مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیح کی طرح فرمانبردار اور دلیر بنیں

مسیح کی طرح فرمانبردار اور دلیر بنیں

مسیح کی طرح فرمانبردار اور دلیر بنیں

‏”‏خاطر جمع رکھو مَیں دُنیا پر غالب آیا ہوں۔‏“‏—‏یوح ۱۶:‏۳۳‏۔‏

۱.‏ یسوع کس حد تک خدا کا فرمانبردار رہا؟‏

یسوع مسیح نے ہمیشہ اپنے آسمانی باپ کی مرضی کو پورا کِیا۔‏ (‏یوح ۴:‏۳۴؛‏ عبر ۷:‏۲۶‏)‏ لیکن زمین پر اُس کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جن کے تحت فرمانبرداری کرنا آسان نہیں تھا۔‏ یسوع کی خدمتگزاری کے آغاز ہی سے اُس کے دشمنوں نے مختلف طریقوں سے اُسے اپنی وفاداری کو ترک کرنے پر اُکسانے کی کوشش کی۔‏ (‏متی ۴:‏۱-‏۱۱؛‏ لو ۲۰:‏۲۰-‏۲۵‏)‏ اِن دشمنوں کے ہاتھوں یسوع نے شدید ذہنی،‏ جذباتی اور جسمانی اذیت برداشت کی اور آخرکار سولی پر دردناک موت سہی۔‏ (‏متی ۲۶:‏۳۷،‏ ۳۸؛‏ لو ۲۲:‏۴۴؛‏ یوح ۱۹:‏۱،‏ ۱۷،‏ ۱۸‏)‏ اِن تمام آزمائشوں کے باوجود یسوع مسیح ’‏موت تک فرمانبردار رہا۔‏‘‏‏—‏فلپیوں ۲:‏۸ کو پڑھیں۔‏

۲،‏ ۳.‏ ہم یسوع کے اذیت کے باوجود فرمانبردار رہنے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۲ یسوع مسیح آسمان پر خدا کے ساتھ ایک لمبا عرصہ گزار چکا تھا اِس لئے وہ اُس کے ساتھ قریبی رشتہ رکھتا تھا۔‏ وہ کائنات کی تخلیق میں اپنے باپ کے ساتھ ”‏ماہر کاریگر“‏ کے طور پر بھی کام کر چکا تھا۔‏ (‏امثا ۸:‏۳۰‏)‏ اِس لئے شاید ہمیں لگے کہ یسوع یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کرنے کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی سے سیکھ چکا تھا۔‏ لیکن دراصل جب وہ ایک انسان کے طور پر زمین پر آیا تو اُس نے ایسے مشکل حالات میں بھی خدا کا فرمانبردار رہنا سیکھا جن کا اُس نے پہلے کبھی سامنا نہیں کِیا تھا۔‏ (‏عبر ۵:‏۸‏)‏ یوں یسوع مسیح نے دُکھ اُٹھانے کے باوجود اپنی راستی پر قائم رہنے سے خدا کے لئے فرمانبرداری ظاہر کی۔‏ ایسا کرنے سے اپنے آسمانی باپ کے ساتھ اُس کا رشتہ اَور بھی زیادہ مضبوط ہو گیا۔‏ ہم یسوع کی اِس مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۳ اگرچہ یسوع مسیح گُناہ سے پاک تھا تو بھی وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ خدا کی مدد کے بغیر وہ اُس کا فرمانبردار نہیں رہ سکتا۔‏ اِس لئے اُس نے یہوواہ خدا سے دُعا کی۔‏ ‏(‏عبرانیوں ۵:‏۷ کو پڑھیں۔‏)‏ اگر ہم بھی یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں فروتنی کے ساتھ بِلاناغہ اُس سے مدد کے لئے دُعا کرنی چاہئے۔‏ اِسی وجہ پولس رسول نے مسیحیوں کو ہدایت دی:‏ ”‏ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوؔع کا بھی تھا۔‏“‏ جس نے ”‏اپنےآپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔‏“‏ (‏فل ۲:‏۵-‏۸‏)‏ ایسا کرنے سے یسوع نے ثابت کِیا کہ اِس بدکار دُنیا میں رہتے ہوئے انسان خدا کے فرمانبردار رہ سکتے ہیں۔‏ یہ سچ ہے کہ یسوع مسیح گُناہ سے پاک تھا مگر کیا ہم گنہگار انسان خدا کے فرمانبردار رہ سکتے ہیں؟‏

گنہگار ہونے کے باوجود فرمانبردار رہیں

۴.‏ ہمیں اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو درست طور پر کیوں استعمال کرنا چاہئے؟‏

۴ جب خدا نے آدم اور حوا کو خلق کِیا تو اُس نے اُنہیں اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے نوازا۔‏ اُن کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہم بھی یہ صلاحیت رکھتے ہیں۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم خود اپنے اچھےبُرے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‏ خدا نے ہمیں یہ آزادی دی ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اِس بات کا انتخاب کریں کہ آیا ہم اُس کی فرمانبرداری کریں گے یا نہیں۔‏ لیکن یاد رکھیں ہم جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اُس کے لئے ہم خدا کے حضور جواب‌دہ ہیں۔‏ دراصل ہمارے فیصلے ہمارے لئے زندگی یا موت کا باعث بن سکتے ہیں۔‏ نیز،‏ یہ ہمارے عزیزوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔‏

۵.‏ (‏ا)‏ ہمیں کن غلط خواہشات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اِن خواہشات پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟‏

۵ چونکہ ہم سب نے گناہ کو ورثے میں پایا ہے اِس لئے خدا کا فرمانبردار رہنا ہمارے لئے آسان نہیں ہے۔‏ پولس رسول کو بھی خدا کا فرمانبردار رہنے کے لئے جدوجہد کرنی پڑی تھی۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شریعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اُس گُناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موجود ہے۔‏“‏ (‏روم ۷:‏۲۳‏)‏ بِلاشُبہ،‏ خدا کی فرمانبرداری کرنا اُس وقت زیادہ آسان ہوتا ہے جب ہمیں کسی مشکل یا تکلیف کا سامنا نہیں ہوتا۔‏ تاہم،‏ گُناہ کو ورثے میں پانے اور ”‏دُنیا کی رُوح“‏ سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر”‏جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش“‏ پیدا ہو سکتی ہے اور ہمارے لئے خدا کی فرمانبرداری کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏یوح ۲:‏۱۶؛‏ ۱-‏کر ۲:‏۱۲‏)‏ اِن خواہشات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں آزمائش کا سامنا کرنے سے پہلے اپنے دل کو ”‏آمادہ“‏ کرنے کی ضرورت ہے کہ صورتحال خواہ کچھ بھی ہو ہم خدا کے فرمانبردار رہیں گے۔‏ (‏زبور ۷۸:‏۸‏)‏ بائبل میں خدا کے ایسے بہت سے خادموں کی مثالیں درج ہیں جو اپنے دل کو آمادہ کرنے کی وجہ سے آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے۔‏—‏عز ۷:‏۱۰؛‏ دان ۱:‏۸‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ مثال دے کر واضح کریں کہ بائبل کا ذاتی مطالعہ صحیح فیصلے کرنے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے۔‏

۶ اپنے دل کو آمادہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم پوری لگن سے خدا کے کلام اور اِس پر مبنی کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ کریں۔‏ ایک صورتحال کا تصور کریں۔‏ آپ بائبل کا ذاتی مطالعہ کر رہے ہیں۔‏ مطالعے سے پہلے آپ نے دُعا میں خدا سے اُس کی پاک رُوح کے لئے درخواست کی ہے تاکہ آپ سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کر سکیں۔‏ آپ نے کل شام ٹی‌وی پر ایک فلم دیکھنے کا ارادہ کِیا ہے۔‏ آپ نے اِس فلم کی بہت تعریفیں سنی ہیں۔‏ لیکن آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس فلم میں کچھ بداخلاق اور پُر تشدد مناظر ہیں۔‏

۷ آپ افسیوں ۵:‏۳ میں درج پولس رسول کی اِس نصیحت پر غور کرتے ہیں:‏ ”‏تُم میں حرامکاری اور کسی طرح کی ناپاکی یا لالچ کا ذکر تک نہ ہو۔‏“‏ آپ کو پولس رسول کے وہ الفاظ بھی یاد آتے ہیں جو فلپیوں ۴:‏۸ میں درج ہیں۔‏ ‏(‏پڑھیں۔‏)‏ اِس الہامی نصیحت پر غوروخوض کرتے وقت خود سے پوچھیں:‏ ’‏اگر مَیں ایسی فلمیں دیکھنے کا انتخاب کرتا ہوں تو کیا مَیں واقعی یسوع مسیح کی طرح ہر بات میں یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کر رہا ہوں؟‏‘‏ اِس صورتحال میں آپ کیا فیصلہ کریں گے؟‏ کیا آپ بائبل کی واضح نصیحت کو نظرانداز کرتے ہوئے اِس فلم کو دیکھیں گے؟‏

۸.‏ ہمیں خدا کے معیاروں کو نظرانداز کیوں نہیں کرنا چاہئے؟‏

۸ شاید ہم سوچیں کہ مَیں روحانی طور پر مضبوط ہوں اِس لئے مجھ پر ایسی بداخلاق اور پُرتشدد فلموں کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔‏ لیکن ایسی سوچ سراسر غلط ہے۔‏ ہمیں کسی بھی بات میں خدا کے معیاروں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔‏ پس ہمیں خود کو اور اپنے بچوں کو شیطان کی دُنیا میں پائے جانے والے بُرے اثرات سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس سلسلے میں ایک کمپیوٹر کی مثال پر غور کریں۔‏ آجکل کمپیوٹر کو وائرس کے ذریعے نقصان پہنچ سکتا ہے۔‏ اِس لئے لوگ اپنے کمپیوٹر کو محفوظ رکھنے کے لئے مختلف اقدام اُٹھاتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ اگر ایک شخص اپنے کمپیوٹر کو محفوظ رکھنے کے لئے اتنی کوشش کرتا ہے تو یہ کس‌قدر اہم ہے کہ ہم اپنےآپ کو”‏ابلیس کے منصوبوں“‏ سے بچانے کے لئے سخت کوشش کریں۔‏—‏افس ۶:‏۱۱‏۔‏

۹.‏ ہمیں ہر روز یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کرنے کا عزم کیوں کرنا چاہئے؟‏

۹ ہمیں تقریباً ہر روز کسی نہ کسی ایسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے جس میں ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ آیا ہم یہوواہ خدا کے فرمانبردار رہیں گے یا نہیں۔‏ نجات حاصل کرنے کے لئے ہمیں خدا کی فرمانبرداری کرنے اور اُس کے راست اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یسوع مسیح اپنی ’‏موت تک‘‏ فرمانبردار رہا۔‏ اُس کی مثال کی نقل کرنے سے ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا ایمان مضبوط ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ خدا ہمیں ہماری وفاداری کا اَجر دے گا۔‏ یسوع مسیح نے وعدہ کِیا:‏ ”‏جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۱۳‏)‏ ایسا کرنے کے لئے مسیح جیسی دلیری درکار ہے۔‏—‏زبور ۳۱:‏۲۴‏۔‏

یسوع مسیح دلیری کی عمدہ مثال

۱۰.‏ ہمیں کن دباؤ اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے،‏ اور ہمیں کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟‏

۱۰ اِس دُنیا کی سوچ اور چال‌چلن سے آلودہ ہونے سے بچنے کے لئے ہمیں دلیری کی ضرورت ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ مسیحیوں پر مذہبی تہوار منانے،‏ کسی غلط کام میں ملوث ہونے اور زیادہ پیسے کمانے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔‏ یہ دباؤ اُنہیں یہوواہ خدا کی راست راہوں سے ہٹا سکتے ہیں۔‏ بہت سے مسیحیوں کو خاندان کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔‏ آجکل بعض ممالک میں،‏ تعلیمی ادارے ارتقا کے نظریے کو ایک حقیقت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔‏ نیز،‏ خدا کے وجود سے انکار کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‏ اِن تمام دباؤ اور مشکلات کا مقابلہ کرنے اور خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یسوع مسیح کی مثال سے واضح ہوتا ہے کہ ہم کیسے کامیابی سے اِن سے نپٹ سکتے ہیں۔‏

۱۱.‏ یسوع مسیح کی مثال پر غور کرنے سے ہمیں اَور زیادہ دلیری کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟‏

۱۱ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا:‏ ”‏دُنیا میں مصیبت اُٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو مَیں دُنیا پر غالب آیا ہوں۔‏“‏ (‏یوح ۱۶:‏۳۳‏)‏ یسوع مسیح نے ہمیشہ دُنیا کے دباؤ کا مقابلہ کِیا۔‏ اُس نے کبھی بھی اِس دباؤ کی وجہ سے مُنادی کرنا بند نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی غلط کام میں ملوث ہو کر خدا کے معیاروں کو ترک کِیا۔‏ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔‏ یسوع مسیح نے دُعا میں اپنے شاگردوں کے بارے میں کہا:‏ ”‏جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏ (‏یوح ۱۷:‏۱۶‏)‏ پس مسیح کی دلیری پر غور کرنے سے ہمیں دُنیا کا حصہ نہ بننے کے لئے دلیری حاصل ہو سکتی ہے۔‏

یسوع کی دلیری سے سیکھیں

۱۲-‏۱۴.‏ یسوع مسیح کی دلیری کی چند مثالیں دیں۔‏

۱۲ یسوع مسیح نے اپنی خدمتگزاری کے دوران بہت زیادہ دلیری دکھائی۔‏ خدا کے بیٹے کے طور پر،‏ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اُس نے ”‏ہیکل میں داخل ہو کر اُن سب کو نکال دیا جو ہیکل میں خریدوفروخت کر رہے تھے اور صرافوں کے تختے اور کبوترفروشوں کی چوکیاں اُلٹ دیں۔‏“‏ (‏متی ۲۱:‏۱۲‏)‏ زمین پر یسوع کی آخری رات،‏ جب سپاہی اُسے پکڑنے آئے تو اُس نے اپنے شاگردوں کو بچانے کے لئے دلیری سے کہا:‏ ”‏اگر مجھے ڈھونڈتے ہو تو اِنہیں جانے دو۔‏“‏ (‏یوح ۱۸:‏۸‏)‏ اِس کے چند لمحے بعد اُس نے پطرس سے کہا کہ تلوار کو میان میں رکھ لے۔‏ یوں اُس نے یہ ظاہر کِیا وہ دُنیا کے ہتھیاروں پر نہیں بلکہ یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتا ہے۔‏—‏یوح ۱۸:‏۱۱‏۔‏

۱۳ یسوع مسیح نے دلیری سے اپنے زمانے کے جھوٹے مذہبی پیشواؤں اور اُن کی غلط تعلیمات کو بےنقاب کِیا۔‏ یسوع نے اُنہیں بتایا:‏ ”‏اَے ریاکار فقیہو اور فریسیو تُم پر افسوس!‏ کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیونکہ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہونے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔‏ .‏ .‏ .‏ تُم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ تُم .‏ .‏ .‏ پیالے اور رکابی کو اُوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لُوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔‏“‏ (‏متی ۲۳:‏۱۳،‏ ۲۳،‏ ۲۵‏)‏ یسوع مسیح کے شاگردوں کو بھی ایسی دلیری کی ضرورت تھی کیونکہ اُنہیں بھی جھوٹے مذہبی پیشواؤں کی طرف سے اذیت کا سامنا کرنا تھا اور اُن میں سے بعض کو قتل کِیا جانا تھا۔‏—‏متی ۲۳:‏۳۴؛‏ ۲۴:‏۹‏۔‏

۱۴ یسوع مسیح نے دلیری سے بدرُوحوں کا بھی مقابلہ کِیا۔‏ ایک موقع پر،‏ وہ ایک آدمی سے ملا جس میں بدرُوحیں تھیں۔‏ وہ آدمی اتنا طاقتور تھا کہ کوئی بھی اُسے زنجیروں سے نہیں باندھ سکتا تھا۔‏ مگر یسوع مسیح نے اُن بدرُوحوں کو نکال دیا جنہوں نے اِس آدمی کو اپنے قابو میں کر رکھا تھا۔‏ (‏مر ۵:‏۱-‏۱۳‏)‏ اگرچہ آجکل خدا نے مسیحیوں کو ایسے معجزے کرنے کا اختیار نہیں دیا توبھی مُنادی کے کام میں ہمیں شیطان کے خلاف رُوحانی لڑائی لڑنی چاہئے جس نے ’‏بےایمانوں کی عقلوں کو اندھا کر دیا ہے۔‏‘‏ (‏۲-‏کر ۴:‏۴‏)‏ یسوع مسیح کی طرح ”‏ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں بلکہ خدا کے نزدیک قلعوں“‏ یعنی جھوٹی تعلیمات کو جن پر لوگ مضبوط ایمان رکھتے ہیں،‏ ڈھا دینے کے قابل ہیں۔‏ (‏۲-‏کر ۱۰:‏۴‏)‏ خدا کے دئے ہوئے اِن ہتھیاروں کو استعمال کرنے سے ہم یسوع مسیح کی مثال سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔‏

۱۵.‏ یسوع مسیح نے کس بِنا پر دلیری ظاہر کی؟‏

۱۵ یسوع مسیح نے مضبوط ایمان کی بِنا پر دلیری ظاہر کی۔‏ ہمیں بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏مر ۴:‏۴۰‏)‏ ہم اپنے ایمان کو مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں؟‏ یسوع مسیح کی مثال اِس سلسلے میں ہماری راہنمائی کرتی ہے۔‏ اُس نے ظاہر کِیا کہ وہ پاک صحائف سے بخوبی واقف ہے اور اِن پر ایمان رکھتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ یسوع نے ہتھیار کے طور پر حقیقی تلوار نہیں بلکہ رُوح کی تلوار یعنی خدا کے کلام کو استعمال کِیا۔‏ اُس نے بارہا تعلیم دیتے وقت صحائف کا حوالہ دیا۔‏ وہ اکثر کوئی بات کہنے یا تعلیم دینے سے پہلے کہتا تھا:‏ ”‏لکھا ہے۔‏“‏ اِس کا مطلب تھا کہ جو بات وہ کہنے جا رہا ہے وہ خدا کے کلام میں لکھی ہے۔‏ *

۱۶.‏ ہم مضبوط ایمان کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ ہمیں ایسا ایمان پیدا کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے جو شاگرد بننے کے بعد آنے والی مشکلات میں ثابت‌قدم رہنے کے لئے ہماری مدد کرے گا؟‏ ہمیں ہر روز بائبل کا مطالعہ کرنا اور مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونا چاہئے تاکہ ہم اُن سچائیوں کو ذہن‌نشین کر سکیں جو ہمارے ایمان کی بنیاد ہیں۔‏ (‏روم ۱۰:‏۱۷‏)‏ نیز،‏ ہمیں سیکھی ہوئی باتوں پر غوروخوض کرنے اور اِنہیں اپنے دل پر نقش کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اگر ہمارا ایمان مضبوط ہوگا تو ہم دلیری ظاہر کرنے کے قابل ہوں گے۔‏ (‏یعقو ۲:‏۱۷‏)‏ ہمیں خدا کی پاک رُوح کے لئے دُعا بھی کرنی چاہئے کیونکہ ایمان رُوح کے پھل کا ایک حصہ ہے۔‏—‏گل ۵:‏۲۲‏۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ ایک نوجوان بہن نے سکول میں دلیری کیسے ظاہر کی؟‏

۱۷ ایک نوجوان بہن کےٹی نے اِس بات کا تجربہ کِیا کہ مضبوط ایمان کی بدولت ہمیں دلیری کیسے حاصل ہوتی ہے۔‏ بچپن سے ہی وہ جانتی تھی کہ اُسے سکول میں ’‏خوشخبری سے شرمانا‘‏ نہیں چاہئے،‏ اِس لئے وہ اپنے ہم‌جماعتوں کو گواہی دینا چاہتی تھی۔‏ (‏روم ۱:‏۱۶‏)‏ ہر سال وہ اُنہیں خوشخبری سنانے کا عزم کرتی تھی۔‏ مگر وہ دوسروں سے بات کرنے سے ہچکچاتی تھی کیونکہ اُس میں دلیری کی کمی تھی۔‏ جب وہ بڑی ہو گئی تو اُس نے سکول بدل لیا۔‏ اُس نے سوچا،‏ ”‏اب مَیں گواہی دینے کے تمام موقعوں سے بھرپور فائدہ اُٹھاؤں گی۔‏“‏ کےٹی نے مسیح جیسی دلیری،‏ حکمت اور گواہی دینے کے مواقع حاصل کرنے کے لئے دُعا کی۔‏

۱۸ سکول میں پہلے دن طالب‌علموں کو باری‌باری اپنا تعارف کرانے کے لئے کہا گیا۔‏ بہت سے طالب‌علموں نے اپنےاپنے مذہب کا ذکر کِیا لیکن اِس بات کو بھی تسلیم کِیا کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق نہیں چلتے۔‏ کےٹی سمجھ گئی کہ یہی وہ موقع ہے جس کے لئے اُس نے دُعا کی تھی۔‏ جب اُس کی باری آئی تو اُس نے بڑے اعتماد سے کہا،‏ ”‏مَیں یہوواہ کی گواہ ہوں اور مَیں پرستش اور چال‌چلن کے سلسلے میں بائبل سے راہنمائی حاصل کرتی ہوں۔‏“‏ جب وہ یہ بتا رہی تھی تو بعض طالب‌علموں نے اُسے طنزیہ نظروں سے دیکھا۔‏ لیکن دیگر طالب‌علموں نے اُس کی بات کو توجہ سے سنا اور بعدازاں اُس سے سوالات پوچھے۔‏ یہاں تک کہ اُستاد نے اپنے ایمان کے متعلق بتانے پر کےٹی کی تعریف کی۔‏ واقعی،‏ کےٹی نے دلیری ظاہر کرنے کے سلسلے میں یسوع مسیح کی مثال پر عمل کِیا۔‏

مسیح جیسا ایمان اور دلیری ظاہر کریں

۱۹.‏ (‏ا)‏ ایمان رکھنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم یہوواہ خدا کو خوش کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ رسول بھی اِس بات کو سمجھتے تھے کہ اُن کی دلیری کی بنیاد ایمان پر ہونی چاہئے۔‏ اِس لئے اُنہوں نے یسوع مسیح سے درخواست کی:‏ ”‏ہمارے ایمان کو بڑھا۔‏“‏ ‏(‏لوقا ۱۷:‏۵،‏ ۶ کو پڑھیں۔‏)‏ ایمان رکھنے کا مطلب صرف خدا کے وجود پر یقین رکھنا ہی نہیں ہے۔‏ اِس میں یہوواہ خدا کے ساتھ قریبی رشتہ پیدا کرنا شامل ہے بالکل ویسے ہی جیسے ایک بچے اور اُس کے باپ کے درمیان ہوتا ہے۔‏ سلیمان نے خدا کے الہام سے لکھا:‏ ”‏اَے میرے بیٹے!‏ اگر تُو دانا دل ہے تو میرا دل۔‏ ہاں میرا دل خوش ہوگا۔‏ اور جب تیرے لبوں سے سچی باتیں نکلیں گی تو میرا دل شادمان ہوگا۔‏“‏ (‏امثا ۲۳:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ اِسی طرح جب ہم دلیری سے یہوواہ خدا کے راست اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے اور یہ جان کر ہمیں اَور زیادہ دلیری حاصل ہوتی ہے۔‏ پس آئیں ہمیشہ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے دلیری سے اپنی راستی پر قائم رہیں!‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہم گنہگار ہونے کے باوجود فرمانبردار رہنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

‏• مضبوط ایمان کی بنیاد کیا ہے،‏ اور یہ دلیری حاصل کرنے میں ہماری مدد کیسے کر سکتا ہے؟‏

‏• ہمارے فرمانبردار رہنے اور مسیح جیسی دلیری ظاہر کرنے کے کیا نتائج نکلیں گے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

کیا آپ آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے دل کو ”‏آمادہ“‏ کر رہے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

ہم یسوع مسیح کی طرح ایمان کی بِنا پر دلیری ظاہر کر سکتے ہیں