مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

کیا یہوواہ کے گواہ خون کے اجزا استعمال کر سکتے ہیں؟‏

مندرجہ‌ذیل جواب جون ۱۵،‏ ۲۰۰۰ کے شمارے سے دوبارہ شائع کِیا جا رہا ہے۔‏

بنیادی جواب یہ ہے کہ یہوواہ کے گواہ خون نہیں لیتے۔‏ ہم پُختہ ایمان رکھتے ہیں کہ خون کی بابت بدلتے ہوئے نظریات سے مطابقت پیدا کرنے کیلئے خدائی شرع میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔‏ تاہم نئے مسائل اسلئے کھڑے ہوتے ہیں کہ اب خون کو چار مختلف بنیادی حصوں اور ان حصوں کو بھی دیگر اجزا میں تقسیم کِیا جا سکتا ہے۔‏ اِنکے استعمال کے سلسلے میں فیصلہ کرتے وقت ایک مسیحی کو طبّی فوائد یا نقصانات سے بڑھ کر سوچنا چاہئے۔‏ اُسے صرف یہ فکر ہونی چاہئے کہ بائبل اسکی بابت کیا کہتی ہے اور قادرِمطلق خدا کیساتھ اُسکے رشتے پر اِسکا کیا اثر ہو سکتا ہے۔‏

کلیدی نکات بہت سادہ ہیں۔‏ اس معاملے کی وجوہات جاننے کیلئے چند صحیفائی،‏ تاریخی اور طبّی پہلوؤں پر غور کریں۔‏

یہوواہ خدا نے ہمارے جد نوح کو بتایا کہ خون نہایت قابلِ‌احترام چیز ہے۔‏ (‏پیدایش ۹:‏۳،‏ ۴‏)‏ بعدازاں،‏ اسرائیل کیلئے خدا کی شریعت نے بھی خون کے تقدس کو ظاہر کِیا:‏ ”‏اؔسرائیل کے گھرانے کا یا اُن پردیسیوں میں .‏ .‏ .‏ جو کوئی کسی طرح کا خون کھائے مَیں اُس خون کھانے والے کے خلاف ہونگا۔‏“‏ خدا کی شریعت کی خلاف‌ورزی کرنے والا اسرائیلی دیگر کو بھی گمراہ کر سکتا تھا اسلئے خدا نے کہا کہ مَیں ”‏اُسے اُسکے لوگوں میں سے کاٹ ڈالونگا۔‏“‏ (‏احبار ۱۷:‏۱۰‏)‏ اسکے بعد پھر یروشلیم میں ایک اجلاس کے دوران رسولوں اور بزرگوں نے ”‏لہو .‏ .‏ .‏ سے پرہیز“‏ کرنے کا حکم صادر کِیا۔‏ خون سے پرہیز کرنا اُتنا ہی اہم ہے جتناکہ جنسی بداخلاقی اور بُت‌پرستی سے پرہیز کرنا اہم ہے۔‏—‏اعمال ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏۔‏

اُس وقت ”‏پرہیز“‏ کرنے سے کیا مطلب لیا گیا ہوگا؟‏ مسیحی جما ہوا یا تازہ خون استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ ہی وہ کسی ایسے جانور کا گوشت کھاتے تھے جسکا خون بہایا نہ گیا ہو۔‏ اس اُصول کا اطلاق خون ملے ہوئے کھانوں پر بھی ہوتا تھا جیسےکہ خون ملی ہوئی ساسیج۔‏ اِن میں سے کسی بھی طریقے سے خون لینا خدا کے قانون کی خلاف‌ورزی ہوگی۔‏—‏۱-‏سموئیل ۱۴:‏۳۲،‏ ۳۳‏۔‏

طرطلیان (‏دوسری اور تیسری صدی ق.‏س.‏)‏ کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم وقتوں میں بیشتر لوگ خون کے استعمال کو زیادہ سنجیدہ معاملہ خیال نہیں کرتے تھے۔‏ طرطلیان مسیحیوں پر خون استعمال کرنے کے جھوٹے الزامات کا جواب دیتے ہوئے ایسے قبیلوں کا ذکر کرتا ہے جو خون پی کر معاہدوں پر مہر لگایا کرتے تھے۔‏ اُس نے یہ بھی بیان کِیا کہ ”‏جب رومی تماشاگاہوں میں کسی تماشے کے دوران کوئی مجرم ہلاک ہو جاتا تو [‏بعض]‏ لوگ اپنی مرگی سے شفا پانے کیلئے جلدی سے جاکر اُسکا تازہ خون پینے لگتے تھے۔‏“‏

ایسے کام (‏اگرچہ بعض رومی بیماری سے شفا پانے کیلئے ایسا کرتے تھے)‏ مسیحیوں کیلئے غلط تھے۔‏ طرطلیان نے اس سلسلے میں تحریر کِیا کہ ”‏ہم اپنی عام غذا میں جانوروں کا خون بھی نہیں ملاتے۔‏“‏ رومی خون ملے ہوئے کھانے سے سچے مسیحیوں کی راستی کا امتحان لیتے تھے۔‏ طرطلیان نے مزید بیان کِیا:‏ ”‏اب،‏ مَیں تم سے پوچھتا ہوں کہ جب تم یہ جانتے ہو [‏کہ مسیحی]‏ جانوروں کے خون سے بھی دُور رہتے ہیں توپھر وہ بھلا انسانی خون کے پیاسے کیسے ہو سکتے ہیں؟‏“‏

آجکل اگر ڈاکٹر خون لینے کا مشورہ دے تو بہت ہی کم لوگ اس سلسلے میں قادرِمطلق خدا کے قوانین کا لحاظ رکھینگے۔‏ بیشک یہوواہ کے گواہ زندہ رہنا چاہتے ہیں مگر وہ خون کی بابت یہوواہ کے قانون کے پابند ہیں۔‏ جدید طبّی علاج کی روشنی میں اسکا کیا مطلب ہے؟‏

دوسری جنگِ‌عظیم کے بعد جب انتقالِ‌خون عام ہو گیا تو یہوواہ کے گواہوں نے محسوس کِیا کہ یہ خدا کے قانون کے خلاف ہے اور آج بھی ہم اپنے اسی مؤقف پر قائم ہیں۔‏ تاہم،‏ وقت کیساتھ ساتھ طب کے میدان میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔‏ آجکل،‏ اکثر خون کا انتقال کرنے کی بجائے صرف اُسکے بنیادی حصوں:‏ (‏۱)‏ سُرخ خلیے؛‏ (‏۲)‏ سفید خلیے؛‏ (‏۳)‏ پلیٹ‌لیٹس؛‏ (‏۴)‏ پلازمہ (‏سیرم)‏ ،‏ سیالی جُز کا انتقال ہوتا ہے۔‏ مریض کی حالت کے مطابق ڈاکٹر سُرخ خلیے،‏ سفید خلیے،‏ پلیٹ‌لیٹس یا پلازمہ استعمال کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔‏ خون کے بنیادی حصوں کا ایسا انتقال خون کے ایک حصے کو کئی مریضوں میں تقسیم کرنا ممکن بناتا ہے۔‏ یہوواہ کے گواہ ایمان رکھتے ہیں کہ خون یا اسکے چار بنیادی حصوں میں سے کسی کو بھی قبول کرنا خدا کے قانون کے خلاف ہے۔‏ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ بائبل پر مبنی اس ایمان کی پابندی سے وہ ہیپاٹائٹس اور ایڈز جیسی خطرناک بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں جو اکثر انتقالِ‌خون سے لگتی ہیں۔‏

تاہم چونکہ خون کے بنیادی حصوں کو بھی مزید تقسیم کِیا جا سکتا ہے اسلئے اس تقسیم کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اجزا کے سلسلے میں مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔‏ یہ اجزا کیسے استعمال کئے جاتے ہیں اور انکی بابت فیصلہ کرتے وقت ایک مسیحی کو کس بات پر غوروخوض کرنا چاہئے؟‏

خون بہت سی چیزوں کا مرکب ہے۔‏ پلازمہ—‏جو ۹۰ فیصد پانی پر مشتمل ہوتا ہے—‏اِس میں بھی بیشمار ہارمون،‏ غیرنامیاتی نمکیات،‏ انزائمز اور شکر اور معدنیات جیسے مقویات شامل ہوتے ہیں۔‏ پلازمہ میں البومین جیسی پروٹینز،‏ خون کو جمانے والے عناصر اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اینٹی‌باڈیز بھی شامل ہوتے ہیں۔‏ ماہرین پلازمہ سے کئی پروٹینز علیٰحدہ کرکے استعمال کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ خون کو جمانے والا عنصر VIII ہیموفیلیا کے مریضوں کو دیا جاتا ہے جنکا خون آسانی سے بہنے لگتا ہے۔‏ اسکے علاوہ اگر کوئی شخص بآسانی کچھ بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر قوتِ‌مدافعت کے حامل لوگوں کے پلازمہ سے لئے گئے گاماگلوبولن کے ٹیکے لگوانے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔‏ دیگر پلازمہ پروٹینز ادویات کے طور پر استعمال ہوتی ہیں مگر مذکورہ‌بالا مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ خون کے ایک بنیادی حصے (‏پلازمہ)‏ کو اجزا میں کیسے تقسیم کِیا جا سکتا ہے۔‏ *

جسطرح پلازمہ مختلف اجزا میں تقسیم کِیا جا سکتا ہے اسی طرح خون کے دوسرے بنیادی حصوں (‏سُرخ خلیے،‏ سفید خلیے اور پلیٹ‌لیٹس)‏ کو بھی چھوٹے چھوٹے اجزا میں تقسیم کِیا جا سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ سفید خلیوں سے مختلف قسم کے سرطان اور وائرل انفیکشن کا علاج کرنے کیلئے انٹرفیران اور انٹرلیوکنز حاصل کئے جا سکتے ہیں۔‏ پلیٹ‌لیٹس سے زخم بھرنے والی ادویات بنائی جا سکتی ہیں۔‏ اسکے علاوہ دوسری ادویات بھی تیار کی جا رہی ہیں جن میں (‏کم‌ازکم ابتدا میں)‏ خون کے حصوں کے خفیف اجزا شامل ہوتے ہیں۔‏ ایسی ادویات دراصل خون کے بنیادی حصوں کا انتقال نہیں ہوتیں بلکہ ان میں محض انکے اجزا شامل ہوتے ہیں۔‏ کیا مسیحیوں کو طبّی علاج میں ان اجزا کو قبول کرنا چاہئے؟‏ اسکی بابت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔‏ بائبل اس سلسلے میں وضاحت فراہم نہیں کرتی اسلئے ایک مسیحی کو خدا کے حضور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے۔‏

بعض شاید خون ملی ہوئی کسی چیز (‏حتیٰ‌کہ عارضی قوتِ‌مدافعت فراہم کرنے کیلئے تیارکردہ اجزا)‏ کو بھی استعمال نہ کرنا چاہیں۔‏ اُنکے نزدیک ’‏لہو سے پرہیز‘‏ کرنے کے خدائی حکم کا یہی مطلب ہے۔‏ وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسرائیل کو دی گئی شریعت کے مطابق کسی بھی مخلوق سے نکالے گئے خون کو ”‏زمین پر اُنڈیل دینا“‏ لازمی قرار دیا گیا تھا۔‏ (‏استثنا ۱۲:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ اس بات کا ہمارے موضوع سے کیا تعلق ہے؟‏ دراصل،‏ گاماگلوبولن،‏ خون جمانے والے عناصر وغیرہ بنانے کیلئے خون کو جمع کرکے عملِ‌تقسیم سے گزارنا پڑتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ بعض مسیحی ایسی ادویات کے استعمال کو خون یا اُسکے چار بنیادی حصوں کے انتقال کی طرح ہی ردّ کرتے ہیں۔‏ اپنے ضمیر کے مطابق اُنکے مخلصانہ مؤقف کا احترام کرنا چاہئے۔‏

دیگر مسیحی شاید اس معاملے میں فرق فیصلہ کریں۔‏ وہ بھی خون،‏ سُرخ خلیے،‏ سفید خلیے،‏ پلیٹ‌لیٹس،‏ یا پلازمہ کے انتقال سے انکار کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ ممکن ہے کہ وہ ڈاکٹر کو خون کے بنیادی حصوں سے حاصل کئے گئے اجزا سے اپنا علاج کرنے کی اجازت دیں۔‏ اِس صورت میں بھی اختلافات ہو سکتے ہیں۔‏ ممکن ہے کہ ایک مسیحی گاماگلوبولن کا ٹیکہ تو قبول کر لے مگر سُرخ یا سفید خلیوں سے حاصل کی گئی کسی بھی چیز کا ٹیکہ قبول نہ کرے۔‏ تاہم،‏ کن باتوں کی بِنا پر بعض مسیحی خون کے اجزا قبول کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟‏

جون ۱،‏ ۱۹۹۰ کے دی واچ‌ٹاور میں ”‏سوالات از قارئین“‏ میں بیان کِیا گیا کہ پلازمہ پروٹینز (‏اجزا)‏ ایک حاملہ عورت کے خون سے اُسکے جنین کے بالکل علیٰحدہ نظامِ‌خون میں منتقل ہوتے ہیں۔‏ لہٰذا ایک ماں اپنے بچے میں امینوگلوبولن منتقل کرکے اُسے نہایت اہم قوتِ‌مدافعت فراہم کرتی ہے۔‏ جب جنین کے سُرخ خلیے اپنا عرصۂ‌حیات مکمل کر لیتے ہیں تو اُنکا آکسیجن کا حامل حصہ تقسیم ہو جاتا ہے۔‏ اِسکا کچھ حصہ بلیروبن میں بدل جاتا ہے جو آنول سے گزر کر ماں کے جسم کے فضلات کیساتھ خارج ہو جاتا ہے۔‏ بعض مسیحیوں کا خیال ہے کہ اگر اس قدرتی عمل کے دوران خون کے اجزا ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتے ہیں تو پھر وہ خون کے خلیوں یا پلازمہ سے حاصل ہونے والے اجزا کو بھی قبول کر سکتے ہیں۔‏

کیا نظریات اور ضمیر کے مطابق فیصلے مختلف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ یہ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے۔‏ تاہم،‏ بنیادی طور پر یہ معاملہ بہت ہی سادہ ہے۔‏ مذکورہ‌بالا مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کے گواہ خون اور اُسکے بنیادی حصوں کا انتقال قبول نہیں کرتے۔‏ بائبل مسیحیوں کو ’‏بُتوں کی قربانیوں کے گوشت سے اور لہو اور حرامکاری سے پرہیز کرنے‘‏ کی ہدایت کرتی ہے۔‏ (‏اعمال ۱۵:‏۲۹‏)‏ اسکے علاوہ،‏ بنیادی حصوں کی تقسیم سے حاصل ہونے والے اجزا کے سلسلے میں ہر مسیحی کو احتیاط اور دُعائیہ غوروخوض کے بعد ذاتی فیصلہ کرنا چاہئے۔‏

بہتیرے لوگ فوری فوائد کیلئے کوئی بھی علاج قبول کر لیتے ہیں۔‏ خون سے بنی ہوئی ادویات کے سلسلے میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے حالانکہ اُنہیں معلوم بھی ہوتا ہے کہ اس سے اُنکی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‏ ایک خلوصدل مسیحی جسمانی پہلوؤں کے علاوہ دیگر پہلوؤں کو بھی مدِنظر رکھتے ہوئے واضح اور متوازن نظریہ اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ یہوواہ کے گواہ عمدہ طبّی سہولیات فراہم کرنے کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں اور کسی بھی علاج کے نقصانات یا فوائد کے تناسب پر سوچ‌بچار کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ جب خون سے تیارکردہ ادویات کی بات آتی ہے تو وہ خدا کے حکم اور اُس زندگی بخشنے والے کیساتھ اپنے ذاتی رشتے کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔‏—‏زبور ۳۶:‏۹‏۔‏

ایک مسیحی کیلئے یہ کتنا عمدہ شرف ہے کہ وہ زبورنویس جیسا اعتماد ظاہر کرنے کے قابل ہو جس نے لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ خدا آفتاب اور سپر ہے۔‏ [‏یہوواہ]‏ فضل اور جلال بخشے گا۔‏ وہ راست‌رَو سے کوئی نعمت باز نہ رکھیگا۔‏ اَے .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ مبارک ہے وہ آدمی جسکا توکل تجھ پر ہے“‏!‏—‏زبور ۸۴:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 13 جون ۱۵،‏ ۱۹۷۸ اور اکتوبر ۱،‏ ۱۹۹۴ کے دی واچ‌ٹاور میں ”‏سوالات از قارئین“‏ دیکھیں۔‏ فارماسوٹیکل اداروں نے خون کے عناصر سے پاک ایسی ادویات تیار کی ہیں جو ماضی میں استعمال ہونے والے خون کے بعض اجزا کی جگہ استعمال کی جا سکتی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر بکس]‏

ڈاکٹر سے دریافت کریں

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپکی سرجری یا علاج میں خون سے تیارکردہ ادویات کے استعمال کا امکان ہے تو پوچھیں:‏

کیا متعلقہ طبّی عملے کے تمام افراد میری اس ہدایت سے واقف ہیں کہ یہوواہ کا گواہ ہونے کی وجہ سے مجھے کسی بھی صورت میں خون ‏(‏تمام اجزا سمیت خون یا سُرخ خلیے،‏ سفید خلیے،‏ پلیٹ‌لیٹس یا پلازمہ)‏ نہ دیا جائے؟‏

اگر مجوزہ ادویات خون کے پلازمہ،‏ سُرخ یا سفید خلیے یا پلیٹ‌لیٹس سے تیار کی گئی ہوں تو پوچھیں:‏

کیا یہ دوا خون کے چار بنیادی حصوں میں سے کسی ایک سے تیار کی گئی ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو کیا آپ اسکی ترکیب کی وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

خون سے تیارکردہ یہ دوا کس مقدار میں اور کس طریقے سے استعمال کی جائیگی؟‏

اگر میرا ضمیر خون کے اس جُز کو قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے تو اسکے طبّی خطرات کیا ہو سکتے ہیں؟‏

اگر میرا ضمیر مجھے اس جُز کو قبول کرنے کی اجازت نہ دے تو اَور کونسا طریقۂ‌علاج استعمال کِیا جا سکتا ہے؟‏

اس معاملے پر مزید غور کرنے کے بعد مَیں آپکو اپنے فیصلے کی بابت کب آگاہ کر سکتا ہوں؟‏