مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں مسیح کی تعلیم

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں مسیح کی تعلیم

زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں مسیح کی تعلیم

‏”‏[‏خدا]‏ اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔‏ اِس کے بعد نہ موت رہے گی۔‏“‏—‏مکا ۲۱:‏۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ پہلی صدی میں بیشتر یہودی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھتے تھے؟‏

ایک نوجوان امیر شخص یسوع مسیح کے پاس آیا اور اُس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اُس سے پوچھا:‏ ”‏اَے نیک استاد مَیں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟‏“‏ (‏مر ۱۰:‏۱۷‏)‏ غور کریں کہ یہ نوجوان یسوع مسیح سے ہمیشہ کی زندگی کا وارث بننے کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔‏ مگر کیا وہ آسمان میں زندگی حاصل کرنے کے بارے میں پوچھ رہا تھا یا زمین پر؟‏ جیساکہ ہم نے پچھلے مضمون میں دیکھا تھا،‏ خدا نے صدیوں پہلے یہودیوں کو مُردوں کے جی اُٹھنے اور زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید دی تھی۔‏ پہلی صدی کے بہتیرے یہودی بھی یہی اُمید رکھتے تھے۔‏

۲ لعزر کی بہن مرتھا نے بھی غالباً زمین پر مُردوں کے جی اُٹھنے کی اُمید کے پیشِ‌نظر اپنے بھائی کے بارے میں کہا:‏ ”‏مَیں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دن جی اُٹھے گا۔‏“‏ (‏یوح ۱۱:‏۲۴‏)‏ یہ سچ ہے کہ اُس وقت کے صدوقی مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔‏ (‏مر ۱۲:‏۱۸‏)‏ تاہم،‏ جارج فٹ مورے نے اپنی کتاب ‏(‏جیوڈازم اِن دی فرسٹ سینچریز آف دی کرسچن ایرا)‏ میں بیان کِیا:‏ ”‏پہلی یا دوسری صدی کی تحریریں اِس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ بہت سے یہودی یہ ایمان رکھتے تھے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب مُردے زمین پر ضرور زندہ ہوں گے۔‏“‏ لہٰذا،‏ یسوع کے پاس آنے والا امیر شخص زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا خواہش‌مند تھا۔‏

۳.‏ اِس مضمون میں کن سوالات پر غور کِیا جائے گا؟‏

۳ آجکل بہت سے مذاہب اور بائبل عالم یہ کہتے ہیں کہ یسوع مسیح نے زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید نہیں دی تھی۔‏ بیشتر لوگ یہ اُمید رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد وہ روحانی عالم میں زندہ رہیں گے۔‏ اِس لئے جب لوگ بائبل کے یونانی صحائف میں اصطلاح ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ پڑھتے ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ یہ آسمان میں ہمیشہ کی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‏ مگر کیا یہ سچ ہے؟‏ جب یسوع مسیح نے ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں بیان کِیا تو اُس کا کیا مطلب تھا؟‏ اُس کے شاگرد کیا ایمان رکھتے تھے؟‏ کیا بائبل کے یونانی صحائف میں زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پائی جاتی ہے؟‏

‏”‏نئی پیدایش“‏ میں ہمیشہ کی زندگی

۴.‏ ”‏نئی پیدایش میں“‏ کیا کچھ واقع ہوگا؟‏

۴ بائبل بیان کرتی ہے کہ رُوح سے مسح‌شُدہ مسیحی آسمان سے زمین پر حکمرانی کرنے کے لئے زندہ کئے جائیں گے۔‏ (‏لو ۱۲:‏۳۲؛‏ مکا ۵:‏۹،‏ ۱۰؛‏ ۱۴:‏۱-‏۳‏)‏ تاہم،‏ یسوع مسیح نے ہمیشہ کی زندگی کا ذکر کرتے وقت صرف اِسی گروہ کی طرف اشارہ نہیں کِیا تھا۔‏ غور کریں کہ جب امیر نوجوان اُس کا پیروکار بننے کی پیشکش پر غمگین ہو کر واپس چلا گیا تو یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کیا کہا۔‏ ‏(‏متی ۱۹:‏۲۸،‏ ۲۹ کو پڑھیں۔‏)‏ اُس نے اپنے رسولوں کو بتایا کہ وہ ”‏اؔسرائیل کے بارہ قبیلوں“‏ پر حکمرانی کرنے اور اُن کا انصاف کرنے والے بادشاہوں میں شامل ہوں گے۔‏ یہ بارہ قبیلے اُن تمام انسانوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آسمان پر جانے والی اِس جماعت کا حصہ نہیں ہیں۔‏ (‏۱-‏کر ۶:‏۲‏)‏ نیز،‏ اِس جوان آدمی سے کہے گئے یسوع کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن سب کو جو اُس کے پیچھے چلتے ہیں اَجر ملے گا۔‏ لہٰذا،‏ رُوح سے مسح‌شُدہ مسیحیوں کے علاوہ دیگر انسان بھی ’‏ہمیشہ کی زندگی کے وارث‘‏ ہوں گے۔‏ یہ سب کچھ ”‏نئی پیدایش میں“‏ واقع ہوگا۔‏

۵.‏ آپ ”‏نئی پیدایش“‏ کو کیسے بیان کریں گے؟‏

۵ اصطلاح ”‏نئی پیدایش“‏ سے یسوع مسیح کی کیا مُراد تھی؟‏ اِس اصطلاح کا ترجمہ دی بائبل—‏این امریکن ٹرانسلیشن میں ”‏نئی دُنیا“‏ جبکہ دی جیروشلیم بائبل میں ”‏جب سب کچھ نیا بنا دیا جائے گا“‏ اور دی ہولی بائبل—‏نیو انٹرنیشنل ورشن میں ”‏سب چیزوں کی نئے سرے سے تخلیق“‏ کِیا گیا ہے۔‏ چونکہ یسوع مسیح نے اِس اصطلاح کو بغیر کسی وضاحت کے استعمال کِیا تھا اِس لئے ایسا لگتا ہے کہ وہ یہودیوں کی اُس اُمید کا حوالہ دے رہا تھا جو وہ صدیوں سے رکھتے تھے۔‏ دراصل زمین کی حالتوں کی نئی پیدایش ہونی تھی۔‏ جی‌ہاں سب کچھ بالکل ویسے ہی ہو جانا تھا جیسا کہ آدم اور حوا کے گُناہ کرنے سے پہلے باغِ‌عدن میں تھا۔‏ یہ نئی پیدائش ”‏نئے آسمان اور نئی زمین کو پیدا“‏ کرنے کے خدا کے وعدے کو پورا کرے گی۔‏—‏یسع ۶۵:‏۱۷‏۔‏

۶.‏ بھیڑوں اور بکریوں کی مثال سے ہم ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

۶ دُنیا کے آخر ہونے کے بارے میں بیان کرتے وقت یسوع مسیح نے ایک بار پھر ہمیشہ کی زندگی کا ذکر کِیا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱-‏۳‏)‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جب ابنِ‌آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اُس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔‏ اور سب قومیں اُس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جُدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرتا ہے۔‏“‏ اُس وقت بدکار لوگ ”‏ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی“‏ حاصل کریں گے۔‏ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے والے یہ ”‏راستباز“‏ لوگ وہ ہیں جو مسیح کے ممسوح ”‏بھائیوں“‏ کی حمایت کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۵:‏۳۱-‏۳۴،‏ ۴۰،‏ ۴۱،‏ ۴۵،‏ ۴۶‏)‏ چونکہ ممسوح اشخاص کو آسمانی بادشاہت میں حکمرانی کرنے کے لئے چُنا گیا ہے اِس لئے ”‏راستباز“‏ لوگ اِس بادشاہت کی زمینی رعایا ہوں گے۔‏ بائبل میں پیشینگوئی کی گئی:‏ ”‏[‏یہوواہ کے مقررشُدہ بادشاہ]‏ کی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریایِ‌فرؔات سے زمین کی انتہا تک ہوگی۔‏“‏ (‏زبور ۷۲:‏۸‏)‏ اِس بادشاہت کی رعایا زمین پر ہمیشہ کی زندگی سے لطف‌اندوز ہوگی۔‏

یوحنا کی انجیل کیا بیان کرتی ہے؟‏

۷،‏ ۸.‏ یسوع مسیح نے نیکدیمس کو کن دو اُمیدوں کے بارے میں بتایا؟‏

۷ اِس مضمون میں ہم نے پہلے متی،‏ مرقس اور لوقا کی اناجیل میں درج اُن مواقع پر غور کِیا ہے جب یسوع نے اصطلاح ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ استعمال کی۔‏ تاہم،‏ یوحنا رسول نے اپنی انجیل میں ہمیشہ زندہ رہنے کے بارے میں یسوع کے الفاظ کا تقریباً ۱۷ مرتبہ حوالہ دیا ہے۔‏ آئیں دیکھیں کہ بعض مواقع پر یسوع مسیح نے زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے بارے میں کیا کہا۔‏

۸ یوحنا رسول کے مطابق،‏ یسوع مسیح نے پہلی مرتبہ ہمیشہ کی زندگی کی اصطلاح نیکدیمس نامی ایک فریسی سے بات‌چیت کرتے وقت استعمال کی۔‏ اُس نے نیکدیمس کو بتایا:‏ ”‏جب تک کوئی آدمی پانی اور روح سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔‏“‏ پس آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لئے ”‏نئے سرے سے پیدا“‏ ہونا ضروری ہے۔‏ (‏یوح ۳:‏۳-‏۵‏)‏ مگر یسوع مسیح نے بات یہیں پر ختم نہیں کی۔‏ اُس نے اُس اُمید کے متعلق بھی بیان کِیا جو تمام انسانوں کے لئے ہے۔‏ ‏(‏یوحنا ۳:‏۱۶ کو پڑھیں۔‏)‏ پس یسوع مسیح نے اپنے ممسوح پیروکاروں کے لئے آسمان میں اور دیگر وفادار اشخاص کے لئے زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید دی۔‏

۹.‏ یسوع مسیح نے سامری عورت کو کس اُمید کے بارے میں بتایا؟‏

۹ یروشلیم میں نیکدیمس سے بات کرنے کے بعد یسوع نے شمال کی سمت گلیل کا سفر کِیا۔‏ راستے میں سامریہ کے شہر سُوخار کے نزدیک یعقوب کے کنویں پر اُس کی ملاقات ایک عورت سے ہوئی۔‏ یسوع نے اُس عورت کو بتایا:‏ ”‏جو کوئی اِس پانی میں سے پیئے گا جو میں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ جو پانی مَیں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری رہے گا۔‏“‏ (‏یوح ۴:‏۵،‏ ۶،‏ ۱۴‏)‏ یہ پانی دراصل تمام انسانوں کی ہمیشہ کی زندگی کے لئے خدا کی عطاکردہ فراہمیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ اِن میں وہ انسان بھی شامل ہیں جو زمین پر زندگی حاصل کریں گے۔‏ مکاشفہ کی کتاب میں خدا فرماتا ہے:‏ ”‏مَیں پیاسے کو آبِ‌حیات کے چشمہ سے مُفت پلاؤں گا۔‏“‏ (‏مکا ۲۱:‏۵،‏ ۶؛‏ ۲۲:‏۱۷‏)‏ لہٰذا،‏ یسوع مسیح نے سامری عورت کو نہ صرف بادشاہت کو میراث میں پانے والے ممسوح مسیحیوں بلکہ زمینی اُمید رکھنے والے لوگوں کے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے متعلق بھی بتایا۔‏

۱۰.‏ بیت‌حسدا کے حوض پر ایک شخص کو شفا دینے کے بعد یسوع نے اعتراض کرنے والے یہودیوں کو ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں کیا بتایا؟‏

۱۰ اگلے سال یسوع پھر یروشلیم میں تھا۔‏ وہاں اُس نے بیت‌حسدا کے حوض پر ایک بیمار شخص کو شفا بخشی جس پر بعض یہودی اعتراض کرنے لگے۔‏ یسوع مسیح نے اُنہیں جواب دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سوا اُس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے۔‏“‏ اُنہیں یہ بتانے کے بعد کہ باپ نے ”‏عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کِیا ہے“‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو میرا کلام سنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے۔‏“‏ اُس نے یہ بھی کہا:‏ ”‏وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں [‏ابنِ‌آدم]‏ کی آواز سُن کر نکلیں گے۔‏ جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے۔‏“‏ (‏یوح ۵:‏۱-‏۹،‏ ۱۹،‏ ۲۲،‏ ۲۴-‏۲۹‏)‏ دراصل یسوع مسیح اعتراض کرنے والے یہودیوں کو یہ بتا رہا تھا کہ زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُن کی اُمید کو پورا کرنے کے لئے خدا نے اُسے مقرر کِیا ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کرنے سے ایسا کرے گا۔‏

۱۱.‏ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ یسوع مسیح نے یوحنا ۶:‏۴۸-‏۵۱ میں جوکچھ کہا اُس میں زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید شامل تھی؟‏

۱۱ گلیل میں ہزاروں لوگ معجزانہ طور پر خوراک حاصل کرنے کی خواہش میں یسوع مسیح کی پیروی کرنے لگے۔‏ تاہم،‏ یسوع مسیح نے اُنہیں ایک اَور طرح کی روٹی یعنی ”‏زندگی کی روٹی“‏ کے بارے میں بتایا۔‏ ‏(‏یوحنا ۶:‏۴۰،‏ ۴۸-‏۵۱ کو پڑھیں۔‏)‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جو روٹی مَیں .‏ .‏ .‏ دوں گا وہ میرا گوشت ہے۔‏“‏ یسوع مسیح نے نہ صرف اُن کے لئے اپنی جان قربان کی تھی جو آسمان میں اُس کے ساتھ بادشاہی کریں گے بلکہ ”‏جہان [‏”‏ساری دُنیا،‏“‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏]‏ کی زندگی کے لئے“‏ بھی۔‏ ”‏اگر کوئی اِس روٹی میں سے کھائے“‏ یعنی یسوع مسیح کے فدیے پر ایمان رکھے تو وہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرے گا۔‏ بِلاشُبہ،‏ ’‏ابد تک زندہ رہنے‘‏ میں یہودیوں کی وہ اُمید بھی شامل تھی جو وہ صدیوں سے رکھتے تھے کہ مسیحا کی حکمرانی کے دوران وہ زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے۔‏

۱۲.‏ جب یسوع مسیح نے مخالفین کو بتایا کہ ’‏وہ اپنی بھیڑوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشے گا‘‏ تو وہ کس اُمید کا ذکر کر رہا تھا؟‏

۱۲ بعدازاں،‏ یروشلیم میں عیدِتجدید کے موقع پر یسوع نے اپنے مخالفین کو بتایا:‏ ”‏تُم اِس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں۔‏ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔‏ اور مَیں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں۔‏“‏ (‏یوح ۱۰:‏۲۶-‏۲۸‏)‏ کیا اِس موقع پر یسوع صرف آسمان میں زندگی کے متعلق بات کر رہا تھا یا کیا اُس کے ذہن میں زمین پر فردوس میں ہمیشہ کی زندگی بھی تھی؟‏ یسوع مسیح نے اِس عیدِتجدید سے کچھ عرصہ پہلے اپنے پیروکاروں سے یہ الفاظ کہے تھے:‏ ”‏اَے چھوٹے گلّے نہ ڈر کیونکہ تمہارے باپ کو پسند آیا کہ تمہیں بادشاہی دے۔‏“‏ (‏لو ۱۲:‏۳۲‏)‏ تاہم،‏ عیدِتجدید کے اِس موقع پر یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏میری اَور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑخانہ کی نہیں۔‏ مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے۔‏“‏ (‏یوح ۱۰:‏۱۶‏)‏ لہٰذا،‏ جب یسوع مسیح نے اُن مخالفین سے بات کی تو وہ ”‏چھوٹے گلّے“‏ کے لئے آسمانی زندگی کی اُمید اور لاکھوں ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کے لئے زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید دونوں کا ذکر کر رہا تھا۔‏

اُمید جس کے لئے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں

۱۳.‏ جب یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏تُو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا“‏ تو اُس کا کیا مطلب تھا؟‏

۱۳ سولی پر دردناک موت سہتے وقت یسوع مسیح نے انسانوں کی اُمید کے یقینی ہونے کی تصدیق کی۔‏ یسوع کے ساتھ مصلوب کئے جانے والے ایک ڈاکو نے اُس سے کہا:‏ ”‏اَے یسوؔع جب تُو اپنی بادشاہی میں آئے تو مجھے یاد کرنا۔‏“‏ یسوع نے اُس سے وعدہ کِیا:‏ ”‏مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ .‏ .‏ .‏ تُو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا۔‏“‏ (‏لو ۲۳:‏۴۲،‏ ۴۳‏)‏ غالباً وہ شخص یہودی تھا اِس لئے اُسے فردوس کے بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں تھی۔‏ وہ آنے والی دُنیا میں زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کے بارے میں جانتا تھا۔‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ رسولوں کے لئے آسمانی اُمید کو سمجھنا مشکل تھا؟‏ (‏ب)‏ یسوع کے پیروکار کب آسمانی اُمید کو واضح طور پر سمجھنے کے قابل ہوئے؟‏

۱۴ اگرچہ یہودی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید سے واقف تھے مگر آسمانی اُمید کے بارے میں اُنہیں وضاحت سے بتانے کی ضرورت تھی۔‏ جب یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ آسمان پر جاتا ہے تاکہ اُن کے لئے جگہ تیار کرے تو وہ اُس کی بات کو نہیں سمجھ پائے تھے۔‏ ‏(‏یوحنا ۱۴:‏۲-‏۵ کو پڑھیں۔‏)‏ بعدازاں اُس نے اُنہیں بتایا:‏ ”‏مجھے تُم سے اَور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔‏ لیکن جب وہ یعنی روحِ‌حق آئے گا تو تُم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔‏“‏ (‏یوح ۱۶:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ یسوع کے اِن الفاظ کے مطابق جب ۳۳ عیسوی میں عیدِپنتِکُست پر یسوع کے شاگرد خدا کی رُوح کے ذریعے مستقبل کے بادشاہوں کے طور پر مسح ہوئے تو وہ اِس بات کو سمجھ گئے کہ اُن کے تخت آسمان پر ہوں گے۔‏ (‏۱-‏کر ۱۵:‏۴۹؛‏ کل ۱:‏۵؛‏ ۱-‏پطر ۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ آسمانی میراث کی اُمید ایک نئی بات تھی جو بائبل کے یونانی صحائف کے الہامی خطوط کا ایک خاص موضوع بن گئی۔‏ لیکن کیا اِن خطوط میں زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے متعلق بھی بیان کِیا گیا ہے؟‏

الہامی خطوط کیا بیان کرتے ہیں؟‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ عبرانیوں اور پطرس کے الہامی خطوط میں زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کو کیسے اُجاگر کِیا گیا ہے؟‏

۱۵ عبرانیوں کے نام خط میں پولس رسول نے اپنے ہم‌ایمان اشخاص کو ”‏اَے پاک بھائیو!‏ تُم جو آسمانی بلاوے میں شریک ہو“‏ کہہ کر مخاطب کِیا۔‏ مگر اُس نے یہ بھی بیان کِیا کہ خدا نے ”‏آنے والے جہان“‏ کو یسوع مسیح کے تابع کِیا ہے۔‏ (‏عبر ۲:‏۳،‏ ۵؛‏ ۳:‏۱‏)‏ یونانی صحائف میں ”‏جہان“‏ کا لفظ ہمیشہ زمین پر رہنے والے لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ ”‏آنے والے جہان“‏ سے مُراد زمین پر یسوع مسیح کی حکمرانی کے تحت نیا معاشرہ ہے۔‏ اُس وقت یسوع مسیح یہوواہ خدا کے اِس وعدے کو پورا کرے گا:‏ ”‏صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔‏“‏—‏زبور ۳۷:‏۲۹‏۔‏

۱۶ پطرس رسول نے بھی خدا کے الہام سے انسانوں کے مستقبل کے بارے میں لکھا:‏ ”‏اِس وقت کے آسمان اور زمین اُسی کلام کے ذریعہ سے اِس لئے رکھے ہیں کہ جلائے جائیں اور وہ بےدین آدمیوں کی عدالت اور ہلاکت کے دن تک محفوظ رہیں گے۔‏“‏ (‏۲-‏پطر ۳:‏۷‏)‏ موجودہ آسمان یعنی حکومتوں اور زمین یعنی شریر لوگوں کی جگہ کون لے گا؟‏ ‏(‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳ کو پڑھیں۔‏)‏ اِن کی جگہ ’‏نیا آسمان‘‏ اور ”‏نئی زمین“‏ لیں گے۔‏ ”‏نئے آسمان“‏ سے مُراد خدا کی بادشاہت ہے جس کا بادشاہ یسوع مسیح ہوگا اور ‏”‏نئی زمین“‏ سے مُراد راست انسانی معاشرہ ہے جو خدا کے سچے پرستاروں پر مشتمل ہوگا۔‏

۱۷.‏ مکاشفہ ۲۱:‏۱-‏۴ میں انسانوں کی اُمید کو کیسے بیان کِیا گیا ہے؟‏

۱۷ بائبل کی آخری کتاب بڑی خوبصورتی سے اِس بات کو واضح کرتی ہے کہ انسان دوبارہ گُناہ سے پاک ہو جائیں گے۔‏ ‏(‏مکاشفہ ۲۱:‏۱-‏۴ کو پڑھیں۔‏)‏ خدا پر ایمان رکھنے والے لوگ اُس وقت سے یہ اُمید رکھتے ہیں جب سے باغِ‌عدن میں آدم اور حوا نے گُناہ کِیا تھا۔‏ راستباز لوگ زمین پر فردوس میں ہمیشہ تک زندہ رہیں گے اور کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے۔‏ یہ اُمید بائبل کے عبرانی اور یونانی صحائف دونوں میں پائی جاتی ہے اور آج بھی یہوواہ کے وفادار خادموں کو تقویت بخشتی ہے۔‏—‏مکا ۲۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

آپ کیسے وضاحت کریں گے؟‏

‏• ”‏نئی پیدایش“‏ سے یسوع مسیح کی کیا مُراد تھی؟‏

‏• یسوع مسیح نے نیکدیمس سے کس موضوع پر بات کی؟‏

‏• یسوع مسیح نے اپنے ساتھ مصلوب ہونے والے ڈاکو سے کیا وعدہ کِیا؟‏

‏• عبرانیوں اور پطرس کے خطوط میں زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید پر کیسے زور دیا گیا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

خلوص‌دل لوگ زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں گے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

یسوع مسیح نے دوسروں کو ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں بتایا