مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید

‏”‏مخلوقات .‏ .‏ .‏ کو .‏ .‏ .‏ اُمید پر بطالت کے اختیار میں کر دیا۔‏“‏—‏روم ۸:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید ہمارے لئے اہم کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ بیشتر لوگ اِس بات پر یقین کیوں نہیں رکھتے کہ انسان زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہیں گے؟‏

شاید آپ کو یاد ہو کہ جب آپ نے پہلی مرتبہ یہ سنا تھا کہ مستقبل میں لوگ بوڑھے ہونے اور مرنے کی بجائے زمین پر ہمیشہ زندہ رہیں گے تو آپ کو کتنی خوشی ہوئی تھی۔‏ (‏یوح ۱۷:‏۳؛‏ مکا ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ غالباً آپ نے دوسروں کو بھی اِس اُمید کے بارے میں بتایا تھا۔‏ واقعی،‏ ہمیشہ کی زندگی کی اُمید اُس خوشخبری کا ایک اہم پہلو ہے جس کی ہم مُنادی کرتے ہیں۔‏ یہ اُمید زندگی کے بارے میں ہمارے نظریے کو بدل دیتی ہے۔‏

۲ تاہم،‏ بیشتر مسیحی فرقوں نے زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کو نظرانداز کر دیا ہے۔‏ اگرچہ بائبل یہ تعلیم دیتی ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا وجود بالکل ختم ہو جاتا ہے تو بھی بیشتر چرچوں میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ انسان کے اندر غیرفانی رُوح یا جان ہوتی ہے جو مرنے کے بعد بھی روحانی عالم میں زندہ رہتی ہے۔‏ (‏واعظ ۹:‏۵‏)‏ اِس تعلیم کی وجہ سے بہتیرے لوگ اِس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ انسان ہمیشہ تک زمین پر زندہ رہیں گے۔‏ آئیں اِس سلسلے میں دو سوالات پر غور کریں:‏ کیا بائبل واقعی زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید دیتی ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو خدا نے کب پہلی مرتبہ انسانوں پر یہ بات آشکارا کی؟‏

‏”‏اُمید پر بطالت کے اختیار میں“‏

۳.‏ انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے یہوواہ خدا نے انسانوں کے لئے اپنے مقصد کو کیسے آشکارا کِیا؟‏

۳ انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی یہوواہ خدا نے انسانوں کے لئے اپنے مقصد کو آشکارا کر دیا تھا۔‏ اُس نے واضح طور پر بیان کِیا کہ اگر آدم اُس کی فرمانبرداری کرے گا تو وہ ہمیشہ تک زندہ رہے گا۔‏ (‏پید ۲:‏۹،‏ ۱۷؛‏ ۳:‏۲۲‏)‏ بِلاشُبہ آدم کے بچوں نے یہ سنا ہوگا کہ انسان کیسے گُناہ میں پڑ گئے۔‏ نیز،‏ وہ گُناہ کے نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے۔‏ باغِ‌عدن میں داخل ہونے کے راستے پر پہرہ لگا دیا گیا تھا اور لوگ بوڑھے ہونے اور مرنے لگے تھے۔‏ (‏پید ۳:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ لوگوں کی عمریں کم ہونے لگیں۔‏ آدم نے ۹۳۰ سال کی عمر پائی تھی جبکہ طوفان سے بچ نکلنے والا سم صرف ۶۰۰ برس جیتا رہا اور اُس کا بیٹا ارفکسد محض ۴۳۸ سال تک زندہ رہا۔‏ بعدازاں،‏ ابرہام کے باپ تارح نے ۲۰۵ برس کی عمر میں وفات پائی جبکہ ابرہام کی کُل عمر ۱۷۵ برس،‏ اُس کے بیٹے اضحاق کی عمر ۱۸۰ برس اور یعقوب کی عمر ۱۴۷ برس ہوئی۔‏ (‏پید ۵:‏۵؛‏ ۱۱:‏۱۰-‏۱۳،‏ ۳۲؛‏ ۲۵:‏۷؛‏ ۳۵:‏۲۸؛‏ ۴۷:‏۲۸‏)‏ انسانوں کی کم ہوتی عمروں کو دیکھ کر بیشتر لوگ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ اب وہ زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کا امکان کھو چکے ہیں!‏ مگر کیا اُن کے پاس دوبارہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی کوئی اُمید تھی؟‏

۴.‏ ماضی کے خدا کے وفادار خادم کس بِنا پر یہ ایمان رکھ سکتے تھے کہ خدا انسانوں کو وہ سب کچھ دوبارہ عطا کرے گا جو آدم نے کھو دیا تھا؟‏

۴ خدا کا کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏مخلوقات .‏ .‏ .‏ کو .‏ .‏ .‏ اُمید پر بطالت کے اختیار میں کر دیا۔‏“‏ (‏روم ۸:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ مگر کس اُمید پر؟‏ بائبل کی سب سے پہلی پیشینگوئی ”‏نسل“‏ کے بارے میں بیان کرتی ہے جو ’‏سانپ کے سر کو کچلے گی۔‏‘‏ ‏(‏پیدایش ۳:‏۱-‏۵،‏ ۱۵ کو پڑھیں۔‏)‏ نسل کے بارے میں خدا کا وعدہ وفادار انسانوں کو یہ اُمید فراہم کرتا ہے کہ انسانوں کے لئے اُس کا مقصد کبھی ختم نہیں ہوگا۔‏ اِسی بِنا پر ہابل اور نوح جیسے وفادار اشخاص یہ ایمان رکھنے کے قابل ہوئے کہ خدا انسانوں کو وہ سب کچھ دوبارہ عطا کرے گا جو آدم نے کھو دیا تھا۔‏ غالباً یہ اشخاص جانتے تھے کہ ’‏نسل کی ایڑی پر کاٹے‘‏ جانے میں خون بہانا شامل ہوگا۔‏—‏پید ۴:‏۴؛‏ ۸:‏۲۰؛‏ عبر ۱۱:‏۴‏۔‏

۵.‏ یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ابرہام مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتا تھا؟‏

۵ ابرہام کی مثال پر غور کریں۔‏ جب اُس کی آزمائش ہوئی تو ’‏ابرہام اپنے اکلوتے بیٹے اضحاق کو نذر کرنے پر تیار ہو گیا۔‏‘‏ (‏عبر ۱۱:‏۱۷‏)‏ وہ اُسے نذر کرنے پر کیوں راضی تھا؟‏ ‏(‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۹ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس لئے کہ وہ مُردوں کے زندہ کئے جانے پر ایمان رکھتا تھا۔‏ ابرہام کے پاس اِس ایمان کے لئے ٹھوس وجہ موجود تھی۔‏ یہوواہ خدا نے اُس کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کو بحال کِیا تھا اور اُسے اور اُس کی بیوی سارہ کو بڑھاپے میں ایک بیٹے سے نوازا۔‏ (‏پید ۱۸:‏۱۰-‏۱۴؛‏ ۲۱:‏۱-‏۳؛‏ روم ۴:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ اِس کے علاوہ،‏ ابرہام کو اُس وعدے پر بھی بھروسا تھا جو یہوواہ نے اُس سے کیا تھا کہ ”‏اِضحاؔق سے تیری نسل کا نام چلے گا۔‏“‏ (‏پید ۲۱:‏۱۲‏)‏ لہٰذا،‏ ابرہام نے ٹھوس وجوہات کی بِنا پر یہ توقع کی کہ خدا اضحاق کو مُردوں میں سے زندہ کرے گا۔‏

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ یہوواہ خدا نے ابرہام سے کونسا عہد باندھا؟‏ (‏ب)‏ ابرہام کے ساتھ یہوواہ خدا کے وعدے سے انسانوں کو کیسے اُمید ملتی ہے؟‏

۶ ابرہام کے مضبوط ایمان کی وجہ سے یہوواہ خدا نے اُس سے اُس کی ”‏نسل“‏ یعنی اولاد کے بارے میں عہد باندھا۔‏ ‏(‏پیدایش ۲۲:‏۱۸ کو پڑھیں۔‏)‏ اِس ”‏نسل“‏ کا بنیادی حصہ یسوع مسیح ثابت ہوا۔‏ (‏گل ۳:‏۱۶‏)‏ یہوواہ خدا نے ابرہام کو یہ بھی بتایا تھا کہ اُس کی ”‏نسل“‏ بڑھ کر ”‏آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند“‏ ہو جائے گی۔‏ (‏پید ۲۲:‏۱۷‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابرہام اُس نسل کی تعداد نہیں جانتا تھا۔‏ تاہم،‏ بعدازاں نسل کی تعداد واضح ہو گئی۔‏ جی‌ہاں،‏ یسوع مسیح اور اُس کے ساتھ بادشاہت میں حکمرانی کرنے والے ۱ لاکھ ۴۴ ہزار اشخاص اِس نسل کو تشکیل دیتے ہیں۔‏ (‏گل ۳:‏۲۹؛‏ مکا ۷:‏۴؛‏ ۱۴:‏۱‏)‏ پس اِس بادشاہت کے وسیلے سے ”‏زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔‏“‏

۷ یہ سچ ہے کہ ابرہام یہوواہ خدا کے وعدے کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھا۔‏ پھر بھی بائبل بیان کرتی ہے کہ ”‏وہ .‏ .‏ .‏ پایدار شہر کا اُمیدوار تھا۔‏“‏ (‏عبر ۱۱:‏۱۰‏)‏ وہ شہر خدا کی بادشاہت ہے۔‏ اُس بادشاہت میں برکات حاصل کرنے کے لئے ابرہام کو دوبارہ زندگی حاصل کرنی ہوگی۔‏ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُس کے لئے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا ممکن ہوگا۔‏ ابرہام کے علاوہ،‏ ہرمجدون سے بچ نکلنے یا پھر مُردوں میں سے جی اُٹھنے والے لوگ بھی ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔‏—‏مکا ۷:‏۹،‏ ۱۴؛‏ ۲۰:‏۱۲-‏۱۴‏۔‏

‏’‏رُوح مجھے مجبور کرتی ہے‘‏

۸،‏ ۹.‏ ایوب کی کتاب ہمارے لئے اہمیت کی حامل کیوں ہے؟‏

۸ ابرہام کے پڑ پوتے یوسف اور موسیٰ نبی کے درمیانی دَور میں ایوب نامی ایک شخص رہتا تھا۔‏ ایوب کی کتاب جسے غالباً موسیٰ نے لکھا تھا بیان کرتی ہے کہ یہوواہ خدا نے ایوب کو دُکھ کیوں اُٹھانے دیا اور بعد میں اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ تاہم،‏ ایوب کی کتاب محض ایک شخص کی آزمائشوں کی داستان نہیں ہے بلکہ اِس میں ایسی باتوں کا ذکر کِیا گیا ہے جو تمام انسانوں اور فرشتوں کے لئے اہمیت کی حامل ہیں۔‏ یہ کتاب اِس حقیقت کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ یہوواہ خدا کا حکمرانی کرنے کا طریقہ بالکل درست ہے۔‏ نیز،‏ یہ واضح کرتی ہے کہ خدا کے زمینی خادموں کی وفاداری اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کا تعلق باغِ‌عدن میں اُٹھائے گئے مسئلے سے ہے۔‏ اگرچہ ایوب اِس مسئلے کو پوری طرح نہیں سمجھتا تھا توبھی اپنے تینوں دوستوں کی باتوں کی وجہ سے وہ اِس سوچ میں نہیں پڑا کہ وہ خدا کا وفادار رہنے میں ناکام ہو گیا ہے۔‏ (‏ایوب ۲۷:‏۵‏)‏ ایوب کی مثال سے ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہم بھی یہوواہ خدا کے وفادار رہ سکتے اور اُس کی حکمرانی کی حمایت کر سکتے ہیں۔‏

۹ جب ایوب کے تین جھوٹے تسلی دینے والے دوستوں نے اپنی بات ختم کی تو’‏براکیل بوزی کے بیٹے الیہو‘‏ نے کہا:‏ ”‏مَیں باتوں سے بھرا ہوں اور جو رُوح میرے اندر ہے وہ مجھے مجبور کرتی ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۳۲:‏۵،‏ ۶،‏ ۱۸‏)‏ یہ سچ ہے کہ الیہو نے خدا کے الہام سے جوکچھ کہا وہ اُس وقت پورا ہوا جب یہوواہ خدا نے ایوب کی آزمائشوں کے بعد اُسے برکات سے نوازا۔‏ مگر اُس کے الفاظ دوسروں کے لئے بھی پُرمعنی ہیں۔‏ اِن سے خدا کے تمام وفادار خادموں کی اپنی اُمید کو تھامے رہنے میں مدد ہوتی ہے۔‏

۱۰.‏ مثال دیں کہ بعض‌اوقات کسی شخص کو دیا گیا یہوواہ کا پیغام تمام انسانوں پر لاگو ہو سکتا ہے۔‏

۱۰ بعض‌اوقات یہوواہ خدا کسی شخص کو ایسا پیغام بھی دیتا ہے جو تمام انسانوں پر لاگو ہوتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں دانی‌ایل نبی کی ایک پیشینگوئی پر غور کریں۔‏ یہ پیشینگوئی دانی‌ایل نے بابل کے بادشاہ نبوکدنضر کے اُس خواب کی تعبیر کرتے وقت کی تھی جس میں اُس نے ایک درخت کو کاٹے جاتے دیکھا تھا۔‏ (‏دان ۴:‏۱۰-‏۲۷‏)‏ اگرچہ نبوکدنضر کے حوالے سے یہ خواب پورا ہوا توبھی اِس کی بڑے پیمانے پر تکمیل ہونا باقی تھی۔‏ اِس خواب سے یہ واضح ہوا کہ زمین پر خدا کی حکمرانی ایک بادشاہت کے ذریعے ظاہر ہوگی جس کا بادشاہ داؤد کی نسل سے ہوگا۔‏ اِس بادشاہت کو ۵۲۰،‏۲ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد حکمرانی شروع کرنی تھی۔‏ اِس عرصے کا آغاز ۶۰۷ قبل‌ازمسیح میں جبکہ اِس کا اختتام سن ۱۹۱۴ میں ہوا جب یسوع مسیح آسمان پر بادشاہ بنا۔‏ * یوں اِس پیشینگوئی کی تکمیل ہوئی اور زمین پر خدا کی حکمرانی نئے سرے سے شروع ہوئی۔‏ ذرا سوچیں کہ جلد ہی بادشاہت تمام وفادار انسانوں کی اُمیدوں کو کیسے پورا کرے گی!‏

‏”‏اُسے گھڑے میں جانے سے بچالے“‏

۱۱.‏ الیہو کے الفاظ خدا کے بارے میں کیا ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱۱ ایوب کو جواب دیتے ہوئے الیہو نے کہا کہ ”‏کوئی فرشتہ ہو یا ہزار میں ایک تعبیر کرنے والا جو انسان کو بتائے کہ اُس کے لئے کیا ٹھیک ہے۔‏“‏ اگر وہ فرشتہ یا تعبیر کرنے والا ”‏خدا سے دُعا کرتا ہے کہ وہ اُس پر مہربان“‏ ہو تو الیہو بیان کرتا ہے کہ ”‏وہ [‏خدا]‏ اُس پر رحم کرتا اور کہتا ہے کہ اُسے گڑھے میں جانے سے بچا لے۔‏ مجھے فدیہ مل گیا ہے .‏ .‏ .‏ اُس کا جسم بچے کے جسم سے بھی تازہ ہو [‏جائے]‏ اور اُس کی جوانی کے دن لوٹ [‏آئیں]‏۔‏“‏ (‏ایوب ۳۳:‏۲۳-‏۲۶‏)‏ اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا توبہ کرنے والے انسانوں کی خاطر ”‏فدیہ“‏ قبول کرنے کو تیار ہے۔‏—‏ایوب ۳۳:‏۲۴‏۔‏

۱۲.‏ الیہو کے الفاظ انسانوں کے لئے کونسی اُمید فراہم کرتے ہیں؟‏

۱۲ جس طرح بہتیرے نبی اُن باتوں کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے جو اُنہوں نے لکھی تھیں اِسی طرح غالباً الیہو بھی پوری طرح سے فدیے کی اہمیت کو نہیں سمجھ پایا تھا۔‏ (‏دان ۱۲:‏۸؛‏ ۱-‏پطر ۱:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ تاہم،‏ الیہو کے الفاظ سے یہ اُمید ملتی ہے کہ ایک دن خدا ایسا فدیہ قبول کرے گا جو انسانوں کو بڑھاپے اور موت سے چھڑائے گا۔‏ اُس کے الفاظ ہمیشہ کی زندگی کی شاندار اُمید بھی فراہم کرتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ،‏ ایوب کی کتاب یہ واضح کرتی ہے کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔‏—‏ایوب ۱۴:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۱۳.‏ الیہو کے الفاظ کا مسیحیوں کے لئے کیا مطلب ہے؟‏

۱۳ آجکل الیہو کے الفاظ اُن لاکھوں مسیحیوں کے لئے بہت پُرمطلب ہیں جو اِس دُنیا پر آنے والی تباہی سے بچ نکلنے کی اُمید رکھتے ہیں۔‏ وہ عمررسیدہ اشخاص جو اِس تباہی سے بچ نکلیں گے پھر سے جوان ہو جائیں گے۔‏ (‏مکا ۷:‏۹،‏ ۱۰،‏ ۱۴-‏۱۷‏)‏ خدا کے وفادار لوگ اِس بات سے بھی خوشی حاصل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اُن عزیزوں کو دوبارہ زندہ دیکھ سکیں گے جو موت کے باعث اُن سے بچھڑ گئے ہیں۔‏ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ممسوح مسیحیوں کے لئے آسمان پر غیر فانی زندگی اور یسوع کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کے لئے زمین پر ہمیشہ کی زندگی کا انحصار یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان رکھنے پر ہے۔‏—‏یوح ۱۰:‏۱۶؛‏ روم ۶:‏۲۳‏۔‏

موت ہمیشہ کے لئے نابود ہو جائے گی

۱۴.‏ کونسی بات ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلیوں کو ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھنے کے لئے شریعت سے بڑھ کر کسی چیز کی ضرورت تھی؟‏

۱۴ خدا کے عہد میں داخل ہونے کے بعد ابرہام کی اولاد ایک قوم بن گئی۔‏ اُنہیں شریعت دیتے ہوئے یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏تُم میرے آئین اور احکام ماننا جن پر اگر کوئی عمل کرے تو وہ اُن ہی کی بدولت جیتا رہے گا۔‏“‏ (‏احبا ۱۸:‏۵‏)‏ چونکہ وہ مکمل طور پر شریعت میں درج احکام کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے تھے اِس لئے اُنہیں قصوروار ٹھہرایا گیا۔‏ لہٰذا،‏ اب اُنہیں شریعت کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔‏—‏گل ۳:‏۱۳‏۔‏

۱۵.‏ داؤد نے مستقبل کی کس برکت کا ذکر کِیا؟‏

۱۵ موسیٰ کے بعد یہوواہ خدا نے دیگر بائبل لکھنے والے لوگوں کو بھی ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے بارے میں بیان کرنے کا الہام بخشا۔‏ (‏زبور ۲۱:‏۴؛‏ ۳۷:‏۲۹‏)‏ مثال کے طور پر،‏ زبور نویس داؤد نے سچے پرستاروں کے متعلق ایک زبور کا اختتام اِن الفاظ کے ساتھ کِیا:‏ ”‏وہیں [‏یہوواہ]‏ نے برکت کا یعنی ہمیشہ کی زندگی کا حکم فرمایا۔‏“‏—‏زبور ۱۳۳:‏۳‏۔‏

۱۶.‏ یسعیاہ نبی کے ذریعے یہوواہ خدا نے ”‏تمام سر زمین“‏ کے مستقبل کے بارے میں کون سا وعدہ کِیا؟‏

۱۶ یہوواہ خدا نے یسعیاہ نبی کو بھی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں پیشینگوئی کرنے کا الہام بخشا۔‏ ‏(‏یسعیاہ ۲۵:‏۷،‏ ۸ کو پڑھیں۔‏)‏ گُناہ اور موت ایک ”‏پردہ“‏ کی مانند لوگوں پر پڑے ہوئے ہیں۔‏ تاہم،‏ یہوواہ خدا اپنے لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ وہ ”‏تمام سرزمین“‏ پر سے گناہ اور موت کو نابود یعنی ختم کر دے گا۔‏

۱۷.‏ مسیحا کے کس نبوّتی کردار نے ہمیشہ کی زندگی کی راہ کھول دی؟‏

۱۷ ذرا موسوی شریعت میں عزازیل کے لئے بکرا پیش کرنے کے طریقۂ‌کار پر بھی غور کریں۔‏ سال میں ایک مرتبہ،‏ یومِ‌کفارہ پر سردار کاہن ’‏اپنے دونوں ہاتھ زندہ بکرے کے سر پر رکھ کر اُس کے اوپر بنی‌اسرائیل کے سب گُناہوں کا اقرار کر تا تھا اور اِنہیں اُس بکرے کے سر پر دھر دیتا تھا۔‏ یہ بکرا اُن کی سب بدکاریاں اپنے اُوپر لادے ہوئے کسی ویرانہ میں لے جاتا تھا۔‏‘‏ (‏احبا ۱۶:‏۷-‏۱۰،‏ ۲۱،‏ ۲۲‏)‏ یسعیاہ نبی نے مسیحا کے آنے کے بارے میں پیشینگوئی کی جسے اِس بکرے جیسا کردار ادا کرنا تھا۔‏ اُس نے لوگوں کی ”‏مشقتیں [‏”‏بیماریاں،‏“‏ کیتھولک ترجمہ]‏،‏“‏ اُن کے ’‏غم‘‏ اور اُن کے ”‏گناہ“‏ اپنے اوپر اُٹھا لینے تھے۔‏ یوں اُس نے لوگوں کے لئے ہمیشہ کی زندگی کی راہ کھول دینی تھی۔‏‏—‏یسعیاہ ۵۳:‏۴-‏۶،‏ ۱۲ کو پڑھیں۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ یسعیاہ ۲۶:‏۱۹ اور دانی‌ایل ۱۲:‏۱۳ میں کس اُمید کو اُجاگر کِیا گیا ہے؟‏

۱۸ یہوواہ خدا نے یسعیاہ نبی کے ذریعے اسرائیلی قوم کو بتایا:‏ ”‏تیرے مُردے جی اُٹھیں گے۔‏ میری لاشیں [‏خدا کے خادم جنہیں اُن کے ایمان کی وجہ سے مار ڈالا گیا]‏ اُٹھ کھڑی ہوں گی۔‏ تُم جو خاک میں جا بسے ہو جاگو اور گاؤ کیونکہ تیری اوس اُس اوس کی مانند ہے جو نباتات پر پڑتی ہے اور زمین مُردوں کو اُگل دے گی۔‏“‏ (‏یسع ۲۶:‏۱۹‏)‏ عبرانی صحائف زمین پر زندگی اور مُردوں کے زندہ کئے جانے کی اُمید کے متعلق واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب دانی‌ایل ۱۰۰ برس کا تھا تو یہوواہ خدا نے اُسے یقین دلایا:‏ ”‏تُو آرام کرے گا اور ایّام کے اختتام پر اپنی میراث میں اُٹھ کھڑا ہوگا۔‏“‏—‏دان ۱۲:‏۱۳‏۔‏

۱۹ مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید کی وجہ سے مرتھا اپنے مُردہ بھائی کے بارے میں یسوع مسیح سے کہہ سکتی تھی:‏ ”‏مَیں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دن جی اُٹھے گا۔‏“‏ (‏یوح ۱۱:‏۲۴‏)‏ کیا یسوع مسیح کی تعلیمات اور اُس کے شاگردوں کی الہامی تحریروں نے اِس اُمید کو بدل دیا تھا؟‏ کیا اب بھی یہوواہ خدا انسانوں کو زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید فراہم کرتا ہے؟‏ اِن سوالات کے جواب ہم اگلے مضمون میں حاصل کریں گے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 10 کتاب دانی‌ایل کی نبوّت پر دھیان دیں کے باب ۶ کو دیکھیں۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• تمام مخلوقات کس اُمید پر ”‏بطالت کے اختیار“‏ میں کر دی گئیں؟‏

‏• کونسی بات ظاہر کرتی ہے کہ ابرہام مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتا تھا؟‏

‏• ایوب سے کہے گئے الیہو کے الفاظ سے انسانوں کو کونسی اُمید ملتی ہے؟‏

‏• عبرانی صحائف مُردوں کے جی اُٹھنے اور زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر کیسے زور دیتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

ایوب سے کہے گئے الیہو کے الفاظ انسانوں کو یہ اُمید فراہم کرتے ہیں کہ وہ بڑھاپے اور موت سے چھٹکارا حاصل کریں گے

‏[‏صفحہ ۱۴ پر تصویر]‏

دانی‌ایل کو یقین دلایا گیا تھا کہ وہ ”‏ایام کے اختتام پر اپنی میراث میں اُٹھ کھڑا ہوگا“‏