مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یعقوب اور پطرس کے خطوط سے اہم نکات

یعقوب اور پطرس کے خطوط سے اہم نکات

یہوواہ کا کلام زندہ ہے

یعقوب اور پطرس کے خطوط سے اہم نکات

یسوع مسیح کے بھائی یعقوب نے اپنا خط پنتِکُست ۳۳ عیسوی کے ۳۰ سال بعد لکھا۔‏ اُس نے یہ خط روحانی اسرائیل کے ”‏بارہ قبیلوں“‏ کے نام لکھا۔‏ (‏یعقو ۱:‏۱‏)‏ اِس خط میں اُس نے اُن کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ ایمان میں قائم رہیں اور مشکلات کا سامنا کرتے وقت خدا کے وفادار رہیں۔‏ چونکہ کلیسیاؤں میں سنگین مسائل کھڑے ہو گئے تھے اس لئے یعقوب نے اُن کی اصلاح بھی کی۔‏

سن ۶۴ عیسوی میں رومی شہنشاہ نیرو،‏ مسیحیوں کو اذیت کا نشانہ بنانے لگا۔‏ اِس سے تھوڑی دیر پہلے پطرس رسول نے مسیحیوں کے نام اپنا پہلا خط لکھا۔‏ اِس میں اُس نے اُن کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ ایمان میں مضبوط رہیں۔‏ اِس کے کچھ عرصہ بعد ہی اُس نے اپنا دوسرا خط لکھا جس میں اُس نے مسیحیوں کو خدا کے کلام پر غور کرتے رہنے کی تاکید کی اور اُن کو آگاہ کِیا کہ یہوواہ کا دن آنے والا ہے۔‏ واقعی ہم بھی یعقوب اور پطرس کے خطوط پر غور کرنے سے بڑا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔‏—‏عبر ۴:‏۱۲‏۔‏

خدا ’‏ایمان سے مانگنے والوں‘‏ کو حکمت بخشتا ہے

‏(‏یعقو ۱:‏۱–‏۵:‏۲۰‏)‏

یعقوب نے لکھا:‏ ”‏مبارک وہ شخص ہے جو آزمایش کی برداشت کرتا ہے کیونکہ جب مقبول ٹھہرا تو زندگی کا .‏ .‏ .‏ تاج حاصل کرے گا۔‏“‏ جو لوگ ’‏ایمان سے مانگتے ہیں‘‏ یہوواہ خدا اُن کو حکمت بخشتا ہے تاکہ وہ صبر سے آزمائشوں کا سامنا کر سکیں۔‏—‏یعقو ۱:‏۵-‏۸،‏ ۱۲‏۔‏

جو شخص کلیسیا میں ’‏اُستاد بنتے‘‏ ہیں اُنہیں بھی حکمت اور ایمان کی ضرورت ہے۔‏ یعقوب نے زبان کے بارے میں کہا کہ یہ ”‏چھوٹا سا عضو“‏ ہے لیکن ”‏سارے جسم کو داغ لگاتی ہے۔‏“‏ پھر اُس نے ایسی دنیاوی سوچ سے خبردار کِیا جو مسیحیوں کو خدا سے دُور کر سکتی ہے۔‏ اُس نے یہ بھی بتایا کہ جو شخص روحانی طور پر بیمار ہے اُسے شفا پانے کے لئے کونسے اقدام اُٹھانے چاہئیں۔‏—‏یعقو ۳:‏۱،‏ ۵،‏ ۶؛‏ ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۲:‏۱۳‏—‏اِس کا کیا مطلب ہے کہ ”‏رحم انصاف پر غالب آتا ہے“‏؟‏ جب ہم اپنے کاموں کے لئے خدا کو حساب دیتے ہیں تو وہ اِس بات کو مدِنظر رکھتا ہے کہ ہم کس حد تک دوسروں کے ساتھ رحم سے پیش آتے ہیں۔‏ اِس کے مطابق وہ یسوع کی قربانی کی بِنا پر ہمارے گناہ معاف کرتا ہے۔‏ (‏روم ۱۴:‏۱۲‏)‏ اِس وجہ سے ہمیں دوسروں کے ساتھ ہمیشہ رحم سے پیش آنا چاہئے۔‏

 

۵:‏۲۰‏—‏”‏جو کوئی کسی گنہگار کو اُس کی گمراہی سے پھیر لائے گا“‏ وہ کس کی جان کو موت سے بچائے گا؟‏ فرض کریں کہ ایک مسیحی ایک گنہگار شخص کی مدد کرتا ہے اور وہ توبہ کر لیتا ہے۔‏ اِس صورت میں اُس مسیحی نے اِس شخص کو روحانی موت سے یعنی یہوواہ خدا سے دُور رہنے سے بچایا ہے۔‏ اِس کے نتیجے میں وہ اُسے ابدی ہلاکت سے بھی بچا لیتا ہے۔‏ اس کے علاوہ وہ مسیحی اُس شخص کی مدد کرنے سے اُس کے ”‏بہت سے گُناہوں پر پردہ“‏ بھی ڈالتا ہے۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏ گناہ غلط خواہشات کا نتیجہ ہوتا ہے۔‏ اِس وجہ سے جب ہمارے دل میں غلط خواہشات اُبھرنے لگتی ہیں تو ہمیں اِنہیں فوراً دل سے نکال دینا چاہئے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں ’‏ایسی باتوں پر غور کرنا‘‏ چاہئے جو نیک اور پاک ہیں۔‏—‏فل ۴:‏۸‏۔‏

۲:‏۸،‏ ۹‏۔‏ جب ہم ”‏طرفداری کرتے“‏ ہیں تو ہم ”‏بادشاہی شریعت“‏ کی خلاف‌ورزی کرتے ہیں۔‏ اِس شریعت کے مطابق ہمیں اپنے پڑوسی سے محبت کرنی چاہئے۔‏ لہٰذا سچے مسیحی کسی کی طرفداری نہیں کرتے۔‏

۲:‏۱۴-‏۲۶‏۔‏ ہمیں ”‏ایمان کے وسیلہ سے .‏ .‏ .‏ نجات ملی ہے .‏ .‏ .‏ اور نہ اعمال کے سبب سے،‏“‏ چاہے یہ اعمال موسیٰ کی شریعت یا یسوع کی تعلیمات کے مطابق کئے جائیں۔‏ بہرحال،‏ ہمیں اپنے ایمان کا اقرار نہ صرف زبان سے کرنا چاہئے بلکہ اِسے اعمال سے ظاہر بھی کرنا چاہئے۔‏ (‏افس ۲:‏۸،‏ ۹؛‏ یوح ۳:‏۱۶‏)‏ ایمان کی بِنا پر ہمارے دل میں خدا کی مرضی کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔‏

۳:‏۱۳-‏۱۷‏۔‏ ‏’‏جو حکمت اوپر سے اُترتی ہے‘‏ یہ ”‏دُنیوی اور نفسانی اور شیطانی“‏ حکمت سے افضل ہے۔‏ ہمیں خدا کی حکمت کو اِس طرح ’‏تلاش کرنا چاہئے جیسے پوشیدہ خزانوں کو۔‏‘‏—‏امثا ۲:‏۱-‏۵‏۔‏

۳:‏۱۸‏۔‏ ‏’‏صلح کرانے والے‘‏ بادشاہت کی خوشخبری کا پھل ’‏صلح کے ساتھ بوتے ہیں۔‏‘‏ اِس لئے ہمیں گستاخ،‏ گھمنڈی اور جھگڑالو ہونے کی بجائے صلح کو فروغ دینا چاہئے۔‏

‏”‏تُم ایمان میں مضبوط ہو“‏

‏(‏۱-‏پطر ۱:‏۱–‏۵:‏۱۴‏)‏

پطرس رسول مسیحیوں کو اِس بات کی یاد دلاتا ہے کہ وہ آسمان میں میراث پانے کی ”‏زندہ اُمید“‏ رکھتے ہیں۔‏ وہ اُن سے کہتا ہے کہ ”‏تُم ایک برگزیدہ نسل۔‏ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔‏ مُقدس قوم .‏ .‏ .‏ ہو۔‏“‏ تابعداری کے موضوع پر ہدایت دینے کے بعد پطرس سب مسیحیوں کو یوں تاکید کرتا ہے:‏ ”‏غرض سب کے سب یکدل اور ہمدرد رہو۔‏ برادرانہ محبت رکھو۔‏ نرم‌دل اور فروتن بنو۔‏“‏—‏۱-‏پطر ۱:‏۳،‏ ۴؛‏ ۲:‏۹؛‏ ۳:‏۸‏۔‏

چونکہ یہودیوں کے مذہبی نظام کا ’‏خاتمہ جلد ہونے والا تھا‘‏ اس لئے پطرس نے اپنے بھائیوں کو یوں تاکید کی:‏ ”‏ہوشیار رہو اور دُعا کرنے کے لئے تیار۔‏“‏ اُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُم ہوشیار اور بیدار رہو۔‏ .‏ .‏ .‏ تُم ایمان میں مضبوط ہو کر .‏ .‏ .‏ [‏شیطان]‏ کا مقابلہ کرو۔‏“‏—‏۱-‏پطر ۴:‏۷؛‏ ۵:‏۸،‏ ۹‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۳:‏۲۰-‏۲۲‏—‏بپتسمہ ہمیں کیسے بچاتا ہے؟‏ بپتسمہ لینا نجات پانے کی ایک شرط ہے۔‏ لیکن ہم بپتسمہ لینے سے ہی نجات نہیں پا سکتے۔‏ نجات صرف ”‏یسوؔع مسیح کے جی اُٹھنے کے وسیلہ سے“‏ ممکن ہے۔‏ یسوع نے ہمارے لئے اپنی جان قربان کر دی،‏ اُسے زندہ کِیا گیا،‏ وہ ”‏خدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے“‏ اور اُسے زندوں اور مُردوں پر اختیار سونپا گیا ہے۔‏ اِن باتوں پر ایمان لانے سے ہی ایک شخص نجات حاصل کر سکتا ہے۔‏ جب ایک شخص ایسا ایمان رکھ کر بپتسمہ لیتا ہے تو اُس کا بپتسمہ اُس واقعے کا مشابہ ہے جب ”‏آٹھ جانیں“‏ پانی میں سے بچائی گئی تھیں۔‏

۴:‏۶‏—‏وہ ’‏مُردے‘‏ کون تھے جن کو’‏خوشخبری سنائی گئی تھی‘‏؟‏ یہ وہ لوگ تھے جو ”‏اپنے قصوروں اور گُناہوں کے سبب سے مُردہ تھے۔‏“‏ (‏افس ۲:‏۱‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ خوشخبری سننے سے پہلے وہ روح کے لحاظ سے مُردہ تھے یعنی خدا سے دُور تھے۔‏ لیکن خوشخبری پر ایمان لانے سے وہ روحانی طور پر زندہ ہو گئے تھے۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۷‏۔‏ جب ہمارا ایمان آزمایا جاتا ہے تو یہ مضبوط ہو کر بیش‌قیمت بن جاتا ہے۔‏ ایک ایسا مضبوط ایمان ہماری ’‏جان بچائے گا۔‏‘‏ (‏عبر ۱۰:‏۳۹‏)‏ آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت ہم ہٹنے والے نہیں ہوں گے یعنی ہم اِس آزمائش سے بچنے کے لئے خدا کے اصولوں کو نہیں توڑیں گے۔‏

۱:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏ جو باتیں نبیوں نے ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا کے بارے میں لکھی تھیں،‏ فرشتے بھی اِن باتوں کو سمجھنے کے مشتاق تھے۔‏ لیکن یہ باتیں تب ہی واضح ہوئیں جب یہوواہ خدا نے ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا کو قائم کِیا۔‏ (‏افس ۳:‏۱۰‏)‏ فرشتوں کی طرح ہمیں بھی ’‏خدا کی تہ کی باتوں کو دریافت کرنے‘‏ کی ضرورت ہے۔‏—‏۱-‏کر ۲:‏۱۰‏۔‏

۲:‏۲۱‏۔‏ یسوع مسیح کے نقشِ‌قدم پر چلتے ہوئے ہمیں یہوواہ خدا کے وفادار رہنے کے لئے جان تک دینے کو تیار ہونا چاہئے۔‏

۵:‏۶،‏ ۷‏۔‏ جب ہم اپنی ساری فکر یہوواہ خدا پر ڈال دیتے ہیں تو وہ ہماری مدد کرتا ہے۔‏ اس طرح ہم مستقبل کے لئے فکر کرنے کی بجائے اُس کی عبادت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیں گے۔‏—‏متی ۶:‏۳۳،‏ ۳۴‏۔‏

‏’‏یہوواہ کا دن آئے گا‘‏

‏(‏۲-‏پطر ۱:‏۱–‏۳:‏۱۸‏)‏

پطرس رسول نے لکھا:‏ ”‏نبوّت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روحُ‌القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔‏“‏ اِن نبوّتوں پر دھیان دینے سے ہم ’‏جھوٹے اُستادوں‘‏ اور بُرے لوگوں کی باتوں میں پڑنے سے بچے رہیں گے۔‏—‏۲-‏پطر ۱:‏۲۱؛‏ ۲:‏۱-‏۳‏۔‏

پطرس آگاہی دیتا ہے کہ ”‏اخیر دنوں میں .‏ .‏ .‏ ہنسی ٹھٹھا کرنے والے آئیں گے۔‏“‏ ”‏لیکن [‏یہوواہ]‏ کا دن چور کی طرح آ جائے گا۔‏“‏ اپنے خط کے اختتام پر پطرس اُن لوگوں کے لئے کچھ نصیحتیں شامل کرتا ہے جو ’‏اُس دن کے آنے کے منتظر اور مشتاق ہیں۔‏‘‏—‏۲-‏پطر ۳:‏۳،‏ ۱۰-‏۱۲‏۔‏

صحیفائی سوالات کے جواب:‏

۱:‏۱۹‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن *‏—‏”‏صبح کا ستارہ“‏ کون ہے،‏ وہ کب طلوع ہوا اور ہم کیسے جانتے ہیں کہ وہ طلوع ہو چکا ہے؟‏ ‏”‏صبح کا ستارہ“‏ خدا کی بادشاہت کا بادشاہ یسوع مسیح ہے۔‏ (‏مکا ۲۲:‏۱۶‏)‏ سن ۱۹۱۴ عیسوی میں یسوع،‏ خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر طلوع ہوا جس کے نتیجے میں کائنات کے لئے ایک نیا دن چڑھا۔‏ صورت بدلنے والی رویا میں یسوع کے جلال اور بادشاہ کے طور پر اُس کے اختیار کی جھلک دکھائی گئی جس کے نتیجے میں خدا کے نبیوں کا کلام زیادہ قابلِ‌بھروسہ ٹھہرا۔‏ (‏مر ۹:‏۱-‏۳‏)‏ اِس کلام پر غور کرنے سے ہمارے دل روشن ہو جاتے ہیں اور ہمیں اِس بات کا احساس ہوتا ہے کہ صبح کا ستارہ طلوع ہو گیا ہے۔‏

۲:‏۴‏—‏اِس آیت میں ”‏جہنم“‏ سے کیا مُراد ہے اور گُناہ کرنے والے فرشتوں کو اِس میں کب بھیجا گیا؟‏ اُردو بائبل میں جس لفظ کا ترجمہ ”‏جہنم“‏ کِیا گیا ہے،‏ بائبل کی اصلی زبان میں یہ لفظ”‏تارترس“‏ ہے۔‏ تارترس ایک حقیقی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ اِن پابندیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بُرے فرشتوں پر لگائی گئی ہیں۔‏ جن فرشتوں پر یہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ روحانی طور پر اندھیرے میں ہیں اور وہ خدا کے ارادوں کو نہیں سمجھ پاتے۔‏ جو فرشتے تارترس میں ہیں اُن کا مستقبل تاریک ہے۔‏ خدا نے نوح کے زمانے میں نافرمان فرشتوں کو تارترس میں بھیج دیا اور وہ اُس وقت تک اِس روحانی تاریکی میں رہیں گے جب تک کہ اُنہیں تباہ نہ کر دیا جائے۔‏

۳:‏۱۷‏—‏جب پطرس نے کہا کہ ”‏تُم پہلے سے آگاہ ہو“‏ تو اُس کا اشارہ کن واقعات کی طرف تھا؟‏ پطرس ایسے واقعات کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو مستقبل میں ہونے والے تھے اور جن کے بارے میں خدا نے بائبل کے لکھنے والوں کو پہلے سے آگاہ کِیا تھا۔‏ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلی صدی کے مسیحیوں کو مستقبل میں ہونے والی تمام باتوں کا تفصیلی علم تھا۔‏

ہمارے لئے سبق:‏

۱:‏۲،‏ ۵-‏۷‏۔‏ ‏”‏خدا اور ہمارے خداوند یسوؔع کی پہچان [‏یا علم]‏“‏ میں بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایمان،‏ صبر اور دینداری جیسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں۔‏ جب ہم ایسا کریں گے تو ہم ’‏بیکار اور بےپھل نہ ہوں گے۔‏‘‏—‏۲-‏پطر ۱:‏۸‏۔‏

۱:‏۱۲-‏۱۵‏۔‏ ‏”‏حق بات پر قائم“‏ رہنے کے لئے ہمیں ایسی یاددہانیوں کی ضرورت ہے جو ہمیں کلیسیا کے اجلاسوں اور بائبل کا مطالعہ کرتے وقت ملتی ہیں۔‏

۲:‏۲‏۔‏ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جس سے یہوواہ کے پاک نام پر داغ لگے یا اُس کی تنظیم کی بدنامی ہو۔‏—‏روم ۲:‏۲۴‏۔‏

۲:‏۴-‏۹‏۔‏ خدا نے ماضی میں جو کچھ کِیا اِس سے ہم اِس بات پر یقین کر سکتے ہیں کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ دینداروں کو آزمایش سے نکال لینا اور بدکاروں کو عدالت کے دن تک سزا میں رکھنا جانتا ہے۔‏“‏

۲:‏۱۰-‏۱۳‏۔‏ ‏”‏عزت‌داروں“‏ یعنی کلیسیا کے بزرگوں کی بھی خامیاں ہوتی ہیں اور اُن سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔‏ اس کے باوجود ہمیں اُن پر لعن‌طعن نہیں کرنی چاہئے۔‏—‏عبر ۱۳:‏۷،‏ ۱۷‏۔‏

۳:‏۲-‏۴،‏ ۱۲‏۔‏ ہمیں ’‏خداوند اور مُنجی کے حکم‘‏ اور ’‏پاک نبیوں کی باتوں‘‏ پر دھیان دینا چاہئے۔‏ اس طرح ہمیں یہ احساس رہے گا کہ یہوواہ کا دن آنے والا ہے۔‏

۳:‏۱۱-‏۱۴‏۔‏ اگر ہم ’‏یہوواہ خدا کے دن کے آنے کے منتظر اور مشتاق ہیں‘‏ تو (‏۱)‏ ہمیں اپنے ’‏چال‌چلن کو پاک‘‏ رکھناچاہئے یعنی ہمیں جسمانی،‏ روحانی اور اخلاقی طور پر پاک ہونا چاہئے؛‏ (‏۲)‏ ہمیں ”‏دینداری“‏ ظاہر کرتے ہوئے منادی اور شاگرد بنانے کے کام میں بڑھ‌چڑھ کر حصہ لینا چاہئے؛‏ (‏۳)‏ ہمیں اپنے اعمال اور اپنی شخصیت کو اِس بُری دُنیا سے ”‏بےداغ“‏ رکھنا چاہئے؛‏ (‏۴)‏ ہمیں ”‏بےعیب“‏ ہونا چاہئے اور تمام کام اچھی نیت سے کرنے چاہئیں؛‏ (‏۵)‏ ہمیں ”‏اطمینان کی حالت میں“‏ رہنا چاہئے یعنی اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں اور خدا کی قربت میں رہنا چاہئے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 36 نیو ورلڈ ٹرانسلیشن میں اِس آیت کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے:‏ ”‏جس کی وجہ سے ہمارے نزدیک نبیوں کا کلام زیادہ بھروسے کے قابل ٹھہرا اور تُم اِس پر غور کرنے سے اچھا کرتے ہو کیونکہ یہ ایک چراغ کی طرح ہے جو اندھیری جگہ میں یعنی تمہارے دلوں میں روشنی بخشتا ہے جب تک پَو نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ طلوع نہ ہو۔‏“‏