تحفہ ملتا ہے جسے پا کر ہمیں خوشی ملتی ہے یا ہماری کوئی ضرورت پوری ہوتی ہے تو ہم دل سے اِس تحفے کی قدر کرتے ہیں۔‏

2 خدا نے ہمیں بہت سے تحفے دیے ہیں۔‏ لیکن اِن میں سے ایک تحفہ ایسا ہے جو سب سے بیش‌قیمت ہے اور جس کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‏ اِس باب میں ہم سیکھیں گے کہ خدا نے یسوع مسیح کو زمین پر بھیجا تاکہ ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکیں۔‏ ‏(‏متی 20:‏28 کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع مسیح کو زمین پر بھیجنے اور فدیے کا بندوبست کرنے سے یہوواہ خدا نے یہ ثابت کِیا ہے کہ وہ ہم سے بہت پیار کرتا ہے۔‏

فدیہ کیا ہے؟‏

3.‏ اِنسان کیوں مرتے ہیں؟‏

3 فدیہ وہ ذریعہ ہے جس سے یہوواہ خدا اِنسانوں کو گُناہ اور موت سے رِہائی دِلائے گا۔‏ (‏اِفسیوں 1:‏7‏)‏ لیکن یہ کیوں ضروری تھا کہ اِنسانوں کے لیے فدیہ ادا کِیا جائے؟‏ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ جب خدا نے آدم اور حوا کو بنایا تو اِس کے بعد کیا ہوا۔‏ آدم اور حوا نے گُناہ کِیا جس کی وجہ سے وہ مر گئے۔‏ چونکہ ہم اُن کی اولاد ہیں اِس لیے ہمیں گُناہ ورثے میں ملا ہے۔‏ اِسی وجہ سے ہم بھی مرتے ہیں۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 9 کو دیکھیں۔‏

4.‏ آدم کون تھے اور خدا نے اُنہیں کون سی بیش‌قیمت چیز دی تھی؟‏

4 آدم وہ پہلے اِنسان تھے جنہیں یہوواہ خدا نے بنایا۔‏ خدا نے اُنہیں ایک بہت بیش‌قیمت چیز دی۔‏ اُس نے اُنہیں بےعیب زندگی دی۔‏ آدم کے اندر کوئی نقص یا کمی نہیں تھی۔‏ اُنہوں نے نہ تو کبھی بیمار ہونا تھا،‏ نہ کبھی بوڑھے ہونا تھا اور نہ ہی کبھی مرنا تھا۔‏ چونکہ یہوواہ خدا نے آدم کو بنایا تھا اِس لیے وہ اُن کا باپ تھا۔‏ (‏لُوقا 3:‏38‏)‏ یہوواہ خدا باقاعدگی سے اُن سے بات کرتا تھا۔‏ اُس نے واضح طور پر اُنہیں بتایا کہ وہ اُن سے کیا چاہتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُس نے اُنہیں ایک ایسا کام دیا جسے کرنے میں اُنہیں مزہ آئے۔‏—‏پیدایش 1:‏28-‏30؛‏ 2:‏16،‏ 17‏۔‏

5.‏ اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ آدم کو ”‏خدا کی صورت“‏ پر بنایا گیا؟‏

5 آدم کو ”‏خدا کی صورت“‏ پر بنایا گیا تھا۔‏ (‏پیدایش 1:‏27‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں بھی وہ خوبیاں دیں جو اُس میں ہیں۔‏ خدا کی طرح آدم بھی محبت،‏ اِنصاف‌پسندی،‏ دانش‌مندی اور قوت کے مالک تھے۔‏ خدا نے آدم کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی بھی دی۔‏ آدم ایک روبوٹ کی طرح نہیں تھے جو اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا۔‏ خدا نے اُنہیں اِس طرح بنایا تھا کہ وہ خود فیصلہ کر سکیں کہ وہ صحیح کام کریں گے یا غلط۔‏ اگر آدم نے خدا کا کہنا مانا ہوتا تو وہ ہمیشہ تک فردوس میں رہ سکتے تھے۔‏

6.‏ (‏الف)‏ جب آدم نے خدا کی نافرمانی کی تو اُنہیں اِس کی کیا قیمت چُکانی پڑی؟‏ (‏ب)‏ آدم کے گُناہ کا اِنسانوں پر کیا اثر پڑا؟‏

6 جب آدم نے خدا کی نافرمانی کی تو اُنہیں اِس کی بھاری قیمت چُکانی پڑی۔‏ یہوواہ خدا کے ساتھ اُن کی دوستی ختم ہو گئی،‏ وہ عیب‌دار بن گئے،‏ اُنہیں اپنا خوب‌صورت گھر چھوڑنا پڑا اور آخرکار مرنا پڑا۔‏ (‏پیدایش 3:‏17-‏19‏)‏ چونکہ آدم اور حوا نے جان بُوجھ کر خدا کی نافرمانی کی اِس لیے اُن کے پاس کوئی اُمید نہیں تھی۔‏ آدم کی وجہ سے ”‏ گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے ذریعے موت آئی اور موت سب لوگوں میں پھیل گئی کیونکہ سب نے گُناہ کِیا۔‏“‏ (‏رومیوں 5:‏12‏)‏ جب آدم نے گُناہ کِیا تو اُنہوں نے خود کو اور ہمیں گُناہ اور موت کا ”‏غلام بننے کے لیے بیچ دیا۔‏“‏ (‏رومیوں 7:‏14‏)‏ کیا ہمارے پاس کوئی اُمید ہے؟‏ جی ہاں،‏ کیونکہ خدا نے ہمارے لیے فدیے کا بندوبست کِیا ہے۔‏

7،‏ 8.‏ فدیہ کیا ہوتا ہے؟‏

7 فدیہ کیا ہوتا ہے؟‏ فدیہ وہ قیمت ہوتی ہے جو کسی شخص کو رِہا کروانے یا کسی چیز کو واپس پانے کے لیے ادا کی جاتی ہے۔‏ فدیے سے مُراد وہ قیمت بھی ہے جو کسی نقصان کی بھرپائی کرنے کے لیے ادا کی جاتی ہے۔‏

8 آدم نے گُناہ کِیا جس کی وجہ سے اِنسانوں پر موت آئی۔‏ کوئی بھی اِنسان اُس نقصان کی بھرپائی نہیں کر سکتا تھا جو آدم کی وجہ سے اِنسانوں کو ہوا۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے ہمیں گُناہ اور موت کی قید سے چھڑانے کا بندوبست کِیا۔‏ آئیں،‏ اِس بات پر غور کریں کہ اُس نے فدیے کا بندوبست کیسے کِیا اور ہم اِس بندوبست سے فائدہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏

یہوواہ خدا نے فدیے کا بندوبست کیسے کیا؟‏

9.‏ فدیہ کیسے ادا کِیا جا سکتا تھا؟‏

9 ہم میں سے کوئی بھی اِنسان کبھی اُس بےعیب زندگی کا فدیہ نہیں دے سکتا تھا جو آدم نے گنوا دی۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب عیب‌دار ہیں۔‏ (‏زبور 49:‏7،‏ 8‏)‏ فدیے کے لیے ایسی اِنسانی زندگی کی ضرورت تھی جو بےعیب ہو۔‏ اِسی وجہ سے پاک کلام میں اِسے ”‏پورا فدیہ“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 2:‏6‏)‏ فدیے کو اُس زندگی کی قیمت کے برابر ہونا چاہیے تھا جو آدم نے گنوا دی تھی۔‏

10.‏ یہوواہ خدا نے فدیے کا بندوبست کیسے کِیا؟‏

10 یہوواہ خدا نے فدیے کا بندوبست کیسے کِیا؟‏ اُس نے اپنے سب سے عزیز بیٹے کو زمین پر بھیجا۔‏ یہ بیٹا یسوع تھا جسے خدا نے سب سے پہلے بنایا تھا۔‏ (‏1-‏یوحنا 4:‏9،‏ 10‏)‏ یسوع مسیح اپنے باپ کو چھوڑ کر آسمان سے زمین پر آنے کے لیے تیار تھے۔‏ (‏فِلپّیوں 2:‏7‏)‏ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کی زندگی کو زمین پر ایک کنواری لڑکی کے رحم میں ڈال دیا۔‏ یوں یسوع مسیح ایک بےعیب اور گُناہ سے پاک اِنسان کے طور پر پیدا ہوئے۔‏—‏لُوقا 1:‏35‏۔‏

یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو بھیجا تاکہ وہ ہمارے لیے فدیہ دیں۔‏

11.‏ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ ایک شخص تمام اِنسانوں کے لیے فدیہ ادا کرے؟‏

11 آدم کی نافرمانی کی وجہ سے تمام اِنسان ایک بےعیب زندگی حاصل کرنے سے محروم ہو گئے۔‏ لیکن کیا کوئی شخص تمام اِنسانوں کو موت کی قید سے آزاد کروا سکتا تھا؟‏ جی ہاں۔‏ ‏(‏رومیوں 5:‏19 کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع مسیح گُناہ سے پاک تھے۔‏ اُنہوں نے اپنی بےعیب زندگی اِنسانوں کے لیے فدیے کے طور پر دے دی۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏45‏)‏ یسوع مسیح کی بےعیب زندگی کی بدولت آدم کی تمام اولاد کو موت سے رِہائی دِلائی جا سکتی تھی۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏21،‏ 22‏۔‏

12.‏ یسوع مسیح کو اِتنی تکلیف کیوں سہنی پڑی؟‏

12 پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ اپنی موت سے پہلے یسوع مسیح کو کتنی تکلیف سے گزرنا پڑا۔‏ اُنہیں کوڑے مارے گئے،‏ کیلوں کے ساتھ سُولی پر لٹکایا گیا اور ایک دردناک موت دی گئی۔‏ (‏یوحنا 19:‏1،‏ 16-‏18،‏ 30‏)‏ یسوع مسیح کو اِتنی تکلیف کیوں سہنی پڑی؟‏ دراصل شیطان نے دعویٰ کِیا تھا کہ کوئی بھی اِنسان کڑی آزمائش میں خدا کا وفادار نہیں رہے گا۔‏ یسوع مسیح نے ثابت کِیا کہ ایک بےعیب اِنسان اُس صورت میں بھی خدا کا وفادار رہ سکتا ہے جب اُسے سخت اذیت سے گزرنا پڑے۔‏ ذرا تصور کریں کہ اِس وجہ سے یہوواہ خدا کو یسوع مسیح پر کتنا فخر ہوگا!‏—‏امثال 27:‏11‏؛‏ کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 15 کو دیکھیں۔‏

13.‏ فدیہ کیسے ادا کِیا گیا؟‏

13 فدیہ کیسے ادا کِیا گیا؟‏ 33ء میں 14 نیسان کو (‏جو یہودی کیلنڈر کا ایک مہینہ ہے)‏ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو اُن کے دُشمنوں کے ہاتھوں مرنے دیا۔‏ (‏عبرانیوں 10:‏10‏)‏ اِس کے تین دن بعد یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو زندہ کِیا لیکن ایک اِنسان کے طور پر نہیں بلکہ ایک روح کے طور پر۔‏ بعد میں جب یسوع مسیح آسمان پر واپس گئے تو اُنہوں نے اپنی بےعیب زندگی کی قیمت فدیے کے طور پر خدا کے سامنے پیش کی۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ بےعیب اِنسان کے طور پر یسوع مسیح کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ زمین پر ہمیشہ زندہ رہ سکیں لیکن اُنہوں نے یہ حق خدا کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اِسے آدم کی اولاد کو دے سکے۔‏ (‏عبرانیوں 9:‏24‏)‏ چونکہ یہوواہ خدا نے فدیے کا بندوبست کِیا اِس لیے ہم گُناہ اور موت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔‏‏—‏رومیوں 3:‏23،‏ 24 کو پڑھیں۔‏

ہم فدیے سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟‏

14،‏ 15.‏ اپنے گُناہوں کی معافی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

14 فدیہ خدا کی سب سے عظیم نعمت ہے جس سے ہم اب بھی فائدہ حاصل کر رہے ہیں اور مستقبل میں بھی کریں گے۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ یہ فائدے کون سے ہیں۔‏

15 ہمارے گُناہ معاف ہوتے ہیں۔‏ چونکہ ہم سب گُناہ‌گار ہیں اِس وجہ سے ہمارے لیے ہمیشہ صحیح کام کرنا آسان نہیں ہوتا۔‏ کبھی کبھار ہم کوئی ایسی بات یا کام کر دیتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے۔‏ لیکن ہم معافی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏ ایک تو ہمیں اپنی غلطیوں پر پچھتاوا ہونا چاہیے اور دوسرا ہمیں خاکساری سے یہوواہ خدا سے معافی مانگنی چاہیے‏۔‏ پھر ہی ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہمارے گُناہ معاف ہو گئے ہیں۔‏—‏کُلسّیوں 1:‏13،‏ 14؛‏ 1-‏یوحنا 1:‏8،‏ 9‏۔‏

16.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارا ضمیر صاف رہے؟‏

16 ہمارا ضمیر صاف رہتا ہے۔‏ اگر ہمارا ضمیر ہمیں یہ احساس دِلاتا ہے کہ ہم نے کوئی غلطی کی ہے تو ہمیں بہت پچھتاوا ہوتا ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہم بالکل نااُمید ہو جائیں اور خود کو بےکار محسوس کرنے لگیں۔‏ لیکن ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔‏ اگر ہم یہوواہ خدا سے معافی مانگتے ہیں تو ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری سنے گا اور ہمیں معاف کرے گا۔‏ (‏عبرانیوں 9:‏13،‏ 14‏)‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُسے اپنے مسئلوں اور اپنی کمزوریوں کے بارے میں بتائیں۔‏ (‏عبرانیوں 4:‏14-‏16‏)‏ اِس طرح ہمارا ضمیر خدا کی نظر میں صاف رہے گا۔‏

17.‏ یسوع مسیح کی قربانی کی وجہ سے ہمیں کون سی برکتیں مل سکتی ہیں؟‏

17 ہمیں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید حاصل ہوتی ہے۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”‏ گُناہ کی مزدوری موت ہے لیکن خدا کی نعمت ہمیشہ کی زندگی ہے جو ہمیں اپنے مالک مسیح یسوع کے ذریعے ملتی ہے۔‏“‏ (‏رومیوں 6:‏23‏)‏ یسوع مسیح نے ہماری خاطر اپنی جان قربان کی۔‏ اِس لیے ہم یہ اُمید رکھ سکتے ہیں کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے اور کبھی بیمار نہیں ہوں گے۔‏ (‏مکاشفہ 21:‏3،‏ 4‏)‏ لیکن اِن برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

کیا آپ فدیے کی قدر کرتے ہیں؟‏

18.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا کو ہم سے محبت ہے؟‏

18 ذرا سوچیں کہ جب آپ کو کوئی خوب‌صورت تحفہ ملتا ہے تو آپ کو کتنا اچھا لگتا ہے۔‏ فدیہ سب سے بیش‌قیمت تحفہ ہے اور ہمیں اِس کے لیے دل سے یہوواہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔‏ یوحنا 3:‏16 میں لکھا ہے:‏ ”‏خدا کو دُنیا سے اِتنی محبت ہے کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا دے دیا۔‏“‏ واقعی یہوواہ خدا کو ہم سے بہت محبت ہے اِسی لیے اُس نے ہمارے لیے اپنا پیارا بیٹا قربان کر دیا۔‏ یسوع مسیح کو بھی ہم سے بہت محبت ہے اِسی لیے وہ ہماری خاطر اپنی جان دینے کو تیار تھے۔‏ (‏یوحنا 15:‏13‏)‏ فدیے کے بندوبست سے ہمیں اِس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح ہم سے بہت پیار کرتے ہیں۔‏—‏گلتیوں 2:‏20‏۔‏

جیسے جیسے ہم خدا کے بارے میں سیکھیں گے،‏ ہمارے دل میں اُس کے لیے محبت بڑھے گی اور ہم اُس کے دوست بن جائیں گے۔‏

19،‏ 20.‏ (‏الف)‏ آپ خدا کے دوست کیسے بن سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ فدیے کے بندوبست کی قدر کرتے ہیں؟‏

19 کیا آپ اُس خدا کے دوست بننا چاہیں گے جو اِنسانوں سے اِتنی زیادہ محبت کرتا ہے؟‏ یقیناً آپ ایسا چاہیں گے۔‏ لیکن خدا کے دوست بننے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ یوحنا 17:‏3 میں بتایا گیا ہے کہ ہم خدا کو قریب سے جان سکتے ہیں۔‏ جیسے جیسے آپ خدا کے بارے میں سیکھیں گے،‏ آپ کے دل میں اُس کے لیے محبت بڑھے گی،‏ اُسے خوش کرنے کی خواہش پیدا ہوگی اور آپ اُس کے دوست بن جائیں گے۔‏ لہٰذا پاک کلام کی تعلیم حاصل کرتے رہیں اور یوں یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھتے رہیں۔‏—‏1-‏یوحنا 5:‏3‏۔‏

20 فدیے کے بندوبست کی قدر کریں۔‏ پاک کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏جو بیٹے پر ایمان ظاہر کرتا ہے،‏ اُسے ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔‏“‏ (‏یوحنا 3:‏36‏)‏ ایمان ظاہر کرنے کا کیا مطلب ہے؟‏ اِس کا مطلب یسوع مسیح کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔‏ (‏یوحنا 13:‏15‏)‏ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ہم یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ ہمیں اپنے کاموں سے بھی ثابت کرنا چاہیے کہ ہم فدیے کے بندوبست کی قدر کرتے ہیں۔‏ یعقوب 2:‏26 میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”‏ایمان بغیر کاموں کے مُردہ ہے۔‏“‏

21،‏ 22.‏ (‏الف)‏ ہمیں ہر سال یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب میں کیوں جانا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ باب نمبر 6 اور 7 میں کس موضوع پر بات کی جائے گی؟‏

21 یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب میں جائیں۔‏ اپنی موت سے کچھ دیر پہلے یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو کہا کہ وہ اُن کی موت کی یادگاری تقریب منایا کریں۔‏ ہم ہر سال یہ تقریب مناتے ہیں۔‏ پاک کلام میں اِسے ”‏مالک کی یادگاری تقریب کا کھانا“‏ بھی کہا گیا ہے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 11:‏20؛‏ متی 26:‏26-‏28‏)‏ یسوع مسیح چاہتے ہیں کہ ہم اِس بات کو یاد رکھیں کہ اُنہوں نے ہمارے لیے اپنی بےعیب زندگی فدیے کے طور پر دے دی۔‏ اِس لیے اُنہوں نے کہا:‏ ”‏میری یاد میں ایسا کِیا کریں۔‏“‏ ‏(‏لُوقا 22:‏19 کو پڑھیں۔‏)‏ جب آپ یادگاری تقریب میں جاتے ہیں تو آپ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ فدیے کے بندوبست کی قدر کرتے ہیں۔‏ آپ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ آپ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی عظیم محبت کے لیے شکرگزار ہیں۔‏—‏کتاب کے آخر میں نکتہ نمبر 16 کو دیکھیں۔‏

22 فدیہ ہمارے لیے سب سے بیش‌قیمت تحفہ ہے۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 9:‏14،‏ 15‏)‏ اِس تحفے سے وہ لاکھوں لوگ بھی فائدہ اُٹھائیں گے جو مر چُکے ہیں۔‏ باب نمبر 6 اور 7 میں اِس موضوع پر بات کی جائے گی۔‏