مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنا دھیان انعام پر لگائے رکھیں

اپنا دھیان انعام پر لگائے رکھیں

اپنا دھیان انعام پر لگائے رکھیں

‏”‏[‏مَیں]‏ نشان کی طرف دوڑا ہوا جاتا ہوں تاکہ .‏ .‏ .‏ انعام کو حاصل کروں۔‏“‏—‏فل ۳:‏۱۴‏۔‏

۱.‏ پولس رسول کس انعام کو حاصل کرنے کی اُمید رکھتا تھا؟‏

پولس رسول شہر ترسس کے ایک نامور خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔‏ اُس کو گملی‌ایل نامی ایک مشہور عالم نے یہودی شریعت کی تعلیم دی۔‏ (‏اعما ۲۲:‏۳‏)‏ اِس تربیت کی بدولت پولس کو یہودی نظام میں بڑی ترقی کرنے کا موقع ملا۔‏ لیکن اُس نے اپنا مذہب ترک کرکے مسیحی بننے کا فیصلہ کِیا۔‏ اِس کے بعد پولس کا دھیان ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے انعام پر لگا رہا۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ وہ کاہن اور بادشاہ کے طور پر خدا کی آسمانی بادشاہت میں شامل ہونے کی اُمید رکھتا تھا۔‏ یہ بادشاہت ایک فردوسی زمین پر حکمرانی کرے گی۔‏—‏متی ۶:‏۱۰؛‏ مکا ۷:‏۴؛‏ ۲۰:‏۶‏۔‏

۲،‏ ۳.‏ پولس رسول آسمانی بادشاہت میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کو کتنا اہم خیال کرتا تھا؟‏

۲ پولس رسول اِس انعام کی بڑی قدر کرتا تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جتنی چیزیں میرے نفع کی تھیں اُن ہی کو مَیں نے مسیح کی خاطر نقصان سمجھ لیا ہے۔‏ بلکہ مَیں اپنے خداوند مسیح یسوؔع کی پہچان کی بڑی خوبی کے سبب سے سب چیزوں کو نقصان سمجھتا ہوں۔‏ جس کی خاطر مَیں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا اور اُن کو کوڑا سمجھتا ہوں تاکہ مسیح کو حاصل کروں۔‏“‏ (‏فل ۳:‏۷،‏ ۸‏)‏ عام طور پر لوگ رُتبہ،‏ دولت اور شہرت حاصل کرنے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا کی مرضی کو جان لینے کے بعد پولس رسول اِن سب چیزوں کو کوڑا خیال کرنے لگا۔‏

۳ پولس رسول اُن باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دینے لگا جو اُس نے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے بارے میں سیکھی تھیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِ‌واحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جِسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔‏“‏ (‏یوح ۱۷:‏۳‏)‏ پولس رسول ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی دلی خواہش رکھتا تھا۔‏ یہ اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے جو فلپیوں ۳:‏۱۴ میں درج ہیں جہاں پولس نے لکھا:‏ ”‏[‏مَیں]‏ نشان کی طرف دوڑا ہوا جاتا ہوں تاکہ اُس انعام کو حاصل کروں جس کے لئے خدا نے مجھے مسیح یسوؔع میں اُوپر بلایا ہے۔‏“‏ پولس رسول کا دھیان خدا کی آسمانی بادشاہت میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے انعام پر لگا تھا۔‏

زمین پر ہمیشہ کی زندگی

۴،‏ ۵.‏ خدا کی مرضی بجا لانے والے لاکھوں لوگوں کا انعام کیا ہوگا؟‏

۴ خدا کی مرضی بجا لانے والے زیادہ‌تر لوگوں کا انعام یہ ہوگا کہ وہ فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی سے لطف اُٹھائیں گے۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۱۱،‏ ۲۹‏)‏ یسوع مسیح نے اِس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۵‏)‏ جیسا کہ زبور ۲:‏۸ سے ظاہر ہوتا ہے،‏ خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر یسوع مسیح کو زمین ورثے میں ملی ہے اور اُس کے ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ ہم‌میراث اُس کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کریں گے۔‏ (‏دان ۷:‏۱۳،‏ ۱۴،‏ ۲۲،‏ ۲۷‏)‏ اِس کے علاوہ یسوع کی ایسی بھی بھیڑیں ہیں جو زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھتی ہیں۔‏ یہ لوگ اِس لحاظ سے زمین کے وارث ہوں گے کہ وہ اُس بادشاہت کی رعایا میں شامل ہوں گے جو ’‏بِنایِ‌عالم سے اُن کے لئے تیار کی گئی ہے۔‏‘‏ (‏متی ۲۵:‏۳۴،‏ ۴۶‏)‏ ہم اِس بات پر یقین کر سکتے ہیں کہ خدا کا یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا کیونکہ وہ ”‏جھوٹ نہیں بول سکتا۔‏“‏ (‏طط ۱:‏۲‏)‏ بنی‌اسرائیل سے مخاطب ہوتے ہوئے یشوع نے خدا کے وعدوں پر یوں بھروسا ظاہر کِیا:‏ ”‏اُن سب اچھی باتوں میں سے جو [‏یہوواہ]‏ تمہارے خدا نے تمہارے حق میں کہیں ایک بات بھی نہ چُھوٹی۔‏ سب تمہارے حق میں پوری ہوئیں اور ایک بھی اُن میں سے رہ نہ گئی۔‏“‏—‏یشو ۲۳:‏۱۴‏۔‏

۵ فردوسی زمین پر ہمیں دُکھ اور تکلیف کا سامنا نہیں ہوگا کیونکہ اُس وقت جنگ،‏ جُرم‌وتشدد،‏ غربت،‏ ناانصافی،‏ بیماری اور موت کا نام‌ونشان مِٹ جائے گا۔‏ لوگ مکمل طور پر صحت‌مند ہوں گے۔‏ تب ہم زندگی سے بھرپور لطف اُٹھا سکیں گے۔‏ ہر نیا دن خوشیاں لائے گا۔‏ واقعی یہ ایک شاندار انعام ہوگا!‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے معجزے کیوں دکھائے؟‏ (‏ب)‏ جو لوگ مُردوں میں سے زندہ کئے جائیں گے اُنہیں کونسا موقع دیا جائے گا؟‏

۶ جب یسوع زمین پر تھا تو اُس نے خدا کی پاک روح کی مدد سے بڑےبڑے معجزے دکھائے۔‏ اِن معجزوں کے ذریعے یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ وہ مستقبل میں فردوسی زمین پر کونسے کام انجام دے گا۔‏ مثال کے طور پر،‏ اُس نے ایک ایسے شخص کو شفا بخشی جو ۳۸ سال سے اپاہج تھا۔‏ ‏(‏یوحنا ۵:‏۵-‏۹ کو پڑھیں۔‏)‏ ایک اَور موقع پر اُس نے ایک ایسے شخص کو بینائی بخشی ”‏جو جنم کا اندھا تھا۔‏“‏ بعد میں جب اُس آدمی سے یسوع کے بارے میں پوچھ‌گچھ کی گئی تو اُس نے کہا:‏ ”‏دُنیا کے شروع سے سننے میں نہیں آیا کہ کسی نے جنم کے اندھے کی آنکھیں کھولی ہوں۔‏ اگر یہ شخص خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو کچھ نہ کر سکتا۔‏“‏ (‏یوح ۹:‏۱،‏ ۶،‏ ۷،‏ ۳۲،‏ ۳۳‏)‏ یسوع یہ سب کچھ خدا کی پاک روح کی بدولت ہی انجام دے سکا۔‏ جہاں کہیں وہ جاتا،‏ وہ اُن لوگوں کو ’‏جو شفا پانے کے محتاج تھے اُنہیں شفا بخشتا۔‏‘‏—‏لو ۹:‏۱۱‏۔‏

۷ یسوع نے نہ صرف بیماروں اور اپاہجوں کو شفا بخشی بلکہ اُس نے مُردوں کو زندہ بھی کِیا۔‏ ایک موقعے پر ایک بارہ سالہ لڑکی فوت ہو گئی۔‏ اُس کے والدین غم سے نڈھال تھے۔‏ لیکن یسوع نے کہا:‏ ”‏اَے لڑکی مَیں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ۔‏“‏ اِس پر لڑکی اُٹھ گئی۔‏ کیا آپ اُس لڑکی کے والدین اور عزیزوں کی خوشی کو تصور کر سکتے ہیں؟‏ ‏(‏مرقس ۵:‏۳۸-‏۴۲ کو پڑھیں۔‏)‏ فردوسی زمین پر ”‏راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی“‏ یعنی کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھیں گے۔‏ اُس وقت بھی لوگوں کی خوشی کی انتہا نہ ہوگی۔‏ (‏اعما ۲۴:‏۱۵؛‏ یوح ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ جو لوگ مُردوں میں سے زندہ کئے جائیں گے اُنہیں ہمیشہ کی زندگی پانے کا موقع دیا جائے گا۔‏

۸،‏ ۹.‏ (‏ا)‏ یسوع انسانوں کو اُس عیب سے کیسے پاک کرے گا جو اُنہوں نے آدم سے ورثے میں پایا ہے؟‏ (‏ب)‏ جو لوگ مُردوں میں سے زندہ کئے جائیں گے اُن کی عدالت کن کاموں کی بِنا پر ہوگی؟‏

۸ جن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا اُن کی عدالت اُن گناہوں کے مطابق نہیں ہوگی جو اُنہوں نے مرنے سے پہلے کئے تھے۔‏ (‏روم ۶:‏۷‏)‏ اپنی ہزارسالہ حکمرانی کے دوران یسوع مسیح اپنی جان کی قربانی کی قیمت کو اپنی وفادار رعایا کے لئے کام میں لائے گا۔‏ اِن لوگوں نے آدم سے جو عیب ورثے میں پایا تھا وہ آہستہ‌آہستہ مٹا دیا جائے گا اور وہ آخرکار بالکل بےعیب اور بےگناہ ہو جائیں گے۔‏ (‏روم ۸:‏۲۱‏)‏ یہوواہ خدا ”‏موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کرے گا اور [‏یہوواہ]‏ خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالے گا۔‏“‏ (‏یسع ۲۵:‏۸‏)‏ خدا کے کلام میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اُس وقت ’‏کتابیں کھولی جائیں گی‘‏ جن میں زمین کے باشندوں کے لئے نئی ہدایات درج ہوں گی۔‏ (‏مکا ۲۰:‏۱۲‏)‏ جوں‌جوں زمین فردوس میں تبدیل ہوگی ’‏دُنیا کے باشندے صداقت سیکھیں گے۔‏‘‏—‏یسع ۲۶:‏۹‏۔‏

۹ جو لوگ مُردوں میں سے زندہ کئے جائیں گے وہ فوراً گناہ کے اُس داغ سے پاک نہیں ہوں گے جو اُنہوں نے آدم سے ورثے میں پایا تھا۔‏ لہٰذا اُس وقت بھی اُن سے غلطیاں ہوں گی۔‏ لیکن اُن کی عدالت اُن غلطیوں کی بِنا پر نہیں ہوگی۔‏ اِس کی بجائے اُن کی عدالت اِس کے مطابق ہوگی کہ آیا وہ یہوواہ خدا کے فرمانبردار ہونے کی کوشش کریں گے یا نہیں۔‏ مکاشفہ ۲۰:‏۱۲ میں اُس وقت کے بارے میں لکھا ہے:‏ ”‏جس طرح اُن کتابوں میں لکھا ہوا تھا اُن کے اعمال کے مطابق مُردوں کا انصاف کِیا گیا۔‏“‏ اِس آیت میں اُن اعمال کی طرف اشارہ کِیا گیا ہے جو وہ جی اُٹھنے کے بعد کرتے ہیں۔‏ واقعی،‏ یہ یہوواہ خدا کی محبت،‏ انصاف اور رحم کی شاندار مثال ہے۔‏ شیطان کی بُری دُنیا میں لوگوں نے جو تکلیف‌دہ باتیں سہی تھیں اُن کا ”‏پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئیں گی۔‏“‏ (‏یسع ۶۵:‏۱۷‏)‏ اُس وقت زندگی اِس قدر خوشگوار ہوگی اور اُنہیں اتنی نئی باتیں سیکھنی ہوں گی کہ وہ ماضی کی تکلیف‌دہ باتوں کو بھول جائیں گے۔‏ (‏مکا ۲۱:‏۴‏)‏ یہ تمام باتیں اُس ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کے بارے میں بھی سچ ہوں گی جو ہرمجدون میں سے زندہ بج نکلے گی۔‏—‏مکا ۷:‏۹،‏ ۱۰،‏ ۱۴‏۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ فردوس میں حالات کیسے ہوں گے؟‏ (‏ب)‏ آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کا دھیان ہمیشہ کی زندگی کے انعام پر لگا رہے؟‏

۱۰ فردوس میں لوگ نہ تو بیمار ہوں گے اور نہ ہی اُن کو مرنا پڑے گا۔‏ ”‏وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏ (‏یسع ۳۳:‏۲۴‏)‏ اُس وقت لوگ ہر لحاظ سے صحتمند ہوں گے اور وہ ہر دن زندگی کا بھرپور لطف اُٹھائیں گے۔‏ وہ اپنی محنت سے خوشی حاصل کریں گے۔‏ وہ ایسے لوگوں سے رفاقت رکھیں گے جو اُن کی بھلائی چاہتے ہیں۔‏ ایسی زندگی کیا ہی خوبصورت انعام ہوگی!‏ کیوں نہ اپنی بائبل کھول کر یسعیاہ ۳۳:‏۲۴ اور ۳۵:‏۵-‏۷ کو پڑھیں؟‏ خود کو اِس فردوس میں تصور کریں۔‏ ایسا کرنے سے آپ کا دھیان ہمیشہ کی زندگی کے انعام پر لگا رہے گا۔‏

اُن کا دھیان انعام سے ہٹ گیا

۱۱.‏ سلیمان اپنی حکمرانی کے شروع میں کس قسم کا شخص تھا؟‏

۱۱ چونکہ ہمارا دھیان انعام سے ہٹ سکتا ہے اِس لئے ہمیں اپنے دھیان کو انعام پر رکھنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔‏ ذرا سلیمان کی مثال پر غور کریں۔‏ جب وہ بنی‌اسرائیل کا بادشاہ بنا تو وہ اپنی رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہتا تھا۔‏ اِس لئے اُس نے عاجزی سے بُرے اور بھلے میں امتیاز کرنے کی صلاحیت کے لئے دُعا کی۔‏ ‏(‏۱-‏سلاطین ۳:‏۶-‏۱۲ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کے نتیجے میں ”‏خدا نے سلیماؔن کو حکمت اور سمجھ بہت ہی زیادہ اور دل کی وسعت بھی عنایت کی۔‏“‏ یہاں تک کہ ”‏سلیماؔن کی حکمت سب اہلِ‌مشرق کی حکمت اور مصرؔ کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی۔‏“‏—‏۱-‏سلا ۴:‏۲۹-‏۳۲‏۔‏

۱۲.‏ شریعت میں یہوواہ خدا نے اسرائیل کے بادشاہوں کو کس بات سے خبردار کِیا؟‏

۱۲ شریعت میں یہوواہ خدا نے حکم دیا تھا کہ جو شخص بادشاہ بنے گا ”‏وہ اپنے لئے بہت گھوڑے نہ بڑھائے“‏ اور ”‏وہ بہت سی بیویاں بھی نہ رکھے تا نہ ہو کہ اُس کا دل پھر جائے۔‏“‏ (‏است ۱۷:‏۱۴-‏۱۷‏)‏ اگر بادشاہ گھوڑوں کی تعداد بڑھاتا تو اِس سے ظاہر ہوتا کہ وہ یہوواہ خدا کی بجائے اپنی فوج کی طاقت پر بھروسا رکھتا ہے۔‏ اور اگر وہ بہت سی بیویاں رکھتا تو یہ اُس کے لئے نقصاندہ ثابت ہوتا کیونکہ اِن میں سے کچھ بُت‌پرست قوموں سے ہوتیں اور وہ بادشاہ کو یہوواہ خدا کی عبادت سے گمراہ کرتیں۔‏

۱۳.‏ سلیمان کا دھیان یہوواہ خدا کی عبادت سے کیسے بٹ گیا؟‏

۱۳ سلیمان نے اِن آگاہیوں پر کان نہیں لگایا۔‏ اُس نے وہ دونوں کام کئے جن سے یہوواہ خدا نے منع کِیا تھا۔‏ اُس نے ہزاروں کی تعداد میں گھوڑے اور سوار رکھے۔‏ (‏۱-‏سلا ۴:‏۲۶‏)‏ اُس کی ۷۰۰ بیویاں اور ۳۰۰ حرمیں تھیں۔‏ اِن میں سے بہت سی بیویاں اِردگِرد کی بُت‌پرست قوموں سے تھیں۔‏ اِنہوں نے ”‏اُس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اُس کا دل [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا۔‏“‏ اپنی غیراسرائیلی بیویوں کی طرح سلیمان نے بھی بُتوں کی پوجا کرنا شروع کر دی۔‏ اِس لئے یہوواہ خدا نے سلیمان سے کہا:‏ ”‏مَیں سلطنت کو ضرور تجھ سے چھین کر تیرے خادم کو دوں گا۔‏“‏—‏۱-‏سلا ۱۱:‏۱-‏۶،‏ ۱۱‏۔‏

۱۴.‏ سلیمان اور بنی‌اسرائیل کی بےوفائی کا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۱۴ سلیمان اِس بات کو بھول گیا تھا کہ یہوواہ خدا کے نمائندے کے طور پر خدمت کرنا بہت ہی بڑا شرف ہوتا ہے۔‏ لہٰذا اُس کا دھیان یہوواہ خدا کی عبادت سے ہٹ گیا اور وہ بُتوں کی پوجا کرنے لگا۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بنی‌اسرائیل بھی یہوواہ خدا کی عبادت سے برگشتہ ہو گئے جس کے نتیجے میں اُنہیں ۶۰۷ قبلِ‌مسیح میں اسیر کر لیا گیا۔‏ اِس کے بعد وہ دوبارہ سے یہوواہ خدا کی عبادت کرنے لگے۔‏ لیکن کچھ صدیوں بعد یسوع نے یہودی قوم کے بارے میں کہا:‏ ”‏خدا کی بادشاہی تُم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔‏“‏ اِس کے علاوہ یسوع نے کہا:‏ ”‏دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے۔‏“‏ اور بالکل ویسا ہی ہوا۔‏ (‏متی ۲۱:‏۴۳؛‏ ۲۳:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ یہودی قوم اپنی بےوفائی کی وجہ سے یہوواہ خدا کی نمائندگی کرنے کا شرف کھو بیٹھی۔‏ سن ۷۰ عیسوی میں رومی فوج نے یروشلیم اور اُس کے ہیکل کو تباہ کر دیا اور بہت سے یہودیوں کو غلام بنا دیا۔‏

۱۵.‏ ایسے لوگوں کی مثال دیں جن کا دھیان خدا کی عبادت سے ہٹ گیا تھا۔‏

۱۵ یہوداہ اسکریوتی یسوع مسیح کے ۱۲ رسولوں میں سے ایک تھا۔‏ اُس نے اپنے کانوں سے یسوع کی تعلیم سنی اور اپنی آنکھوں سے اُن معجزوں کو دیکھا جو یسوع نے خدا کی پاک رُوح کے ذریعے دکھائے تھے۔‏ لیکن اُس نے اپنے دل کی حفاظت نہیں کی۔‏ یسوع اور ۱۲ رسولوں کے پیسے یہوداہ اسکریوتی کے سپرد تھے۔‏ لیکن وہ ”‏چور تھا اور چُونکہ اُس کے پاس اُن کی تھیلی رہتی تھی اُس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔‏“‏ (‏یوح ۱۲:‏۶‏)‏ پیسوں کے لالچ میں آ کر اُس نے ۳۰ روپے کی رقم کے لئے یسوع کو پکڑوایا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ اس کے علاوہ ذرا دیماس کی بُری مثال پر غور کریں جو پولس رسول کا ساتھی تھا۔‏ دیماس نے اپنے دل کی حفاظت نہیں کی۔‏ پولس رسول نے کہا:‏ ”‏دیماؔس نے اِس موجودہ جہان کو پسند کرکے مجھے چھوڑ دیا۔‏“‏—‏۲-‏تیم ۴:‏۱۰؛‏ امثال ۴:‏۲۳ کو پڑھیں۔‏

ہمارے لئے سبق

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ شیطان کتنا طاقتور ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم شیطان کے واروں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ یہوواہ خدا کے خادموں کو اُن مثالوں سے سبق سیکھنا چاہئے جو بائبل میں دی گئی ہیں۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏یہ باتیں اُن پر عبرت کے لئے واقع ہوئیں اور ہم آخری زمانہ والوں کی نصیحت کے واسطے لکھی گئیں۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۱۰:‏۱۱‏)‏ لہٰذا،‏ یہ باتیں ہماری نصیحت کے لئے لکھی گئی ہیں کیونکہ ہم شیطان کی بُری دُنیا کے آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔‏—‏۲-‏تیم ۳:‏۱،‏ ۱۳‏۔‏

۱۷ شیطان ’‏اِس جہان کا خدا‘‏ ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ اُس کا ”‏تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کر ۴:‏۴؛‏ مکا ۱۲:‏۱۲‏)‏ وہ یہوواہ خدا کے خادموں کو ورغلانے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔‏ چونکہ یہ دُنیا شیطان کے قبضے میں ہے اس لئے ٹی‌وی،‏ انٹرنیٹ اور اخباروں وغیرہ میں اکثر اُس کی سوچ پائی جاتی ہے۔‏ لیکن یہوواہ اپنے خادموں کو ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ عطا کرتا ہے۔‏ (‏۲-‏کر ۴:‏۷‏)‏ اِس قدرت یعنی پاک رُوح کے ذریعے ہم شیطان کے ہر وار کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‏ لہٰذا ہمیں پاک رُوح کے لئے دُعا کرتے رہنا چاہئے،‏ یہ جان کر کہ یہوواہ ’‏اپنے مانگنے والوں کو روحُ‌القدس ضرور دے گا۔‏‘‏—‏لو ۱۱:‏۱۳‏۔‏

۱۸.‏ ہمیں اِس دُنیا کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

۱۸ ہم یہ جان کر بھی حوصلہ پاتے ہیں کہ شیطان کی بُری دُنیا جلد ہی تباہ ہو جائے گی جبکہ سچے مسیحی نجات پائیں گے۔‏ یاد رکھیں کہ ”‏دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔‏“‏ (‏۱-‏یوح ۲:‏۱۷‏)‏ اِس لئے ہمیں دُنیا کی کوئی بھی چیز حاصل کرنے کے لئے خدا کی قربت کو داؤ پر نہیں لگانا چاہئے۔‏ شیطان کی دُنیا ایک سمندری جہاز کی طرح ہے جو ڈوب رہا ہے۔‏ لیکن مسیحی کلیسیا ایک ایسی کشتی کی طرح ہے جس میں ہم محفوظ رہیں گے۔‏ اُنہیں خدا کے اِس وعدے پر پورا بھروسا ہے کہ ”‏بدکردار تو کاٹ ڈالے جائیں گے،‏ لیکن جن کا توکل [‏یہوواہ]‏ پر ہے وہ زمین کے وارث ہوں گے۔‏“‏ (‏زبور ۳۷:‏۹‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ لہٰذا،‏ آئیں ہم اپنا دھیان ہمیشہ کی زندگی کے انعام پر لگائے رکھیں۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• پولس رسول ہمیشہ کی زندگی کے انعام کو کتنا اہم خیال کرتا تھا؟‏

‏• جن لوگوں کو زمین پر ہمیشہ کی زندگی کا انعام ملے گا،‏ اُن کی عدالت کن کاموں کی بِنا پر ہوگی؟‏

‏• اِس آخری زمانے میں ہمیں کن باتوں کو اہمیت دینی چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲،‏ ۱۳ پر تصویر]‏

کیا آپ خدا کا کلام پڑھتے وقت خود کو فردوس میں تصور کرتے ہیں؟‏