مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہمیں دوسروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟‏

ہمیں دوسروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟‏

ہمیں دوسروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟‏

‏”‏جیسا تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تُم بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرو۔‏“‏—‏لو ۶:‏۳۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ پہاڑی وعظ کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس اور اگلے مضمون میں ہم کس بارے میں بات‌چیت کریں گے؟‏

یسوع مسیح واقعی ایک عظیم اُستاد تھا۔‏ جب یسوع کی مخالفت کرنے والے مذہبی پیشواؤں نے اُسے گرفتار کرنے کے لئے سپاہی بھیجے تو وہ خالی ہاتھ واپس آ گئے اور کہنے لگے:‏ ”‏انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کِیا۔‏“‏ (‏یوح ۷:‏۳۲،‏ ۴۵،‏ ۴۶‏)‏ یسوع مسیح کی شاندار تقاریر میں سے ایک اُس کا پہاڑی وعظ تھا جو متی کی انجیل کے ۵ سے ۷ باب میں درج ہے۔‏ اِس سے ملتی‌جلتی معلومات لوقا ۶:‏۲۰-‏۴۹ آیات میں درج ہیں۔‏ *

۲ اِس وعظ میں سب سے مشہور بیان شاید وہی ہے جسے سنہری اصول کہا جاتا ہے۔‏ اِس اصول کا تعلق دوسروں کے ساتھ ہمارے برتاؤ سے ہے۔‏ یسوع مسیح نے فرمایا:‏ ”‏جیسا تُم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تُم بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرو۔‏“‏ (‏لو ۶:‏۳۱‏)‏ یسوع مسیح نے خود بھی لوگوں کے لئے بہت سے اچھے کام کئے تھے۔‏ اُس نے بیماروں کو شفا دی اور مُردوں کو زندہ کِیا۔‏ اِس کے علاوہ،‏ اُس نے لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری بھی سنائی۔‏ اِس خوشخبری کو قبول کرنے والے لوگوں کو حقیقی خوشی حاصل ہوئی۔‏ (‏لوقا ۷:‏۲۰-‏۲۲ کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ کے گواہوں کے طور پر،‏ خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرنے سے ہمیں بھی خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اِس اور اگلے مضمون میں ہم خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرنے کے بارے میں یسوع مسیح کے بیانات پر غور کریں گے۔‏ اِس کے علاوہ،‏ ہم دوسروں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں پہاڑی وعظ کے دیگر نکات پر بھی بات‌چیت کریں گے۔‏

حلیم ہوں

۳.‏ حلیم ہونے سے کیا مراد ہے؟‏

۳ یسوع مسیح نے فرمایا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۵‏)‏ پاک صحائف کے مطابق،‏ حلیم ہونا کوئی کمزوری نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی خوبی ہے جسے ظاہر کرنے سے ہم خدا کے احکام پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ ہم انسانوں کے ساتھ پیش آتے وقت بھی حلم کی خوبی ظاہر کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہم ”‏بدی کے عوض کسی سے بدی“‏ نہیں کرتے ہیں۔‏—‏روم ۱۲:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

۴.‏ حلیم لوگ مبارک کیوں ہیں؟‏

۴ حلیم لوگ اِس لئے مبارک ہیں کیونکہ وہ ”‏زمین کے وارث ہوں گے۔‏“‏ یسوع مسیح جوکہ ’‏حلیم اور دل کا فروتن‘‏ تھا اُسے خدا نے ”‏سب چیزوں کا وارث ٹھہرایا“‏ ہے۔‏ لہٰذا،‏ اُس نے زمین کو بھی ورثے میں پایا ہے۔‏ (‏متی ۱۱:‏۲۹؛‏ عبر ۱:‏۲؛‏ زبور ۲:‏۸‏)‏ اِس بات کی پیشینگوئی کی گئی تھی کہ خدا کی آسمانی بادشاہت میں مسیحا جسے ”‏آدمزاد“‏ کہا گیا ہے،‏ اُس کے ساتھ اَور لوگ بھی حکمرانی کریں گے۔‏ (‏دان ۷:‏۱۳،‏ ۱۴،‏ ۲۱،‏ ۲۲،‏ ۲۷‏)‏ یہ لوگ ”‏مسیح کے ہم‌میراث“‏ ہیں اور اِن کی تعداد ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ ہے۔‏ یہ ممسوح مسیحی بھی حلیم ہیں اور یسوع مسیح کے ساتھ زمین کے وارث ٹھہرتے ہیں۔‏ (‏روم ۸:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ مکا ۱۴:‏۱‏)‏ اِس کے علاوہ،‏ دیگر حلیم اشخاص خدا کی بادشاہت کے تحت زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے۔‏—‏زبور ۳۷:‏۱۱‏۔‏

۵.‏ یسوع مسیح کی طرح حلیم بننے سے دوسروں کے ساتھ ہمارے برتاؤ پر کیسا اثر پڑتا ہے؟‏

۵ اگر ہم دوسروں کے ساتھ تلخی سے پیش آتے ہیں تو شاید وہ ہم سے رفاقت رکھنا پسند نہ کریں اور ہم سے دُور رہیں۔‏ تاہم،‏ جب ہم یسوع مسیح کی طرح دوسروں کے ساتھ حلیمی سے پیش آتے ہیں تو ہم کلیسیا میں خوشی کو فروغ دیتے اور بہن‌بھائیوں کی روحانی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔‏ حلم خدا کی رُوح کا پھل ہے۔‏ اگر ہم ’‏رُوح کے موافق زندہ رہتے اور چلتے‘‏ ہیں تو ہم اِس خوبی کو اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲-‏۲۵ کو پڑھیں۔‏)‏ یقیناً ہم اُن حلیم لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو یہوواہ خدا کی رُوح سے راہنمائی پاتے ہیں۔‏

رحمدل لوگ مبارک ہیں

۶.‏ رحمدل لوگوں میں کونسی خوبیاں پائی جاتی ہیں؟‏

۶ یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں یہ بھی فرمایا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو رحمدل ہیں کیونکہ اُن پر رحم کِیا جائے گا۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۷‏)‏ ”‏رحمدل“‏ لوگ ضرورت‌مندوں کے لئے ہمدردی،‏ مہربانی اور ترس ظاہر کرتے ہیں۔‏ یسوع مسیح کو بھی لوگوں پر ”‏ترس آیا“‏ اِس لئے اُس نے اُن کی تکلیف کو ختم کر دیا۔‏ (‏متی ۱۴:‏۱۴؛‏ ۲۰:‏۳۴‏)‏ پس اگر ہم لوگوں کے لئے ترس اور ہمدردی محسوس کرتے ہیں تو ہمیں اُن کے ساتھ رحمدلی سے پیش آنا چاہئے۔‏—‏یعقو ۲:‏۱۳‏۔‏

۷.‏ جب یسوع کو لوگوں پر ترس آیا تو اُس نے کیا کِیا؟‏

۷ جب یسوع مسیح آرام کرنے کے لئے جا رہا تھا تو اُس نے بِھیڑ کو دیکھا اور ”‏اُسے اُن پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند تھے جن کا چرواہا نہ ہو۔‏“‏ اِس وجہ سے وہ ”‏اُن کو بہت سی باتوں کی تعلیم دینے لگا۔‏“‏ (‏مر ۶:‏۳۴‏)‏ جب ہم دوسروں کو خدا کی بادشاہت کا پیغام سناتے اور اُنہیں خدا کے رحم کے بارے میں بتاتے ہیں تو ہمیں کس قدر خوشی ملتی ہے!‏

۸.‏ رحمدل لوگ کیوں مبارک ہیں؟‏

۸ رحمدل لوگ اِس لئے مبارک ہیں کیونکہ اُن پر ”‏رحم کِیا جائے گا۔‏“‏ جب ہم دوسروں کے ساتھ رحمدلی سے پیش آتے ہیں تو وہ بھی ویسا ہی جوابی‌عمل دکھاتے ہیں۔‏ (‏لو ۶:‏۳۸‏)‏ یسوع مسیح نے یہ بھی کہا تھا:‏ ”‏اگر تُم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تُم کو معاف کرے گا۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۴‏)‏ صرف رحمدل لوگ ہی گناہوں کی معافی اور خدا کی خوشنودی حاصل کریں گے اور یہ اُن کے لئے خوشی کا باعث ہوگا۔‏

‏’‏صلح کرانے والے‘‏ کیوں مبارک ہیں؟‏

۹.‏ اگر ہم صلح‌پسند ہیں تو ہم کیا کریں گے؟‏

۹ خوشی کی ایک اَور وجہ بیان کرتے ہوئے یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۹‏)‏ اگر ہم صلح‌پسند ہیں تو ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے لوگوں کے آپس کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔‏ (‏امثا ۱۶:‏۲۸‏)‏ ہم اپنی باتوں اور اپنے کاموں سے کلیسیا میں اور کلیسیا سے باہر لوگوں کے ساتھ میل‌ملاپ یعنی صلح برقرار رکھیں گے۔‏ (‏عبر ۱۲:‏۱۴‏)‏ ہمیں خاص طور پر اِس لئے صلح کا طالب ہونا چاہئے تاکہ ہمیں خدا کی خوشنودی حاصل ہو۔‏—‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۰-‏۱۲ کو پڑھیں۔‏

۱۰.‏ ’‏صلح کرانے والے‘‏ کیوں مبارک ہیں؟‏

۱۰ یسوع مسیح نے کہا کہ ’‏صلح کرانے والے‘‏ اِس لئے مبارک ہیں کیونکہ وہ ”‏خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔‏“‏ ممسوح مسیحی یسوع کے مسیحا ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ اِس وجہ سے اُنہیں ”‏خدا کے فرزند بننے کا حق“‏ حاصل ہوتا ہے۔‏ (‏یوح ۱:‏۱۲؛‏ ۱-‏پطر ۲:‏۲۴‏)‏ یسوع کی ’‏دوسری بھیڑوں‘‏ میں شامل صلح‌پسند لوگ کیوں مبارک ہیں؟‏ جب یسوع مسیح اپنے آسمانی ہم‌میراثوں کے ساتھ ہزار سال تک حکمرانی کرے گا تو وہ اِن بھیڑوں کے لئے ”‏ابدیت کا باپ“‏ ہوگا۔‏ (‏یوح ۱۰:‏۱۴،‏ ۱۶؛‏ یسع ۹:‏۶؛‏ مکا ۲۰:‏۶‏)‏ یسوع کی ہزار سالہ حکمرانی کے اختتام پر یہ صلح‌پسند مسیحی بھی مکمل طور پر خدا کے فرزند بن جائیں گے۔‏—‏۱-‏کر ۱۵:‏۲۷،‏ ۲۸‏۔‏

۱۱.‏ اگر ہم ’‏اُوپر سے آنے والی حکمت‘‏ سے راہنمائی پائیں گے تو ہم دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آئیں گے؟‏

۱۱ یہوواہ خدا ”‏سلامتی کا چشمہ“‏ ہے یعنی وہ صلح‌پسند ہے۔‏ (‏فل ۴:‏۹‏،‏ کیتھولک ترجمہ‏)‏ اُس کے ساتھ قریبی رشتہ قائم کرنے کے لئے ہمیں بھی صلح‌پسند ہونا چاہئے۔‏ اگر ہم ’‏اُوپر سے آنے والی حکمت‘‏ سے راہنمائی پائیں گے تو ہم دوسروں کے ساتھ صلح سے پیش آئیں گے۔‏ (‏یعقو ۳:‏۱۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ اِس طرح ہم صلح کرانے والوں کے طور پر حقیقی خوشی حاصل کریں گے۔‏

‏”‏تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے“‏

۱۲.‏ (‏ا)‏ یسوع مسیح نے سچائی کی روشنی کے بارے میں کیا کہا؟‏ (‏ب)‏ ہم اپنی روشنی کیسے چمکا سکتے ہیں؟‏

۱۲ جب ہم خدا کی طرف سے فراہم‌کردہ سچائی کی روشنی لوگوں تک پہنچاتے ہیں تو ہم اُن کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۴۳:‏۳‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏تُم دُنیا کے نور ہو۔‏“‏ اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے اُنہیں یہ تاکید کی کہ وہ اپنی روشنی ”‏آدمیوں کے سامنے“‏ چمکائیں تاکہ لوگ اُن کے ”‏نیک کاموں“‏ کو دیکھ سکیں۔‏ ایسا کرنے سے وہ خدا کے کلام میں پائی جانے والی سچائی کی روشنی آشکارا کر رہے ہوں گے۔‏ (‏متی ۵:‏۱۴-‏۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ آجکل ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی کرنے اور ”‏تمام دُنیا“‏ میں یعنی ”‏سب قوموں“‏ کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانے سے اپنی روشنی چمکا سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۶:‏۱۳؛‏ مر ۱۳:‏۱۰‏)‏ مُنادی کے کام میں حصہ لینا واقعی ایک شاندار شرف ہے!‏

۱۳.‏ جب ہم خوشخبری کی مُنادی کرتے ہیں تو ہم کس وجہ سے پہچانے جاتے ہیں؟‏

۱۳ یسوع مسیح نے فرمایا:‏ ”‏جو شہر پہاڑ پر بسا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔‏“‏ جس طرح پہاڑ پر واقع شہر کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے اُسی طرح جب ہم خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی کرتے ہیں تو ہم اپنے اچھے کاموں اور سنجیدگی اور پاک‌دامنی جیسی خوبیوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔‏—‏ططس ۲:‏۱-‏۱۴‏۔‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ پہلی صدی میں چراغ کیسے کام کرتا تھا؟‏ (‏ب)‏ اِس کا کیا مطلب ہے کہ ہمیں سچائی کی روشنی کو پیمانہ کے نیچے نہیں چھپانا چاہئے؟‏

۱۴ یسوع مسیح نے کہا کہ چراغ جلا کر اِسے پیمانہ کے نیچے نہیں بلکہ چراغدان پر رکھتے ہیں تاکہ گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچے۔‏ پہلی صدی میں چراغ مٹی سے بنا ایک برتن ہوتا تھا جس میں ایک سوت کی ڈوری ہوتی تھی۔‏ اِسے جلانے کے لئے چراغ میں تیل (‏عموماً زیتون کا تیل)‏ ڈالا جاتا تھا۔‏ اِس چراغ کو لکڑی یا لوہے کے ”‏چراغدان“‏ پر رکھا جاتا تھا تاکہ گھر کے سب لوگوں کو روشنی پہنچے۔‏ لوگ چراغ جلا کر اِسے پیمانہ کے نیچے نہیں رکھتے تھے۔‏ یہاں لفظ پیمانہ سے مراد ایک بڑی ٹوکری ہے جو پیمائش کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔‏ یسوع مسیح یہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے شاگرد سچائی کی روشنی کو پیمانہ کے نیچے چھپا کر رکھیں۔‏ لہٰذا،‏ ہمیں کبھی بھی مشکلات یا اذیت کی وجہ سے خدا کے کلام میں پائی جانے والی سچائی کی روشنی کو چھپانا نہیں چاہئے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں اِس روشنی کو اپنے تک محدود نہیں رکھنا چاہئے۔‏ اِس کے برعکس،‏ ہمیں ہمیشہ اپنی روشنی چمکانی چاہئے۔‏

۱۵.‏ بعض لوگوں پر ہمارے ”‏نیک کاموں“‏ کا کیا اثر پڑتا ہے؟‏

۱۵ چراغ کا ذکر کرنے کے بعد یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا:‏ ”‏اِسی طرح تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھکر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں۔‏“‏ ہمارے ”‏نیک کاموں“‏ کو دیکھ کر بعض لوگ خدا کے خادم بن جاتے اور اُس کی ”‏تمجید“‏ کرنے لگتے ہیں۔‏ اِس لئے آئیں ہم دُنیا میں ”‏چراغوں کی طرح دکھائی دیتے“‏ رہیں۔‏—‏فل ۲:‏۱۵‏۔‏

۱۶.‏ ’‏دُنیا کا نور‘‏ بننے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۶ ‏’‏دُنیا کا نور‘‏ بننے کے لئے ہمیں خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کے کام میں حصہ لینا چاہئے۔‏ لیکن ہمیں اِس کے علاوہ بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس سلسلے میں پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏نور کے فرزندوں کی طرح چلو۔‏ (‏اِسلئےکہ نور کا پھل ہر طرح کی نیکی اور راستبازی اور سچائی ہے)‏ ۔‏“‏ (‏افس ۵:‏۸،‏ ۹‏)‏ ہمارا چال‌چلن مثالی ہونا چاہئے۔‏ ہمیں پطرس رسول کی اِس مشورت پر دھیان دینا چاہئے:‏ ”‏غیر قوموں میں اپنا چال‌چلن نیک رکھو تاکہ جن باتوں میں وہ تمہیں بدکار جان کر تمہاری بدگوئی کرتے ہیں تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر اُنہی کے سبب سے ملاحظہ کے دن خدا کی تمجید کریں۔‏“‏ (‏۱-‏پطر ۲:‏۱۲‏)‏ لیکن اگر ہمارے اور کلیسیا کے کسی بہن بھائی کے درمیان کوئی مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

‏”‏اپنے بھائی سے ملاپ کر“‏

۱۷-‏۱۹ (‏ا)‏ متی ۵:‏۲۳،‏ ۲۴ میں درج ”‏نذر“‏ سے کیا مُراد تھی؟‏ (‏ب)‏ اپنے بھائی سے صلح کرنا کتنا اہم ہے؟‏ (‏پ)‏ یسوع مسیح نے صلح کرنے کی اہمیت کو کیسے ظاہر کِیا؟‏

۱۷ یسوع مسیح نے پہاڑی وعظ میں اپنے شاگردوں کو آگاہ کِیا کہ اُنہیں نہ تو اپنے بھائی پر غصہ ہونا چاہئے اور نہ ہی اُسے بُرابھلا کہنا چاہئے۔‏ اِس کی بجائے اُنہیں اپنے ناراض بھائی سے جلد ملاپ یعنی صلح کرنی چاہئے۔‏ (‏متی ۵:‏۲۱-‏۲۵ کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع کی مشورت پر غور کریں۔‏ اگر آپ قربانگاہ پر نذر گزراننے کے لئے جاتے اور وہاں آپ کو یاد آتا کہ آپ کے بھائی کو آپ سے کچھ شکایت ہے تو آپ کو کیا کرنا تھا؟‏ آپ کو اپنی نذر وہیں قربانگاہ کے آگے چھوڑنی تھی اور جاکر اپنے بھائی سے صلح کرنی تھی۔‏ اِس کے بعد آپ واپس آکر اپنی نذر گزران سکتے تھے۔‏

۱۸ یسوع کے اِس بیان میں ”‏نذر“‏ سے مُراد وہ قربانی تھی جو کوئی شخص یہوواہ خدا کی ہیکل میں گزرانتا تھا۔‏ اسرائیلیوں کو دی گئی شریعت کے مطابق یہوواہ خدا کی پرستش میں جانوروں کی قربانیاں بڑی اہمیت رکھتی تھیں۔‏ لیکن اگر آپ کو قربانی گزرانتے وقت یہ یاد آتا کہ آپ کے بھائی کو آپ سے شکایت ہے تو مسئلے کو حل کرنا قربانی گزراننے سے زیادہ اہم تھا۔‏ اِس لئے یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔‏ تب آکر اپنی نذر گذران۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے بھائی سے صلح کرنا شریعت میں درج قربانی کے تقاضے کو پورا کرنے سے زیادہ اہم تھا۔‏

۱۹ یسوع مسیح نے نہ تو کسی خاص قربانی اور نہ ہی کسی خاص شکایت کا ذکر کِیا۔‏ لہٰذا،‏ ایک شخص چاہے کسی بھی طرح کی قربانی گزران رہا ہوتا جب اُسے یاد آتا کہ اُس کے بھائی کو اُس سے شکایت ہے تو اُسے وہ قربانی وہیں چھوڑ دینی تھی۔‏ اگر وہ کسی جانور کی قربانی گزران رہا ہوتا تو اُسے زندہ جانور کو ہیکل میں کاہنوں کے صحن میں ”‏قربانگاہ کے آگے“‏ چھوڑ دینا تھا۔‏ اپنے بھائی سے صلح کرنے کے بعد وہ واپس آکر قربانی گزران سکتا تھا۔‏

۲۰.‏ اگر ہمیں کسی بھائی سے شکایت ہے تو ہمیں معاملے کو فوری طور پر کیوں حل کرنا چاہئے؟‏

۲۰ خدا کی نظر میں مسیحی بہن بھائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا سچی پرستش کا اہم حصہ ہے۔‏ اگر قربانیاں گزراننے والے اسرائیلی دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے تھے تو یہوواہ خدا اُن کی قربانیوں سے خوش نہیں ہوتا تھا۔‏ (‏میک ۶:‏۶-‏۸‏)‏ لہٰذا،‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو تاکید کی کہ ”‏جلد صلح“‏ کر لیں۔‏ (‏متی ۵:‏۲۵‏)‏ اِسی طرح پولس رسول نے بھی لکھا:‏ ”‏غصہ تو کرو مگر گُناہ نہ کرو۔‏ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔‏ اور ابلیس کو موقع نہ دو۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ اگر ہمارا غصہ جائز ہو تو پھربھی ہمیں فوری طور پر معاملے کو حل کرنا چاہئے تاکہ ہم خفگی کو ختم کریں اور شیطان کو موقع نہ دیں۔‏—‏لو ۱۷:‏۳،‏ ۴‏۔‏

ہمیشہ دوسروں کے ساتھ مہربانی اور احترام سے پیش آئیں

۲۱،‏ ۲۲.‏ (‏ا)‏ ہم یسوع کی مشورت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

۲۱ پہاڑی وعظ میں درج یسوع مسیح کے چند بیانات پر غور کرنے سے ہمیں دوسروں کے ساتھ مہربانی اور احترام سے پیش آنے میں مدد ملتی ہے۔‏ اگرچہ ہم سب گنہگار ہیں توبھی ہم یسوع مسیح کی مشورت پر عمل کر سکتے ہیں کیونکہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح ہم سے ہماری طاقت سے زیادہ توقع نہیں کرتے۔‏ حلیم،‏ رحمدل اور صلح‌پسند بننے کے لئے ہمیں دُعا اور سخت کوشش کرنے کے علاوہ یہوواہ خدا کی مدد کی بھی ضرورت ہے۔‏ ہمیں سچائی کی روشنی منعکس کرنی چاہئے جس سے یہوواہ کی تمجید ہوتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ،‏ اگر کسی بہن بھائی کو ہم سے شکایت ہو تو ہمیں اُس سے صلح کر لینی چاہئے۔‏

۲۲ یہوواہ خدا اُسی صورت میں ہماری پرستش کو قبول کرے گا اگر ہم دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے۔‏ (‏مر ۱۲:‏۳۱‏)‏ اگلے مضمون میں ہم پہاڑی وعظ میں درج یسوع کے مزید بیانات پر غور کریں گے جن سے دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے میں ہماری مدد ہوگی۔‏ اِس مضمون میں یسوع کے پہاڑی وعظ میں درج نکات پر غور کرنے کے بعد ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ”‏مَیں دوسروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہوں؟‏“‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 1 اِس اور اگلے مضمون کا ذاتی مطالعہ کرنے سے پہلے متی اور لوقا کے اِن بیانات کو پڑھنا غالباً آپ کے لئے مفید ہوگا۔‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• حلیم ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏

‏• ”‏رحمدل“‏ لوگ کیوں مبارک ہیں؟‏

‏• ہم اپنی روشنی کیسے چمکا سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں اپنے بھائی سے جلد صلح کیوں کرنی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

اپنی روشنی چمکانے کا بنیادی طریقہ خدا کی بادشاہت کا پیغام سنانا ہے

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

مسیحیوں کا چال‌چلن مثالی ہونا چاہئے

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

اپنے بھائی کے ساتھ صلح کرنے کی بھرپور کوشش کریں