مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا کو جاننے کے فائدے

یہوواہ خدا کو جاننے کے فائدے

یہوواہ خدا کو جاننے کے فائدے

کیا ایسا ہے کہ آپ زندگی میں کسی اہم چیز سے محروم ہیں؟‏ اگر آپ خدا کی بابت بہت کم جانتے ہیں تو آپ واقعی کسی اہم چیز سے محروم ہیں۔‏ وہ کیوں؟‏ اسلئےکہ لاکھوں لوگوں کا یہ تجربہ ہے کہ بائبل کے خدا کو جاننا زندگی میں بیشمار فوائد پر منتج ہوتا ہے۔‏ یہ فوائد فوراً شروع ہو جاتے ہیں اور مستقبل میں بھی جاری رہتے ہیں۔‏

بائبل کا مصنف یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُسے جانیں۔‏ زبورنویس نے لکھا:‏ ”‏تاکہ وہ جان لیں کہ تُو ہی جسکا نام یہوؔواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔‏“‏ اُسے معلوم ہے کہ اُسے جاننا ہمارے لئے فائدہ‌مند ہے۔‏ ”‏مَیں ہی [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا ہوں جو تجھے مفید تعلیم دیتا ہوں۔‏“‏ بلندوبالا یہوواہ کو جاننے سے ہم کیسے مستفید ہوتے ہیں؟‏—‏زبور ۸۳:‏۱۸؛‏ یسعیاہ ۴۸:‏۱۷‏۔‏

اس کا ایک حقیقی فائدہ تو یہ ہے کہ ہمیں روزمرّہ کے مسائل سے نپٹنے کیلئے درکار راہنمائی کے علاوہ مستقبل کیلئے ایک پُختہ اُمید اور ذہنی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ یہوواہ سے بخوبی واقف ہونا ہمیں آجکل دُنیا کے لوگوں کو درپیش بنیادی مسائل کی بابت ایک مختلف رُجحان پیدا کرنے کی تحریک دیتا ہے؟‏ یہ مسائل کونسے ہیں؟‏

کیا آپکی زندگی کا کوئی مقصد ہے؟‏

نسلِ‌انسانی کی ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت‌انگیز ترقی کے باوجود لوگ آج بھی وہی بنیادی سوال پوچھ رہے ہیں:‏ ’‏میری موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟‏ مَیں کس طرف جا رہا ہوں؟‏ زندگی کا کیا مقصد ہے؟‏‘‏ اگر ایک شخص کو تسلی‌بخش جوابات نہیں ملتے تو اُسکی زندگی حقیقی مقصد سے عاری ہوگی۔‏ کیا بیشتر لوگ اس کمی کو محسوس کرتے ہیں؟‏ جرمنی میں ۱۹۹۰ کے دہے میں کئے جانے والے ایک سروے نے ظاہر کِیا کہ جواب دینے والوں کی نصف تعداد اکثر یا بعض‌اوقات یہ محسوس کرتی تھی کہ زندگی بےمقصد ہے۔‏ شاید آپ کے علاقے میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔‏

اگر زندگی بےمقصد ہے تو پھر ایک شخص کے پاس ذاتی نصب‌اُلعین قائم کرنے کی کوئی بنیاد نہ ہوتی۔‏ بہتیرے لوگ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک کامیاب پیشے یا دولت جمع کرنے کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔‏ تاہم،‏ یہ کمی پریشان‌کُن ثابت ہو سکتی ہے۔‏ زندگی میں مقصد کی کمی بعض لوگوں کو اس حد تک پریشان کر دیتی ہے کہ وہ جینا نہیں چاہتے۔‏ انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹرائبیون کے مطابق ”‏دولت کی ریل‌پیل اور لامحدود مراعات“‏ کیساتھ پرورش پانے والی ایک خوبصورت نوجوان عورت کیساتھ یہی ہوا تھا۔‏ عیش‌وآرام کی زندگی کے باوجود وہ تنہا تھی اور یہ محسوس کرتی تھی کہ اُسکی زندگی بےمعنی ہے۔‏ اُس نے نیند کی گولیاں کھا لیں اور وہ مردہ پائی گئی۔‏ آپ شاید تنہائی کا شکار ایسے دیگر لوگوں کو بھی جانتے ہوں جنکی زندگیوں کا انجام انتہائی افسوسناک رہا ہے۔‏

تاہم،‏ کیا آپ نے لوگوں کے اس دعویٰ کی بابت سنا ہے کہ سائنس ہمیں زندگی کی بابت سب کچھ بتا سکتی ہے؟‏ جرمنی کا ہفت‌روزہ رسالہ ڈی واک بیان کرتا ہے:‏ ”‏سائنس میں خواہ جتنی بھی سچائی ہو،‏ یہ مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے کمزور ہے۔‏ ارتقا کا نظریہ غیرواضح ہے اور توانائی کے پیچیدہ درجوں کی وضاحت کرنے کیلئے مستعمل مقادیری نظریہ بھی اطمینان اور تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔‏“‏ سائنسی دریافتوں نے بڑی حد تک زندگی کی مختلف اقسام،‏ قدرتی چکر اور زندگی برقرار رکھنے والے عوامل کی وضاحت کی ہے۔‏ تاہم،‏ سائنس ہمیں یہ نہیں بتا سکی کہ ہماری موجودگی کیا معنی رکھتی ہے اور ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں۔‏ اگر ہم سائنس پر ہی مکمل انحصار کرتے ہیں تو زندگی کے مقصد کی بابت ہمارے سوالات ادھورے رہ جاتے ہیں۔‏ نتیجتاً،‏ اخبار سیوٹ‌ڈویخ ٹسیٹن نے بیان کِیا کہ ”‏وسیع‌پیمانہ پر راہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔‏“‏

خالق کے علاوہ کون ایسی راہنمائی فراہم کر سکتا ہے؟‏ دراصل اُسی  نے انسانوں کو زمین پر بنایا ہے لہٰذا وہ جانتا ہے کہ اُنکے وجود کا کیا مقصد ہے۔‏ بائبل وضاحت کرتی ہے کہ یہوواہ نے انسانوں کو زمین کو آباد کرنے اور بطور نگہبان اسکی دیکھ‌بھال کرنے کیلئے خلق کِیا تھا۔‏ اپنے تمام کاموں سے انسانوں کو خدا کے انصاف،‏ حکمت اور محبت جیسی خوبیاں منعکس کرنی تھیں۔‏ جب ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہوواہ نے ہمیں کیوں خلق کِیا تو ہم یہ بھی جان جاتے ہیں کہ ہماری موجودگی کا مقصد کیا ہے۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۶-‏۲۸‏۔‏

آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

اگر آپ ماضی میں ایسے سوالوں کے تسلی‌بخش جواب حاصل نہیں کر پائے کہ ’‏میرے وجود کا کیا مقصد ہے؟‏ مَیں کس طرف بڑھ رہا ہوں؟‏ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟‏‘‏ تو بائبل آپکو مشورہ دیتی ہے کہ یہوواہ کو پوری طرح جاننے کی کوشش کریں۔‏ درحقیقت،‏ یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِ‌واحد اور برحق کو یسوؔع مسیح جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔‏“‏ آپکی یہ بھی حوصلہ‌افزائی کی جاتی ہے کہ آپ بالخصوص محبت جیسی خدائی خوبیاں پیدا کریں اور خدا کی آنے والی مسیحائی بادشاہت کی رعایا بننے کو اپنا ذاتی نصب‌اُلعین بنائیں۔‏ یوں آپ کی زندگی بامقصد بن جائیگی اور آپ مستقبل کیلئے ایک شاندار،‏ پُختہ اُمید رکھ سکیں گے۔‏ ماضی میں جن بنیادی سوالوں نے آپ کو پریشان کِیا تھا آپ ان کے جواب حاصل کرنے کے قابل ہونگے۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۳؛‏ واعظ ۱۲:‏۱۳‏۔‏

اسکا آپ پر کیا اثر پڑیگا؟‏ ہانز اسکا جواب دے سکتا ہے۔‏ * کئی سال پہلے وہ خدا پر ایک مبہم ایمان رکھتا تھا،‏ تاہم ہانز کے ایمان نے اُسکی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا۔‏ ہانز کو منشیات،‏ بداخلاق عورتیں،‏ چوری‌چکاری اور موٹرسائیلکیں بہت پسند تھیں۔‏ وہ بیان کرتا ہے،‏ ”‏اسکے باوجود میری زندگی حقیقی اطمینان سے عاری تھی۔‏“‏ تقریباً ۲۵ سال کی عمر میں ہانز نے ذاتی طور پر بائبل کی محتاط پڑھائی کے ذریعہ خدا کو جاننے کا فیصلہ کِیا۔‏ یہوواہ کو اچھی طرح سے جاننے اور زندگی کے مقصد کو بخوبی سمجھنے کے بعد ہانز نے اپنا طرزِزندگی تبدیل کر لیا اور یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏ گزشتہ دس سال سے وہ کُل‌وقتی خدمت کر رہا ہے۔‏ وہ انتہائی صاف‌گوئی سے بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہوواہ کی خدمت ہی بہترین طرزِزندگی ہے۔‏ کوئی بھی چیز اسکا متبادل نہیں ہو سکتی۔‏ یہوواہ کو جاننے سے میری زندگی بامقصد بن گئی ہے۔‏“‏

بیشک،‏ بہتیرے لوگوں کیلئے محض زندگی کے مقصد کو سمجھنا ہی پریشان‌کُن مسئلہ نہیں ہے۔‏ دُنیا کے بگڑتے ہوئے حالات کیساتھ ساتھ ایک اَور اہم مسئلہ بھی بیشتر لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔‏

ایسا کیوں ہوا؟‏

جب مصیبت آتی ہے تو مصیبت‌زدہ کا ذہن اکثر اس ایک ہی سوال پر مُرتکز ہوتا ہے:‏ ایسا کیوں ہوا؟‏ جذباتی طور پر کسی بھی مصیبت سے نپٹنے کی صلاحیت کا انحصار بڑی حد تک اس سوال کا مناسب جواب حاصل کرنے پر ہوتا ہے۔‏ لہٰذا تسلی‌بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں مشکل اپنی جگہ برقرار رہتی ہے اور متاثرہ شخص بھی تلخ‌مزاج ہو سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ برونی کو ہی لے لیں۔‏

برونی جو اب ایک ادھیڑعمر ماں ہے بیان کرتی ہے،‏ ”‏کچھ سال پہلے میری بچی فوت ہو گئی تھی۔‏ مَیں خدا پر ایمان رکھتی تھی لہٰذا مَیں تسلی کیلئے مقامی پادری کے پاس گئی۔‏ اُس نے مجھے بتایا کہ خدا نے سوزین کو آسمان پر بلا لیا ہے جہاں وہ اب ایک فرشتہ بن گئی ہے۔‏ اُسکی موت نے نہ صرف میری دُنیا اجاڑ دی بلکہ مَیں خدا سے بھی نفرت کرنے لگی تھی کہ اُس نے میری بچی چھین لی ہے۔‏“‏ برونی کا دُکھ اور تکلیف کئی سال تک قائم رہا۔‏ ”‏پھر ایک یہوواہ کی گواہ نے مجھے بائبل میں سے دکھایا کہ مَیں خدا سے بِلاوجہ نفرت کرتی ہوں۔‏ یہوواہ نے سوزین کو آسمان پر نہیں بلایا اور نہ ہی وہ ایک فرشتہ ہے۔‏ اُسکی بیماری انسانی ناکاملیت کا نتیجہ تھی۔‏ سوزین موت کی نیند سو رہی ہے اور اُس وقت کی منتظر ہے جب یہوواہ اُسے قیامت بخشے گا۔‏ مَیں نے یہ بھی سیکھا کہ اُس نے انسانوں کو فردوسی زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کیلئے بنایا تھا اور یہ جلد واقع ہوگا۔‏ یہوواہ کی شخصیت کی سمجھ حاصل کرنے کے بعد مَیں اُسکے قریب ہو گئی اور میرے دُکھ میں کمی واقع ہونے لگی۔‏“‏—‏زبور ۳۷:‏۲۹؛‏ اعمال ۲۴:‏۱۵؛‏ رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

ہزاروں لوگ ذاتی المیوں،‏ جنگ،‏ قحط یا قدرتی آفات جیسی مختلف  مصیبتوں کا سامنا کرتے ہیں۔‏ برونی نے بائبل سے یہ جاننے کے بعد تسلی حاصل کی کہ خدا مصیبتوں کا ذمہ‌دار نہیں،‏ نیز اُس نے کبھی ایسا نہیں چاہا کہ نسلِ‌انسانی تکلیف کا تجربہ کرے بلکہ وہ بہت جلد بُرائی کا خاتمہ کرنے والا ہے۔‏ بُرائی کا عروج اس بات کا واضح نشان ہے کہ ہم اس نظام‌اُلعمل کے ”‏اخیر زمانہ“‏ میں رہ رہے ہیں۔‏ اچھی حالتیں لانے والی حیران‌کُن تبدیلی جس کا ہم سب شدت سے انتظار کر رہے ہیں بہت جلد رُونما ہونے والی ہے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵؛‏ متی ۲۴:‏۷،‏ ۸‏۔‏

خدا کو جاننا

ہانز اور برونی خدا کی بابت ایک مبہم نظریہ رکھتے تھے۔‏ وہ اُس پر ایمان تو رکھتے تھے لیکن اُس سے اچھی طرح واقف نہیں تھے۔‏ جب اُنہوں نے یہوواہ کی بابت درست علم حاصل کرنے کیلئے وقت صرف کِیا تو اُنکی کوششیں بااَجر ثابت ہوئیں۔‏ اُنہوں نے ہمارے زمانہ کی بابت اہم‌ترین سوالات کے موزوں جواب حاصل کئے۔‏ اس سے اُنہیں ذہنی سکون اور مستقبل کیلئے پُختہ اُمید حاصل ہوئی۔‏ یہوواہ کے لاکھوں خادموں کو اسی طرح کا تجربہ ہوا ہے۔‏

یہوواہ کو جاننے کا آغاز بائبل کے محتاط جائزے سے ہوتا ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ وہ کون ہے اور ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے۔‏ پہلی صدی میں بعض لوگوں نے ایسا ہی کِیا تھا۔‏ مؤرخ اور طبیب لوقا بیان کرتا ہے کہ یونان میں بیریہ کی یہودی کلیسیا کے ارکان نے ”‏بڑے شوق سے [‏پولس اور سیلاس کی معرفت]‏ کلام کو قبول کِیا اور روزبروز کتابِ‌مُقدس میں تحقیق کرتے تھے کہ آیا یہ باتیں اسی طرح ہیں۔‏“‏—‏اعمال ۱۷:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

پہلی صدی کے مسیحی بھی کلیسیاؤں میں جمع ہوا کرتے تھے۔‏ (‏اعمال ۲:‏۴۱،‏ ۴۲،‏ ۴۶؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۱،‏ ۲؛‏ گلتیوں ۱:‏۱،‏ ۲؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۱‏)‏ آجکل بھی یہ بات سچ ہے۔‏ یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیائیں اجلاسوں کیلئے جمع ہوتی ہیں جو خاص طور پر یہوواہ کی قربت اور اُسکی خدمت میں خوشی حاصل کرنے میں لوگوں کی مدد کرنے کیلئے ترتیب دئے جاتے ہیں۔‏ مقامی گواہوں کیساتھ رفاقت کا ایک اَور فائدہ بھی ہے۔‏ چونکہ انسان بتدریج اُس خدا کی نقل کرنے لگتے ہیں جس کی وہ پرستش کرتے ہیں لہٰذا یہوواہ کے گواہ کسی حد تک یہوواہ کی خوبیاں منعکس کرتے ہیں۔‏ لہٰذا گواہوں کیساتھ جمع ہونا یہوواہ کو مزید بہتر طور پر جاننے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏—‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

کیا ایسا نہیں لگتا کہ محض ایک شخص کو جاننے کے لئے اتنی کوشش کرنا بہت زیادہ ہے؟‏ کوشش تو یقیناً درکار ہے۔‏ تاہم کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ زندگی کی بیشتر چیزیں حاصل کرنے کے لئے آپکو ایسا کرنا پڑتا ہے؟‏ اپنی تربیت کے لئے ایک کامیاب کھلاڑی کی کوششوں پر غور کریں۔‏ مثال کے طور پر،‏ فرانس کی اولمپک سکی‌اینگ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والا زان کلاڈ کیلی بیان کرتا ہے کہ بین‌الاقوامی کھیلوں میں ایک کامیاب مقابلہ‌باز بننے کے لئے کیا ضروری ہے:‏ ”‏آپکو دس سال پہلے سے تیاری شروع کرنی اور سالوں تک اس کی منصوبہ‌سازی کرنی پڑتی ہے اور ہر روز اس کی بابت سوچنا پڑتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ ذہنی اور جسمانی طور پر یہ ۳۶۵ دن محنت کرنے کا تقاضا کرتا  ہے۔‏“‏ تقریباً دس منٹ کی ریس اسقدر زیادہ وقت اور کوشش کا تقاضا کرتی ہے!‏ توپھر یہوواہ کو جاننا تو اس سے کہیں زیادہ اور دائمی فوائد پر منتج ہوتا ہے۔‏

ایک ایسا رشتہ جو روزبروز قریب لاتا ہے

کون چاہیگا کہ وہ زندگی کی کسی اہم چیز سے محروم رہے؟‏ کوئی بھی نہیں۔‏ لہٰذا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپکی زندگی میں حقیقی مقصد کی کمی ہے یا آپ مصائب کی وجہ جاننے کا اشتیاق رکھتے ہیں تو بائبل کے خدا یہوواہ کو جاننے کا پُختہ عزم کریں۔‏ اُسکی بابت سیکھنے سے آپکی زندگی میں دائمی بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔‏

کیا یہوواہ کی بابت سیکھنے کا عمل کبھی ختم ہوگا؟‏ عشروں سے اُسکی خدمت کرنے والوں نے اُسکے بارے میں جوکچھ سیکھا ہے اور جو نئی باتیں وہ اب سیکھ رہے ہیں وہ اسکی بابت حیران رہ جاتے ہیں۔‏ ایسی باتیں سیکھنے سے ہمیں خوشی اور اُسکی قربت حاصل ہوتی ہے۔‏ دُعا ہے کہ ہم پولس رسول کے خیالات سے ہمیشہ متفق رہیں جس نے لکھا:‏ ”‏واہ!‏ خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے!‏ اُسکے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُسکی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں!‏ [‏یہوواہ]‏ کی عقل کو کس نے جانا؟‏ یا کون اُسکا صلاح‌کار ہوا؟‏“‏—‏رومیوں ۱۱:‏۳۳،‏ ۳۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 12 نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر عبارت]‏

لوگ آج بھی وہی بنیادی سوال پوچھتے ہیں:‏ ’‏میرا وجود کیا معنی رکھتا ہے؟‏ مَیں کس طرف بڑھ رہا ہوں؟‏ زندگی کا کیا مقصد ہے؟‏‘‏

‏[‏صفحہ ۶ پر عبارت]‏

‏”‏جب مَیں یہ سمجھ گئی کہ یہوواہ کس قسم کا خدا ہے تو مَیں اُسکے اَور  زیادہ قریب ہو گئی۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۷ پر عبارت]‏

‏”‏یہوواہ کی خدمت کرنا بہترین طرزِزندگی ہے۔‏ کوئی بھی چیز اسکا متبادل نہیں ہو سکتی۔‏ یہوواہ کی پہچان نے میری زندگی کو بامقصد بنا دیا ہے۔‏“‏