مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کچھ خاص نکات

کچھ خاص نکات
  1.  بابلِ‌عظیم کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے؟‏

  2.  مسیح نے کب ظاہر ہونا تھا؟‏

  3.  ایسے علاج جن میں خون اِستعمال کِیا جاتا ہے

  4.  علیٰحدگی

  5.  تہوار

  6.  ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماریاں

  7.  کاروباری اور قانونی معاملے

 1.‏ بابلِ‌عظیم کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے؟‏

ہم کیسے جانتے ہیں کہ”‏بابلِ‌عظیم“‏ سے مُراد تمام جھوٹے مذاہب ہیں؟ (‏مکاشفہ 17:‏5‏)‏ اِس سلسلے میں تین باتوں پر غور کریں:‏

  • وہ پوری دُنیا پر حکمرانی کرتا ہے۔‏ بابلِ‌عظیم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ’‏لوگوں اور قوموں‘‏ پر بیٹھا ہے اور”‏زمین کے بادشاہوں پر حکمرانی کرتا ہے۔“‏—‏مکاشفہ 17:‏15،‏ 18‏۔‏

  • وہ سیاسی یا کاروباری طاقت نہیں ہو سکتا۔‏ جب وہ تباہ ہوگا تو ”‏زمین کے بادشاہ“‏ اور”‏تاجر“‏ بچ جائیں گے۔—‏مکاشفہ 18:‏9،‏ 15‏۔‏

  • وہ خدا کی غلط تصویر پیش کرتا ہے۔‏ بائبل میں اُسے فاحشہ کہا گیا ہے کیونکہ وہ پیسہ اور دوسری سہولتیں حاصل کرنے کے لیے حکومتوں سے گٹھ‌جوڑ کر لیتا ہے۔ (‏مکاشفہ 17:‏1، 2‏)‏ وہ تمام قوموں کے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کی موت کا ذمے‌دار ہے۔—‏مکاشفہ 18:‏23، 24‏۔‏

سبق نمبر 13 میں نکتہ نمبر 6 پر واپس جائیں۔‏

 2.‏ مسیح نے کب ظاہر ہونا تھا؟‏

بائبل میں پیش‌گوئی کی گئی تھی کہ پہلے 69 ہفتے کا ایک عرصہ گزرے گا اور اِس کے بعد مسیح ظاہر ہوگا۔—‏دانی‌ایل 9:‏25 کو پڑھیں۔‏

  • اُنہتر ہفتے کب شروع ہوئے؟‏ یہ عرصہ 455 قبل‌ازمسیح میں شروع ہوا۔ اُس وقت حاکم نحمیاہ شہر یروشلیم کی ”‏بحالی اور تعمیر“‏کے لیے وہاں پہنچے۔—‏دانی‌ایل 9:‏25؛‏ نحمیاہ 2:‏1،‏ 5-‏8‏۔‏

  • اُنہتر ہفتے کتنے لمبے تھے؟‏ بائبل کی کچھ پیش‌گوئیوں میں ایک دن ایک سال کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ (‏گنتی 14:‏34؛‏ حِزقی‌ایل 4:‏6‏)‏ اِس حساب سے ہفتے کے سات دن سات سال کے برابر بنتے ہیں۔ اگر 69 کو 7 سے ضرب دی جائے تو 483 آتا ہے۔ لہٰذا اِس پیش‌گوئی میں 69 ہفتوں سے مُراد 483 سال ہیں۔‏

  • اُنہتر ہفتے کب ختم ہوئے؟‏ اگر ہم 455 قبل‌ازمسیح سے 483 سال آگے جائیں تو ہم 29 عیسوی پر پہنچ جاتے ہیں۔‏ a یہی وہ سال تھا جس میں یسوع نے بپتسمہ لیا اور مسیح کے طور پر ظاہر ہوئے۔—‏لُوقا 3:‏1، 2،‏ 21، 22‏۔‏

سبق نمبر 15 میں نکتہ نمبر 5 پر واپس جائیں۔‏

 3.‏ ایسے علاج جن میں خون اِستعمال کِیا جاتا ہے

علاج کے کچھ طریقے ایسے ہیں جن میں مریض کا اپنا خون اِستعمال کِیا جاتا ہے۔مسیحیوں کے طور پر ہم اِن میں سے کچھ طریقوں کو قبول نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر ہم نہ تو کسی کو خون دیتے ہیں اور نہ ہی آپریشن کروانے سے پہلے اپنا خون ذخیرہ کرواتے ہیں۔—‏اِستثنا 15:‏23‏۔‏

لیکن علاج کے کچھ طریقے ایسے ہیں جن کے حوالے سے ہر مسیحی خود فیصلہ کر سکتا ہے۔ اِن میں خون کے ٹیسٹ، ہیموڈائیلیسز، ہیموڈیلیوشن اور سیل‌سیلوِیج یا ہارٹ‌لنگ بائی‌پاس مشین کا اِستعمال شامل ہے۔‏ b ہر مسیحی کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کسی طبی عمل یا خون کے ٹیسٹ کے دوران اُس کے خون کے ساتھ کیا کِیا جائے گا اور پھر اُسے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ ہر ڈاکٹر اِن طریقوں کو فرق فرق طرح سے عمل میں لاتا ہے۔ اِس لیے ایک مسیحی کو چاہیے کہ وہ اِس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ ڈاکٹر کسی آپریشن، خون کے ٹیسٹ یا کسی اَور طبی عمل کے دوران اُس کے خون کے ساتھ کیا کرے گا۔ اِس سلسلے میں اِن سوالوں پر غور کِیا جا سکتا ہے:‏

  • اگر میرے خون کی کچھ مقدار کا رُخ جسم سے موڑ دیا جائے اور تھوڑی دیر کے لیے میرے خون کی گردش روک دی جائے تو کیا مَیں اِسے اپنے جسم کا حصہ خیال کروں گا یا کیا مَیں یہ سمجھوں گا کہ اِس خون کو ”‏زمین پر اُنڈیل“‏ دیا جانا چاہیے؟—‏اِستثنا 12:‏23، 24‏۔‏

  • اگر کسی طبی عمل کے دوران میرے جسم سے کچھ خون نکالا جائے، اِس میں کوئی تبدیلی کی جائے اور پھر اِسے جسم میں واپس ڈال دیا جائے تو کیا مَیں اِسے قبول کروں گا یا کیا میرا ضمیر مجھے ملامت کرے گا؟‏

سبق نمبر 39 میں نکتہ نمبر 3 پر واپس جائیں۔‏

 4.‏ علیٰحدگی

خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ نہیں ہونا چاہیے اور اگر وہ علیٰحدگی اِختیار کر بھی لیں تو اُن میں سے کوئی دوسری شادی نہیں کر سکتا۔ (‏1-‏کُرنتھیوں 7:‏10، 11‏)‏ البتہ کچھ مسیحیوں نے اِن صورتوں میں اپنے شریکِ‌حیات سے علیٰحدگی اِختیار کرنے کا فیصلہ کِیا ہے:‏

  • جب ایک شوہر جان بُوجھ کر اپنے بیوی بچوں کی ضرورتیں پوری نہیں کر رہا تھا جس کی وجہ سے اُن کے پاس کھانے پینے کی چیزیں تک نہیں تھیں۔—‏1-‏تیمُتھیُس 5:‏8‏۔‏

  • جب اُن کا شریکِ‌حیات اُن پر اِس حد تک تشدد کر رہا تھا کہ اُن کی صحت یا جان خطرے میں پڑ گئی تھی۔—‏گلتیوں 5:‏19-‏21‏۔‏

  • جب اُن کے شریکِ‌حیات نے اُن کے لیے یہوواہ کی عبادت کرنا ناممکن بنا دیا تھا اور خدا کے ساتھ اُن کی دوستی خطرے میں ڈال دی تھی۔—‏اعمال 5:‏29‏۔‏

سبق نمبر 42 میں نکتہ نمبر 3 پر واپس جائیں۔‏

 5.‏ تہوار

مسیحی ایسے تہواروں میں شامل نہیں ہوتے جن سے یہوواہ خدا ناخوش ہوتا ہے۔ لیکن اِن تہواروں کے حوالے سے کچھ ایسی صورتحال کھڑی ہو سکتی ہیں جن میں ہر مسیحی کو اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ آئیں، چند ایسی صورتحال پر غور کریں۔‏

  • اگر کوئی شخص آپ کو اُس تہوار کی مبارک‌باد دیتا ہے۔‏ ایسی صورت میں آپ اُسے بس شکریہ کہہ سکتے ہیں۔ اگر وہ شخص مزید جاننا چاہے تو آپ اُسے بتا سکتے ہیں کہ آپ وہ تہوار کیوں نہیں مناتے۔‏

  • اگر آپ کا شریکِ‌حیات یہوواہ کا گواہ نہیں ہے اور کسی تہوار پر آپ کو اپنے رشتے‌داروں کے ہاں کھانے پر چلنے کو کہتا ہے۔‏ اگر آپ کا ضمیر آپ کو جانے کی اِجازت دیتا ہے تو آپ پہلے سے اپنے شریکِ‌حیات کو بتا سکتے ہیں کہ اگر وہاں کوئی ایسی رسم کی جائے گی جس کا تعلق جھوٹے مذاہب سے ہے تو آپ اُس میں شامل نہیں ہوں گے۔‏

  • اگر آپ کا باس آپ کو کسی تہوار پر بونس دیتا ہے۔‏ کیا آپ کو اِسے لینے سے اِنکار کر دینا چاہیے؟ ضروری نہیں ہے۔ فیصلہ کرنے سے پہلے اِس بات پر غور کریں کہ اگر آپ وہ بونس قبول کریں گے تو کیا آپ کا باس یہ سمجھے گا کہ آپ اُس تہوار کو مناتے ہیں یا کیا وہ بس آپ کی محنت سے خوش ہو کر آپ کو بونس دے رہا ہے۔‏

  • اگر کوئی شخص آپ کو کسی تہوار پر کوئی تحفہ دیتا ہے۔‏ شاید وہ شخص کہے:‏ ”‏مجھے پتہ ہے کہ آپ یہ تہوار نہیں مناتے لیکن پھر بھی مَیں آپ کو یہ تحفہ دینا چاہتا ہوں۔“‏ شاید وہ آپ کو اِس لیے تحفہ دے رہا ہو کیونکہ وہ ایک مہربان شخص ہے۔ مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے ایمان کا اِمتحان لینا چاہتا ہو یا آپ کو اُس تہوار میں شریک کرنا چاہتا ہو۔ ایسی باتوں پر غور کرنے کے بعد آپ کو خود یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ تحفہ لیں گے یا نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم ہر معاملے میں ایسا فیصلہ کریں جس سے ہمارا ضمیر صاف رہے اور ہم یہوواہ کے وفادار رہیں۔—‏اعمال 23:‏1‏۔‏

سبق نمبر 44 میں نکتہ نمبر 1 پر واپس جائیں۔‏

 6.‏ ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماریاں

ہم دوسروں سے پیار کرتے ہیں اِس لیے ہم اِس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ہماری وجہ سے ایسی بیماریاں نہ پھیلیں جو ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتی ہیں۔ اگر ہمیں ایسی کوئی بیماری ہو یا ہمیں شک ہو کہ ہم ایسی کسی بیماری کا شکار ہیں تو ہم خاص طور پر احتیاط برتتے ہیں۔ ہم ایسا اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جس طرح تُم اپنے آپ سے کرتے ہو۔“‏—‏رومیوں 13:‏8-‏10‏۔‏

اگر کسی شخص کو ایسی کوئی بیماری ہو جو اُس سے دوسروں کو لگ سکتی ہے تو وہ دوسروں کے لیے محبت کیسے ظاہر کر سکتا ہے؟ اُسے دوسروں کو گلے ملنے یا چُومنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اُسے اپنے گھر نہیں بلا‌تا تو اُسے بُرا نہیں ماننا چاہیے۔ اگر وہ شخص بپتسمہ لینے والا ہے تو اُسے بزرگوں کی جماعت کے منتظم کو پہلے سے اپنی بیماری کے بارے میں بتانا چاہیے تاکہ کوئی ایسا اِنتظام کِیا جا سکے جس سے بپتسمہ لینے والے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ اگر کوئی شخص شادی کرنے کا سوچ رہا ہے اور اُسے لگتا ہے کہ اُسے ایسی کوئی بیماری ہے جو اُس سے دوسروں کو لگ سکتی ہے تو اُسے خون کا ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ’‏صرف اپنے فائدے کا ہی نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا بھی سوچتا ہے۔‘‏—‏فِلپّیوں 2:‏4‏۔‏

سبق نمبر 56 میں نکتہ نمبر 2 پر واپس جائیں۔‏

 7.‏ کاروباری اور قانونی معاملے

پیسوں سے متعلق ہر معاملے کو کاغذی شکل دینے سے بہت سے مسئلوں سے بچا جا سکتا ہے پھر چاہے یہ معاملہ دو مسیحیوں کے درمیان ہی کیوں نہ ہو۔ (‏یرمیاہ 32:‏9-‏12‏)‏ اِس کے باوجود کبھی کبھی پیسوں یا دوسرے معاملوں کو لے کر مسیحیوں کے درمیان چھوٹے موٹے اِختلاف ہو سکتے ہیں۔ مسیحیوں کو ایسے معاملے آپس میں حل کرنے چاہئیں اور اُنہیں ایسا جلد سے جلد اور پُرامن طریقے سے کرنا چاہیے۔‏

لیکن اگر مسیحیوں کے درمیان کوئی سنگین مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے جیسے کہ کسی پر جھوٹے اِلزام لگائے جاتے ہیں یا کسی کو دھوکا دیا جاتا ہے تو اُنہیں کیا کرنا چاہیے؟ (‏متی 18:‏15-‏17 کو پڑھیں۔)‏ یسوع مسیح نے بتایا کہ ایسی صورت میں ہمیں یہ تین قدم اُٹھانے چاہئیں:‏

  1. معاملے کو آپس میں حل کرنے کی کوشش کریں۔—‏15 آیت کو دیکھیں۔‏

  2. اگر اِس سے بات نہ بنے تو کلیسیا کے ایک یا دو پُختہ مسیحیوں کو اپنے ساتھ لے جائیں۔—‏16 آیت کو دیکھیں۔‏

  3. اگر پھر بھی معاملہ حل نہ ہو تو صرف تب بزرگوں سے بات کریں۔—‏17 آیت کو دیکھیں۔‏

زیادہ‌تر صورتوں میں ہمیں عدالت جائے بغیر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اِس سے یہوواہ خدا اور کلیسیا کی بدنامی ہو سکتی ہے۔ (‏1-‏کُرنتھیوں 6:‏1-‏8‏)‏ لیکن کچھ معاملوں کے لیے قانونی کارروائی کرنا ضروری ہو سکتا ہے جیسے کہ طلاق لینے کے لیے، بچے کی سرپرستی حاصل کرنے کے لیے، علیٰحدگی یا طلاق کے بعد خرچہ لینے کے لیے، بیمے کی رقم حاصل کرنے کے لیے، وصیت کو قانونی طور پر صحیح ثابت کرنے کے لیے یا رقم ڈوب جانے کی صورت میں۔ اگر کوئی مسیحی ایسی صورتوں میں مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے عدالت کا رُخ کرتا ہے تو وہ بائبل میں لکھی نصیحت کی خلاف‌ورزی نہیں کر رہا ہوتا۔‏

اگر کوئی مسیحی کسی سنگین جُرم جیسے کہ کسی مرد، عورت یا بچے سے جنسی زیادتی، مارپیٹ، ڈکیتی یا قتل کی ایف‌آئی‌آر درج کرواتا ہے تو وہ بائبل میں لکھی نصیحت کی خلاف‌ورزی نہیں کر رہا ہوتا۔‏

سبق نمبر 56 میں نکتہ نمبر 3 پر واپس جائیں۔‏

a سن 455 قبل‌ازمسیح سے 1 قبل‌ازمسیح تک 454 سال بنتے ہیں۔ 1 قبل‌ازمسیح سے 1 عیسوی تک ایک سال بنتا ہے (‏صفر کا کوئی سن نہیں تھا)‏۔ 1 عیسوی سے 29 عیسوی تک 28 سال بنتے ہیں۔ اِن سالوں (‏یعنی 454 اور 1 اور 28)‏ کو جمع کرنے سے 483 سال بنتے ہیں۔‏

b علاج کے اِن طریقوں کے بارے میں جاننے کے لیے ‏”‏مینارِنگہبانی،“‏ 15 اکتوبر 2000ء میں ”‏سوالات از قارئین“‏ کو دیکھیں۔‏