موت—ایک بھیانک حقیقت
موت—ایک بھیانک حقیقت
”انسان پیدا ہونے کے بعد کسی بھی وقت موت کے آغوش میں جانے کا امکان رکھتا ہے۔“ یہ برطانیہ کے ایک تاریخدان کے الفاظ ہیں۔ وہ مزید کہتا ہے: ”یہ بات اٹل ہے کہ ہر انسان آخرکار مرے گا۔“ اِس کے باوجود جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ہمیں بےحد غم ہوتا ہے۔
ہزاروں سال سے موت انسان کے لئے ایک بھیانک حقیقت ثابت ہوئی ہے۔ جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ہم بےبس ہو جاتے ہیں۔ کوئی شخص موت کے غم سے نہیں بچ سکتا۔ ہم بےبسی محسوس کرتے ہیں اور صورتحال میں تبدیلی لانے کے قابل نہیں ہوتے۔ ہمارے وہ عزیز جو مر چکے ہیں اُنہیں نہ تو دولت اور نہ ہی طاقت واپس لا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ دانشمند لوگ اور علما بھی موت کے بارے میں اپنے سوالوں کے جواب نہیں جانتے۔ چاہے کوئی طاقتور ہو یا کمزور، کسی عزیز کی وفات پر دونوں ہی روتے ہیں۔
بنیاسرائیل کا بادشاہ داؤد اپنے بیٹے ابیسلوم کی موت پر بہت غمزدہ ہوا۔ ابیسلوم کی موت کی خبر سن کر وہ بہت رویا اور دہائی دیتے ہوئے اُس نے کہا: ”میرے بیٹے اؔبیسلوم! میرے بیٹے! میرے بیٹے اؔبیسلوم! کاش مَیں تیرے بدلے مر جاتا! اَے اؔبیسلوم! میرے بیٹے! میرے بیٹے!“ (۲-سموئیل ۱۸:۳۳) یہ طاقتور بادشاہ جس نے اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کی تھی اب بےبس ہو کر صرف اِس بات کی خواہش کر سکتا تھا کہ اُس کے بیٹے کی بجائے وہ خود سب سے بڑے ”دشمن“ یعنی موت کا شکار ہو جاتا۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۶۔
کیا موت کبھی ختم ہوگی؟ اگر ایسا ہے تو مُردوں کے لئے کیا اُمید ہے؟ کیا ہم اپنے عزیزوں کو پھر سے دیکھیں گے؟ اگلے مضمون میں آپ کو ان سوالوں کے جواب دئے جائیں گے۔