مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا مَیں نے رُوح‌اُلقدس کو اپنا ذاتی مددگار بنا لیا ہے؟‏

کیا مَیں نے رُوح‌اُلقدس کو اپنا ذاتی مددگار بنا لیا ہے؟‏

کیا مَیں نے رُوح‌اُلقدس کو اپنا ذاتی مددگار بنا لیا ہے؟‏

عام لوگوں کا ذکر ہی کجا،‏ خدا کی رُوح‌اُلقدس کی شناخت کی بابت مذہبی علما بھی مختلف خیالات رکھتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ایسی غیریقینی کیفیت غیرضروری ہے۔‏ بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ رُوح‌اُلقدس کیا ہے۔‏ ایک شخص ہونے کی بجائے،‏ جیسا کہ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں،‏ یہ سرگرم قوت ہے جسے خدا اپنی مرضی کو عمل میں لانے کیلئے استعمال کرتا ہے۔‏—‏زبور ۱۰۴:‏۳۰؛‏ اعمال ۲:‏۳۳؛‏ ۴:‏۳۱؛‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۲۱‏۔‏

رُوح‌اُلقدس کا خدا کے مقاصد کی تکمیل سے بہت قریبی تعلق ہے،‏ اس لئے ہمیں اپنی زندگی اِسکی مطابقت میں بسر کرنے کے خواہاں ہونا چاہئے۔‏ ہمیں اِسے اپنا ذاتی مددگار بنانے کے خواہشمند ہونا چاہئے۔‏

ایک مددگار کی ضرورت کیوں ہے؟‏

یسوع نے اپنی زمینی زندگی کے اختتام پر،‏ اپنے شاگردوں کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں باپ سے درخواست کرونگا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔‏“‏ اُس نے یہ بھی کہا:‏ ”‏لیکن مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ‌مند ہے کیونکہ اگر مَیں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئیگا لیکن اگر جاؤنگا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دونگا۔‏“‏—‏یوحنا ۱۴:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۱۶:‏۷‏۔‏

یسوع نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتے ہوئے ایک اہم تفویض سونپی:‏ ”‏پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُنکو باپ اور بیٹے اور رُوح‌اُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔‏ اور اُنکو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تم کو حکم دیا۔‏“‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ اِسے پورا کرنے کیلئے مخالفت کا سامنا بھی ہونا تھا۔‏—‏متی ۱۰:‏۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

دُنیا کی مخالفت کیساتھ ساتھ کلیسیا میں بھی کچھ اختلافات موجود تھے۔‏ پولس نے تقریباً ۵۶ س.‏ع.‏ میں روم کے مسیحیوں کو لکھا ”‏اب اَے بھائیو!‏ مَیں تُم سے التماس کرتا ہوں کہ جو لوگ اُس تعلیم کے برخلاف جو تُم نے پائی پھوٹ پڑنے اور ٹھوکر کھانے کا باعث ہیں اُنکو تاڑ لیا کرو اور اُن سے کنارہ کِیا کرو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۶:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ رسولوں کی موت کے بعد اِس صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا ہو جانا تھا۔‏ پولس نے خبردار کِیا:‏ ”‏مَیں یہ جانتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد پھاڑنے والے بھیڑئے تم میں آئینگے جنہیں گلّہ پر کچھ ترس نہ آئیگا۔‏ اور خود تم میں سے اَیسے آدمی اُٹھینگے جو اُلٹی اُلٹی باتیں کہینگے تاکہ شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔‏“‏—‏اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰‏۔‏

اِن مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے خدا کی مدد کی ضرورت تھی۔‏ اُس نے یسوع کے ذریعے یہ مدد فراہم کی۔‏ یسوع کے جی اُٹھنے کے بعد،‏ پنتِکُست ۳۳ س.‏ع.‏ کے موقع پر،‏ اُس کے تقریباً ۱۲۰ پیروکار ”‏سب رُوح‌اُلقدس سے بھر گئے۔‏“‏—‏اعمال ۱:‏۱۵؛‏ ۲:‏۴‏۔‏

اس موقع پر شاگرد یہ سمجھ گئے تھے کہ رُوح‌اُلقدس کا نزول وہ مدد تھی جسکا وعدہ یسوع نے اُن کیساتھ کِیا تھا۔‏ بِلاشُبہ اُنہوں نے اُس شناخت کی بہتر سمجھ حاصل کی جو یسوع نے فراہم کی تھی:‏ ‏”‏مددگار یعنی رُوح‌اُلقدس جسے باپ میرے نام سے بھیجیگا وہی تمہیں سب باتیں سکھائیگا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائیگا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۶‏)‏ اُس نے اِسے ’‏مددگار،‏ روحِ‌حق‘‏ بھی کہا۔‏—‏یوحنا ۱۵:‏۲۶‏۔‏

رُوح ایک مددگار کیسے ہے؟‏

رُوح نے کئی طریقوں سے مددگار کے طور پر کام کرنا تھا۔‏ اوّل،‏ یسوع نے اپنے شاگردوں سے یہ وعدہ کِیا تھا کہ یہی اُنہیں وہ باتیں یاد دلائیگا جو اُس نے اُن سے کہی تھیں۔‏ اس کا مطلب محض باتیں یاد دلانے میں مدد کرنے سے زیادہ تھا۔‏ رُوح نے اُسکی سکھائی ہوئی باتوں کا گہرا مطلب اور اہمیت سمجھنے میں اُنکی مدد کرنی تھی۔‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۱۲-‏۱۴‏)‏ مختصراً،‏ رُوح نے سچائی کی بہتر سمجھ حاصل کرنے میں اُسکے شاگردوں کی راہنمائی کرنی تھی۔‏ پولس رسول نے بعدازاں تحریر کِیا:‏ ”‏ہم پر خدا نے اُنکو رُوح کے وسیلہ سے ظاہر کِیا کیونکہ رُوح سب باتیں بلکہ خدا کی تہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۰‏)‏ یسوع کے ممسوح پیروکاروں کو دوسروں تک صحیح علم پہنچانے سے پہلے اپنی سمجھ کی بنیاد کو مضبوط کرنا تھا۔‏

دوم،‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو دُعا کرنے اور اکثر ایسا کرنے کی تعلیم دی تھی۔‏ بعض‌اوقات ایسا ہوتا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ اُنہیں کس سلسلے میں دُعا کرنی چاہئے تو رُوح اُنکی مدد کرنے کیلئے مداخلت کر سکتی تھی۔‏ ”‏اسی طرح رُوح بھی ہماری کمزوری میں مدد کرتا ہے کیونکہ جس طور پر ہم کو دُعا کرنا چاہئے ہم نہیں جانتے مگر رُوح خود ایسی آہیں بھربھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے جن کا بیان نہیں ہو سکتا۔‏“‏—‏رومیوں ۸:‏۲۶‏۔‏

سوم،‏ رُوح نے سچائی کا علانیہ دفاع کرنے کیلئے یسوع کے شاگردوں کی مدد کرنی تھی۔‏ اُس نے اُنہیں آگاہ کِیا:‏ ”‏وہ تمکو عدالتوں کے حوالہ کرینگے اور اپنے عبادتخانوں میں تمکو کوڑے مارینگے۔‏ اور تم میرے سبب سے حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے تاکہ اُنکے اور غیرقوموں کے لئے گواہی ہو۔‏ لیکن جب وہ تمکو پکڑوائیں تو فکر نہ کرنا کہ ہم کس طرح کہیں یا کیا کہیں کیونکہ جو کچھ کہنا ہوگا اُسی گھڑی تمکو بتایا جائیگا۔‏ کیونکہ بولنے والے تم نہیں بلکہ تمہارے باپ کا رُوح ہے جو تم میں بولتا ہے۔‏“‏—‏متی ۱۰:‏۱۷-‏۲۰‏۔‏

رُوح‌اُلقدس نے مسیحی کلیسیا کی شناخت کرانے اور اُسکے اراکین کو دانشمندانہ ذاتی فیصلے کرنے کی تحریک دینے میں بھی مدد کرنی تھی۔‏ آئیے اِس موضوع کے دو پہلوؤں پر مفصل بحث کریں اور دیکھیں کہ آجکل ہمارے لئے اِنکی کیا اہمیت ہے۔‏

ایک شناختی نشان کے طور پر خدمت انجام دینا

یہودیوں نے صدیوں سے موسوی شریعت کے تحت خدا کی برگزیدہ قوم کے طور پر خدمت انجام دی تھی۔‏ انہوں نے یسوع کو مسیحا کے طور پر قبول نہ کِیا اسلئے اس نے پیشینگوئی کی کہ انہیں بھی بہت جلد ردّ کر دیا جائیگا:‏ ”‏کیا تم نے کتابِ‌مُقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے ردّ کِیا۔‏ وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا۔‏ یہ [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے ہؤا اور ہماری نظر میں عجیب ہے؟‏ اِسلئے مَیں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائیگی اور اُس قوم کو جو اُسکے پھل لائے دیدی جائیگی۔‏“‏ (‏متی ۲۱:‏۴۲،‏ ۴۳‏)‏ مسیحی کلیسیا کے ۳۳ س.‏ع.‏ میں تشکیل پانے کے بعد مسیح کے پیروکار ’‏پھل لانے والی قوم‘‏ بن گئے۔‏ اُس وقت سے لیکر یہ کلیسیا خدا کے رابطے کا ذریعہ بن گئی ہے۔‏ الہٰی خوشنودی کی اِس تبدیلی کو پہچاننے میں لوگوں کی مدد کرنے کیلئے،‏ خدا نے ایک واضح شناختی نشان فراہم کِیا۔‏

پنتِکُست پر رُوح‌اُلقدس نے شاگردوں کو ایسی زبانیں بولنے کے لائق ٹھہرایا جو اُنہوں نے کبھی نہیں سیکھی تھیں جس کے باعث مشاہدین حیران ہوکر پوچھنے لگے:‏ ”‏کیونکر ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے؟‏“‏ (‏اعمال ۲:‏۷،‏ ۸‏)‏ ”‏بہت سے عجیب کام اور نشان رسولوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوتے تھے“‏ اور اِس کیساتھ ساتھ غیرزبانوں میں بولنے کی صلاحیت نے تقریباً تین ہزار اشخاص کی یہ جاننے میں مدد کی کہ خدا کی رُوح واقعی سرگرمِ‌عمل ہے۔‏—‏اعمال ۲:‏۴۱،‏ ۴۳‏۔‏

اسکے علاوہ،‏ ”‏رُوح کا پھل“‏—‏محبت،‏ خوشی،‏ اطمینان،‏ تحمل،‏ مہربانی،‏ نیکی،‏ ایمانداری،‏ حلم،‏ ضبطِ‌نفس—‏پیدا کرنے سے،‏ مسیح کے شاگردوں کی شناخت واضح طور پر خدا کے خادموں کے طور پر ہو گئی تھی۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ درحقیقت محبت نے،‏ نمایاں طور پر سچی مسیحی کلیسیا کی شناخت کرائی۔‏ یسوع نے پیشینگوئی کی تھی:‏ ”‏اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اِس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔‏“‏—‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

ابتدائی مسیحی کلیسیا کے اراکین نے خدا کی رُوح‌اُلقدس کی راہنمائی قبول کی اور اُسکی طرف سے پیش‌کردہ مدد سے فائدہ اُٹھایا۔‏ آجکل مسیحی جب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا پہلی صدی کی طرح آج مُردوں کو زندہ نہیں کرتا اور نہ ہی معجزات کرتا ہے تو پھر وہ خدا کی رُوح کے پھلوں کو اجازت دیتے ہیں کہ یسوع مسیح کے سچے شاگردوں کے طور پر اُنکی شناخت کرائیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۸‏۔‏

ذاتی فیصلے کرنے کے سلسلے میں ایک مددگار

بائبل رُوح‌اُلقدس کی پیداوار ہے۔‏ لہٰذا،‏ جب ہم بائبل کو خود پر اثرانداز ہونے دیتے ہیں تو یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا رُوح‌اُلقدس ہماری راہنمائی کر رہی ہو۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ یہ دانشمندانہ فیصلے کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔‏ تاہم،‏ کیا ہم اُسے ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟‏

پیشے یا نوکری کے انتخاب کی بابت کیا ہے؟‏ رُوح‌اُلقدس یہوواہ کے نقطۂ‌نظر سے ایک امکانی نوکری کا جائزہ لینے میں ہماری مدد کرے گی۔‏ ہماری نوکری کو بائبل اُصولوں سے ہم‌آہنگ ہونا چاہئے اور ترجیحاً اِسے تھیوکریٹک نشانوں کو حاصل کرنے میں ہماری مدد کرنی چاہئے۔‏ نوکری کے ساتھ منسلک تنخواہ یا عزت‌وشہرت واقعی کم اہمیت کی حامل ہیں۔‏ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آیا یہ ہماری ضروریاتِ‌زندگی کو پورا کرنے کے علاوہ ہمیں مسیحی ذمہ‌داریوں کو پورا کرنے کے لئے کافی وقت اور موقع فراہم کرتی ہے۔‏

زندگی سے لطف‌اندوز ہونے کی خواہش فطرتی اور موزوں ہے۔‏ (‏واعظ ۲:‏۲۴؛‏ ۱۱:‏۹‏)‏ لہٰذا،‏ ایک متوازن مسیحی تروتازگی حاصل کرنے اور لطف‌اندوز ہونے کیلئے تفریح کر سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ اُسے ایسی تفریح کا انتخاب کرنا چاہئے جو ”‏جسم کے کام“‏ کی بجائے رُوح کے پھل ظاہر کرے۔‏ پولس نے وضاحت کی:‏ ”‏اب جسم کے کام تو ظاہر ہیں یعنی حرامکاری۔‏ ناپاکی۔‏ شہوت‌پرستی۔‏ بت‌پرستی۔‏ جادوگری۔‏ عداوتیں۔‏ جھگڑا۔‏ حسد۔‏ غصہ۔‏ تفرقے۔‏ جدائیاں۔‏ بدعتیں۔‏ بغض۔‏ نشہ‌بازی۔‏ ناچ‌رنگ اور اَور اِنکی مانند۔‏“‏ ہمیں ”‏بیجا فخر کرکے .‏ .‏ .‏ ایک دوسرے کو [‏چڑانے]‏“‏ سے بھی گریز کرنا چاہئے۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۱۶-‏۲۶‏۔‏

دوستوں کے انتخاب میں بھی یہ بات سچ ہے۔‏ ظاہری وضع‌قطع یا مال‌ودولت کی بجائے،‏ روحانی نقطۂ‌نظر سے دوستوں کا انتخاب کرنا دانشمندی کی بات ہے۔‏ داؤد حقیقت میں خدا کا دوست تھا اسلئےکہ خدا نے ”‏[‏اپنے]‏ دل کے موافق“‏ شخص کے طور پر اُسکا ذکر کِیا۔‏ (‏اعمال ۱۳:‏۲۲‏)‏ ظاہری وضع‌قطع کو نظرانداز کرتے ہوئے،‏ خدا نے داؤد کو اِس اُصول کے مطابق اسرائیل کا بادشاہ منتخب کِیا:‏ ”‏خداوند انسان کی مانند نظر نہیں کرتا اِسلئےکہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [‏یہوواہ]‏ دل پر نظر کرتا ہے۔‏“‏—‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷‏۔‏

ہزاروں دوستیاں اِس لئے ناکام ہوئی ہیں کیونکہ وہ ظاہری وضع‌قطع یا مال‌ودولت پر مبنی تھیں۔‏ ناپائیدار دولت کی بنیاد پر رکھی گئی دوستی اچانک ٹوٹ سکتی ہے۔‏ (‏امثال ۱۴:‏۲۰‏)‏ خدا کا الہامی کلام ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ہم ایسے دوستوں کا انتخاب کریں جو یہوواہ کی خدمت میں ہماری مدد کر سکیں۔‏ یہ بیان کرتا ہے کہ ہمیں لینے کی بجائے دینے پر توجہ مُرتکز رکھنی چاہئے کیونکہ دینا زیادہ خوشی بخشتا ہے۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏)‏ وقت اور محبت اُن بیش‌قیمت چیزوں میں شامل ہیں جو ہم اپنے دوستوں کو دے سکتے ہیں۔‏

بائبل شادی کیلئے ساتھی کی تلاش کرنے والے مسیحی کو الہامی نصیحت فراہم کرتی ہے۔‏ ایک لحاظ سے یہ کہتی ہے:‏ ’‏شکل‌وصورت کو نہ دیکھیں۔‏ پاؤں کو دیکھیں۔‏‘‏ پاؤں؟‏ جی‌ہاں،‏ اِس مفہوم میں کہ کیا یہ پاؤں یہوواہ کے خوشخبری کی منادی کے کام کے لئے استعمال ہو رہے ہیں اور کیا یہ اُس کی نظروں میں خوشنما ہیں؟‏ کیا اِنہوں نے سچائی کے پیغام اور امن کی خوشخبری کے جوتے پہنے ہوئے ہیں؟‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏اُسکے پاؤں پہاڑوں پر کیا ہی خوشنما ہیں جو خوشخبری لاتا ہے اور سلامتی کی منادی کرتا ہے اور خیریت کی خبر اور نجات کا اشتہار دیتا ہے۔‏ جو صیوؔن سے کہتا ہے تیرا خدا سلطنت کرتا ہے۔‏“‏—‏یسعیاہ ۵۲:‏۷؛‏ افسیوں ۶:‏۱۵‏۔‏

اِس ’‏اخیر زمانہ کے بُرے دنوں‘‏ میں رہتے ہوئے ہمیں خدا کی مرضی پوری کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ اِس مددگار یعنی خدا کی رُوح‌اُلقدس نے پہلی صدی کے مسیحیوں کے کام کی پُرزور حمایت کرنے کے علاوہ اُن کے لئے ذاتی مددگار کے طور پر بھی کام کِیا۔‏ رُوح‌اُلقدس کے زیرِاثر تحریرکردہ خدا کے کلام کا مستعدی سے مطالعہ کرنا وہ واحد طریقہ ہے جس سے ہم رُوح‌اُلقدس کو اپنا ذاتی مددگار بنا سکتے ہیں۔‏ کیا ہم نے ایسا کِیا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر صرف تصویر ہے]‏