مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپکو اپنی جان پیاری ہے یا پیسہ؟‏

آپکو اپنی جان پیاری ہے یا پیسہ؟‏

آپکو اپنی جان پیاری ہے یا پیسہ؟‏

آپ نے ایسے ڈاکوؤں کی بابت تو سنا ہی ہوگا جو اپنے قبضے میں کئے ہوئے شخص کے سامنے بندوقیں تان کر کہتے ہیں:‏ ”‏جان پیاری ہے یا پیسہ!‏“‏ آجکل ایک نہایت پریشان‌کُن صورتحال کی وجہ سے ہم سب—‏بالخصوص متموّل ممالک میں رہنے والے لوگوں—‏کو اس دھمکی کا سامنا ہے۔‏ تاہم،‏ اس مرتبہ یہ دھمکی کوئی ڈاکو نہیں بلکہ مادی حاصلات پر بیحد اصرار کرنے والا ہمارا معاشرہ دے رہا ہے۔‏

اس اصرار کی وجہ سے نئےنئے مسائل اور تفکرات جنم لے رہے ہیں۔‏ مال‌ومتاع کے حصول کی کیا قیمت چکانی پڑ سکتی ہے؟‏ کیا ہم تھوڑے پر قناعت کر سکتے ہیں؟‏ کیا لوگ واقعی ”‏حقیقی زندگی“‏ کو مادہ‌پرستی کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں؟‏ کیا پیسہ خوشحال زندگی کی ضمانت ہے؟‏

پیسے کا جنون

انسان کی تمام جائزوناجائز خواہشات اور حسرتوں میں زر کی دوستی ہمیشہ سرِفہرست رہی ہے۔‏ جنس اور خوراک کی خواہش کے برعکس،‏ پیسے کا جنون دائمی ہو سکتا ہے۔‏ بڑھاپے میں بھی اسکی شدت میں کوئی کمی نہیں آتی۔‏ بیشتر صورتوں میں تو بڑھاپا دراصل پیسے اور اسکی قوتِ‌خرید میں کسی شخص کی دلچسپی کو بڑھا سکتا ہے۔‏

لالچ روزبروز بڑھتا جا رہا ہے۔‏ ایک مشہور فلم کے مرکزی کردار نے کہا:‏ ”‏لالچ مفید ہے کیونکہ یہ کامیابی کی ضمانت ہے۔‏“‏ اگرچہ ۱۹۸۰ کے دہے کو بہتیروں نے لالچ کا دَور کہا توبھی اس سے پہلے اور بعد کے حالات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ پیسے کیلئے انسانوں کے ردِعمل میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔‏

فرق صرف اتنا ہے کہ اب بیشتر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مال‌ومتاع حاصل کرنے کی خواہش کو فوراً پورا کرنے کے مواقع مِل گئے ہیں۔‏ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کی بیشتر آبادی اپنا وقت اور توانائی زیادہ سے زیادہ مادی اشیا کی تیاری اور حصول میں خرچ کرتی ہے۔‏ آپ شاید اس بات سے بھی اتفاق کریں کہ مال‌واسباب کے حصول‌وتصرف نے زمانۂ‌جدید کی زندگی میں جذباتی حیثیت حاصل کر لی ہے جسکی وجہ سے اسے اکثر نئے خیالات کیساتھ فروغ دیا جاتا ہے۔‏

لیکن کیا اس سے لوگوں کی خوشی میں اضافہ ہوا ہے؟‏ اس سوال کے جواب میں،‏ دانشمند اور نہایت دولتمند بادشاہ سلیمان نے ۰۰۰،‏۳ سال قبل یوں لکھا:‏ ”‏زردوست روپیہ سے آسودہ نہ ہوگا اور دولت کا چاہنے والا اُس کے بڑھنے سے سیر نہ ہوگا۔‏ یہ بھی بطلان ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۵:‏۱۰‏)‏ جدید معاشرتی علوم سے بھی کچھ ایسے ہی دلچسپ نتائج سامنے آتے ہیں۔‏

پیسہ اور خوشی

انسانی رُجحان کی بابت دریافت ہونے والے حیران‌کُن حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ مال‌ومتاع میں اضافے سے خوشی اور اطمینان میں بھی اضافہ ہونا ضروری نہیں ہے۔‏ محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب کسی شخص کے پاس دولت کی فراوانی ہو جاتی ہے توپھر اُسکی خوشحالی اور دلجمعی مال‌واسباب کی کثرت پر منحصر نہیں رہتی۔‏

لہٰذا،‏ مال‌ومتاع کی بےلگام جستجو بہتیرے لوگوں کو اس شش‌وپنج میں مبتلا کر دیتی ہے،‏ ’‏بظاہر تو ہم ہر نئی چیز خرید کر بہت خوش ہوتے ہیں مگر بعد میں جب ہم اس کی بابت سوچتے ہیں تو ایسا کیوں لگتا ہے کہ اس سامانِ‌راحت نے ہماری خوشی میں کوئی اضافہ نہیں کِیا ہے؟‏‘‏

اپنی کتاب ہیپی پیپل میں،‏ مصنف جوناتھن فریڈمین بیان کرتا ہے:‏ ”‏جب کچھ پیسہ ہاتھ میں آنے لگتا ہے تو خوشی حاصل کرنے کے حوالے سے اسکی وقعت بہت کم ہو جاتی ہے۔‏ زیادہ آمدنی سے پیسے اور خوشی کے مابین تعلق قدرے کم ہو جاتا ہے۔‏“‏ بہتیرے اس حقیقت کو پہچان گئے ہیں کہ خوشی کیلئے روحانی اثاثے،‏ بامقصد زندگی اور اخلاقی اقدار زیادہ اہم ہیں۔‏ انسانی رشتےناطوں کی قدر کرنے کے علاوہ ایسے اختلافات یا کشیدگیوں سے گریز کرنا بھی ضروری ہے جو دستیاب اشیا سے محظوظ ہونے کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔‏

بہتیرے لوگ باطنی مشکلات کو مادی وسائل سے حل کرنے کی کوشش کے میلان کو زیادہ‌تر معاشرتی مسائل کی اصل وجہ سمجھتے ہیں۔‏ بعض معاشرتی مبصرین قنوطیت اور بےاطمینانی کے عام رُجحان کو بھی اس کا سبب قرار دیتے ہیں۔‏ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ متموّل طبقوں میں لوگوں کے اندر زندگی کے مقصد اور ذہنی سکون کے حصول کیلئے مختلف معالجوں،‏ گروؤں،‏ مسالک اور نیم‌حکیم اشخاص سے مشورہ کرنے کا رُجحان بڑھتا جا رہا ہے۔‏ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مال‌واسباب زندگی کو حقیقی معنوں میں بامقصد نہیں بنا سکتا۔‏

پیسے کی طاقت اور کمزوری

مانا کہ پیسے میں بڑی طاقت ہے۔‏ پیسے سے نفیس گھر،‏ عمدہ لباس اور شاندار آرائشی سازوسامان خریدا جا سکتا ہے۔‏ اس سے دادوتحسین،‏ اطاعت یا خوشامد حتیٰ‌کہ چند عارضی اور بامروّت دوست بھی خریدے جا سکتے ہیں۔‏ لیکن پیسے میں بس اتنی ہی طاقت ہے۔‏ ہمیں کسی سچے دوست کی محبت،‏ ذہنی سکون،‏ بسترِمرگ پر چند تسلی‌بخش الفاظ جیسی چیزوں کی زیادہ ضرورت ہے جنہیں پیسے سے خریدا نہیں جا سکتا۔‏ نیز،‏ خالق کیساتھ اپنے رشتے کو عزیز رکھنے والے لوگوں کیلئے پیسہ خدا کی پسندیدگی نہیں خرید سکتا۔‏

سلیمان بادشاہ کے پاس پیسے سے خریدی جانے والی دُنیا کی ہر چیز موجود تھی لیکن اُس نے بھی یہ تسلیم کِیا کہ مال‌واسباب پر بھروسا دائمی خوشی کا باعث نہیں بنتا۔‏ (‏واعظ ۵:‏۱۲-‏۱۵‏)‏ بینک دیوالیہ ہو جانے یا افراطِ‌زر کی وجہ سے پیسہ ڈوب سکتا ہے۔‏ تُند طوفان جائیداد کو تباہ‌وبرباد کر سکتے ہیں۔‏ بیمہ پالیسیوں سے اگرچہ جُزوی طور پر مادی نقصان کا ازالہ تو ہو جاتا ہے مگر جذباتی نقصان کی تلافی ناممکن ہے۔‏ ناگہاں معاشی زوال کے باعث سٹاک اور بانڈز بھی راتوں‌رات بیکار ہو سکتے ہیں۔‏ اچھی تنخواہ والی نوکری بھی اگر آج ہے تو کل ختم ہو سکتی ہے۔‏

پس،‏ ہم پیسے کو اُسکے مناسب مقام پر کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏ مال‌واسباب کا ہماری زندگی میں کیا کردار ہونا چاہئے؟‏ براہِ‌مہربانی یہ جاننے کیلئے مطالعہ جاری رکھیں کہ آپ حقیقی قدروقیمت کی حامل چیز—‏”‏حقیقی زندگی“‏—‏کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویریں]‏

مال‌واسباب سے دائمی خوشی حاصل نہیں ہوتی