مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کٹائی سے پہلے ”‏کھیت“‏ میں کام کرنا

کٹائی سے پہلے ”‏کھیت“‏ میں کام کرنا

کٹائی سے پہلے ”‏کھیت“‏ میں کام کرنا

عظیم اُستاد کے شاگرد تذبذب کا شکار تھے۔‏ یسوع تھوڑی دیر پہلے گیہوں اور کڑوے دانوں کی مختصر سی تمثیل بیان کر چکا تھا۔‏ یہ اُس دن بیان کی جانے والی کئی تمثیلوں میں سے ایک تھی۔‏ جب اُس نے تمثیل ختم کی تو بہتیرے سامعین وہاں سے چلے گئے۔‏ تاہم،‏ اُسکے پیروکار جانتے تھے کہ اُسکی تمثیلوں،‏ خصوصاً گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل کا ضرور کوئی خاص مقصد تھا۔‏ وہ یہ جانتے تھے کہ یسوع محض کہانی‌گو نہیں تھا۔‏

متی رسول بیان کرتا ہے کہ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏کھیت کے کڑوے دانوں کی تمثیل ہمیں سمجھا دے۔‏“‏ یسوع نے جواب میں اپنے اقبالی شاگردوں میں بہت بڑی برگشتگی کی پیشینگوئی کرتے ہوئے اِس تمثیل کی وضاحت کی۔‏ (‏متی ۱۳:‏۲۴-‏۳۰،‏ ۳۶-‏۳۸،‏ ۴۳‏)‏ ایسا ہی واقع ہوا اور یوحنا رسول کی موت کے بعد برگشتگی بڑی تیزی سے پھیل گئی۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۶-‏۱۲‏)‏ اِس کے اثرات اِسقدر عام ہوئے کہ ظاہری طور پر لوقا ۱۸:‏۸ میں درج یسوع کا سوال بڑا موزوں تھا:‏ ”‏جب ابنِ‌آدم آئیگا تو کیا زمین پر ایمان پائیگا؟‏“‏

یسوع کی آمد گیہوں‌نما مسیحیوں کی ”‏کٹائی“‏ کی شروعات کا نشان ہوگی۔‏ یہ ’‏دُنیا کے آخر‘‏ ہونے کا نشان ہوگا جسکا آغاز ۱۹۱۴ میں ہوا۔‏ لہٰذا اس سے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہئے کہ جس عرصے میں کٹائی کا آغاز ہونا تھا اُس میں بائبل سچائی میں دلچسپی لینے والے اشخاص موجود تھے۔‏—‏متی ۱۳:‏۳۹‏۔‏

تاریخی ریکارڈ کا جائزہ واضح کرتا ہے کہ خاص طور پر ۱۵ویں صدی سے لیکر لوگوں کی دلچسپی بڑھنے لگی اور یہ بات دُنیائےمسیحیت کے بہتیرے لوگوں کے سلسلے میں بھی سچ تھی جو ”‏کڑوے دانوں“‏ کی مانند،‏ نقلی مسیحی تھے۔‏ جب بائبل آسانی سے دستیاب ہونے لگی اور بائبل کے بامعنی اشاریے تیار کئے جانے لگے تو خلوصدل اشخاص نے صحائف کی گہری جانچ شروع کر دی۔‏

روشنی تیز ہوتی ہے

انیسویں صدی کے شروع میں برمنگھم،‏ انگلینڈ کا ہنری گرئیو (‏۱۷۸۱-‏۱۸۶۲)‏ اِنہی اشخاص میں سے ایک تھا۔‏ وہ ۱۳ سال کی عمر میں اپنے خاندان کیساتھ اوقیانوس سے بحری سفر کے ذریعے جولائی ۸،‏ ۱۷۹۵ میں ریاستہائے متحدہ پہنچا۔‏ وہ پروویڈنس کے روڈ آئی‌لینڈ میں رہنے لگے۔‏ اُسکے والدین نے اُسکے دل میں بائبل کی محبت جاگزین کی۔‏ گرئیو کو ۲۵ سال کی عمر میں،‏ ۱۸۰۷ میں،‏ ہارٹ‌فورڈ،‏ کونیک‌ٹی‌کٹ کے بپٹسٹ چرچ میں ایک پادری کے طور پر خدمت کرنے کی دعوت دی گئی۔‏

اُس نے اپنی تعلیم دینے کی تفویض کو سنجیدہ خیال کرتے ہوئے اپنی نگہبانی میں لوگوں کی صحائف سے ہم‌آہنگ زندگی بسر کرنے میں مدد کی۔‏ تاہم،‏ اُسکا یقین تھا کہ کلیسیا کو ایسے ہر شخص سے پاک رکھا جائے جو دانستہ طور پر گناہ کرتا ہے۔‏ بعض‌اوقات،‏ اُسے اور کلیسیا کے دیگر ذمہ‌دار اشخاص کو زناکاری یا دوسرے ناپاک کاموں میں ملوث لوگوں کو خارج بھی کرنا پڑتا تھا۔‏

وہ کلیسیا میں موجود دیگر مسائل کی وجہ سے بھی پریشان تھا۔‏ اُن کیساتھ ایسے اشخاص شامل تھے جو کلیسیا کے اراکین نہ ہونے کے باوجود،‏ چرچ کے کاروباری معاملات سنبھالتے اور عبادتی گیت گانے میں پیشوائی کرتے تھے۔‏ اُن اشخاص کو کلیسیائی معاملات میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھنے کی وجہ سے اُسکے معاملات پر بھی اختیار حاصل تھا۔‏ دُنیا سے علیٰحدگی کے اصول کی بنیاد پر گرئیو پُختہ یقین رکھتا تھا کہ صرف ایماندار اشخاص ہی کو ایسی ذمہ‌داریاں پوری کرنی چاہئیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۴-‏۱۸؛‏ یعقوب ۱:‏۲۷‏)‏ اُسکے خیال میں،‏ بےایمانوں کا خدا کی تمجید میں گیت گانا کفر تھا۔‏ اِس مؤقف کی وجہ سے ہنری گرئیو کو ۱۸۱۱ میں چرچ نے مسترد کر دیا۔‏ ایسے ہی خیالات رکھنے والے دوسرے ممبران بھی اُس کیساتھ اُس وقت چرچ سے الگ ہوگئے۔‏

دُنیائےمسیحیت سے علیٰحدگی

ہنری گرئیو کے علاوہ،‏ اِس گروپ نے بھی اپنی زندگیاں اور کارگزاریاں بائبل کی مشورت سے ہم‌آہنگ کرنے کے نصب‌العین کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔‏ اُنکی تحقیق‌وتفتیش نے اُنہیں جلد ہی بائبل سچائی کی گہری سمجھ عطا کی اور دُنیائےمسیحیت کی خامیوں کو بےنقاب کرنے کی تحریک دی۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۱۸۲۴ میں گرئیو نے تثلیث کے خلاف ایک مدلل تردید تحریر کی۔‏ اُسکی تحریر میں سے اِس اقتباس کی منطق پر غور فرمائیے:‏ ”‏ ’‏اُس دن یا اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔‏ نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔‏‘‏ [‏مرقس ۱۳:‏۳۲‏]‏ یہاں پر اہمیت کے لحاظ سے کی گئی درجہ‌بندی پر غور کریں۔‏ انسان،‏ فرشتے،‏ بیٹا،‏ باپ۔‏ .‏ .‏ .‏ ہمارے خداوند نے ہمیں تعلیم دی کہ صرف باپ اُس دن کی بابت جانتا ہے۔‏ تاہم،‏ اگر بعض لوگ یہ فرض کرتے ہیں کہ باپ،‏ کلام اور رُوح‌اُلقدس ایک ہی خدا میں موجود تین اشخاص ہیں تو یہ بات سچ نہیں ہو سکتی؛‏ کیونکہ اِس [‏عقیدۂتثلیث کی تعلیم]‏ کے مطابق .‏ .‏ .‏ بیٹا باپ کے برابر جانا جاتا ہے۔‏“‏

گرئیو نے پادری طبقے اور فوجی کمانڈروں کی ریاکاری کو بےنقاب کِیا جو مسیح کی خدمت کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔‏ اُس نے ۱۸۲۸ میں بیان کِیا:‏ ”‏کیا ہم اِس سے زیادہ ناموافقت کا تصور کر سکتے ہیں کہ ایک مسیحی اپنی بند کوٹھری میں تو اپنے دشمنوں کیلئے دُعا کرتا ہے مگر اِس سے نکل کر اِسکے فوراً بعد اُن ہی دشمنوں کو بےدردی سے ہلاک کرنے کیلئے اپنے فوجی دستوں کو اُنکے خلاف ہتھیار اُٹھانے کا حکم بھی دیتا ہے؟‏ ایک طرف تو وہ خوشی سے مرنے والے اپنے خداوند کے مشابہ نظر آتا ہے مگر دوسری طرف وہ کس کے مشابہ ہے؟‏ یسوع نے اپنے قاتلوں کیلئے دُعا کی۔‏ مسیحی اُنکو قتل کرتے ہیں جن کیلئے وہ دُعا کرتے ہیں۔‏“‏

گرئیو نے اَور بھی پُرزور طریقے سے لکھا:‏ ”‏ہم کب قادرِمطلق پر اعتبار کرینگے جو ہمیں یقین دلاتا ہے کہ وہ ’‏ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا؟‏‘‏ ہم اُس مقدس مذہب کی ماہیت اور اُسکی رُوح کو کب سمجھیں گے جو ہم سے ’‏بدی کے خیال‘‏ سے بھی دُور رہنے کا تقاضا کرتا ہے؟‏ .‏ .‏ .‏ کیا یہ فرض کرنا خدا کے بیٹے کے خلاف توہین‌آمیز تحریر نہیں کہ اُسکا مذہب ایک موقع پر تو کسی شخص سے فرشتے کی مانند کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور دوسری جگہ اُسے شیطانی کاموں میں حصہ لینے کی بھی اجازت دیتا ہے؟‏“‏

ابدی زندگی پیدائشی حق نہیں

ریڈیو اور ٹیلیویژن کی ایجاد سے پہلے،‏ پمفلٹ لکھ کر اُنہیں تقسیم کرنا اظہارِخیال کا ایک عام ذریعہ ہوا کرتا تھا۔‏ گرئیو نے تقریباً ۱۸۳۵ میں جان کی غیرفانیت اور آتشِ‌دوزخ کی تعلیمات کو غیرصحیفائی ثابت کرنے والا ایک اہم پمفلٹ تحریر کِیا۔‏ اُس کی نظر میں یہ عقائد خدا کی بےحرمتی کرتے تھے۔‏

اِس پمفلٹ کے دُوررس اثرات تھے۔‏ ۱۸۳۷ میں ایک ریل‌گاڑی میں ۴۰ سالہ جارج سٹورز کو اِسکی ایک کاپی ملی۔‏ سٹورز لبنان،‏ نیو ہیم‌پیشائر میں پیدا ہوا تھا اور اُس وقت نیو یارک،‏ یوٹیکا میں مقیم تھا۔‏

وہ میتھوڈسٹ ایپس‌کوپل چرچ کا ایک بڑا معزز پادری تھا۔‏ پمفلٹ پڑھنے کے بعد وہ بیحد متاثر ہوا کہ دُنیائےمسیحیت کی ایسی بنیادی تعلیمات کے خلاف ایسی پُرزور دلیل پیش کی جا سکتی ہے جن پر اُس نے پہلے کبھی شک نہیں کِیا تھا۔‏ کچھ سال تک اُسے مصنف کا پتہ نہیں تھا،‏ تاہم جب تقریباً ۱۸۴۴ میں ہنری گرئیو سے اُس کی ملاقات ہوئی تو وہ دونوں فلاڈلفیہ،‏ پینسلوانیہ میں رہتے تھے۔‏ تاہم،‏ سٹورز نے تین سال تک خود اس معاملے پر ذاتی مطالعہ کِیا اور صرف دوسرے پادریوں کیساتھ ہی اس کی بابت گفتگو کی۔‏

جارج سٹورز نے جو کچھ سیکھا جب کوئی اُسے غلط ثابت نہ کر سکا تو آخرکار اُس نے فیصلہ کِیا کہ وہ میتھوڈسٹ چرچ میں رہتے ہوئے خدا کا وفادار نہیں رہ سکتا۔‏ وہ ۱۸۴۰ میں استعفیٰ دیکر ایل‌بینی،‏ نیو یارک چلا گیا۔‏

سٹورز نے ۱۸۴۲ کے موسمِ‌بہار کے شروع میں چھ ہفتوں کے دوران ”‏ایک تحقیق—‏کیا شریر لوگ غیرفانی ہیں؟‏“‏ کے موضوع پر چھ سلسلہ‌وار تقاریر پیش کیں۔‏ اِن میں اسقدر دلچسپی دکھائی گئی کہ اُس نے اِن کی اشاعت کے لئے اِن پر نظرثانی کی اور اگلے ۴۰ سالوں کے دوران ریاستہائے متحدہ اور برطانیہ میں اس کی تقسیم ۰۰۰،‏۰۰،‏۲ کاپیوں تک پہنچ گئی۔‏ سٹورز اور گرئیو نے جان کی غیرفانیت کے عقیدے کے خلاف ملکر مناظروں میں حصہ لیا۔‏ گرئیو فلاڈلفیہ میں اگست ۸،‏ ۱۸۶۲ میں اپنی موت تک سرگرمی سے منادی کرتا رہا۔‏

سٹورز اپنی چھ تقاریر کے بعد جنکا ذکر تھوڑی دیر پہلے کِیا گیا تھا،‏ ولیم ملر کی منادی میں دلچسپی لینے لگا جو ۱۸۴۳ میں مسیح کی دیدنی آمد کا منتظر تھا۔‏ تقریباً دو سال تک سٹورز ریاستہائے متحدہ کے شمال‌مشرق میں اِس پیغام کی منادی میں سرگرمِ‌عمل رہا۔‏ اُس نے ۱۸۴۴ کے بعد،‏ مسیح کی آمد کی تاریخ مُتعیّن کرنے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی تاہم،‏ اُسے تاریخ میں دوسروں کی تحقیق پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔‏ سٹورز یقین رکھتا تھا کہ مسیح کی آمد قریب تھی اور ملاحظہ کے دن کیلئے مسیحیوں کا روحانی طور پر ہوشیاروبیدار رہنا ضروری تھا۔‏ تاہم،‏ اُس نے ملر کے گروپ سے علیٰحدگی اختیار کر لی کیونکہ انہوں نے جان کی غیرفانیت،‏ دُنیا کی تباہی اور لاعلمی میں مرنے والوں کیلئے ابدی زندگی کی اُمید کی عدم موجودگی جیسے غیرصحیفائی عقائد قبول کر لئے تھے۔‏

خدا کی محبت کس چیز کا باعث بنے گی؟‏

سٹورز کو ایڈوینٹسٹ چرچ کا یہ نظریہ بڑا ناپسند تھا کہ خدا شریروں کو محض اسلئے زندہ کریگا کہ اُنہیں دوبارہ موت کی سزا دے۔‏ اُسے صحائف میں کوئی بھی ایسی شہادت نہ مل سکی جو خدا کی طرف سے ایسی بےمعنی اور انتقامی کارروائی کو ثابت کر سکے۔‏ سٹورز اور اُس کے ساتھیوں نے انتہاپسندی اختیار کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کِیا کہ شریر لوگ دوبارہ زندہ ہی نہیں کئے جائینگے۔‏ اُنہیں ناراستوں کی قیامت کا اشارہ دینے والے بعض صحائف کی وضاحت کرنے میں مشکل تو پیش آئی مگر اُنکے خیال میں اُنکا نتیجہ خدا کی محبت سے زیادہ ہم‌آہنگ تھا۔‏ خدا کے مقصد کی سمجھ حاصل کرنے میں ایک اور قدم ابھی باقی تھا۔‏

سٹورز ۱۸۷۰ میں شدید بیمار ہونے کے باعث کچھ مہینوں تک کام نہ کر سکا۔‏ اِس وقت کے دوران وہ اپنی ۷۴ سالہ زندگی کے عرصے میں حاصل‌کردہ تعلیم کا دوبارہ جائزہ لینے کے قابل ہوا۔‏ وہ اِس نتیجے پر پہنچا کہ اُس نے نوعِ‌انسان کیلئے خدا کے مقصد کے ایک اہم حصے کو نظرانداز کر دیا تھا جسکا اشارہ ابرہام سے کئے گئے عہد میں پایا جاتا ہے کہ ’‏دُنیا کے سب گھرانے برکت پائینگے کیونکہ ابرہام نے خدا کی بات مانی تھی۔‏‘‏—‏اعمال ۳:‏۲۵؛‏ پیدایش ۲۲:‏۱۸‏۔‏

اِس سے اُسکے ذہن میں ایک نیا خیال پیدا ہوا۔‏ اگر ’‏سب گھرانوں‘‏ کو برکت ملنی تھی تو کیا سب کا خوشخبری سننا لازمی نہیں تھا؟‏ وہ اِسے کیسے سنیں گے؟‏ کیا ہزاروں ہزار لوگ پہلے سے مر نہیں گئے تھے؟‏ صحائف کی مزید جانچ کرنے سے وہ اِس نتیجے پر پہنچا کہ مرنے والے ”‏شریر“‏ اشخاص کے دو گروپ ہیں:‏ وہ جو خدا کی محبت کو قعطاً ردّ کر چکے تھے اور وہ جو لاعلمی میں مر گئے تھے۔‏

سٹورز نے نتیجہ اخذ کِیا کہ اِس آخری گروپ کے لوگوں کو مسیح یسوع کے فدیے سے فائدہ حاصل کرنے کیلئے مُردوں میں سے زندہ کِیا جانا تھا۔‏ اِسے قبول کرنے والے زمین پر ہمیشہ زندہ رہ سکتے تھے۔‏ تاہم،‏ اِسے ردّ کرنے والوں کا خاتمہ لازمی تھا۔‏ جی‌ہاں،‏ سٹورز یقین رکھتا تھا کہ مستقبل کی اُمید کے بغیر خدا کسی کو بھی زندہ نہیں کریگا۔‏ دراصل،‏ آدم کے گناہ کیلئے آدم کے علاوہ اور کوئی نہیں مریگا!‏ تاہم،‏ خداوند یسوع مسیح کی واپسی کے وقت کے دوران رہنے والوں کی بابت کیا تھا؟‏ آخر میں سٹورز یہ سمجھ گیا تھا کہ اُن تک رسائی حاصل کرنے کیلئے منادی کی ایک عالمگیر مہم کا بندوبست کیا جانا تھا۔‏ وہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ اِسے کیسے ممکن بنایا جائیگا مگر ایمان کیساتھ اُس نے لکھا:‏ ”‏بہتیرے اِسے صرف اِسلئے ردّ کر دیتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ کام کیسے انجام پائے گا۔‏ کیا خدا کیلئے یہ کام ناممکن ہے محض اِسلئے کہ اُنہیں اِسکا طریقہ‌کار نظر نہیں آتا۔‏“‏

جارج سٹورز کی موت دسمبر ۱۸۷۹ میں بروکلن نیو یارک میں اُس کے گھر پر واقع ہوئی،‏ اُس جگہ سے تھوڑی ہی دُور جہاں اُس عالمگیر منادی کی مہم کا مرکز بننا تھا جسکا اُس نے بڑے اشتیاق کیساتھ انتظار کِیا تھا۔‏

مزید روشنی کی ضرورت

کیا ہنری گرئیو اور جارج سٹورز جیسے آدمی سچائی کی ایسی واضح سمجھ رکھتے تھے جیسی آجکل ہم رکھتے ہیں؟‏ ہرگز نہیں۔‏ وہ اپنی جدوجہد سے باخبر تھے،‏ جیساکہ سٹورز نے ۱۸۴۷ میں بیان کِیا:‏ ”‏ہم یہ یاد رکھ کر اچھا کرینگے کہ ہم چرچ کے تاریک دَور سے ابھی باہر ہی نکلے ہیں؛‏ اور اگر ہم اب تک کسی ’‏بابلی عقیدے‘‏ کو سچائی سمجھتے ہیں تو اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہوگی۔‏“‏ مثال کے طور پر،‏ گرئیو یسوع کے فراہم‌کردہ فدیے کی قدر کرتا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ ایک ”‏فدیہ“‏ آدم کی کھوئی ہوئی کامل انسانی زندگی کے بدلے میں یسوع کی کامل انسانی زندگی تھی۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۶‏،‏ این‌ڈبلیو‏)‏ ہنری گرئیو غلطی سے یہ بھی ایمان رکھتا تھا کہ یسوع کی آمد اور زمین پر اُسکی حکومت دیدنی ہوگی۔‏ تاہم،‏ گرئیو یہوواہ کے نام کی تقدیس کی فکر رکھتا تھا جو ایک ایسا موضوع تھا جو دوسری صدی س.‏ع.‏ سے لیکر بہت کم لوگوں کی دلچسپی کا حامل تھا۔‏

اِسی طرح جارج سٹورز بھی بعض اہم نکات کی صحیح سمجھ نہیں رکھتا تھا۔‏ وہ پادریوں کے ہاتھوں فروغ پانے والے جھوٹے عقائد کو تو دیکھنے کے قابل تھا مگر بعض‌اوقات وہ انتہاپسندی اختیار کر لیتا تھا۔‏ مثلاً،‏ بظاہر ابلیس کی بابت آرتھوڈکس پادریوں کے نظریہ کی حد سے زیادہ مزاحمت کرتے ہوئے سٹورز نے اِس خیال کو ہی ردّ کر دیا کہ شیطان ایک حقیقی ہستی ہے۔‏ اُس نے تثلیث کے عقیدے کو ردّ تو کِیا؛‏ تاہم،‏ اپنی موت سے کچھ دیر پہلے تک اُسے یقین نہیں تھا کہ آیا رُوح‌اُلقدس ایک شخصیت تھی یا نہیں۔‏ جارج سٹورز یہ اُمید رکھتا تھا کہ مسیح کی واپسی ابتدا میں نادیدہ مگر پھر دیدنی ہوگی۔‏ اِسکے باوجود دونوں شخص دیانتدار اور خلوصدل تھے اور وہ بہتیروں کی نسبت سچائی کے کہیں زیادہ قریب تھے۔‏

یسوع کی گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل میں بیان‌کردہ ”‏کھیت“‏ اُس وقت کٹائی کیلئے تیار نہیں تھا۔‏ (‏متی ۱۳:‏۳۸‏)‏ گرئیو،‏ سٹورز اور دیگر اشخاص کٹائی کی تیاری میں ”‏کھیت“‏ میں کام کر رہے تھے۔‏

چارلس ٹیز رسل جس نے ۱۸۷۹ میں اِس رسالے کو شائع کرنا شروع کِیا اپنے ابتدائی سالوں کی بابت بیان کرتا ہے:‏ ”‏خداوند نے ہمیں اپنے کلام کا مطالعہ کرنے میں مدد کرنے کیلئے کئی فراہمیاں کی ہیں جن میں سے ایک نمایاں فراہمی ہمارے عزیز اور عمررسیدہ بھائی جارج سٹورز کی تھی جس نے نشرواشاعت کے ذریعے ہماری بڑی مدد کی؛‏ تاہم ہماری کوشش رہی ہے کہ ہم اچھائی یا دانشمندی سے قطع‌نظر آدمیوں کے پیروکار بننے کی کوشش کرنے کی بجائے ’‏عزیز فرزندوں کی طرح خدا کے پیروکار‘‏ بنیں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ خلوصدل بائبل طالبعلم گرئیو اور سٹورز جیسے اشخاص کی کوششوں سے مستفید ہو سکتے ہیں مگر سچائی کے حقیقی سرچشمہ کے طور پر خدا کے کلام بائبل کا مطالعہ کرنا پھربھی لازمی ہے۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۷‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر بکس/‏تصویر]‏

ہنری گرئیو کیا مانتا تھا

یہوواہ کے نام کو رسوا کِیا گیا ہے اور اُسکی تقدیس ضروری ہے۔‏

تثلیث،‏ جان کی غیرفانیت اور دوزخ گمراہ‌کُن عقائد ہیں۔‏

مسیحی کلیسیا کو دُنیا سے علیٰحدہ رہنا چاہئے۔‏

مسیحیوں کو قوموں کی جنگوں میں کوئی حصہ نہیں لینا چاہئے۔‏

مسیحی ہفتے یا اتوار کے روز سبت کے قانون کے پابند نہیں۔‏

مسیحیوں کو فری‌میسن کی طرح خفیہ تنظیموں کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔‏

مسیحیوں میں پادریوں اور عام لوگوں میں کوئی طبقاتی فرق نہیں ہونا چاہئے۔‏

مذہبی القاب مخالفِ‌مسیح کی طرف سے ہیں۔‏

تمام کلیسیاؤں میں بزرگوں کی ایک جماعت ہونی چاہئے۔‏

بزرگوں کو اپنا چال‌چلن پاک رکھنا چاہئے جس پر کوئی اُنگلی نہ اُٹھا سکے۔‏

تمام مسیحیوں کو خوشخبری کی منادی کرنی چاہئے۔‏

زمین پر فردوس میں لوگ ہمیشہ زندہ رہینگے۔‏

مسیحی گیتوں میں یہوواہ اور مسیح دونوں کی حمد ہونی چاہئے۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

69288/Photo: Collection of The New-York Historical Society

‏[‏صفحہ ۲۸ پر بکس/‏تصویر]‏

جارج سٹورز کیا مانتا تھا

یسوع نے نوعِ‌انسان کیلئے اپنی زندگی فدیے کی قیمت کے طور پر دے دی۔‏

خوشخبری کی منادی اب تک نہیں ہوئی ہے (‏۱۸۷۱ میں)‏۔‏

اس وجہ سے خاتمہ (‏۱۸۷۱ میں)‏ اِس وقت نزدیک نہیں ہو سکتا۔‏ مستقبل کے کسی دَور میں منادی کا کام کِیا جائیگا۔‏

ایسے لوگ ہونگے جو زمین پر ابدی زندگی کے وارث ہونگے۔‏

لاعلمی میں مرنے والے تمام لوگوں کی قیامت ہوگی۔‏ مسیح کے فدیے کی قربانی کو تسلیم کرنے والوں کو زمین پر ابدی زندگی حاصل ہوگی۔‏ اِسے ردّ کرنے والوں کو ہلاک کر دیا جائیگا۔‏

جان کی غیرفانیت اور دوزخ خدا کی بےحرمتی کرنے والے جھوٹے عقائد ہیں۔‏

خداوند کا عشائیہ نیسان ۱۴ پر منائی جانے والی سالانہ تقریب ہے۔‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏(by George Storrs )‎1855‎ ‏,SIX SERMONS ‏:Photo

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویریں]‏

‏”‏زا‏”‏زائنز واچ ٹاور“‏ کے ایڈیٹر سی۔‏ ٹی۔‏ رسل ۱۹۰۹ میں بروکلن،‏ نیو یارک،‏ یو۔‏ایس۔‏اے۔‏ آئے