مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زبان کو لگام دینے سے محبت اور احترام ظاہر کریں

زبان کو لگام دینے سے محبت اور احترام ظاہر کریں

زبان کو لگام دینے سے محبت اور احترام ظاہر کریں

‏”‏تُم میں سے بھی ہر ایک اپنی بیوی سے اپنی مانند محبت رکھے اور بیوی اس بات کا خیال رکھے کہ وہ دل سے اپنے شوہر کا احترام کرے۔‏“‏—‏افسیوں ۵:‏۳۳‏،‏ این ڈبلیو۔‏

۱،‏ ۲.‏ شادی‌شُدہ لوگوں کو خود سے کونسے سوال کرنے چاہئیں اور کیوں؟‏

فرض کریں کہ کوئی شخص آپ کو خوبصورت کاغذ میں لپیٹا ہوا ایک تحفہ پیش کرتا ہے اور ساتھ ساتھ کہتا ہے کہ ”‏یہ بہت قیمتی چیز ہے۔‏“‏ ظاہری بات ہے کہ آپ اس تحفے کی قدر کریں گے اور اس کو سنبھال کر رکھیں گے۔‏ اسی طرح بیاہتا ساتھی یہوواہ خدا کی طرف سے ایک نہایت ہی قیمتی تحفہ ہے۔‏

۲ ایک اچھی بیوی کے بارے میں خدا کے کلام میں کہا گیا ہے کہ ”‏گھر اور مال تو باپ‌دادا سے میراث میں ملتے ہیں لیکن دانشمند بیوی [‏یہوواہ]‏ سے ملتی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۹:‏۱۴‏)‏ یہی بات ایک اچھے شوہر کے بارے میں بھی سچ ہے۔‏ کیا آپ اپنے بیاہتا ساتھی کو یہوواہ خدا کا دیا ہوا ایک قیمتی تحفہ خیال کرتے ہیں؟‏ کیا آپ اس تحفے کی قدر کرتے ہیں؟‏

۳.‏ بیاہتا ساتھیوں کو پولس رسول کی کس تاکید پر عمل کرنا چاہئے؟‏

۳ پولس رسول نے پہلی صدی کے مسیحیوں کی یوں تاکید کی:‏ ”‏تُم میں سے بھی ہر ایک اپنی بیوی سے اپنی مانند محبت رکھے اور بیوی اس بات کا خیال رکھے کہ وہ دل سے اپنے شوہر کا احترام کرے۔‏“‏ (‏افسیوں ۵:‏۳۳‏،‏ این ڈبلیو‏)‏ بیاہتا ساتھی ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہوئے اِس تاکید پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

‏’‏ایک بلا جو کبھی رکتی نہیں‘‏

۴.‏ ہم جس طرح سے اپنی زبان استعمال کرتے ہیں اس سے لوگوں پر کیسا اثر پڑتا ہے؟‏

۴ خدا کے خادم یعقوب نے کہا تھا کہ انسان کی زبان ”‏ایک بلا ہے جو کبھی رکتی ہی نہیں۔‏ [‏وہ]‏ زہرِقاتل سے بھری ہوئی ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۳:‏۸‏)‏ یعقوب جانتا تھا کہ زبان تباہی مچا سکتی ہے۔‏ خدا کے کلام کی ایک کہاوت کے مطابق جو بات سوچےسمجھے بغیر کہی جاتی ہے یہ ’‏تلوار کی طرح چھیدتی ہے۔‏‘‏ لیکن اسی کہاوت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”‏دانشمند کی زبان صحت‌بخش ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۸‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہم اپنی زبان سے یا تو دوسروں کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں یا پھر ان کی ہمت باندھ سکتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں آپ اپنے بیاہتا ساتھی کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں؟‏ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کا بیاہتا ساتھی آپ کی باتوں کو کیسا محسوس کرتا ہے؟‏

۵،‏ ۶.‏ اپنی زبان کو قابو میں رکھنا بعض لوگوں کے لئے مشکل کیوں ہوتا ہے؟‏

۵ اگر آپ اپنے بیاہتا ساتھی سے بدزبانی کرنے کی عادت میں پڑ گئے ہیں تو آپ اس عادت کو توڑ سکتے ہیں۔‏ لیکن یہ آسان نہیں ہے۔‏ ہم سب نے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے جس کی وجہ سے کبھی‌کبھار ہم ایک دوسرے کو بُرابھلا کہہ دیتے ہیں۔‏ یعقوب نے لکھا کہ ”‏کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے۔‏ وہ سارے بدن کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔‏“‏—‏یعقوب ۳:‏۲‏۔‏

۶ اپنی زبان پر قابو پانا کچھ لوگوں کیلئے اسلئے بھی مشکل ہے کیونکہ اُن کے والدین ’‏سنگدل،‏ بےضبط اور تندمزاج‘‏ تھے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۳‏)‏ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے اکثر بڑے ہو کر دوسروں کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں۔‏ البتہ یہ نہ سوچیں کہ اس بہانے ہمیں بدزبانی کرنے کی عادت پر قابو پانے کی ضرورت نہیں۔‏ ہمیں اس پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔‏ اِن باتوں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کئی لوگوں کو اپنی زبان پر قابو پانا اتنا مشکل کیوں لگتا ہے۔‏

‏’‏بدگوئی کو دُور کریں‘‏

۷.‏ جب پطرس نے کہا کہ ’‏ہر طرح کی بدگوئی کو دُور کرو‘‏ تو وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟‏

۷ وجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن جو شخص اپنے بیاہتا ساتھی سے بدزبانی کرتا ہے وہ اُس کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش نہیں آتا۔‏ اس لئے پطرس رسول نے مسیحیوں کی تاکید کی کہ ’‏ہر طرح کی بدگوئی کو دُور کرو۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱‏)‏ اس آیت میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏بدگوئی“‏ سے کِیا گیا ہے یہ دوسروں کو ”‏ذلیل یا بےعزت کرنے“‏ کا مطلب رکھتا ہے۔‏ اس میں دوسرے شخص کو ’‏لفظوں سے بھسم کرنے‘‏ کا خیال پایا جاتا ہے۔‏ واقعی زبان ایک بلا ہو سکتی ہے۔‏

۸،‏ ۹.‏ جب بیاہتا ساتھی ایک دوسرے کی بدگوئی کرتے ہیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟‏ بیاہتا ساتھیوں کو اس عادت پر کیوں قابو پانا چاہئے؟‏

۸ شاید آپ سوچیں کہ شادی‌شُدہ لوگ کبھی‌کبھار ایک دوسرے سے بدگوئی کر ہی دیتے ہیں۔‏ اس میں بُری بات کیا ہے؟‏ لیکن غور کریں کہ اکثر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔‏ اگر آپ اپنے بیاہتا ساتھی پر بےوقوف،‏ سُست یا خودغرض ہونے کا الزام لگائیں گے تو آپ اسے اس کمزوری ہی کی روشنی میں دیکھنے لگیں گے۔‏ اس کے علاوہ کئی لوگ بات کا بتنگڑ بنا کر اپنے بیاہتا ساتھی کی کمزوریوں کی نکتہ‌چینی کرتے رہتے ہیں۔‏ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ”‏آپ ہمیشہ دیر سے گھر آتے ہیں“‏ یا ”‏آپ کبھی میری بات نہیں سنتیں۔‏“‏ لیکن خود سے پوچھیں کہ کیا یہ واقعی سچ ہے؟‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کا بیاہتا ساتھی ایسی باتوں کو بُرا مان لے اور آپ دونوں ایک دوسرے پر برس پڑیں۔‏—‏یعقوب ۳:‏۵‏۔‏

۹ جب بیاہتا ساتھی ایک دوسرے کو ذلیل کرتے ہیں تو بِلاشُبہ اُن کے بندھن پر بُرا اثر پڑتا ہے۔‏ امثال ۲۵:‏۲۴ میں لکھا ہے کہ ”‏گھر کی چھت پر ایک کونے میں رہنا جھگڑالو بیوی کے ساتھ کشادہ مکان میں رہنے سے بہتر ہے۔‏“‏ اور یہی بات ایک جھگڑالو شوہر کے بارے میں بھی سچ ہے۔‏ اگر بدگوئی کرنے کی عادت پر قابو نہیں پایا جاتا تو یہ شادی کے بندھن کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کا بیاہتا ساتھی یہ سوچنے لگے کہ آپ اس سے محبت نہیں کرتے یا پھر یہ کہ وہ آپ کی محبت کے لائق ہی نہیں رہا۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زبان کو قابو میں رکھنا بہت اہم ہے۔‏ لیکن ایسا کرنے میں ہم کیسے کامیاب رہ سکتے ہیں؟‏

‏’‏اپنی زبان کو لگام دیں‘‏

۱۰.‏ زبان کو لگام دینا اہم کیوں ہے؟‏

۱۰ یعقوب ۳:‏۸ میں لکھا ہے کہ ”‏زبان کو کوئی آدمی قابو میں نہیں کر سکتا۔‏“‏ اس کے باوجود ہمیں اپنی زبان کو لگام دینے کی کوشش کرنی چاہئے بالکل اس طرح جیسے ایک شخص ایک گھوڑے کے مُنہ میں لگام دے کر اُس پر قابو پا لیتا ہے۔‏ ایسا کرنے کی اہمیت ہم اس آیت سے دیکھ سکتے ہیں:‏ ”‏اگر کوئی اپنے آپ کو دیندار سمجھے اور اپنی زبان کو لگام نہ دے بلکہ اپنے دل کو دھوکا دے تو اُس کی دینداری باطل ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۶؛‏ ۳:‏۲،‏ ۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ اگر ہم اپنی زبان کو لگام نہیں دیں گے تو اس کا نہ صرف ہماری شادی پر بُرا اثر پڑے گا بلکہ یہوواہ خدا بھی ہم سے دُور ہو جائے گا۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۷‏۔‏

۱۱.‏ بیاہتا ساتھی جھگڑا پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کو ختم کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ اس بات پر غور کرنا دانشمندی کی بات ہے کہ آپ اپنے بیاہتا ساتھی سے کس لہجے میں بات کرتے ہیں۔‏ اگر آپ دونوں میں جھگڑا پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو اسے ختم کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔‏ اس سلسلے میں اس واقعے پر غور کریں جو اضحاق اور ربقہ کے ساتھ ہوا تھا۔‏ پیدایش ۲۷:‏۴۶–‏۲۸:‏۴ میں ہم پڑھتے ہیں کہ ”‏ربقہؔ نے اِضحاؔق سے کہا مَیں حتی لڑکیوں کے سبب سے اپنی زندگی سے تنگ ہوں۔‏ سو اگر یعقوؔب حتی لڑکیوں میں سے جیسی اِس مُلک کی لڑکیاں ہیں کسی سے بیاہ کر لے تو میری زندگی میں کیا لطف رہے گا؟‏“‏ کیا اِضحاق نے اپنی بیوی ربقہ کی اس بات پر اُسے جھڑکا؟‏ جی‌نہیں،‏ بلکہ اُس نے اپنے بیٹے یعقوب کو ایک ایسی بیوی تلاش کرنے کے لئے اپنے رشتہ‌داروں کے پاس بھیج دیا جس سے ربقہ خوش ہوتی۔‏ فرض کریں کہ آپ دونوں کسی بات پر بحث کرنے لگتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں آپ اپنے بیاہتا ساتھی پر الزام لگانے کی بجائے اصلی مسئلے پر بات کریں۔‏ مثال کے طور پر یہ کہنے کی بجائے کہ ”‏میرے لئے تو آپ وقت ہی نہیں نکالتے“‏ کیا یہ کہنا بہتر نہیں:‏ ”‏کتنا اچھا ہوتا اگر ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتے“‏؟‏ ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے ملکر مسئلے کا حل تلاش کریں اور اِس بات کی کھوج نہ لگائیں کہ غلطی کس کی ہے۔‏ ”‏ان باتوں کے طالب رہیں جن سے میل‌ملاپ اور باہمی ترقی ہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۴:‏۱۹‏۔‏

‏’‏تلخ‌مزاجی،‏ قہر اور غصہ‘‏ کو دُور کریں

۱۲.‏ زبان کو لگام دینے کے سلسلے میں ہمیں کیا دُعا کرنی چاہئے اور کیوں؟‏

۱۲ صرف زبان پر قابو پانے سے ہی بات نہیں بنتی۔‏ ہمارے الفاظ تو اُن باتوں کا عکس ہوتے ہیں جو ہمارے دل میں چھپی ہیں۔‏ اس سلسلے میں یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏اچھا آدمی اپنے دل کے اچھے خزانہ سے اچھی چیزیں نکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے خزانہ سے بُری چیزیں نکالتا ہے کیونکہ جو دل میں بھرا ہے وہی اُس کے مُنہ پر آتا ہے۔‏“‏ (‏لوقا ۶:‏۴۵‏)‏ لہٰذا ہمیں ایسے دُعا کرنی چاہئے جیسے داؤد نے کی تھی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اَے خدا!‏ میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں ازسرِنو مستقیم روح ڈال۔‏“‏—‏زبور ۵۱:‏۱۰‏۔‏

۱۳.‏ تلخ‌مزاجی،‏ قہر اور غصے کا بدزبانی کرنے سے کیا تعلق ہے؟‏

۱۳ پولس رسول نے افسس کے مسیحیوں کو تاکید کی کہ اُنہیں صرف بدزبانی کرنے کی عادت پر ہی قابو نہیں پانا چاہئے بلکہ اُن خیالات پر بھی قابو پانا چاہئے جن کے نتیجے میں وہ بدزبانی کرنے پر اُتر آتے ہیں۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تُم سے دُور کی جائیں۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۳۱‏)‏ اس آیت میں ”‏شوروغل اور بدگوئی“‏ کا ذکر کرنے سے پہلے پولس رسول نے ”‏تلخ‌مزاجی اور قہر اور غصہ“‏ کا ذکر کِیا ہے۔‏ انسان تب ہی بدزبانی کرتا ہے جب وہ اپنے اندر کھولتے ہوئے غصے پر قابو نہیں پاتا۔‏ اس لئے ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ کیا مَیں تلخ‌مزاج اور غصیلا ہوں؟‏ کیا مَیں ایک ”‏غضبناک“‏ یعنی غصہ میں بھرا ہوا شخص ہوں؟‏ (‏امثال ۲۹:‏۲۲‏)‏ اگر آپ کو غصہ کرنے کی عادت ہے تو خدا سے دُعا کریں کہ وہ اس عادت پر قابو پانے میں آپ کی مدد کرے۔‏ زبور ۴:‏۴ میں لکھا ہے کہ جب ہم غصہ میں تھرتھرا رہے ہوں تب بھی ہمیں گُناہ نہیں کرنا چاہئے۔‏ اس کی بجائے ہمیں ’‏اپنے اپنے بستر پر دل میں سوچنا اور خاموش رہنا چاہئے۔‏‘‏ اپنے بیاہتا ساتھی سے بات کرتے وقت اگر آپ کو غصہ آنے لگے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ اس سے پہلے کہ آپ بےقابو ہو جائیں آپ امثال ۱۷:‏۱۴ میں دی گئی اس ہدایت پر عمل کر سکتے ہیں:‏ ”‏جھگڑا برپا کرنے سے پیشتر باز آ۔‏“‏ (‏کیتھولک ترجمہ‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ آپ کچھ دیر تک وہاں سے چلے جائیں اور پھر ٹھنڈا ہو کر دوبارہ سے اپنے بیاہتا ساتھی سے بات کریں۔‏

۱۴.‏ تلخ‌مزاجی سے شادی پر کیسا اثر پڑ سکتا ہے؟‏

۱۴ پولس رسول نے لفظ ”‏تلخ‌مزاجی“‏ کے لئے جو یونانی لفظ استعمال کِیا ہے اس کا مطلب ”‏صلح کرنے پر راضی نہ ہونا“‏ یا ”‏غلطیوں کا حساب رکھ کر دوسرے کو حقیر جاننا“‏ ہے۔‏ ایک تلخ‌مزاج شخص کے لئے اپنے غصے پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا۔‏ کبھی‌کبھار میاں بیوی کسی بات پر ایک دوسرے سے خفا ہو جاتے ہیں اور یہ خفگی اُن کے بیچ میں ایک کالی گھٹا کی طرح دیر تک طاری رہتی ہے۔‏ اگر ایک مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کِیا جائے تو بیاہتا ساتھی اکثر ایک دوسرے کو حقیر جاننے لگتے ہیں۔‏ لیکن ہمیں اپنے بیاہتا ساتھی کے ساتھ اُس کی کسی غلطی کی وجہ سے خفا نہیں رہنا چاہئے۔‏ جو ہوا سو ہوا۔‏ اپنے بیاہتا ساتھی کو معاف کرکے اُس کی غلطی کو بھول جائیں۔‏ یاد رکھیں کہ محبت ”‏بدگمانی نہیں کرتی“‏ یعنی جو شخص محبت کرتا ہے وہ دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر اُس کی غلطیوں کو یاد نہیں رکھتا۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۴،‏ ۵‏۔‏

۱۵.‏ گالی‌گلوچ کرنے کی عادت پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟‏

۱۵ کیا آپ نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے جہاں گالی‌گلوچ کرنا روز کا معمول تھا اور آپ کو بھی یہ عادت لگ گئی ہے؟‏ جب آپ یہوواہ کے گواہ بنے تو آپ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لائے تھے۔‏ لہٰذا آپ اِس بُری عادت پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔‏ افسیوں ۴:‏۲۹ میں دی گئی ہدایت پر عمل کریں جہاں لکھا ہے کہ ”‏کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے۔‏“‏ ایسا کرنے کے لئے آپ کو ”‏پُرانی انسانیت کو اُس کے کاموں سمیت اُتار“‏ کر اُس ’‏نئی انسانیت کو پہن لینا چاہئے جو معرفت حاصل کرنے کے لئے اپنے خالق کی صورت پر نئی بنتی جاتی ہے۔‏‘‏—‏کلسیوں ۳:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

‏”‏صلاح“‏ کرنے کی اہمیت

۱۶.‏ دیر تک ایک دوسرے سے بات نہ کرنے سے شادی کے بندھن پر کیسا اثر پڑتا ہے؟‏

۱۶ بعض بیاہتا ساتھی ایک دوسرے سے بات کرنا بند کر دیتے ہیں۔‏ اکثر وہ اپنے ساتھی سے بدلہ لینے کے لئے یا پھر اُس سے بیزار ہو کر ایسا کرتے ہیں۔‏ وجہ چاہے کچھ بھی ہو جب بیاہتا ساتھی ایک دوسرے سے بات کرنا بند کر دیتے ہیں تو اس سے اُن کے مسئلے حل نہیں ہوتے اور یہ اُن کے بندھن کے لئے نقصاندہ بھی ہو سکتا ہے۔‏ ایک بیوی نے اس سلسلے میں کہا کہ جب وہ اپنے میاں کے ساتھ کسی مسئلے پر جھگڑتی ہے تو وہ دیر تک ایک دوسرے سے خفا رہتے ہیں۔‏ وہ کہتی ہے:‏ ”‏پھر جب ہم ایک دوسرے سے دوبارہ سے بات کرنے لگتے ہیں تو ہم اُس مسئلے کا ذکر تک نہیں کرتے۔‏“‏ اس طرح وہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوتا۔‏

۱۷.‏ اگر بیاہتا ساتھی میں لڑائی جھگڑا رہتا ہے تو اُنہیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۷ اگر بیاہتا ساتھیوں میں لڑائی جھگڑا رہتا ہے تو اُنہیں امثال ۱۵:‏۲۲ میں دی گئی ہدایت پر عمل کرنا چاہئے جہاں لکھا ہے:‏ ”‏صلاح کے بغیر ارادے پورے نہیں ہوتے پر صلاحکاروں کی کثرت سے قیام پاتے ہیں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ آپ دونوں کو اپنے مسئلے پر تفصیلی بات‌چیت کرنی چاہئے۔‏ ایسا کرتے وقت اپنے بیاہتا ساتھی کے احساسات اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‏ اگر یہ آپ کو مشکل لگتا ہے تو کلیسیا کے بزرگوں سے مدد طلب کریں۔‏ وہ خدا کے کلام کی سمجھ رکھتے ہیں اور آپ کو اس میں سے ایسے اصول دکھا سکتے ہیں جو آپ کے مسئلے پر لاگو ہوتے ہیں۔‏ واقعی،‏ کلیسیا کے بزرگ ”‏طوفان سے چھپنے کی جگہ“‏ اور ”‏آندھی سے پناہ‌گاہ کی مانند“‏ ہوتے ہیں۔‏—‏یسعیاہ ۳۲:‏۲‏۔‏

آپ اپنی زبان پر قابو پا سکتے ہیں

۱۸.‏ رومیوں ۷:‏۱۸-‏۲۳ میں کس کشمکش کا ذکر ہوا ہے؟‏

۱۸ اپنی زبان کو لگام دینا اور اچھی روش اختیار کرنا کسی کے لئے آسان نہیں۔‏ یہ ہمارے لئے ایک ایسی کشمکش کی طرح ہے جو مسلسل جاری رہتی ہے۔‏ اس کشمکش کے بارے میں پولس رسول نے یوں لکھا:‏ ”‏مَیں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ ارادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔‏ چُنانچہ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں۔‏ پس اگر مَیں وہ کرتا ہوں جس کا ارادہ نہیں کرتا تو اُس کا کرنے والا مَیں نہ رہا بلکہ گُناہ ہے جو مجھ میں بسا ہوا ہے۔‏“‏ ہمارے اعضا میں ”‏گُناہ کی شریعت“‏ موجود ہے جو ہمیں بدزبانی اور بُرے کام کرنے پر اُکساتی ہے۔‏ (‏رومیوں ۷:‏۱۸-‏۲۳‏)‏ اس کے باوجود ہم خدا کی مدد سے اس کشمکش پر غالب آ سکتے ہیں۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ زبان کو لگام دینے کے سلسلے میں بیاہتا ساتھی یسوع مسیح کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۹ بیاہتا ساتھیوں کا بندھن محبت اور احترام کا بندھن ہے۔‏ ایسے بندھن میں بدزبانی نہیں ہونی چاہئے۔‏ اس سلسلے میں یسوع مسیح کی مثال پر غور کریں۔‏ اُس نے اپنے شاگردوں کو کبھی ذلیل نہ کِیا۔‏ یسوع کی موت سے پہلے جب اُس کے شاگرد اس بات پر جھگڑنے لگے کہ اُن میں سے بڑا کون ہے تو تب بھی یسوع نے اُنہیں نہیں ڈانٹا۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۲۴-‏۲۷‏)‏ خدا کے کلام میں شوہروں سے یہ تاکید کی گئی ہے:‏ ”‏اَے شوہرو!‏ اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپ کو اُس کے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔‏“‏—‏افسیوں ۵:‏۲۵‏۔‏

۲۰ اسی طرح خدا کے کلام میں بیویوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ”‏وہ دل سے اپنے شوہر کا احترام“‏ کریں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۳۳‏،‏ این ڈبلیو‏)‏ ایک ایسی بیوی جو اپنے شوہر کا احترام کرتی ہے وہ اُس سے بدزبانی نہیں کرے گی اور نہ ہی اُس سے چیخ‌چیخ کر بات کرے گی۔‏ پولس رسول نے کہا کہ ”‏مَیں تمہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہر مرد کا سر مسیح اور عورت کا سر مرد اور مسیح کا سر خدا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳‏)‏ بیویوں کو بالکل اس طرح اپنے شوہر کے تابع رہنا چاہئے جیسے مسیح خدا کے تابع رہتا ہے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۸‏)‏ یہ بات سچ ہے کہ خطاکار ہونے کی وجہ سے ہم میں سے کوئی مکمل طور پر یسوع کی مثال پر عمل نہیں کر پائے گا۔‏ لیکن ”‏اُس کے نقشِ‌قدم پر چلنے“‏ سے بیاہتا ساتھی اپنی زبان کو لگام دینے میں کامیاب ضرور رہیں گے۔‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏۔‏

آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• شادی کے بندھن میں زبان کیسے تباہی مچا سکتی ہے؟‏

‏• ہمیں اپنی زبان کو لگام دینا اتنا مشکل کیوں لگتا ہے؟‏

‏• اپنی زبان کو لگام دینے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

‏• جب شادی میں مسئلے کھڑے ہوتے ہیں تو بیاہتا ساتھیوں کو کیا کرنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

کلیسیا کے بزرگ خدا کا کلام استعمال کرتے ہوئے بیاہتا ساتھیوں کی مدد کر سکتے ہیں