مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

معرفت پر ضبطِ‌نفس بڑھائیں

معرفت پر ضبطِ‌نفس بڑھائیں

معرفت پر ضبطِ‌نفس بڑھائیں

‏”‏پس اِسی باعث تُم .‏ .‏ .‏ معرفت پر پرہیزگاری [‏”‏ضبطِ‌نفس،‏“‏ این‌ڈبلیو]‏ .‏ .‏ .‏ بڑھاؤ۔‏“‏ —‏۲-‏پطرس ۱:‏۵-‏۸‏۔‏

۱.‏ بہتیرے انسانی مسائل کس نااہلیت کا نتیجہ ہیں؟‏

منشیات کے خلاف ایک بڑی مہم میں،‏ ریاستہائےمتحدہ میں نوجوانوں کو تلقین کی گئی:‏ ”‏صاف صاف انکار کر دو۔‏“‏ حالات کتنے بہتر ہوں گے اگر ہر شخص نہ صرف منشیات بلکہ بِلانوشی،‏ غیردانشمندانہ یا بداخلاق طرزِزندگی،‏ بددیانت کاروباری عادات اور ”‏جسم کی خواہشوں“‏ سے انکار کرتا ہے!‏ (‏رومیوں ۱۳:‏۱۴‏)‏ تاہم،‏ کون یہ کہہ سکتا ہے کہ ان چیزوں سے انکار بہت آسان ہے؟‏

۲.‏ (‏ا)‏ بائبل کی کونسی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ انکار کرنا کوئی نئی بات نہیں؟‏ (‏ب)‏ اِن مثالوں کو کیا کرنے کے لئے ہماری حوصلہ‌افزائی کرنی چاہئے؟‏

۲ چونکہ تمام ناکامل انسانوں کو ضبطِ‌نفس کا مظاہرہ کرنا مشکل لگتا ہے،‏ لہٰذا ہم سب اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ ہم کیسے اس کشمکش پر غالب آ سکتے ہیں۔‏ بائبل ماضی کے ایسے لوگوں کی بابت بیان کرتی ہے جنہوں نے خدا کی خدمت کرنے کی کوشش کی مگر جنہیں بعض‌اوقات انکار کرنا مشکل لگتا تھا۔‏ داؤد اور بت‌سبع کے ساتھ اُس کے گُناہ کا واقعہ آپ کو یاد ہے۔‏ یہ اُن کے حرامکاری سے پیدا ہونے والے بچے اور بت‌سبع کے شوہر دونوں کی موت کا باعث بنا جو کہ بےقصور تھے۔‏ (‏۲-‏سموئیل ۱۱:‏۱-‏۲۷؛‏ ۱۲:‏۱۵-‏۱۸‏)‏ یا پھر پولس رسول کی بابت سوچیں جس نے کھلم‌کھلا اعتراف کِیا تھا:‏ ”‏چنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارداہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں۔‏“‏ (‏رومیوں ۷:‏۱۹‏)‏ کیا آپ بھی کبھی‌کبھار ایسے ہی پریشان ہوتے ہیں؟‏ پولس مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏باطنی انسانیت کی رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کرتا ہوں۔‏ مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گُناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔‏ ہائے مَیں کیسا کمبخت آدمی ہوں!‏ اس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے گا؟‏“‏ (‏رومیوں ۷:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ بائبل کی ایسی مثالوں کو ضبطِ‌نفس پیدا کرنے کے لئے ہمارے عزم کو تقویت دینی چاہئے۔‏

ضبطِ‌نفس پیدا کرنا اشد ضروری ہے

۳.‏ واضح کریں کہ کیوں ہم ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے کو معمولی خیال نہیں کر سکتے۔‏

۳ ضبطِ‌نفس جس میں انکار کرنے کی صلاحیت شامل ہے کا ذکر ۲-‏پطرس ۱:‏۵-‏۷ میں ایمان،‏ نیکی،‏ معرفت،‏ صبر،‏ دینداری،‏ برادرانہ اُلفت اور محبت کے ساتھ کِیا گیا ہے۔‏ اِن اچھی صفات میں سے کوئی بھی پیدائشی نہیں ہے۔‏ انہیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اِنہیں نمایاں طور پر ظاہر کرنے کے لئے عزمِ‌مُصمم اور کمال کوشش درکار ہیں۔‏ پس کیا ہمیں ضبطِ‌نفس کو معمولی خیال کرنا چاہئے؟‏

۴.‏ بہتیرے کیوں یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں ضبطِ‌نفس کے سلسلے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے،‏ مگر یہ کس چیز کا ثبوت ہے؟‏

۴ سچ ہے کہ لاکھوں لوگ یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اُنہیں ضبطِ‌نفس کے سلسلے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔‏ لہٰذا وہ اس سے بےخبر ہے کہ اس سے خود اُنہیں یا دوسروں کو کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جان‌بوجھ کر یا انجانے میں وہ اپنے ناکامل جسم کی خواہشوں کے مطابق چلتے ہیں۔‏ (‏یہوداہ ۱۰‏)‏ کسی بھی چیز سے انکار نہ کرنے کی صلاحیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ”‏اخیر زمانہ“‏ میں رہ رہے ہیں جس کی بابت بیان کرتے ہوئے پولس نے کہا:‏ ”‏بُرے دن آئیں گے۔‏ کیونکہ آدمی خودغرض۔‏ زردوست۔‏ شیخی‌باز۔‏ مغرور۔‏ .‏ .‏ .‏ تہمت لگانے والے۔‏ بےضبط۔‏ .‏ .‏ .‏ ہوں گے۔‏“‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۳‏۔‏

۵.‏ یہوواہ کے گواہ ضبطِ‌نفس کے موضوع میں کیوں دلچسپی رکھتے ہیں اور کونسی مشورت آج بھی سچ ثابت ہوتی ہے؟‏

۵ یہوواہ کے گواہ ضبطِ‌نفس کی ضرورت کے چیلنج سے بخوبی واقف ہیں۔‏ پولس کی مانند،‏ وہ خدا کے معیاروں کے مطابق زندہ رہ کر اُسے خوش کرنے کی خواہش اور ناکامل جسم کی روش پر چلنے کی خواہش کے مابین کشمکش سے بخوبی واقف ہیں۔‏ اسی وجہ سے وہ اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اس جنگ کو کیسے جیتا جائے۔‏ پیچھے ۱۹۱۶ میں،‏ جس رسالے کو آپ اب پڑھ رہے ہیں اس کے اوائلی شمارے نے ”‏خود کو،‏ اپنی سوچ،‏ اقوال اور چال‌چلن کو قابو میں رکھنے کے لئے مناسب روش پر چلنے“‏ کا ذکر کِیا۔‏ اس نے فلپیوں ۴:‏۸ کو ذہن میں رکھنے کا ذکر کِیا۔‏ اس آیت میں موجود الہٰی مشورت آج بھی سچ ہے اگرچہ اسے لکھے ہوئے کوئی ۰۰۰،‏ ۲ سال گزر گئے ہیں اور شاید ۱۹۱۶ کی نسبت آج اس پر عمل کرنا زیادہ مشکل ہے۔‏ تاہم،‏ مسیحی دُنیاوی خواہشات سے انکار کرنے کی سخت کوشش کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ اپنے خالق کو خوش کرتے ہیں۔‏

۶.‏ ضبطِ‌نفس پیدا کرنے میں پریشان ہونے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟‏

۶ ضبطِ‌نفس کا ذکر گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳ میں ایک ”‏روح کے پھل“‏ کے طور پر کِیا گیا ہے۔‏ اگر ہم ”‏محبت،‏ خوشی،‏ اطمینان،‏ تحمل،‏ مہربانی،‏ نیکی،‏ ایمانداری۔‏ حلم“‏ کے ساتھ ساتھ اس خوبی کو بھی ظاہر کرتے ہیں تو ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔‏ جیسے پطرس بیان کرتا ہے ایسا کرنا ہمیں خدا کی خدمت میں ”‏بیکار اور بےپھل“‏ ہونے سے بچائے گا۔‏ (‏۲-‏پطرس ۱:‏۸‏)‏ تاہم اگر ہم فوراً پورے طور پر یہ خوبیاں ظاہر نہیں کر پاتے تو ہمیں نہ تو پریشان ہونا چاہئے اور نہ ہی خود کو موردِالزام ٹھہرانا چاہئے۔‏ غالباً آپ نے نوٹ کِیا ہوگا کہ سکول میں ایک طالبعلم دوسرے سے جلدی سبق یاد کر لیتا ہے۔‏ یا کام کی جگہ پر ایک شخص دوسروں کی نسبت جلدی اپنے کام سے واقف ہو جاتا ہے۔‏ اسی طرح،‏ بعض مسیحی دوسروں کی نسبت جلدی مسیحی خوبیاں ظاہر کرنا سیکھ جاتے ہیں۔‏ اہم بات یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہے خدائی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔‏ ایسا کرنے کے لئے ہم یہوواہ کے کلام اور اُس کی کلیسیا سے بھرپور مدد حاصل کر سکتے ہیں۔‏ تیزرفتاری کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن رہنے کی بجائے نصب‌اُلعین حاصل کرنے کے لئے پُرعزم کوششیں زیادہ ضروری ہے۔‏

۷.‏ کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ ضبطِ‌نفس ضروری ہے؟‏

۷ روح کے پھلوں کی فہرست میں آخر پر ہونے کے باوجود،‏ ضبطِ‌نفس کسی بھی طرح دوسرے پھلوں سے کم اہم نہیں۔‏ اس کے برعکس،‏ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم مکمل ضبطِ‌نفس کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ”‏جسم کے کام سے بچا جا سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ ناکامل انسان کسی حد تک ”‏جسم کے کام .‏ .‏ .‏ یعنی حرامکاری۔‏ ناپاکی۔‏ شہوت‌پرستی۔‏ بُت‌پرستی۔‏ جادوگری۔‏ عداوتیں۔‏ جھگڑا۔‏ حسد۔‏ غصہ۔‏ تفرقے۔‏ جُدائیاں۔‏ بدعتیں“‏ اختیار کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ لہٰذا ہمیں اس عزم کے ساتھ  متواتر لڑتے رہنا ہے کہ منفی رغبتوں کو اپنے دل‌ودماغ میں جگہ نہ دیں۔‏

بعض کو خاص جدوجہد کرنی پڑتی ہے

۸.‏ کونسے عناصر بعض کے لئے بالخصوص ضبطِ‌نفس دکھانا مشکل بنا دیتے ہیں؟‏

۸ بعض مسیحیوں کو دوسروں کی نسبت ضبطِ‌نفس کا مظاہرہ کرنے میں زیادہ مشکل پیش آتی ہے۔‏ کیوں؟‏ والدین کی طرف سے تربیت یا ماضی کے تجربات اس کے ذمہ‌دار ہو سکتے ہیں۔‏ اگر ضبطِ‌نفس پیدا کرنا اور اس کا مظاہرہ کرنا ہمارے لئے مشکل نہیں تو یہ خوشی کی بات ہے۔‏ مگر جنہیں ایسا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے ہمیں اُن کے ساتھ برتاؤ کرتے وقت مہربانی اور سمجھداری دکھانی چاہئے خواہ اُن کی طرف سے ضبطِ‌نفس کی کمی ہمیں پریشان ہی کیوں نہ کرتی ہو۔‏ اپنی ناکاملیتوں کے پیشِ‌نظر ہم میں سے کس کے پاس ظاہری راستبازی دکھانے کی کوئی وجہ ہے؟‏—‏رومیوں ۳:‏۲۳؛‏ افسیوں ۴:‏۲‏۔‏

۹.‏ بعض میں کونسی کمزوریاں ہوتی ہیں اور ان پر مکمل غلبہ کب پایا جائے گا؟‏

۹ مثال کے طور پر،‏ ہم شاید ایسے مسیحی سے واقف ہیں جو تمباکو یا منشیات کا استعمال چھوڑ چکے ہیں مگر بعض‌اوقات دوبارہ استعمال کرنے  کی  خواہش کر سکتے ہیں۔‏ یا پھر بعض اپنے کھانے کی یا الکحل استعمال کرنے کی عادات پر قابو پانا مشکل پاتے ہیں۔‏ بعض کو اپنی زبان پر قابو رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے اس لئے اکثر باتوں میں خطا کر جاتے ہیں۔‏ ایسی کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے ضبطِ‌نفس پیدا کرنے کی مستعد کوشش ضروری ہے۔‏ کیوں؟‏ یعقوب ۳:‏۲ حقیقت‌پسندی سے بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔‏ کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔‏ وہ سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔‏“‏ بعض کو جؤا کھیلنے کی عادت ہوتی ہے۔‏ یا پھر اپنے غصے پر قابو نہیں رہتا۔‏ اس طرح کی کمزوریوں پر قابو پانے میں وقت لگتا سکتا ہے۔‏ اگرچہ ہم اب کافی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں مگر یہ غلط خواہشات کامل بننے کے بعد ہی پوری طرح ختم ہوں گی۔‏ اس اثنا میں،‏ ضبطِ‌نفس کو عمل میں لانے کی کوشش کرنا غلط روش میں پڑنے سے بچنے کے لئے مدد کرے گا۔‏ اس جدوجہد میں ہمیں حوصلہ‌شکنی سے بچنے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔‏—‏اعمال ۱۴:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ بعض کے لئے جنسی معاملات میں ضبطِ‌نفس سے کام لینا بالخصوص چیلنج‌خیز کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ ایک بھائی کونسی بڑی تبدیلی لایا؟‏ (‏صفحہ ۱۶ کے بکس کو دیکھیں۔‏)‏

۱۰ جنسیات بھی ایک ایسا حلقہ ہے جس میں بعض ضبطِ‌نفس کو عمل میں لانا مشکل پاتے ہیں۔‏ ویسے تو جنس یہوواہ خدا کی طرف سے انسان کے لئے ایک بخشش ہے لیکن بعض اِسے خدا کے معیاروں کے مطابق صحیح مقام پر رکھنا مشکل پاتے ہیں۔‏ اُن کی مشکل میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہو جاتا ہے کہ وہ غیرمعمولی جنسی خواہش رکھتے ہیں۔‏ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جو مختلف طریقوں سے اپنے جنسی جنون کا اظہار کرتی ہے۔‏ یہ بات اُن مسیحیوں کے لئے مشکل کھڑی کر سکتی ہے جو شاید کچھ وقت کے لئے کنوارے رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تاکہ شادی کی اُلجھنوں سے آزاد رہ کر خدا کی خدمت کر سکیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۲،‏ ۳۳،‏ ۳۷،‏ ۳۸‏)‏ مگر اس صحیفائی نصیحت کی مطابقت میں کہ ”‏بیاہ کرنا مست ہونے سے بہتر ہے“‏ وہ شادی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں جوکہ یقیناً قابلِ‌احترام بات ہے۔‏ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ”‏صرف خداوند میں“‏ شادی کرنے کی صحیفائی مشورت پر عمل کرنے کے لئے پُرعزم ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۹،‏ ۳۹‏)‏ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کے راست اُصولوں پر کاربند رہنے کی وجہ سے یہوواہ اُن سے خوش ہے۔‏ اُن کے ساتھی مسیحی بھی ایسے اعلیٰ اخلاقی معیاروں اور راستی پر قائم رہنے والے اپنے سچے پرستاروں کی رفاقت سے خوش ہوتے ہیں۔‏

۱۱.‏ ہم ایسے بھائی یا بہن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جو شادی کرنے میں دلچسپی تو رکھتا ہے مگر ابھی تک ایسا کرنے کے قابل نہیں ہے؟‏

۱۱ اُس صورت میں کیا ہو اگر مناسب ساتھی نہیں ملتا؟‏ ذرا ایسے شخص کی پریشانی کا تصور کریں جو شادی کرنا چاہتا ہے مگر کر نہیں سکتا!‏ وہ شاید اپنے دوستوں کو شادی کرتے اور قدرے خوش دیکھتا ہے جبکہ وہ خود ابھی تک مناسب ساتھی کی تلاش میں ہے۔‏ ایسی صورت میں،‏ بعض کے لئے مشت‌زنی کی خراب عادت ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔‏ کسی بھی صورت میں ایک مسیحی دوسرے مسیحی کو جو پاک‌صاف رہنے کی کوشش کر رہا ہے دل‌برداشتہ نہیں کرنا چاہے گا۔‏ اگر ہم اس طرح کے تبصرے کرتے ہیں،‏ ”‏آپ کب شادی کریں گے؟‏“‏ تو ہم انجانے میں حوصلہ‌شکنی کا سبب بن سکتے ہیں۔‏ شاید ایسا کہنے کا کوئی غلط مقصد نہ ہو توبھی بہتر ہے کہ اپنی زبان کو لگام دینے سے ہم ضبطِ‌نفس کا مظاہرہ کریں!‏ (‏زبور ۳۹:‏۱‏)‏ جو لوگ ہمارے درمیان کنوارپن کی حالت میں پاکیزہ رہتے ہیں وہ واقعی قابلِ‌ستائش ہیں۔‏ کوئی بھی حوصلہ‌شکن بات کہنے کی بجائے ہم حوصلہ‌افزائی کا باعث بننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب پُختہ مسیحیوں کا چھوٹا گروہ کھانے یا خوشگوار رفاقت کے لئے جمع ہوتا ہے تو ہم کنوارے اشخاص کو بھی شامل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‏

شادی میں ضبطِ‌نفس

۱۲.‏ شادی‌شُدہ اشخاص کو بھی کسی حد تک ضبطِ‌نفس دکھانے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

۱۲ جہانتک جنس کا تعلق ہے تو شادی اس سلسلے میں ضبطِ‌نفس کی ضرورت کو مستثنیٰ قرارنہیں دیتی۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک شوہر اور بیوی کی جنسی ضروریات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہو سکتی ہیں۔‏ یا ایک ساتھی کی جسمانی حالت کبھی‌کبھار جنسی تعلقات کو مشکل یا ناممکن بنا سکتی ہے۔‏ اپنے پہلے تجربات کی بِنا پر شاید ایک ساتھی اس حکم کی پابندی کرنا مشکل پائے:‏ ”‏شوہر بیوی کا حق ادا کرے اور ویسا ہی بیوی شوہر کا۔‏“‏ ایسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ دوسرے ساتھی کو اضافی ضبطِ‌نفس ظاہر کرنا پڑے۔‏ مگر دونوں کو شادی‌شُدہ مسیحیوں کے لئے پولس کی اس پُرمحبت مشورت کو ذہن میں رکھنا چاہئے:‏ ”‏تم ایک دوسرے سے جُدا نہ رہو مگر تھوڑی مدت تک آپس کی رضامندی سے تاکہ دُعا کے واسطے فرصت ملے اور پھر اکٹھے ہو جاؤ۔‏ ایسا نہ ہو کہ غلبۂ‌نفس کے سبب سے شیطان تم کو آزمائے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳،‏ ۵‏۔‏

۱۳.‏ ضبطِ‌نفس سے کام لینے کے لئے جدوجہد کرنے والے اشخاص کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ شادی‌شُدہ جوڑے جنہوں نے اس سب سے قریبی رشتے میں مناسب ضبطِ‌نفس ظاہر کرنا سیکھ لیا ہے وہ کتنے خوش ہو سکتے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں وہ اس حلقے میں جدوجہد کرنے والے ساتھی پرستاروں کے لئے سمجھداری کا مظاہرہ کرکے اچھا کرتے ہیں۔‏ ہمیں کبھی یہ دُعا کرنا نہیں بھولنا چاہئے کہ یہوواہ ہمارے روحانی بھائیوں کو ضبطِ‌نفس سے کام لینے اور نامناسب خواہشات پر قابو پانے کے لئے بصیرت،‏ حوصلہ اور مستقل‌مزاجی عطا کرے۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏۔‏

ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں

۱۴.‏ ہمیں ساتھی مسیحیوں کے ساتھ ہمدردی اور سمجھداری سے کیوں پیش آنا چاہئے؟‏

۱۴ کبھی‌کبھار ہم ایسے ساتھی مسیحیوں کے سلسلے میں سمجھداری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں جو ایسے حلقوں میں ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں ہمیں کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی۔‏ مگر لوگ فطرتاً مختلف ہوتے ہیں۔‏ بعض خود پر قابو رکھنا قدرے آسان پاتے ہیں لہٰذا ضبطِ‌نفس ظاہر کرنا اُن کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔‏ دیگر کو زیادہ دشواری ہوتی ہے۔‏ تاہم،‏ یاد رکھیں جو شخص کوشش کرتا رہتا ہے وہ بُرا نہیں ہے۔‏ ہمیں ساتھی مسیحیوں کے لئے پاس‌ولحاظ اور سمجھداری دکھانے کی ضرورت ہے۔‏ جب دوسرے اپنی طرف سے ضبطِ‌نفس دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن کے لئے ہمدردی ظاہر کرنے سے ہماری خوشی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔‏ ہم متی ۵:‏۷ میں درج یسوع کے الفاظ سے یہ دیکھ سکتے ہیں۔‏

۱۵.‏ جہانتک ضبطِ‌نفس کی بات ہے تو زبور ۱۳۰:‏۳ کے الفاظ کو ذہن میں رکھنا کیوں اطمینان‌بخش ہے؟‏

۱۵ ہمیں کبھی بھی کسی موقع پر مسیحی شخصیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہنے والے ساتھی مسیحی کی بابت غلط اندازہ نہیں لگانا چاہئے۔‏ یہ جاننا کسقدر حوصلہ‌افزا ہے کہ یہوواہ نہ صرف اُس وقت کو یاد رکھتا ہے جب ہم ناکام ہو گئے تھے بلکہ اُن مختلف اوقات کو بھی جب ہم ایسا کرنے میں کامیاب رہے اگرچہ ساتھی مسیحیوں نے اِن مواقع کو نہیں دیکھا۔‏ زبور ۱۳۰:‏۳ کے الفاظ کو ذہن میں رکھنا انتہائی اطمینان‌بخش ہے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ اگر تُو بدکاری کو حساب میں لائے تو اَے [‏یہوواہ]‏!‏ کون قائم رہ سکے گا؟‏“‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ جہانتک ضبطِ‌نفس کا تعلق ہے ہم گلتیوں ۲۶،‏ ۵ کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ آگے چل کر ہم ضبطِ‌نفس کی بابت کس چیز پر غور کریں گے؟‏

۱۶ اگرچہ یہوواہ کو خوش کرنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو ضبطِ‌نفس پیدا کرنا چاہئے تاہم،‏ ہم ساتھی مسیحیوں کے تعاون کا یقین رکھ سکتے ہیں۔‏ اگرچہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا بوجھ خود اُٹھانا چاہئے توبھی ہمیں تاکید کی گئی ہے کہ ایک دوسرے کی اپنی کمزوریوں پر غالب آنے میں مدد کریں۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۲،‏ ۵‏)‏ ہمیں ایسے والدین،‏ ساتھی یا دوستوں کی قدر کرنی چاہئے جو ہمیں ایسی جگہوں پر جانے،‏ ایسی چیزیں دیکھنے یا ایسے کام کرنے سے منع کرتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنے چاہئیں۔‏ وہ ہمیں ضبطِ‌نفس ظاہر کرنے اور ہمارے اندر کسی کام سے انکار کرنے کی خوبی پیدا کر رہے ہیں!‏

۱۷ بہتیرے مسیحی شاید ضبطِ‌نفس کو اسی طرح لے رہے ہوں جیسے ہم نے یہاں بیان کِیا ہے مگر شاید وہ محسوس کریں کہ اُنہیں اَور زیادہ بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ وہ اس حد تک ضبطِ‌نفس ظاہر کرنا چاہتے ہیں جس کی ناکامل انسانوں سے معقول طور پر توقع کی جا سکتی ہے۔‏ کیا آپ ایسا محسوس کرتے ہیں؟‏ پس،‏ خدا کی رُوح کے اس پھل کو پیدا کرنے کے لئے آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ نیز ایسا کرنا ایک مسیحی کے طور پر آپ کے طویل‌المدت نصب‌اُلعین کو حاصل کرنے میں آپ کی مدد کیسے ہو سکتی ہے؟‏ ہمیں اگلے مضمون کا مطالعہ کرنا چاہئے۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

ضبطِ‌نفس .‏ .‏ .‏

‏• پیدا کرنا مسیحیوں کیلئے کیوں ضروری ہے؟‏

‏• بعض کیلئے چیلنج‌خیز کیوں ہے؟‏

‏• شادی میں کیوں ضروری ہے؟‏

‏• ایک ایسی خوبی کیوں ہے جسے پیدا کرنے میں ہم ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر بکس/‏تصویر]‏

اُس نے نہ کہنا سیکھ لیا

جرمنی میں ایک یہوواہ کا گواہ ٹیکنیکل کمیونیکیشن کلرک کی ملازمت کرتا تھا۔‏ اُس کے کام میں کوئی ۳۰ مختلف ٹیلی‌ویژن اور ریڈیو پروگراموں کی نگرانی کرنا شامل تھا۔‏ جب کوئی خرابی ہوتی تو اُسے مسئلے کی نشاندہی کرنے کے لئے پروگرام پر پوری توجہ دینی پڑتی۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏مداخلت ہمیشہ غلط وقت پر ہوتی تھی جب کوئی تشدد یا جنس کا منظر پیش کِیا جا رہا ہوتا تھا۔‏ بُرے مناظر کئی کئی دن میرے ذہن میں گھومتے رہتے گویا کہ یہ نقش ہو گئے ہوں۔‏“‏ وہ تسلیم کرتا ہے کہ اس چیز نے اُس کی روحانیت پر منفی اثر ڈالا۔‏ ”‏مَیں ہر وقت غصے میں رہتا اور تشدد کے مناظر نے میرے لئے ضبطِ‌نفس کو عمل میں لانا مشکل بنا دیا تھا۔‏ جنسی مناظر نے میرے اور میری بیوی کے درمیان تناؤ پیدا کر دیا۔‏ مَیں کشمکش کا شکار تھا۔‏ اس سے بچنے کے لئے مَیں نے دوسری ملازمت کی تلاش شروع کر دی خواہ میری تنخواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔‏ جلد ہی مجھے دوسری ملازمت مل گئی۔‏ میری خواہش پوری ہو گئی ہے۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

بائبل مطالعے سے حاصل‌کردہ علم ہمیں ضبطِ‌نفس کو عمل میں لانے میں مدد دیتا ہے