مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اِبلیس کو موقع نہ دیں

اِبلیس کو موقع نہ دیں

اِبلیس کو موقع نہ دیں

‏”‏اِبلیس کو موقع نہ دو۔‏“‏—‏افسیوں ۴:‏۲۷‏۔‏

۱.‏ آجکل بہت سے لوگ شیطان کے وجود پر شک کیوں کرتے ہیں؟‏

شیطان۔‏ اس لفظ کو سُن کر لوگوں کے ذہن میں طرح طرح کے تصور اُبھرتے ہیں۔‏ مثلاً مغربی ممالک میں لوگوں کا خیال ہے کہ شیطان سینگوں والی ایک ایسی شے ہے جو سُرخ کپڑے پہنتا ہے۔‏ اُسکے ہاتھ میں ایک جیلی ہے جسے وہ انسانوں کو دوزخ کی آگ میں دھکیلنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔‏ انہی غلط نظریوں کی وجہ سے آجکل بہت سے لوگ شیطان کے وجود میں شک کرنے لگے ہیں۔‏ کئی لوگ تو کہتے ہیں کہ شیطان اُس بُرائی کا دوسرا نام ہے جو انسان کے دل میں پوشیدہ ہے۔‏ خدا کے کلام میں شیطان کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏

۲.‏ بائبل میں شیطان کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟‏

۲ بائبل میں ہمیں شیطان کے وجود کے بہت سے ثبوت ملتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے آسمان میں اِس بُرے فرشتے یعنی شیطان کو دیکھا تھا۔‏ پھر جب یسوع زمین پر آیا تھا تو اُس نے شیطان سے بات بھی کی تھی۔‏ (‏ایوب ۱:‏۶؛‏ متی ۴:‏۴-‏۱۱‏)‏ خدا کے کلام میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بغاوت کرنے سے پہلے اس فرشتے کا نام کیا تھا۔‏ لیکن جب اس نے جھوٹے الزام لگا کر خدا کو بدنام کرنے کی کوشش کی تو اس فرشتے کو جو نام دیا گیا،‏ یونانی زبان میں اُسکا مطلب ”‏جھوٹے الزام لگانے والا“‏ ہے۔‏ (‏اس یونانی لفظ کا ترجمہ اُردو بائبل میں ”‏اِبلیس“‏ سے کِیا گیا ہے۔‏)‏ اس فرشتے نے خدا کی مخالفت کی جسکی وجہ سے اُسے شیطان کا لقب بھی دیا گیا۔‏ یہ لفظ ”‏نافرمان،‏“‏ ”‏باغی“‏ اور ”‏سرکش“‏ ہونے کا مطلب رکھتا ہے۔‏ بائبل میں شیطان کو ”‏پُرانا سانپ“‏ بھی کہا گیا ہے کیونکہ اُس نے ایک سانپ کے ذریعے حوا کو گمراہ کِیا تھا۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۲:‏۱۴‏)‏ اسکے علاوہ خدا کے کلام میں اُسے ”‏شریر“‏ بھی کہا گیا ہے۔‏—‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏۔‏ *

۳.‏ اس مضمون میں ہم کس سوال پر غور کریں گے؟‏

۳ شیطان خدا کا دُشمن ہے۔‏ خدا کے خادموں کے طور پر ہم کسی بھی صورت میں شیطان کی سوچ نہیں اپنانا چاہتے۔‏ اسلئے ہمیں پولس رسول کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہئے:‏ ”‏ابلیس کو موقع نہ دو۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۷‏)‏ لیکن شیطان کس کس روپ میں ہمیں اپنی سوچ میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے؟‏

جھوٹے الزام لگانے والے کی طرح مت بنیں

۴.‏ شیطان نے خدا کے بارے میں کونسا جھوٹ بولا؟‏

۴ شیطان واقعی ”‏شریر“‏ ہے کیونکہ اُس نے خدا پر چھوٹے الزام لگائے ہیں۔‏ خدا نے آدم سے کہا تھا کہ ”‏نیک‌وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‏“‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۷‏)‏ آدم کی بیوی حوا بھی خدا کے اس حکم کو جانتی تھی۔‏ شیطان نے ایک سانپ کے ذریعے حوا سے کہا:‏ ”‏تُم ہرگز نہ مرو گے۔‏ بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خدا کی مانند نیک‌وبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ شیطان نے خدا کو بدنام کرنے کیلئے کتنا بڑا جھوٹ بولا۔‏

۵.‏ دیترفیس چغل‌خوری کرنے کیلئے کیوں جوابدہ ٹھہرایا گیا؟‏

۵ خدا نے بنی‌اسرائیل کو یہ حکم دیا تھا:‏ ”‏تُو اپنی قوم میں اِدھر اُدھر لتراپن [‏چغل‌خوری،‏ کیتھولک ورشن‏]‏ نہ کرتے پھرنا۔‏“‏ (‏احبار ۱۹:‏۱۶‏)‏ اسی طرح یوحنا رسول نے بھی ایک چغل‌خور کے بارے میں یہ بات کہی:‏ ”‏مَیں نے کلیسیا کو کچھ لکھا تھا مگر دیترفیسؔ جو اُن میں بڑا بننا چاہتا ہے ہمیں قبول نہیں کرتا۔‏ پس جب مَیں آؤں گا تو اُسکے کاموں کو جو وہ کر رہا ہے یاد دلاؤں گا کہ ہمارے حق میں بُری باتیں بکتا ہے۔‏“‏ (‏۳-‏یوحنا ۹،‏ ۱۰‏)‏ دیترفیس یوحنا رسول کے خلاف طرح طرح کی بُری باتیں پھیلا رہا تھا۔‏ اس حرکت کیلئے اُسے جوابدہ ٹھہرایا گیا۔‏ دیترفیس نے شیطان کی سوچ اپنا لی تھی۔‏ ہم میں سے کوئی بھی اُسکی طرح نہیں بننا چاہتا۔‏

۶،‏ ۷.‏ دوسروں پر جھوٹے الزام لگانا کیوں غلط ہے؟‏

۶ یہوواہ کے خادموں پر اکثر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر یسوع کے زمانے میں ”‏سردارکاہن اور فقیہ کھڑے ہوئے زور شور سے اُس پر الزام لگاتے رہے۔‏“‏ (‏لوقا ۲۳:‏۱۰‏)‏ پولس رسول پر حننیاہ سردارکاہن کے علاوہ اَور بھی بہت سے لوگوں نے الزام لگائے۔‏ (‏اعمال ۲۴:‏۱-‏۸‏)‏ بائبل میں شیطان کو ”‏ہمارے بھائیوں پر الزام لگانے والا“‏ کہا گیا ہے ”‏جو رات دن ہمارے خدا کے آگے اُن پر الزام لگایا کرتا ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۰‏)‏ اس آیت میں جن بھائیوں کا ذکر کِیا گیا ہے یہ وہ ممسوح مسیحی ہیں جو اخیر زمانے کے دوران زمین پر خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏

۷ سچے مسیحی چغل‌خوری نہیں کرتے اور نہ ہی کسی پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں ہمیں محتاط رہنا چاہئے کہ ہم پوری بات جاننے کے بغیر کسی کے خلاف گواہی نہ دیں ورنہ ہم جھوٹی گواہی دینے کے گُناہ میں پڑ جائیں گے۔‏ موسیٰ کی شریعت کے مطابق جھوٹی گواہی دینے والوں کو سزائےموت سنائی جاتی تھی۔‏ (‏خروج ۲۰:‏۱۶؛‏ استثنا ۱۹:‏۱۵-‏۱۹‏)‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا کو اُس شخص سے نفرت ہے جو ”‏جھوٹی باتیں پھیلاتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۶:‏۱۶-‏۱۹‏،‏ کیتھولک ورشن‏)‏ ان سب باتوں پر غور کرنے کے بعد ہم اُس ’‏جھوٹے الزام لگانے والے‘‏ کا رویہ ہرگز نہیں اپنانا چاہیں گے جس نے خدا کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔‏

اُس خونی کو موقع نہ دیں

۸.‏ شیطان کس مفہوم میں شروع ہی سے خونی تھا؟‏

۸ شیطان خونی بھی ہے۔‏ اُسکے بارے میں بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏وہ شروع ہی سے خونی ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏)‏ شیطان نے خدا کے خلاف اپنی بغاوت کا آغاز آدم اور حوا کو ورغلانے سے ہی کِیا تھا۔‏ ایسا کرنے سے شیطان انسان کو اُس راہ پر لے آیا جسکا انجام موت تھا۔‏ اسلئے شیطان اپنی مخالفت کے شروع ہی سے ایک خونی تھا۔‏—‏رومیوں ۵:‏۱۲‏۔‏

۹.‏ پہلا یوحنا ۳:‏۱۵ کے مطابق مسیحی کیا کرنے سے خونی بن سکتے ہیں؟‏

۹ ‏”‏تُو خون نہ کرنا۔‏“‏ یہ حکم موسیٰ کی شریعت میں بنی‌اسرائیل کو دیا گیا تھا۔‏ (‏استثنا ۵:‏۱۷‏)‏ اسی طرح پطرس رسول نے مسیحیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ ”‏تُم میں سے کوئی شخص خونی .‏ .‏ .‏ ہو کر دُکھ نہ پائے۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۵‏)‏ یہوواہ کے خادم کسی کو قتل نہیں کرتے۔‏ لیکن ہم تب بھی جوابدہ ٹھہرائے جائیں گے جب ہم اپنے کسی مسیحی بھائی یا بہن سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ نفرت کرنے والا اکثر اپنے دُشمن کی موت چاہتا ہے۔‏ اسلئے یوحنا رسول نے لکھا کہ ”‏جو کوئی اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ خونی ہے اور تُم جانتے ہو کہ کسی خونی میں ہمیشہ کی زندگی موجود نہیں رہتی۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۵‏)‏ بنی‌اسرائیل کو تاکید کی گئی تھی کہ ”‏تُو اپنے دل میں اپنے بھائی سے بغض نہ رکھنا۔‏“‏ (‏احبار ۱۹:‏۱۷‏)‏ شیطان خدا کے خادموں کے اتحاد کو ختم کرنا چاہتا ہے۔‏ دُعا ہے کہ اگر آپس میں ناراضگی ہو بھی جائے تو ہم جلد ایک دوسرے سے صلح کر لیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم شیطان کو کلیسیا میں فساد ڈالنے کا موقع ہی نہیں دیں گے۔‏—‏لوقا ۱۷:‏۳،‏ ۴‏۔‏

جھوٹ کے باپ کا مقابلہ کریں

۱۰،‏ ۱۱.‏ ’‏جھوٹ کے باپ‘‏ کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‏

۱۰ شیطان جھوٹا ہے۔‏ یسوع نے اُسکے بارے میں کہا کہ ”‏جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏)‏ شیطان نے حوا سے جھوٹ بولا تھا۔‏ اسکے برعکس یسوع مسیح حق یعنی سچائی پر گواہی دینے کی خاطر دُنیا میں آیا۔‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۷‏)‏ ہم یسوع کی مثال پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔‏ اسلئے ہم نہ تو جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی کسی کو دھوکہ دیتے ہیں بلکہ ہر حال میں ’‏سچ بولتے‘‏ ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم شیطان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں گے۔‏ (‏زکریاہ ۸:‏۱۶؛‏ افسیوں ۴:‏۲۵‏)‏ یہوواہ ’‏سچائی کا خدا‘‏ ہے اور وہ صرف اُن لوگوں کو برکت سے نوازتا ہے جو اُسکے بارے میں سچی گواہی دیتے ہیں۔‏ وہ شریر لوگوں کو اپنے خادموں کے طور پر قبول نہیں کرتا۔‏—‏زبور ۳۱:‏۵؛‏ ۵۰:‏۱۶؛‏ یسعیاہ ۴۳:‏۱۰‏۔‏

۱۱ یسوع کی تعلیمات کے بارے میں جاننے سے ہم شیطان کی جھوٹی تعلیم سے آزاد ہو گئے ہیں۔‏ اگر ہم اس بات کیلئے شکرگزار ہیں تو ہم ”‏راہِ‌حق“‏ یعنی یسوع کی تعلیمات سے لپٹے رہیں گے۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۲؛‏ یوحنا ۸:‏۳۲‏)‏ یسوع نے جو تعلیم دی تھی یہ مسیحی تعلیمات کی بنیاد ہے۔‏ اسے بائبل میں ”‏خوشخبری کی سچائی“‏ بھی کہا گیا ہے۔‏ (‏گلتیوں ۲:‏۵،‏ ۱۴‏)‏ نجات پانے کیلئے ہمیں اس سچائی کے مطابق چلنا ہوگا۔‏ اسکا مطلب ہے کہ ہمیں ’‏حق پر چلتے ہوئے‘‏ شیطان یعنی ’‏جھوٹ کے باپ‘‏ کا مقابلہ کرنا ہوگا۔‏—‏۳-‏یوحنا ۳،‏ ۴،‏ ۸‏۔‏

اُس باغی کے پھندوں میں مت پھنسیں

۱۲،‏ ۱۳.‏ ہمیں برگشتہ لوگوں کو کیسے خیال کرنا چاہئے؟‏

۱۲ خدا کے خلاف بغاوت کرنے سے پہلے شیطان بھی سچائی کی راہ پر چل رہا تھا۔‏ لیکن ”‏وہ .‏ .‏ .‏ سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏)‏ دراصل شیطان ”‏سچائی کے خدا“‏ کی راہ سے پھر گیا ہے۔‏ پہلی صدی میں بھی کچھ مسیحی ”‏ابلیس کے پھندے“‏ میں پڑ کر سچائی کی راہ سے پھر گئے تھے۔‏ پولس رسول نے تیمتھیس کو ہدایت دی کہ وہ ایسے مخالفوں کو نرمی سے مسیحی تعلیمات کی یاد دلائے تاکہ وہ شیطان کے پھندے سے چھوٹ کر دوبارہ سے سچائی کے مطابق خدا کی عبادت کریں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۳-‏۲۶‏)‏ اگر ہم سچائی سے لپٹے رہیں گے توپھر برگشتہ اشخاص ہمیں اپنی باتوں میں پھنسا نہیں پائیں گے۔‏

۱۳ آدم اور حوا نے شیطان کی بات پر کان لگائے اور اُسکے جھوٹے دعوؤں پر یقین کر لیا تھا۔‏ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اُنہوں نے خدا کے خلاف بغاوت کی۔‏ اس میں ہمارے لئے ایک اہم سبق ہے۔‏ اگر ہمیں خدا اور سچائی سے محبت ہے تو ہم برگشتہ اشخاص کی باتوں پر کان نہیں لگائیں گے۔‏ برگشتہ اشخاص اکثر کتابی شکل میں یا پھر انٹرنیٹ پر اپنے جھوٹے دعوؤں کو شائع کرتے ہیں۔‏ ہمیں ایسا مواد نہیں پڑھنا چاہئے۔‏ اسکے علاوہ ہمیں انہیں نہ تو اپنے گھر میں آنے دینا چاہئے اور نہ ہی اُنہیں سلام کرنا چاہئے۔‏ جو مسیحی برگشتہ لوگوں سے کنارہ نہیں کرتا وہ اُنکے ”‏بُرے کاموں میں شریک ہوتا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏یوحنا ۹-‏۱۱‏)‏ جھوٹے اُستاد ’‏ہلاک کرنے والی بدعتیں نکالتے ہیں۔‏‘‏ اسکا مطلب ہے کہ وہ سچی تعلیمات میں سے کوئی نئی بات نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ وہ ’‏باتیں بنا کر ہمیں اپنے نفع کا سبب ٹھہرانے‘‏ کی کوشش کرتے ہیں۔‏ شیطان چاہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کی باتوں میں پڑ کر ”‏راہِ‌حق“‏ سے پھر جائیں۔‏ دُعا ہے کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہو۔‏—‏۲-‏پطرس ۲:‏۱-‏۳‏۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ پولس رسول نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں اور تیمتھیس کو کس خطرے سے آگاہ کِیا تھا؟‏

۱۴ پولس رسول نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں کو یہ تاکید کی:‏ ”‏اپنی اور اُس سارے گلّہ کی خبرداری کرو جسکا روحُ‌القدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرایا تاکہ خدا کی کلیسیا کی گلّہ‌بانی کرو جِسے اُس نے خاص اپنے خون سے مول لیا۔‏ مَیں یہ جانتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد پھاڑنے والے بھیڑئے تُم میں آئیں گے جنہیں گلّہ پر کچھ ترس نہ آئے گا۔‏ اور خود تُم میں سے آدمی اُٹھیں گے جو اُلٹی اُلٹی باتیں کہیں گے تاکہ شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔‏“‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۸-‏۳۰‏)‏ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کلیسیا میں ایسے لوگ اُٹھے جنہوں نے ”‏اُلٹی اُلٹی باتیں“‏ کہہ کر مسیحیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔‏ واقعی،‏ پولس کی یہ بات کتنی سچ ثابت ہوئی۔‏

۱۵ سن ۶۵ کے لگ‌بھگ پولس رسول نے تیمتھیس کو ’‏حق کے کلام کو دُرستی سے کام میں لانے‘‏ کی ہدایت دی۔‏ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے پولس رسول نے آگے کہا:‏ ”‏لیکن بیہودہ بکواس سے پرہیز کر کیونکہ ایسے شخص اَور بھی بےدینی میں ترقی کریں گے۔‏ اور انکا کلام آکلہ کی طرح کھاتا چلا جائے گا۔‏ ہمنیسؔ اور فلیتسؔ ان ہی میں سے ہیں۔‏ وہ یہ کہہ کر کہ قیامت ہو چکی ہے حق سے گمراہ ہو گئے ہیں اور بعض کا ایمان بگاڑتے ہیں۔‏“‏ یہی وہ برگشتگی تھی جسکا ذکر پولس رسول پہلے بھی کر چکا تھا۔‏ مگر پولس نے اس بات پر زور دیا کہ اس برگشتگی کے باوجود بھی ”‏خدا کی مضبوط بنیاد قائم رہتی ہے۔‏“‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵-‏۱۹‏۔‏

۱۶.‏ شیطان کی کوششوں کے باوجود ہم یہوواہ خدا کے وفادار کیوں رہے ہیں؟‏

۱۶ شیطان نے اکثر برگشتہ لوگوں کے ذریعے خدا کی سچی تعلیم میں جھوٹ ملانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ ناکام رہا ہے۔‏ سن ۱۸۶۸ کے لگ‌بھگ امریکہ میں چارلس ٹیز رسل نے چرچ کی تعلیمات پر غور کرنا شروع کِیا۔‏ اُنہوں نے چرچ کے عقیدوں اور بائبل کی سچی تعلیمات میں بہت فرق پایا۔‏ بھائی رسل نے چند دوسرے خلوصدل لوگوں کیساتھ مل کر بائبل کا باقاعدہ مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔‏ اُس وقت سے لے کر آج تک تقریباً ۱۴۰ سال گزر چکے ہیں۔‏ اس عرصے کے دوران یہوواہ کے خادموں نے بائبل کی بہت سی سچائیاں سمجھ لی ہیں۔‏ اسکے ساتھ ساتھ اُن میں یہوواہ خدا اور اُسکے کلام کیلئے محبت بھی بڑھ گئی ہے۔‏ یہ مسیحی خدا کی تعلیمات کے وفادار کیسے رہ سکے ہیں؟‏ اسکی وجہ یہ ہے کہ دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت ہمیشہ روحانی طور پر چوکس رہی ہے اور اُنہیں شیطان کے پھندوں سے آگاہ کرتی رہی ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵‏۔‏

دُنیا کے سردار کے قبضے میں نہیں پڑیں

۱۷-‏۱۹.‏ اُس ”‏دُنیا“‏ سے کیا مُراد ہے اور ہمیں اس سے محبت کیوں نہیں رکھنی چاہئے؟‏

۱۷ شیطان ہمیں پھنسانے کیلئے ہمارے دل میں دُنیا کی محبت پیدا کرنا چاہتا ہے۔‏ اس ”‏دُنیا“‏ سے مُراد وہ تمام لوگ ہیں جو خدا کے معیاروں کی خلافورزی کرتے ہیں اور خدا سے دُور ہو چکے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے شیطان کو ”‏دُنیا کا سردار“‏ کہا اور یہ بھی کہا کہ ”‏مجھ میں [‏شیطان]‏ کا کچھ نہیں“‏ یعنی وہ مجھ پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۳۰‏)‏ دُعا ہے کہ ہم بھی شیطان کے اختیار میں نہ پڑیں۔‏ شیطان چاہتا تھا کہ یسوع مسیح جھک کر اُسے سجدہ کرے۔‏ اسکے بدلے میں اُس نے یسوع کو ”‏دُنیا کی سب سلطنتیں“‏ پیش کیں لیکن یسوع نے اُسے سختی سے منع کر دیا۔‏ (‏متی ۴:‏۸-‏۱۰‏)‏ اس واقعے سے ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ اِس دُنیا کو یسوع کے پیروکاروں سے نفرت ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۸-‏۲۱‏)‏ اسلئے یوحنا رسول نے ہمیں دُنیا سے محبت رکھنے سے خبردار کِیا تھا۔‏

۱۸ اس سلسلے میں یوحنا نے یوں لکھا:‏ ”‏نہ دُنیا سے محبت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں۔‏ جو کوئی دُنیا سے محبت رکھتا ہے اس میں باپ کی محبت نہیں۔‏ کیونکہ جو کچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔‏ دُنیا اور اُسکی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابدتک قائم رہے گا۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دُنیا کے معیاروں اور خدا کے معیاروں میں زمین‌آسمان کا فرق ہے۔‏ اسلئے ہمیں دُنیا سے محبت نہیں کرنی چاہئے۔‏

۱۹ اگر ہمارے دل میں دُنیا کی محبت سما گئی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ ایسی صورتحال میں ہمیں خدا سے التجا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں اس محبت کو اپنے دل سے مٹانے میں مدد دے۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۱۶-‏۲۱‏)‏ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ’‏شرارت کی روحانی فوجیں‘‏ یعنی شیطان اور اُسکے ساتھی ’‏اس دُنیا کے حاکم‘‏ ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم ”‏اپنے آپکو دُنیا سے بیداغ“‏ رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱۱،‏ ۱۲؛‏ یعقوب ۱:‏۲۷؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏۔‏

۲۰.‏ مسیحی کس لحاظ میں ”‏دُنیا کے نہیں“‏ ہیں؟‏

۲۰ یسوع نے اپنے پیروکاروں کے بارے میں کہا کہ ”‏جسطرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۶‏)‏ اسلئے تمام مسیحی،‏ چاہے وہ آسمان پر یا پھر زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھتے ہوں،‏ دُنیا سے الگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ وہ روحانی اور اخلاقی طور پر پاک‌صاف رہنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۹؛‏ ۱۷:‏۱۴؛‏ یعقوب ۴:‏۴‏)‏ شیطان کی بےدین دُنیا ہم سے نفرت کرتی ہے کیونکہ ہم ’‏راستبازی کی مُنادی‘‏ کرتے ہیں۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۵‏)‏ یہ بات درست ہے کہ ہم جسمانی طور پر دُنیا سے الگ نہیں ہو سکتے۔‏ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اُس میں بہتیرے لوگ حرامکار،‏ زِناکار،‏ ظالم،‏ بُت‌پرست،‏ جھوٹے،‏ چور اور شرابی ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۹-‏۱۱؛‏ ۶:‏۹-‏۱۱؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۸‏)‏ لیکن ہم اِس ”‏دُنیا کی روح“‏ کو یعنی اسکی سوچ،‏ نیت اور خواہشات کو نہیں اپناتے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۲‏۔‏

شیطان کو موقع نہ دیں

۲۱،‏ ۲۲.‏ ہم افسیوں ۴:‏۲۶،‏ ۲۷ میں پائی گئی ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

۲۱ ‏”‏دُنیا کی روح“‏ کو اپنانے کی بجائے ہم خدا کی روح کی راہنمائی پر چلتے ہیں۔‏ اسکے نتیجے میں ہم میں محبت اور ضبط کی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ یہ خوبیاں شیطان کے حملوں کا مقابلہ کرنے میں ہمارے کام آتی ہیں۔‏ شیطان چاہتا ہے کہ ہم بےقابو ہو کر ”‏بُرائی“‏ کرنے پر اُتر آئیں۔‏ لیکن خدا کی روح ہمیں ’‏قہر سے باز آنے اور غضب کو چھوڑنے‘‏ کے قابل بناتی ہے۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۸‏)‏ ہو سکتا ہے کہ کسی نے واقعی ہم سے زیادتی کی ہے جسکی وجہ سے ہم غصہ ہیں۔‏ ایسی صورت میں پولس رسول تاکید کرتا ہے کہ ”‏غصہ تو کرو مگر گُناہ نہ کرو۔‏ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔‏ اور ابلیس کو موقع نہ دو۔‏“‏—‏افسیوں ۴:‏۲۶،‏ ۲۷‏۔‏

۲۲ اگر ہم اپنی خفگی کو جلد دُور کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو شیطان ہماری اس حالت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔‏ وہ ہمیں کوئی نہ کوئی بُری حرکت کرنے پر اُکساتا ہے یا پھر ہمارے ذریعے کلیسیا میں فساد پیدا کرتا ہے۔‏ اس وجہ سے ہمیں جلد سے جلد اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں سے صلح کر لینی چاہئے۔‏ (‏احبار ۱۹:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ متی ۵:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ ۱۸:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ خدا کی روح ہمیں اپنے غصے پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔‏ اسطرح جب کوئی ہم سے زیادتی کرتا بھی ہے تو ہمارے دل میں نفرت اور دُشمنی کی آگ نہیں بھڑکتی۔‏

۲۳.‏ اگلے مضمون میں ہم کن سوالات پر غور کریں گے؟‏

۲۳ اس مضمون میں ہم نے شیطان کے مختلف روپ پر غور کیا ہے اور یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ کسطرح سے ہمیں اپنی سوچ میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ لیکن اب شاید آپ پوچھیں گے کہ کیا ہمیں شیطان سے ڈرنا چاہئے؟‏ وہ مسیحیوں پر اذیت کیوں لاتا ہے؟‏ ہم شیطان کے داؤ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے نومبر ۱۵،‏ ۲۰۰۵ میں ”‏شیطان کا اصلی روپ“‏ کے عنوان کے مضامین پر غور کریں۔‏

آپ کیا جواب دیں گے؟‏

‏• ہمیں دوسروں پر جھوٹے الزام لگانے سے خبردار کیوں رہنا چاہئے؟‏

‏• پہلے یوحنا ۳:‏۱۵ کے مطابق ہم خونی بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں برگشتہ لوگوں کو کیسے خیال کرنا چاہئے اور اسکی کیا وجہ ہے؟‏

‏• ہمیں دُنیا سے محبت کیوں نہیں رکھنی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

ہم شیطان کو کلیسیا کے اتحاد کو برباد کرنے کا موقع نہیں دیں گے

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویریں]‏

یوحنا رسول نے کیوں کہا کہ ہمیں دُنیا سے محبت نہیں رکھنی چاہئے؟‏