مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

امثال کی کتاب سے اہم نکات

امثال کی کتاب سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

امثال کی کتاب سے اہم نکات

قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے ”‏تین ہزار مثلیں کہیں۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۴:‏۳۲‏)‏ اُس کی زیادہ‌تر مثلیں ہم امثال کی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔‏ یہ کتاب تقریباً ۷۱۷ قبلِ‌مسیح میں مکمل ہوئی۔‏ اس کی چند مثلیں یاقہ کے بیٹے اجور اور لموایل بادشاہ نے بھی لکھیں۔‏ ان کی مثلیں اس کتاب کے دو آخری ابواب میں پائی جاتی ہیں۔‏ البتہ،‏ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لموایل،‏ سلیمان ہی کا دوسرا نام تھا۔‏

ان امثال کی مدد سے ہم ’‏حکمت اور تربیت حاصل کرنے‘‏ کے قابل ہوں گے۔‏ (‏امثال ۱:‏۲‏)‏ حکمت ایک شخص کو معاملات پوری طرح سے سمجھنے اور اپنے علم کو کام میں لا کر مسئلے حل کرنے کے قابل بناتی ہے۔‏ تربیت حاصل کرنے کے نتیجے میں ہم نیک چال‌چلن اختیار کر سکیں گے۔‏ خدا کے الہام سے لکھی ہوئی ان مثلوں پر دھیان دینے سے ہمارے دل پر گہرا اثر پڑے گا اور ہم خوشی اور کامیابی حاصل کریں گے۔‏—‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏۔‏

‏’‏حکمت حاصل کر اور تربیت کو پکڑے رہ‘‏

‏(‏امثال ۱:‏۱–‏۹:‏۱۸‏)‏

امثال ۱:‏۲۰ میں سلیمان نے کہا:‏ ”‏حکمت کوچہ میں زور سے پکارتی ہے۔‏“‏ ہمیں حکمت کی آواز پر کیوں کان لگانا چاہئے؟‏ باب ۲ میں ایسا کرنے کے فائدے بتائے گئے ہیں۔‏ باب ۳ سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہمیں یہوواہ خدا کی قُربت کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔‏ پھر سلیمان کہتا ہے:‏ ”‏حکمت افضل اصل ہے۔‏ پس حکمت حاصل کر بلکہ اپنے تمام حاصلات سے فہم حاصل کر۔‏ .‏ .‏ .‏ تربیت کو مضبوطی سے پکڑے رہ۔‏ اُسے جانے نہ دے۔‏“‏—‏امثال ۴:‏۷،‏ ۱۳‏۔‏

ہم بداخلاقی میں پڑنے سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟‏ امثال ۵ باب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں اِس دُنیا کے پھندوں کو پہچاننے کے لئے تمیز کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہئے۔‏ اس کے علاوہ ہمیں بداخلاقی کرنے کے بُرے نتائج پر بھی غور کرنا چاہئے۔‏ باب ۶ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کونسے بُرے کاموں سے یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو سکتے ہیں۔‏ باب ۷ میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص بداخلاقی کرنے کے لئے کونسے قدم اُٹھاتا ہے۔‏ باب ۸ میں حکمت کی خوبی اور اس کے فائدوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔‏ پھر باب ۹ میں امثال کے پہلے ۸ ابواب کا خلاصہ پیش کِیا گیا ہے۔‏ اسے پڑھنے سے ہمارے دل میں حکمت حاصل کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱:‏۷؛‏ ۹:‏۱۰‏—‏’‏یہوواہ کا خوف‘‏ کس لحاظ سے ’‏علم اور حکمت کا شروع‘‏ ہے؟‏ یہوواہ کے خوف کے بغیر سچائی کا علم رکھنا ممکن نہیں کیونکہ خدا ہی سب چیزوں کا خالق اور پاک صحائف کا مصنف ہے۔‏ (‏رومیوں ۱:‏۲۰؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ لہٰذا،‏ ہم اُسی سے سچائی کا علم حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اس لحاظ سے خدا کا خوف علم کا شروع ہے۔‏ علم کے بغیر حکمت رکھنا ناممکن ہے۔‏ اس لئے یہوواہ کا خوف حکمت کا بھی شروع ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ ایک ایسا شخص جو خدا کا خوف نہیں رکھتا وہ اپنے علم کو یہوواہ کی بڑائی کرنے کے لئے استعمال نہیں کرتا۔‏

۵:‏۳‏—‏اِس آیت میں ایک فاحشہ کو ”‏بیگانہ عورت“‏ کیوں کہا گیا؟‏ امثال ۲:‏۱۶،‏ ۱۷ میں ایک ایسی عورت کو ”‏بیگانہ عورت“‏ کہا گیا ہے جو ”‏اپنے خدا کے عہد کو بھول جاتی ہے۔‏“‏ اسرائیل میں ہر ایسے شخص کو بیگانہ خیال کِیا جاتا جو بُت‌پرست بن جاتا یا جو موسیٰ کی شریعت کو چھوڑ دیتا۔‏ اس لئے ایک اسرائیلی فاحشہ کو بھی یہ لقب دیا جاتا۔‏—‏یرمیاہ ۲:‏۲۵؛‏ ۳:‏۱۳‏۔‏

۷:‏۱،‏ ۲‏—‏”‏میری باتوں“‏ اور ”‏میرے فرمان“‏ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ پاک صحائف کے حکموں کے علاوہ ان میں ایسے قواعد بھی شامل ہیں جو والدین اپنے بچوں پر عائد کرتے ہیں۔‏ نوجوانوں کی بھلائی اِس میں ہے کہ وہ اپنے والدین کی بات مانیں اور جب والدین اُن کو خدا کے کلام میں سے تعلیم دیتے ہیں تو اس تعلیم پر کان لگائیں۔‏

۸:‏۳۰‏—‏یہ ”‏ماہر کاریگر“‏ کون ہے؟‏ اِس تمثیل میں حکمت خود کو ”‏ماہر کاریگر“‏ کہتی ہے۔‏ لیکن دراصل یہ تمثیل خدا کے پہلوٹھے بیٹے یسوع مسیح کی طرف اشارہ کرتی ہے جو زمین پر انسان بننے سے پہلے بہت عرصہ تک آسمان پر رہا تھا۔‏ یہوواہ نے اُسے ”‏انتظامِ‌عالم کے شروع میں اپنی قدیمی صنعتوں سے پہلے“‏ پیدا کِیا۔‏ (‏امثال ۸:‏۲۲‏)‏ جب یہوواہ خدا نے سب چیزوں کو خلق کِیا تو یسوع مسیح نے ”‏ماہر کاریگر“‏ کے طور پر اُس کا ہاتھ بٹایا۔‏—‏کلسیوں ۱:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

۹:‏۱۷‏—‏”‏چوری کا پانی“‏ کیا ہے اور اسے ”‏میٹھا“‏ کیوں کہا گیا ہے؟‏ بائبل میں اکثر شوہر اور بیوی کے جنسی تعلقات کی تشبیہ ایک چشمے سے کی جاتی ہے جس میں سے وہ پانی پیتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ چوری کا پانی ان جنسی تعلقات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو شادی سے باہر پوشیدگی میں رکھے جاتے ہیں۔‏ (‏امثال ۵:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ سزا بھگتے بغیر ایسی حرکتوں کا لطف اُٹھا سکتے ہیں۔‏ اس لئے ایسے کام اُنہیں میٹھے لگتے ہیں۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۱۰-‏۱۴‏۔‏ گنہگار لوگوں سے خبردار رہیں جو دولت کا وعدہ کرکے ہمیں اپنے بُرے کاموں میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔‏

۳:‏۳‏۔‏ ہمیں شفقت اور سچائی کو گلے کے زیور جتنا قیمتی سمجھنا چاہئے۔‏ ہمیں ان خوبیوں کو اَپنا کر اُنہیں اپنے دل کی تختی پر لکھنا چاہئے۔‏

۴:‏۱۸‏۔‏ خدا کی سچائی کے بارے میں ہماری سمجھ بڑھتی جاتی ہے۔‏ اِس کی روشنی میں رہنے کے لئے ہمیں حلیم اور عاجز رہنا چاہئے۔‏

۵:‏۸‏۔‏ ہمیں ہر قسم کی بداخلاقی سے دُور رہنا چاہئے۔‏ اس سلسلے میں موسیقی،‏ فلمیں،‏ انٹرنیٹ،‏ کتابیں اور رسالے وغیرہ،‏ ہمارے لئے پھندا ثابت ہو سکتے ہیں۔‏

۵:‏۲۱‏۔‏ ایک شخص جو یہوواہ خدا سے محبت رکھتا ہے کیا وہ عیاشی کرکے اُس کی خوشنودی گنوانے کا خطرہ مول لے گا؟‏ ہرگز نہیں۔‏ یہ جان کر کہ یہوواہ ہمارے سب کام دیکھ سکتا ہے ہم ہر صورت میں اُس کے معیاروں پر قائم رہیں گے۔‏

۶:‏۱-‏۵‏۔‏ ان آیات میں ہمیں ”‏اپنے پڑوسی کا ضامن“‏ بننے سے یعنی اس کے کاروبار کی ضمانت دینے سے خبردار کِیا گیا ہے۔‏ اپنے پڑوسی کے ضامن بننے کے بعد اگر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے احمقانہ کام کِیا ہے تو ہمیں ”‏اپنے پڑوسی سے اصرار“‏ کرکے اس معاملے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏

۶:‏۱۶-‏۱۹‏۔‏ ان سات بُرائیوں میں تقریباً ہر قسم کی بدکاری شامل ہے۔‏ ہمیں ایسے گُناہوں سے سخت نفرت رکھنی چاہئے۔‏

۶:‏۲۰-‏۲۴‏۔‏ والدین کو اپنے بچوں کی تربیت خدا کے کلام کے مطابق کرنی چاہئے۔‏ اس طرح اُن کے بچے جنسی بداخلاقی میں پڑنے سے محفوظ رہیں گے۔‏

۷:‏۴‏۔‏ ہمیں حکمت اور فہم کی قدر کرنی چاہئے۔‏

امثال میں سے عمدہ راہنمائی

‏(‏امثال ۱۰:‏۱–‏۲۹:‏۲۷‏)‏

سلیمان کی باقی امثال الگ الگ محاوروں کی شکل میں ہیں۔‏ اکثر ان میں مختلف چیزوں کی مشابہت کی جاتی ہے۔‏ ان مثلوں میں بہت سے ایسے سبق پائے جاتے ہیں جو ہماری بول‌چال،‏ چال‌چلن اور سوچ پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔‏

باب ۱۰ سے لے کر باب ۲۴ تک یہوواہ کا خوف رکھنے کے فائدے پر زور دیا گیا ہے۔‏ باب ۲۵ سے لے کر باب ۲۹ تک ایسی امثال درج ہیں ”‏جن کی شاہِ‌یہوؔداہ حزقیاؔہ کے لوگوں نے نقل کی تھی۔‏“‏ (‏امثال ۲۵:‏۱‏)‏ ان میں پائے جانے والے اسباق میں سے ایک یہ ہے کہ ہمیں اپنا پورا بھروسہ یہوواہ پر رکھنا چاہئے۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱۰:‏۶‏—‏اس بات کا کیا مطلب ہے کہ ”‏شریروں کے مُنہ کو ظلم ڈھانکتا ہے“‏؟‏ اِس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ شریر چاپلوسی سے باتیں کرتے ہیں تاکہ اُن کے بُرے منصوبے پوشیدہ رہیں۔‏ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شریروں کے ظلم کی وجہ سے اُن سے نفرت کی جاتی ہے اور اس لئے وہ چپ رہتے ہیں۔‏

۱۰:‏۱۰‏—‏”‏آنکھ مارنے والا“‏ کس طرح رنج پہنچاتا ہے؟‏ ‏”‏خبیث‌وبدکار آدمی“‏ نہ صرف ”‏ٹیڑھی ترچھی زبان“‏ کے ذریعے دوسروں کو دھوکا دیتا ہے بلکہ وہ طرح طرح کے اشاروں سے بھی ایسا کرتا ہے،‏ مثلاً ’‏آنکھ مارنے‘‏ سے۔‏ (‏امثال ۶:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ ظاہر ہے کہ جو شخص ایسے بدکار لوگوں سے فریب کھاتا ہے اُسے بہت دُکھ پہنچتا ہے۔‏

۱۰:‏۲۹‏—‏اس آیت میں ”‏[‏یہوواہ]‏ کی راہ“‏ سے کیا مُراد ہے؟‏ یہ وہ راہ نہیں جس پر انسان کو چلنا چاہئے بلکہ اس سے مُراد وہ راہیں ہیں جو یہوواہ اختیار کرتا ہے۔‏ وہ راستبازوں کی حفاظت کرتا ہے لیکن بدکرداروں کو ہلاک کر دے گا۔‏

۱۱:‏۳۱‏—‏صادق کو بدلہ کیوں دیا جاتا ہے؟‏ اس آیت میں لفظ ”‏بدلہ“‏ اُس سزا کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ہر شخص اپنے کاموں کے مطابق پاتا ہے۔‏ شریر جان‌بوجھ کر گُناہ کرتا ہے اور اپنی بُری راہ کو چھوڑنے سے اِنکار کرتا ہے۔‏ اس کے برعکس صادق جب کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اُس کی تنبیہ کی جاتی ہے اور وہ اُسے قبول کرتا ہے۔‏

۱۲:‏۲۳‏—‏ہوشیار آدمی کیوں ”‏علم کو چھپاتا ہے“‏؟‏ اس کا مطلب نہیں کہ وہ اپنے علم کو کبھی ظاہر نہیں کرتا۔‏ اس کی بجائے وہ علم کو سلیقے سے استعمال کرتا ہے اور اپنے علم پر شیخی نہیں مارتا۔‏

۱۸:‏۱۹‏—‏”‏رنجیدہ بھائی کو راضی کرنا محکم شہر لے لینے سے زیادہ مشکل“‏ کیوں ہے؟‏ جیسے گھیرے میں لئے ایک شہر کے باشندے سمجھوتا کرنے سے اِنکار کرتے ہیں اسی طرح کئی لوگ دوسروں کی غلطی کو معاف کرنے سے اِنکار کرتے ہیں۔‏ ایک ایسے شخص کو منانا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا ”‏قلعہ کے بینڈوں“‏ کو توڑنا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱۰:‏۱۱-‏۱۴‏۔‏ حوصلہ‌افزا باتیں کرنے کے لئے ہمیں اپنا ذہن صحیح علم سے بھرنا چاہئے،‏ اپنے دل میں محبت رکھنی چاہئے اور باتیں کرتے وقت حکمت کو عمل میں لانا چاہئے۔‏

۱۰:‏۱۹؛‏ ۱۲:‏۱۸؛‏ ۱۳:‏۳؛‏ ۱۵:‏۲۸؛‏ ۱۷:‏۲۸‏۔‏ سوچ‌سمجھ کر باتیں کریں اور فضول بات نہ کریں۔‏

۱۱:‏۱؛‏ ۱۶:‏۱۱؛‏ ۲۰:‏۱۰،‏ ۲۳‏۔‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم کاروبار چلاتے وقت ہمیشہ دیانت‌داری سے کام لیں۔‏

۱۱:‏۴‏۔‏ اگر ایک شخص دولت جمع کرنے کی خاطر دُعا،‏ بائبل کے مطالعے،‏ اجلاسوں پر حاضر ہونے اور مُنادی کے کام کے سلسلے میں غفلت کرے تو یہ سراسر حماقت ہوتی ہے۔‏

۱۳:‏۴‏۔‏ کلیسیا میں ذمہ‌داریاں اُٹھانے یا خدا کی نئی دُنیا میں جینے کی ”‏آرزو“‏ رکھنا کافی نہیں ہے۔‏ ایسے شرف کے لائق ثابت ہونے کے لئے ہمیں خوب محنت کرنی پڑتی ہے۔‏

۱۳:‏۲۴؛‏ ۲۹:‏۱۵،‏ ۲۱‏۔‏ ایسے والدین جن کو اپنے بچوں سے سچا پیار ہے وہ اُنہیں نہ تو بگاڑتے ہیں اور نہ ہی اُن میں کسی عیب کو نظرانداز کرتے ہیں۔‏ اس سے پہلے کہ بچوں میں کوئی عیب جڑ پکڑے ماں‌باپ اُن کی تنبیہ کرتے ہیں۔‏

۱۴:‏۱۰‏۔‏ کبھی‌کبھار ہم اپنے جذبات کا اظہار کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور دوسرے لوگ اکثر ہمارے چہرے سے ہمارے جذبات کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔‏ ایسی صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ ہمیں دوسروں سے زیادہ تسلی نہ ملے۔‏ بعض اوقات جب ہم کسی مشکل کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں تو یہوواہ ہی ہمارا سہارا بنتا ہے۔‏

۱۵:‏۷‏۔‏ جس طرح ایک کسان تمام بیج ایک ہی جگہ نہیں بوتا بلکہ انہیں پورے کھیت پر بکھیرتا ہے اِسی طرح ہم دوسروں کو ایک دم سے وہ تمام باتیں نہیں بتاتے جو ہم نے سیکھی ہیں۔‏ دانشمند شخص ’‏علم کو پھیلا کر‘‏ لوگوں کے علم کو آہستہ آہستہ بڑھاتا ہے۔‏

۱۵:‏۱۵؛‏ ۱۸:‏۱۴‏۔‏ اگر ہماری توجہ زندگی کی خوشیوں پر ہے تو مشکلات کا سامنا کرتے وقت بھی ہماری خوشی برقرار رہے گی۔‏

۱۷:‏۲۴‏۔‏ احمق اپنی آنکھیں اہم معاملات پر جمائے نہیں رکھتا بلکہ اُس کی توجہ آسانی سے ہٹ جاتی ہے۔‏ اس کے برعکس ہمیں صاحبِ‌فہم بننا چاہئے تاکہ ہم حکمت کو کام میں لا سکیں۔‏

۲۳:‏۶-‏۸‏۔‏ مہمان‌نوازی اگر صرف دکھاوے کے لئے کی جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔‏

۲۷:‏۲۱‏۔‏ ستائش ہمارے دل کی کسوٹی ثابت ہو سکتی ہے۔‏ جب ہم اپنی کسی کامیابی کے لئے یہوواہ ہی کا شکر ادا کرتے اور اُس کی خدمت جاری رکھتے ہیں تو ہم دل کے فروتن ثابت ہوں گے۔‏ لیکن اگر تعریف سننے پر ہم خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگیں تو ظاہر ہو جائے گا کہ ہمارا دل تکبر سے بھرا ہے۔‏

۲۷:‏۲۳-‏۲۷‏۔‏ چرواہے کی زندگی کی تشبیہ دینے سے یہ امثال ظاہر کرتی ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے محنت کرنی چاہئے اور جو ہمارے پاس ہے اس پر مطمئن رہنا چاہئے۔‏ ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ ہمیں اپنا بھروسہ یہوواہ خدا پر رکھنا چاہئے۔‏

۲۸:‏۵‏۔‏ جب ہم بائبل کے مطالعے اور دُعا کے ذریعے ’‏یہوواہ کے طالب‘‏ بنتے ہیں تو ہم وہ ”‏سب کچھ سمجھتے ہیں“‏ جو اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔‏

‏”‏پیغام“‏

‏(‏امثال ۳۰:‏۱–‏۳۱:‏۳۱‏)‏

امثال کی کتاب کے دو آخری ابواب میں دو ”‏پیغام“‏ پائے جاتے ہیں۔‏ (‏امثال ۳۰:‏۱؛‏ ۳۱:‏۱‏)‏ اجور اپنے پیغام میں دلچسپ مشابہتیں استعمال کرتا ہے۔‏ ان کے ذریعے وہ دکھاتا ہے کہ لالچی شخص کبھی سیر نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ ایک ایسا مرد جو جوان عورت کو ورغلانے کی کوشش میں ہوتا ہے کتنی چالاکی سے کام لیتا ہے۔‏ اس کے علاوہ ہمیں اپنی بڑائی کرنے اور قہر کرنے سے خبردار کِیا جاتا ہے۔‏

لموایل اپنے پیغام میں ایسی باتیں بتاتا ہے جو اُس کی ماں نے اُسے سکھائیں۔‏ وہ شراب پینے اور انصاف کرنے کے بارے میں مشورہ پیش کرتا ہے۔‏ پھر وہ ایک اچھی بیوی کی خوبیوں پر بات کرتا ہے۔‏ ایک ایسی بیوی کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ ”‏اُس کی محنت کا اجر اُسے دو اور اُس کے کاموں سے مجلس میں اُس کی ستایش ہو۔‏“‏—‏امثال ۳۱:‏۳۱‏۔‏

حکمت حاصل کریں،‏ تربیت کو قبول کریں،‏ خدا کا خوف رکھیں اور یہوواہ خدا پر بھروسہ کریں۔‏ یہی امثال کی کتاب میں پائے جانے والے چند اہم اسباق ہیں۔‏ آئیں،‏ ہم ان نصیحتوں پر عمل کریں تاکہ ہم اُس آدمی کی طرح خوش ہوں ”‏جو [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱۲:‏۱‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

ہم یہوواہ خدا ہی سے سچائی کا علم حاصل کر سکتے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

‏’‏علم پھیلانے‘‏ کا کیا مطلب ہے؟‏