مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا خدا کے کلام کی پیشینگوئیاں پوری ہوتی ہیں؟‏

کیا خدا کے کلام کی پیشینگوئیاں پوری ہوتی ہیں؟‏

کیا خدا کے کلام کی پیشینگوئیاں پوری ہوتی ہیں؟‏

یہوواہ خدا مستقبل میں ہونے والے واقعات کے بارے میں جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں خدا ہوں اور کوئی دوسرا نہیں۔‏ مَیں خدا ہوں اور مجھ سا کوئی نہیں۔‏ جو ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہوں اور ایّامِ‌قدیم سے وہ باتیں جو اب تک وقوع میں نہیں آئیں بتاتا ہوں۔‏“‏—‏یسعیاہ ۴۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

انسان مستقبل کے بارے میں سچی پیشینگوئیاں کرنے میں ناکام رہے ہیں۔‏ بائبل میں بہت سی پیشینگوئیاں درج ہیں۔‏ بلاشُبہ ایسے لوگ جو سچائی جاننا چاہتے ہیں وہ اِن پیشینگوئیوں سے یہ بات دریافت کر سکتے ہیں کہ آیا بائبل واقعی خدا کے الہام سے ہے یا نہیں۔‏ آئیں ہم بائبل میں درج کچھ ایسی پیشینگوئیوں پر غور کرتے ہیں جو پوری ہو چکی ہیں۔‏

قدیم قوموں کے بارے میں پیشینگوئیاں

بائبل میں خدا نے یہ پیشینگوئی درج کرائی تھی کہ شہر بابل کو ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا جائے گا اور یہ بھی کہ ادوم،‏ موآب اور عمون کی قومیں ہمیشہ کے لئے برباد ہو جائیں گی۔‏ (‏یرمیاہ ۴۸:‏۴۲؛‏ ۴۹:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ ۵۱:‏۲۴-‏۲۶؛‏ عبدیاہ ۸،‏ ۱۸؛‏ صفنیاہ ۲:‏۸،‏ ۹‏)‏ آج اِن قوموں کا نام‌ونشان تک مٹ گیا ہے۔‏ اِس بات سے خدا کے کلام کی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے۔‏

شاید کچھ لوگ اعتراض کریں کہ چاہے ایک ملک یا قوم کتنی ہی عظیم اور طاقت‌ور کیوں نہ ہو اُس کا ہمیشہ کے لئے تباہ ہو جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے،‏ اِس بات کی پیشینگوئی تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔‏ لیکن خدا کے کلام میں درج پیشینگوئیوں میں واقعات کی تفصیل بتائی جاتی ہے۔‏ مثال کے طور پر پاک صحائف میں اِن واقعات سے پہلے ہی یہ تفصیل بتائی گئی تھی کہ شہر بابل پر کس طرح قبضہ کِیا جائے گا۔‏ اس کے علاوہ یہ بات بھی بتائی گئی تھی کہ مادیوں کی فوج اِس شہر پر فتح حاصل کرے گی،‏ خورس نامی سپہ‌سالار شہر پر حملہ کرے گا اور اُس کے سپاہی دریا کا پانی سُکھا کر شہر تک پہنچیں گے اور اِس پر حملہ کریں گے۔‏—‏یسعیاہ ۱۳:‏۱۷-‏۱۹؛‏ ۴۴:‏۲۷–‏۴۵:‏۱‏۔‏

پاک صحائف میں جن قوموں کی شکست کے بارے میں پیشینگوئی کی گئی تھی اِن میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ اُس کو ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا جائے گا۔‏ مثال کے طور پر یہوواہ خدا نے یہ پیشینگوئی درج کرائی تھی کہ بابلی فوج یروشلیم کو تباہ کرکے اسرائیلیوں کو اسیر کر دے گی۔‏ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیلی قوم شہر یروشلیم کو پھر سے آباد کرے گی۔‏ (‏یرمیاہ ۲۴:‏۴-‏۷؛‏ ۲۹:‏۱۰؛‏ ۳۰:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ حالانکہ بابلیوں میں اسیر کئے ہوئے لوگوں کو رہا کرنے کا دستور نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ پیشینگوئی پوری ہوئی،‏ یہاں تک کہ یہودی قوم آج تک موجود ہے۔‏

خدا نے اپنے کلام میں بتایا تھا کہ مصر کو ایک عالمی طاقت کے طور پر اُلٹ دیا جائے گا لیکن بعد میں وہ ”‏پھر آباد ہوگا جس طرح گزشتہ ایّام میں تھا۔‏“‏ البتہ مصر ایک ”‏حقیر مملکت“‏ بن کر رہ جائےگا۔‏ (‏یرمیاہ ۴۶:‏۲۵،‏ ۲۶‏،‏ کیتھولک ترجمہ؛‏ حزقی‌ایل ۲۹:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ یہ بات بھی سچ ثابت ہوئی۔‏ اِس کے علاوہ خدا نے یہ پیشینگوئی بھی درج کرائی تھی کہ یونان ایک عالمی طاقت کے طور پر اُلٹ دیا جائے گا لیکن خدا نے یہ نہیں کہا تھا کہ یونانی قوم ختم ہو جائے گی۔‏ جب بھی خدا کے کلام میں پیشینگوئی کی گئی کہ ایک قوم کا وجود ختم ہو جائے گا تو ایسا ہی ہوا اور جب بھی اِس بات کی پیشینگوئی نہیں کی گئی تو اُس قوم کا وجود رہا۔‏ اِس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ یہی کہ خدا کے کلام میں درج پیشینگوئیاں سچی ہیں۔‏

تفصیلی پیشینگوئیاں

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے یہوواہ خدا نے شہر بابل کی تباہی سے پہلے ہی تفصیل سے بتایا تھا کہ یہ کیسے واقع ہوگی۔‏ اسی طرح بائبل میں شہر صور کی تباہی کے بارے میں بھی تفصیلی پیشینگوئی کی گئی تھی۔‏ اِس شہر کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اُس کے پتھر،‏ لکڑی اور مٹی ”‏سمندر میں“‏ ڈال دئے جائیں گے۔‏ (‏حزقی‌ایل ۲۶:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۲‏)‏ یہ پیشینگوئی ۳۳۲ قبلِ‌مسیح میں پوری ہوئی تھی جب سکندرِاعظم کی فوج نے شہر صور کے اس حصے پر فتح حاصل کر لی جو جزیرے پر واقع تھا۔‏ ایسا کرنے کے لئے اُس نے ساحل پر واقع شہر صور کے کھنڈرات کو سمندر میں ڈال کر ایک شاہراہ بنائی۔‏ اِس شاہراہ کے ذریعے اُس کی فوج شہر صور کے جزیرے تک پہنچ سکی۔‏

خدا کے کلام میں،‏ دانی‌ایل ۸:‏۵-‏۸،‏ ۲۱،‏ ۲۲ اور ۱۱:‏۳،‏ ۴ میں ’‏یونان کے بادشاہ‘‏ کے بارے میں بڑی تفصیلی پیشینگوئی کی گئی ہے۔‏ اس بادشاہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت عظیم ہوگا اور اپنے عروج پر پہنچتے ہی موت کا شکار ہو جائے گا۔‏ پھر اُس کی سلطنت ۴ اشخاص میں تقسیم ہو جائے گی لیکن یہ اُس کی اولاد میں سے نہیں ہوں گے۔‏ اِس پیشینگوئی کو لکھے جانے کے ۲۰۰ سال بعد سکندرِاعظم وہ بادشاہ ثابت ہوا جس کے بارے میں یہ تفصیل بتائی گئی تھی۔‏ تاریخ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے عروج پر پہنچتے ہی فوت ہوا اور اُس کی سلطنت اُس کی اولاد میں نہیں بلکہ اُس کے چار جنرلوں میں تقسیم ہو گئی۔‏

کچھ لوگوں نے دعویٰ کِیا ہے کہ اِس پیشینگوئی کو اِس واقعے کے بعد درج کِیا گیا تھا۔‏ لیکن ذرا پھر سے دانی‌ایل ۸:‏۵-‏۸،‏ ۲۱،‏ ۲۲ اور ۱۱:‏۳،‏ ۴ پر غور کریں۔‏ اگر ہم اِن واقعات کو ایک پیشینگوئی کے طور پر خیال کرتے ہیں تو اِس میں بہت زیادہ تفصیلات پائی جاتی ہیں۔‏ لیکن اگر اِس پیشینگوئی کو واقعات کے بعد درج کِیا گیا تھا تو کیا ایسا نہیں لگتا کہ اِس میں تفصیلات کی کمی ہے؟‏ اگر ایک شخص نے پڑھنے والوں کو متاثر کرنے کے لئے سکندرِاعظم کی موت کے بعد اِن واقعات کو پیشینگوئی کے طور پر درج کِیا ہوتا تو کیا وہ زیادہ تفصیلیں نہیں دیتا؟‏ مثال کے طور پر کیا وہ یہ نہ بیان کرتا کہ سکندرِاعظم کے دونوں بیٹوں نے اپنی سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہیں قتل کر دیا گیا؟‏ یا کیا وہ یہ نہیں بتاتا کہ سکندرِاعظم کے چار جنرلوں نے اُس کے مرنے کے کئی سال بعد ہی اپنی حکومتیں قائم کیں؟‏ اور اگر اُس شخص نے واقعات کے بعد ہی سب کچھ درج کِیا تھا تو اُس نے عظیم بادشاہ اور اُس کے چار جنرلوں کے نام کیوں نہیں بتائے تھے؟‏

ایسے لوگ جو کہتے ہیں کہ بائبل میں درج پیشینگوئیاں،‏ واقعات کے بعد لکھی گئی ہیں وہ اپنی اِس بات کا ثبوت نہیں پیش کر سکتے ہیں۔‏ وہ یہ دعویٰ اِس لئے کرتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال میں مستقبل کے بارے میں پیشینگوئی کرنا ناممکن ہے اور وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ بائبل خدا کے الہام سے ہے۔‏ لیکن پیشینگوئیوں میں پائی جانے والی تفصیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا ہی بائبل کا مصنف ہے۔‏ *

خدا کے کلام میں درج پیشینگوئیوں اور اُنکی تکمیل پر غور کرنے سے آپکا ایمان زیادہ مضبوط ہو جائیگا۔‏ ایسا کرنے کیلئے کیوں نہ آپ کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں * کے صفحہ ۲۰۰ پر دی گئی پیشینگوئیوں کی فہرست پر غور کریں۔‏ اگر آپ اِس سے پورا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مواد کو سرسری طور پر نہ پڑھیں بلکہ اِس پر سوچ‌بچار کریں۔‏ اسطرح آپ جان جائینگے کہ جب خدا کسی بات کی پیشینگوئی درج کراتا ہے تو یہ ضرور تکمیل پاتی ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 13 اِس بات کے ثبوت کے لئے کہ بائبل میں درج پیشینگوئیاں واقعات کے بعد نہیں لکھی گئی تھیں،‏ کتاب دانی‌ایل کی نبوّت پر دھیان دیں!‏ کے صفحہ ۱۳-‏۲۹ کو دیکھیں۔‏ یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔‏

^ پیراگراف 14 یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر بکس/‏تصویر]‏

خوشی کا باعث بننے والے اصول

خدا کے کلام میں مختلف سلطنتوں کے وجود میں آنے یا پھر تباہ ہونے کے بارے میں ہی نہیں بتایا گیا ہے بلکہ اِس میں بہت سے ایسے اصول بھی دئے گئے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہماری زندگی میں بہتری آ سکتی ہے۔‏ اِن میں سے کچھ یہ ہیں:‏

انسان جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا۔‏‏—‏گلتیوں ۶:‏۷‏۔‏

دینا لینے سے مبارک ہے۔‏‏—‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏۔‏

خوشی اُن کو ملتی ہے جو اپنی روحانی ضروریات پوری کرتے ہیں۔‏‏—‏متی ۵:‏۳‏۔‏

اگر آپ اِن اصولوں کے مطابق چلیں گے تو یہ آپ کے لئے خوشی اور کامیابی کا باعث ہوں گے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲،‏ ۲۳ پر تصویر]‏

خدا کے کلام میں اِن قوموں کی تباہی کی پیشینگوئی کی گئی تھی .‏ .‏ .‏

ادوم

بابل

‏.‏ .‏ .‏ لیکن خدا کے کلام کے مطابق اِن قوموں کو تباہ نہیں ہونا تھا

یونان

مصر

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

‏.Pictorial Archive )‎Near Eastern History‎(Est

WHO photo by Edouard Boubat

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

سکندرِاعظم