مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

علاج کے سلسلے میں خدا کا نظریہ اپنائیں

علاج کے سلسلے میں خدا کا نظریہ اپنائیں

علاج کے سلسلے میں خدا کا نظریہ اپنائیں

‏”‏تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے .‏ .‏ .‏ اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ۔‏“‏—‏مر ۱۲:‏۳۰‏۔‏

۱.‏ ابتدا میں انسان کے لئے خدا کی مرضی کیا تھی؟‏

یہوواہ خدا یہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ انسان بیماری اور موت کا شکار بن جائے۔‏ جب اُس نے آدم اور حوا کو خلق کِیا تو خدا نے اُن کو اس لئے باغِ‌عدن میں رکھا کہ وہ ”‏اُس کی باغبانی اور نگہبانی“‏ کریں۔‏ (‏پید ۲:‏۸،‏ ۱۵؛‏ زبور ۹۰:‏۱۰‏)‏ اِس خوبصورت باغ میں اُنہیں ۷۰ یا ۸۰ سال تک نہیں بلکہ ہمیشہ تک زندگی کا لطف اُٹھانا تھا۔‏ اگر آدم اور حوا خدا کے وفادار رہتے اور اُس کی حکمرانی کے تابعدار رہتے تو وہ کبھی بیمار نہ ہوتے اور نہ ہی بوڑھے ہو کر مر جاتے۔‏

۲،‏ ۳.‏ (‏ا)‏ واعظ کی کتاب میں عمررسیدہ لوگوں کی مشکلات کیسے بیان کی گئی ہیں؟‏ (‏ب)‏ موت کس کے کاموں کا نتیجہ ہے؟‏ (‏ج)‏ موت کے اثرات کو کون مٹائے گا؟‏

۲ واعظ ۱۲ باب میں بڑھاپے کے دنوں کو ”‏بُرے دن“‏ کہا گیا ہے۔‏ اِس باب میں عمررسیدہ لوگوں کی مشکلات بیان کی گئی ہیں۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱-‏۷ کو پڑھیں۔‏)‏ مثال کے طور اُن کے سفید بال ’‏بادام کے پھولوں‘‏ کی طرح نظر آتے ہیں۔‏ ٹانگیں جوانی میں ’‏زورآور لوگوں‘‏ کی طرح ہوتی ہیں لیکن بڑھاپے میں یہ کمزور پڑ جاتی ہیں۔‏ آنکھیں ایسی خواتین کی طرح ہوتی ہیں ”‏جو کھڑکیوں سے جھانکتی ہیں۔‏“‏ لیکن بڑھاپے میں وہ دُھندلا جاتی ہیں۔‏ اِن آیات میں دانتوں کی تشبیہ ’‏پیسنے والیوں‘‏ سے کی گئی ہے۔‏ البتہ،‏ بڑھاپے میں جب دانت گِر جاتے ہیں تو یہ پیسنے والیاں ’‏رُک جاتی ہیں اسلئےکہ وہ تھوڑی سی ہیں۔‏‘‏

۳ خدا نے انسان کو اِس طرح خلق نہیں کِیا کہ اُس کی ٹانگیں کمزور پڑ جائیں،‏ اُس کے دانت گِر جائیں اور اُس کی بینائی کمزور پڑ جائے۔‏ انسان آدم کے گُناہ ہی کے نتیجے میں موت کا شکار بن گیا۔‏ لہٰذا،‏ بیماری اور موت ’‏ابلیس کے اُن کاموں‘‏ میں شامل ہیں جنہیں یسوع مسیح اپنی بادشاہت کے ذریعے مٹا دے گا۔‏ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏خدا کا بیٹا اِسی لئے ظاہر ہوا تھا کہ ابلیس کے کاموں کو مٹائے۔‏“‏—‏۱-‏یوح ۳:‏۸‏۔‏

اپنی صحت کا مناسب حد تک خیال رکھیں

۴.‏ یہوواہ کے خادم مناسب حد تک اپنی صحت کا خیال کیوں رکھتے ہیں؟‏ لیکن وہ کس حقیقت سے باخبر ہیں؟‏

۴ البتہ،‏ آجکل یہوواہ خدا کے خادموں کو بیماری اور بڑھاپے سے نپٹنا پڑتا ہے۔‏ اس لئے ہمیں مناسب حد تک اپنی صحت کا خیال ضرور رکھنا چاہئے۔‏ ہم تو ”‏اپنی ساری طاقت سے“‏ یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‏ (‏مر ۱۲:‏۳۰‏)‏ لہٰذا،‏ صحتمند رہنے کی خواہش مناسب ہے۔‏ لیکن ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ صحت برقرار رکھنے کی بھرپور کوششوں کے باوجود ہم نہ تو بیمار پڑنے سے بچیں گے اور نہ ہی بڑھاپے سے۔‏

۵.‏ بیماری کے سلسلے ہم پولس رسول کے تجربے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۵ بائبل میں خدا کے بہت سے ایسے خادموں کا ذکر کِیا گیا ہے جو طرح‌طرح کی بیماریوں کا شکار تھے۔‏ اِن میں سے ایک اِپفردِتس تھا۔‏ (‏فل ۲:‏۲۵-‏۲۷‏)‏ پولس رسول کا ساتھی تیمتھیس بھی اکثر بیمار رہتا تھا۔‏ اُسے پیٹ کی تکلیف رہتی تھی۔‏ اس لئے پولس نے اُسے مشورہ دیا کہ ”‏ذرا سی مے بھی کام میں لایا کر۔‏“‏ (‏۱-‏تیم ۵:‏۲۳‏)‏ پولس رسول خود بھی ایک بیماری کا شکار تھا۔‏ اُس نے کہا کہ ”‏میرے جسم میں کانٹا چبھویا گیا۔‏“‏ ہو سکتا ہے کہ اُسے آنکھوں کی ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہ تھا۔‏ (‏۲-‏کر ۱۲:‏۷؛‏ گل ۴:‏۱۵؛‏ ۶:‏۱۱‏)‏ پولس رسول نے باربار التجا کی کہ خدا اُسے اِس بیماری سے شفا بخشے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۸-‏۱۰ کو پڑھیں۔‏)‏ اُس کے جسم میں جو ”‏کانٹا“‏ تھا،‏ خدا نے اسے معجزانہ طور پر تو نہیں ہٹایا لیکن اُس نے پولس کو اس بیماری سے نپٹنے کی طاقت بخشی۔‏ اِس طرح یہوواہ خدا کی قدرت پولس کی کمزوری کے ذریعے ظاہر ہوئی۔‏ یقیناً ہم پولس رسول کے اِس تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏

صحت کے بارے میں حد سے زیادہ فکر نہ کریں

۶،‏ ۷.‏ ہمیں اپنی صحت کی حد سے زیادہ فکر کیوں نہیں کرنی چاہئے؟‏

۶ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا،‏ یہوواہ کے گواہ مختلف طریقوں سے اپنا علاج کرواتے ہیں۔‏ وقتاًفوقتاً جاگو!‏ کے رسالے میں صحت‌وتوانائی اور مختلف بیماریوں کے بارے میں مضامین شائع ہوتے ہیں۔‏ ہم اُن ماہرین کے بہت شکرگزار ہیں جو اِس سلسلے میں ہماری مدد کرتے ہیں لیکن ہم کسی کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ کونسا علاج کروانا بہتر ہے۔‏ ہم جانتے ہیں کہ اِس دَور میں ہم مکمل طور پر صحتمند رہنے کی توقع نہیں رکھ سکتے۔‏ اس لئے ہمیں اپنی صحت کو برقرار رکھنے کی کوشش کو جنون کی حد تک نہیں لے جانا چاہئے۔‏ ایسے لوگ جو خدا کے وعدوں پر ایمان نہیں رکھتے،‏ وہ ”‏نااُمید“‏ ہوتے ہیں۔‏ اس لئے وہ اپنی زندگی کو بڑھانے کی کوشش میں ہر قسم کا علاج قبول کر لیتے ہیں۔‏ (‏افس ۲:‏۲،‏ ۱۲‏)‏ لیکن سچے مسیحی کسی بھی صورتحال میں ایسے علاج قبول نہیں کریں گے جن کی وجہ سے وہ یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو بیٹھیں۔‏ ہمیں پورا یقین ہے کہ یہوواہ خدا کا وفادار رہنے سے ہی ہم ”‏حقیقی زندگی پر قبضہ“‏ کریں گے،‏ یعنی ہم اُس کی نئی دُنیا میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکیں گے۔‏—‏۱-‏تیم ۶:‏۱۲،‏ ۱۹؛‏ ۲-‏پطر ۳:‏۱۳‏۔‏

۷ اس کے علاوہ جب ہم صحت کی حد سے زیادہ فکر کرتے ہیں تو ہم اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔‏ پولس رسول نے یہ نصیحت دی کہ ”‏ہر ایک صرف اپنے فائدے کا نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا بھی خیال رکھے۔‏“‏ (‏فل ۲:‏۴‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ یہ سچ ہے کہ ہمیں اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہئے لیکن اس کے ساتھ‌ساتھ ہمیں اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کی بھی فکر رکھنی چاہئے۔‏ اس کے علاوہ ہمیں اُن لوگوں کی بھی فکر رکھنی چاہئے جنہیں ہم ’‏بادشاہی کی خوشخبری‘‏ سناتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ ایسا کرنے سے ہم اپنی صحت پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے سے بچے رہیں گے۔‏

۸.‏ اپنی صحت کی حد سے زیادہ فکر رکھنے سے ہم کن خطروں میں پڑ سکتے ہیں؟‏

۸ اگر ہمیں اپنی صحت کی حد سے زیادہ فکر ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہم خدا کی خدمت کو دوسرے درجے پر رکھنے لگیں۔‏ اس کے علاوہ ہم اِس خطرے میں بھی ہوں گے کہ ہم دوسروں کو کسی خاص علاج کروانے یا مختلف کھانوں سے پرہیز کرنے پر مجبور کرنے لگیں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا پولس رسول کی اِس نصیحت پر غور کریں:‏ ’‏بہتر چیزوں کا امتیاز کرو اور مسیح کے دن تک صاف‌دل رہو اور ٹھوکر کا باعث نہ بنو۔‏‘‏—‏فل ۱:‏۱۰‏،‏ کیتھولک ترجمہ۔‏

بہتر چیزوں کا امتیاز کریں

۹.‏ جن بہتر چیزوں کا ذکر پولس رسول نے کِیا اِن میں کونسا کام شامل ہے اور یہ کام اتنا اہم کیوں ہے؟‏

۹ جن بہتر چیزوں کا ذکر پولس رسول نے کِیا اِن میں لوگوں کو خدا کے کلام کی تعلیم دینے کا کام بھی شامل ہے۔‏ ہم اِس کام کے ذریعے لوگوں کو روحانی طور پر تندرست ہونے میں مدد دے سکتے ہیں۔‏ اس کام سے نہ صرف ہمارے سننے والوں کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ ہمیں خود بھی فائدہ پہنچتا ہے۔‏ (‏امثا ۱۷:‏۲۲؛‏ ۱-‏تیم ۴:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ کبھی‌کبھار مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ کے رسالوں میں ایسے بہن‌بھائیوں کی آپ‌بیتیاں شائع ہوتی ہیں جو کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہیں۔‏ اِن مضامین میں یہ بہن‌بھائی بتاتے ہیں کہ وہ اپنی بیماری سے کیسے نپٹتے ہیں۔‏ اکثر وہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ دوسروں کو یہوواہ خدا اور اُس کے شاندار وعدوں کے بارے میں بتاتے ہیں تو وہ اپنی تکلیف کو تھوڑی دیر کے لئے بھول جاتے ہیں۔‏ *

۱۰.‏ علاج کا انتخاب کرتے وقت ہمیں خدا کے اصولوں کو مدِنظر کیوں رکھنا چاہئے؟‏

۱۰ جب ایک مسیحی کو کسی بیماری کا علاج کروانا ہو تو اُسے ’‏اپنا ہی بوجھ اُٹھانا‘‏ پڑے گا،‏ یعنی علاج کا انتخاب کرنے کی ذمہ‌داری اُسی پر پڑتی ہے۔‏ (‏گل ۶:‏۵‏)‏ علاج کا انتخاب کرتے وقت ہمیں خدا کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئے۔‏ ہم خدا کے اصولوں کا احترام کرتے ہوئے ”‏لہو سے پرہیز“‏ کرتے ہیں۔‏ (‏اعما ۱۵:‏۲۰‏)‏ اسی طرح ہمیں کسی بھی ایسے علاج سے کنارہ کرنا چاہئے جس کی وجہ سے ہم یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو سکتے ہیں۔‏ یاد رکھیں کہ علاج کے کچھ طریقے جادوٹونے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا اُن برگشتہ اسرائیلیوں سے سخت ناراض تھا جو جادوٹونا کرتے تھے۔‏ اِن سے یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏جب تُم اپنے ہاتھ پھیلاؤ گے تو مَیں تُم سے آنکھ پھیر لوں گا۔‏ ہاں جب تُم دُعا پر دُعا کرو گے تو مَیں نہ سنوں گا۔‏“‏ (‏یسع ۱:‏۱۵‏)‏ ذرا سوچیں،‏ جب ہم کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہمیں دُعا میں خدا سے طاقت مانگنے کی اَور بھی ضرورت ہوتی ہے۔‏ توپھر ایسی صورت میں،‏ بھلا ہم ایسے کام کیسے کر سکتے ہیں جن کی وجہ سے یہوواہ ہماری دُعا سننے سے انکار کر دے؟‏—‏نوحہ ۳:‏۴۴‏۔‏

سمجھداری سے کام لینے کی اہمیت

۱۱،‏ ۱۲.‏ علاج کا انتخاب کرتے وقت ہمیں کیوں ”‏سمجھداری“‏ سے کام لینا چاہئے؟‏

۱۱ جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ہم اِس بات کی توقع نہیں رکھ سکتے کہ یہوواہ خدا ہمیں معجزانہ طور پر شفا بخشے گا۔‏ لیکن ہم دُعا کر سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں علاج کا انتخاب کرنے کے لئے سمجھداری بخشے۔‏ اِس کے علاوہ ہم خدا کے کلام میں سے ایسے اصولوں پر غور کر سکتے ہیں جو ہمیں اچھے فیصلے کرنے میں مدد دیں۔‏ اگر ہماری بیماری بہت شدید ہے تو سمجھداری کی بات یہی ہوگی کہ ہم مختلف ڈاکٹروں سے مشورہ لیں،‏ جیسا کہ امثال ۱۵:‏۲۲ میں لکھا ہے:‏ ”‏صلاح کے بغیر اِرادے پورے نہیں ہوتے پر صلاحکاروں کی کثرت سے قیام پاتے ہیں۔‏“‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو یہ تاکید کی:‏ ”‏اِس موجودہ جہان میں پرہیزگاری [‏یا ”‏سمجھداری،‏“‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏]‏ اور راستبازی اور دینداری کے ساتھ زندگی گذاریں۔‏“‏—‏طط ۲:‏۱۲‏۔‏

۱۲ اِس دُنیا میں بہت سے لوگ طرح‌طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور کچھ ایسی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں جس کے بارے میں ہم مرقس ۵:‏۲۵،‏ ۲۶ میں پڑھتے ہیں۔‏ اِن آیات کے مطابق ایک ایسی عورت یسوع کے پاس آئی ”‏جس کے بارہ برس سے خون جاری تھا اور کئی طبیبوں سے بڑی تکلیف اُٹھا چکی تھی اور اپنا سب مال خرچ کرکے بھی اُسے کچھ فائدہ نہ ہوا تھا بلکہ زیادہ بیمار ہو گئی تھی۔‏“‏ یسوع کو اُس عورت پر رحم آیا اور اُس نے اُسے شفا بخشی۔‏ (‏مر ۵:‏۲۷-‏۳۴‏)‏ آج بھی یہوواہ کے چند خادم بہت سے ڈاکٹروں سے اپنی بیماری کا علاج کروانے کے باوجود بھی صحتیاب نہیں ہو پاتے۔‏ ایسی صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ وہ مایوس ہو کر ایسا علاج کروانے کا سوچیں جو خدا کے معیاروں کے خلاف ہو۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ شیطان علاج کے سلسلے میں مسیحیوں کو کیسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں ہر ایسی چیز سے کیوں کنارہ کرنا چاہئے جس میں جادوٹونے کا عنصر پایا جاتا ہے؟‏

۱۳ لیکن کبھی نہ بھولیں کہ شیطان ہمیں سچی عبادت سے گمراہ کرنے کی کوشش میں چالاکی سے کام لیتا ہے۔‏ جس طرح وہ بعض بہن‌بھائیوں کو جنسی بداخلاقی یا مال‌ودولت کے لالچ کے ذریعے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اِسی طرح وہ دوسروں کو ایسے علاج کروانے پر اُکساتا ہے جن کا تعلق جادوگری سے ہے۔‏ ہم یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں کہ ’‏ہمیں بُرائی سے بچا‘‏ اور ”‏ہمیں ہر طرح کی بیدینی سے چھڑا لے۔‏“‏ اِس لئے ہمیں ہر ایسی بات سے دُور رہنا چاہئے جس کا تعلق جادوٹونے سے ہو۔‏ ورنہ ہم شیطان کے قابو میں آ سکتے ہیں۔‏—‏متی ۶:‏۱۳؛‏ طط ۲:‏۱۴‏۔‏

۱۴ یہوواہ خدا نے بنی‌اسرائیل کو فالگیری اور جادوگری سے سختی سے منع کِیا۔‏ (‏است ۱۸:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ پولس رسول نے ’‏جسم کے کاموں‘‏ کی فہرست میں ”‏جادوگری“‏ بھی شامل کی۔‏ (‏گل ۵:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ اور مکاشفہ کی کتاب میں ”‏جادوگروں“‏ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ خدا کی نئی دُنیا میں داخل نہ ہوں گے۔‏ (‏مکا ۲۱:‏۸‏)‏ اِن حوالوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا کو ہر ایسی چیز سے سخت نفرت ہے جس میں جادوٹونے کا عنصر پایا جاتا ہے۔‏

بائبل کے اصولوں کے مطابق فیصلہ کریں

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ صحت کے معاملوں میں ہمیں بائبل کے اصولوں کے مطابق فیصلہ کیوں کرنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اِس سلسلے میں پہلی صدی میں یروشلیم کے بزرگوں نے مسیحیوں کو کونسی ہدایت دی؟‏

۱۵ چُنانچہ،‏ اگر ہمیں شک ہے کہ کوئی علاج جادوٹونے سے تعلق رکھتا ہے تو سمجھداری کی بات یہی ہوگی کہ ہم اِسے ردّ کر دیں۔‏ البتہ،‏ کئی ایسے علاج ہیں جن کے طریقۂ‌کار کو ہم شاید نہیں سمجھتے۔‏ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ایسا علاج جادوٹونے سے تعلق رکھتا ہے۔‏ بہرحال،‏ صحت کے معاملوں میں فیصلہ کرنے کے لئے ہمیں خدا کے کلام کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے سمجھداری سے کام لینا چاہئے۔‏ امثال ۳ باب میں ہمیں یوں تاکید کی گئی ہے:‏ ”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔‏ .‏ .‏ .‏ دانائی اور تمیز کی حفاظت کر۔‏ .‏ .‏ .‏ یوں وہ تیری جان کی حیات .‏ .‏ .‏ ہوں گی۔‏“‏—‏امثا ۳:‏۵،‏ ۶،‏ ۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

۱۶ یہ سچ ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی خاطر صحتمند رہنے کی پوری کوشش کریں گے۔‏ لیکن اس کے ساتھ‌ساتھ ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم خدا کی خوشنودی سے محروم نہ ہو جائیں۔‏ اِس لئے عقلمندی کی بات یہ ہوگی کہ صحت کے معاملوں میں فیصلہ کرتے وقت ہم خدا کے اصولوں پر چلیں۔‏ غور کیجئے کہ پہلی صدی میں یروشلیم کے بزرگوں نے مسیحیوں کو بُت‌پرستی،‏ خون اور حرامکاری سے دُور رہنے کی ہدایت دی تھی۔‏ پھر اُنہوں نے یوں لکھا:‏ ”‏اگر تُم ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھو گے تو سلامت رہو گے۔‏“‏ (‏اعما ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ خدا کے اصولوں پر چلنے سے ہمیں کونسے فائدے ہوتے ہیں؟‏

پوری طرح صحتیاب ہونے کی اُمید

۱۷.‏ خدا کے معیاروں پر چلنے سے ہمیں کونسے فائدے حاصل ہوئے ہیں؟‏

۱۷ ذرا اس بات پر غور کریں کہ آپ کو خدا کے معیاروں پر چلنے سے کتنے فائدے حاصل ہوئے ہیں۔‏ کیا یہ سچ نہیں کہ آپ کو خون سے پرہیز کرنے اور جنسی بداخلاقی سے باز آنے کی وجہ سے بہت فائدہ ہوا ہے؟‏ اِن فائدوں کا بھی سوچیں جو ”‏اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آلودگی سے پاک“‏ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کر ۷:‏۱‏)‏ صفائی‌ستھرائی کے معاملے میں خدا کے کلام کی ہدایات پر عمل کرنے سے ہم طرح‌طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔‏ ہم تمباکو اور منشیات استعمال نہیں کرتے جو روحانی اور جسمانی طور پر نقصان‌دہ ہوتے ہیں۔‏ حد سے زیادہ کھانےپینے سے گریز کرنا بھی بہت فائدہ‌مند ہوتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۳:‏۲۰ اور ططس ۲:‏۲،‏ ۳ کو پڑھیں۔‏)‏ حالانکہ ہمیں ضرورت کے مطابق آرام کرنے اور ورزش کرنے سے بھی فائدہ ہوتا ہے لیکن سب سے بڑا فائدہ ہمیں خدا کے کلام کے مشوروں پر عمل کرنے سے ہوتا ہے۔‏ اِس طرح ہم روحانی اور جسمانی طور پر سلامت رہتے ہیں۔‏

۱۸.‏ (‏ا)‏ ہمیں زندگی میں کس بات کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہئے؟‏ (‏ب)‏ ہم کن پیشینگوئیوں کی تکمیل کا بےتابی سے انتظار کر رہے ہیں؟‏

۱۸ جسمانی طور پر تندرست رہنے سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم روحانی طور پر مضبوط رہیں اور یہوواہ خدا کی قربت میں رہیں۔‏ یاد رکھیں کہ ”‏اب کی اور آیندہ کی زندگی“‏ کا چشمہ یہوواہ خدا ہی کے پاس ہے۔‏ (‏۱-‏تیم ۴:‏۸؛‏ زبور ۳۶:‏۹‏)‏ اُس کی نئی دُنیا میں ہم پوری طرح صحتیاب ہو جائیں گے کیونکہ یسوع مسیح کی جان کی قربانی کے ذریعے ہمیں گُناہوں کی معافی حاصل ہوگی۔‏ تب خدا کا برّہ،‏ یسوع مسیح ہمیں ”‏آبِ‌حیات کے چشموں کے پاس لے جائے گا“‏ اور خدا ہماری آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔‏ (‏مکا ۷:‏۱۴-‏۱۷؛‏ ۲۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ اُس وقت یہ پیشینگوئی بھی پوری ہوگی کہ ”‏وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏—‏یسع ۳۳:‏۲۴‏۔‏

۱۹.‏ ہم کس بات پر بھروسہ رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۹ ہمیں پورا یقین ہے کہ ہماری نجات نزدیک ہے۔‏ ہم اُس وقت کے منتظر ہیں جب یہوواہ خدا بیماری اور موت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گا۔‏ ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ ہمارا پُرمحبت پروردگار ہمیں اب بھی درد اور بیماری سے نپٹنے کی طاقت عنایت کرے گا کیونکہ ’‏اُس کو ہماری فکر ہے۔‏‘‏ (‏۱-‏پطر ۵:‏۷‏)‏ آئیں ہم خدا کے کلام کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی صحت کا خیال رکھیں!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 آپ کو چند ایسے مضامین کی فہرست ستمبر ۱،‏ ۲۰۰۳ کے مینارِنگہبانی میں،‏ صفحہ ۱۷ پر ملے گی۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• بیماری کس کے کاموں کا نتیجہ ہے؟‏ گُناہ کے اثرات کو کون مٹائے گا؟‏

‏• ہمیں اپنی صحت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں کس بات سے گریز کرنا چاہئے؟‏

‏• علاج کا انتخاب کرتے وقت ہمیں خدا کے اصولوں کو مدِنظر کیوں رکھنا چاہئے؟‏

‏• صحت کے معاملے میں خدا کے معیاروں پر چلنے سے ہمیں کونسے فائدے حاصل ہوتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

خدا یہ نہیں چاہتا تھا کہ انسان بیماری اور موت کا شکار بنے

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

بیماری کی حالت میں بھی یہوواہ کے خادم خوشخبری سنانے سے خوشی حاصل کرتے ہیں