مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیحا!‏ خدا کی طرف سے نجات کا وسیلہ

مسیحا!‏ خدا کی طرف سے نجات کا وسیلہ

مسیحا!‏ خدا کی طرف سے نجات کا وسیلہ

‏”‏جیسے آؔدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے۔‏“‏—‏۱-‏کر ۱۵:‏۲۲‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ اندریاس اور فلپس نے یسوع سے ملنے کے بعد کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلی صدی کے شاگردوں کی نسبت ہمارے پاس یسوع کے مسیحا ہونے کی زیادہ شہادتیں موجود ہیں؟‏

‏”‏ہم کو .‏ .‏ .‏ مسیح مل گیا۔‏“‏ یہ الفاظ اندریاس نے اپنے بھائی پطرس سے اُس وقت کہے جب اُسے یہ یقین ہو گیا کہ یسوع ناصری خدا کا ممسوح ہے۔‏ فلپس بھی اِس بات پر ایمان لے آیا اور اپنے دوست نتن‌ایل کو بتایا:‏ ”‏جس کا ذکر موسیٰؔ نے توریت میں اور نبیوں نے کِیا ہے وہ ہم کو مل گیا۔‏ وہ یوؔسف کا بیٹا یسوؔع ناصری ہے۔‏“‏—‏یوح ۱:‏۴۰،‏ ۴۱،‏ ۴۵‏۔‏

۲ کیا آپ بھی یہ مانتے ہیں کہ یسوع ہی مسیحا یعنی نجات کا وہ وسیلہ تھا جس کے آنے کا وعدہ کِیا گیا تھا؟‏ پہلی صدی کے شاگردوں کی نسبت آج ہمارے پاس اِس بات کی زیادہ شہادتیں موجود ہیں کہ یسوع ہی مسیحا تھا۔‏ بائبل میں یسوع کی پیدائش سے لے کر اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے تک کی تمام تفصیلات درج ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہی مسیحا تھا۔‏ ‏(‏یوحنا ۲۰:‏۳۱،‏ ۳۲ کو پڑھیں۔‏)‏ نیز،‏ بائبل واضح کرتی ہے کہ یسوع کو آسمان پر جانے کے بعد بھی مسیحا کے طور پر اپنا کام پورا کرنا تھا۔‏ (‏یوح ۶:‏۴۰؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۲۲ کو پڑھیں۔‏‏)‏ بائبل سے اِن باتوں کو سیکھنے کے بعد آج ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ”‏مسیح مل گیا“‏ ہے۔‏ لیکن آئیں پہلے یہ دیکھیں کہ وہ ابتدائی شاگرد اِس نتیجے پر کیسے پہنچے کہ اُنہیں مسیح مل گیا ہے۔‏

مسیحا کا ”‏بھید“‏ آہستہ‌آہستہ آشکارا ہوا

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ پہلی صدی کے شاگردوں کو کیوں یقین تھا کہ اُنہیں ”‏مسیح مل گیا“‏ ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ مسیحا سے متعلق تمام پیشینگوئیاں صرف یسوع پر پوری ہوئی تھیں؟‏

۳ یسوع کے پہلی صدی کے شاگرد اتنے یقین سے کیوں کہہ سکتے تھے کہ وہ مسیحا ہے؟‏ دراصل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ خدا نے اپنے نبیوں کے ذریعے مسیحا کی شناخت کے سلسلے میں معلومات فراہم کی تھیں۔‏ اِس بات کو بائبل کے ایک عالم نے سنگِ‌مرمر کے مختلف ٹکڑوں سے ایک مجسّمہ بنانے سے تشبیہ دی۔‏ ذرا تصور کریں کہ کچھ لوگ جو آپس میں پہلے کبھی نہیں ملے سنگِ‌مرمر کا ایک‌ایک ٹکڑا لے کر ایک کمرے آتے ہیں۔‏ اگر وہ یہ تمام ٹکڑے جوڑ کر مجسّمہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپ کس نتیجے پر پہنچیں گے؟‏ آپ سمجھ جائیں گے کہ جس شخص نے اِس مجسّمے کا ڈیزائن بنایا ہو گا یقیناً اُسی نے یہ ٹکڑے اِن لوگوں کو دئے ہوں گے تاکہ وہ اِنہیں جوڑ کر مجسّمہ بنا سکیں۔‏ اِس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ جیسے ہر ٹکڑا مجسّمہ بنانے کے لئے ضروری ہے ویسے ہی مسیحا کے متعلق ہر پیشینگوئی اُس کو پہچاننے میں مدد دینے کے لئے ضروری ہے۔‏

۴ کیا مسیحا سے متعلق تمام پیشینگوئیاں اتفاقاً ایک ہی شخص پر پوری ہو سکتی ہیں؟‏ اِس سلسلے میں ایک تحقیق‌دان نے بیان کِیا کہ اِس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔‏ لہٰذا،‏ یسوع کا مسیحا سے متعلق تمام پیشینگوئیوں پر پورا اُترنا محض اتفاق نہیں تھا۔‏

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ شیطان کو سزا کیسے دی جانی تھی؟‏ (‏ب)‏ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ خدا نے ”‏نسل“‏ کے بارے میں کیا ظاہر کِیا؟‏

۵ مسیح کے بارے میں تمام پیشینگوئیوں کا تعلق ایک ”‏بھید“‏ سے ہے جو تمام مخلوقات کے لئے بہت اہم ہے۔‏ (‏کل ۱:‏۲۶،‏ ۲۷؛‏ پید ۳:‏۱۵‏)‏ اِس بھید میں اُس ’‏پُرانے سانپ‘‏ یعنی شیطان کو سزا دینا بھی شامل تھا جس نے انسان کو گُناہ اور موت کی دلدل میں دھکیل دیا۔‏ (‏مکا ۱۲:‏۹‏)‏ مگر یہوواہ خدا نے اُسے کس کے ذریعے سزا دینی تھی؟‏ یہوواہ خدا نے پیشینگوئی کی کہ ”‏عورت کی نسل“‏ شیطان کے سر کو کچلے گی جس سے بغاوت،‏ بیماری اور موت کی اصل جڑ کا خاتمہ ہو جائے گا۔‏ لیکن اِس سے پہلے خدا نے شیطان کو عورت کی ”‏نسل“‏ کی ایڑی پر کاٹنے کی اجازت دی۔‏

۶ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ خدا نے واضح کِیا کہ یہ ”‏نسل“‏ کون ہو گی؟‏ خدا نے ابرہام سے وعدہ کِیا:‏ ”‏تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔‏“‏ (‏پید ۲۲:‏۱۸‏)‏ موسیٰ نے پیشینگوئی کی کہ یہ نسل اُس سے بھی بڑا ”‏نبی“‏ ثابت ہوگی۔‏ (‏است ۱۸:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ داؤد سے یہ وعدہ کِیا گیا کہ مسیحا اُس کی اولاد سے آئے گا اور اُس کے تخت کا وارث ہوگا جس کی بعد میں دوسرے نبیوں نے بھی تصدیق کر دی۔‏—‏۲-‏سمو ۷:‏۱۲،‏ ۱۶؛‏ یرم ۲۳:‏۵،‏ ۶‏۔‏

یسوع کے مسیحا ہونے کا ثبوت

۷.‏ (‏ا)‏ پیدایش ۳:‏۱۵ میں جس ”‏عورت“‏ کا ذکر کِیا گیا ہے وہ کس کی طرف اشارہ کرتی ہے؟‏ (‏ب)‏ کس مفہوم میں یسوع مسیح اِس ”‏عورت“‏ سے پیدا ہوا؟‏

۷ پیدایش ۳:‏۱۵ میں جس ”‏عورت“‏ کا ذکر کِیا گیا ہے وہ یہوواہ خدا کی آسمانی تنظیم ہے۔‏ یہ تنظیم پاک فرشتوں پر مشتمل ہے۔‏ اِسی تنظیم میں سے اُس نے اپنے پہلوٹھے بیٹے کو بھیجا۔‏ یہ بیٹا وہ ”‏نسل“‏ ثابت ہوا جس کا وعدہ کِیا گیا تھا۔‏ اِس بیٹے کے زمین پر آنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ سارے آسمانی جلال سے ”‏اپنےآپ کو خالی“‏ کر دے۔‏ (‏فل ۲:‏۵-‏۷؛‏ یوح ۱:‏۱۴‏)‏ جب روحُ‌القدس نے مریم پر ’‏سایہ ڈالا‘‏ تو یہ اِس بات کی ضمانت تھی کہ اُس کا بچہ ”‏مولودِمُقدس خدا کا بیٹا کہلائے گا“‏۔‏—‏لو ۱:‏۳۵‏۔‏

۸.‏ یسوع نے اپنے بپتسمے کے وقت مسیحا سے متعلق کس پیشینگوئی کو پورا کِیا؟‏

۸ مسیحا کے متعلق پیشینگوئیوں نے واضح کِیا کہ وہ کب اور کہاں ظاہر ہوگا۔‏ پیشینگوئی کے مطابق یسوع بیت‌لحم میں پیدا ہوا۔‏ (‏میک ۵:‏۲‏)‏ پہلی صدی کے یہودی مسیحا کے منتظر تھے۔‏ اِس لئے بعض یوحنا بپتسمہ دینے والے کے بارے میں سوچتے تھے:‏ ”‏آیا وہ مسیح ہے یا نہیں۔‏“‏ لیکن یوحنا نے یہ جواب دیا:‏ ”‏مجھ سے زورآور .‏ .‏ .‏ آنے والا ہے۔‏“‏ (‏لو ۳:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ سن ۲۹ عیسوی میں جب یسوع ۳۰ سال کا ہوا تو وہ یوحنا کے پاس بپتسمہ لینے آیا۔‏ اِس طرح وہ پیشینگوئی کے مطابق عین وقت پر مسیحا کے طور پر ظاہر ہوا۔‏ (‏دان ۹:‏۲۵‏)‏ اِس کے بعد یسوع نے یہ مُنادی کرنا شروع کی:‏ ”‏وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔‏“‏—‏مر ۱:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۹.‏ یسوع مسیح کی حکمرانی کے متعلق تمام حقائق سے واقف نہ ہونے کے باوجود اُس کے شاگرد کیا ایمان رکھتے تھے؟‏

۹ اگرچہ لوگوں نے بادشاہ کے طور پر یسوع مسیح کا استقبال کِیا توبھی وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ مستقبل میں آسمان سے حکمرانی کرے گا۔‏ (‏یوح ۱۲:‏۱۲-‏۱۶؛‏ ۱۶:‏۱۲،‏ ۱۳؛‏ اعما ۲:‏۳۲-‏۳۶‏)‏ یسوع مسیح کے شاگرد بھی اُس کی حکمرانی کے متعلق تمام حقائق سے واقف نہیں تھے۔‏ اِس کے باوجود جب یسوع نے اُن سے پوچھا کہ ”‏تُم مجھے کیا کہتے ہو؟‏“‏ تو پطرس نے جواب دیا:‏ ”‏تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۱۳-‏۱۶‏)‏ ایک اَور موقع پر جب بہت سے شاگرد یسوع کی کسی تعلیم سے ٹھوکر کھا کر اُلٹے پھر گئے تو اُس وقت بھی پطرس نے یہی جواب دیا تھا۔‏‏—‏یوحنا ۶:‏۶۸،‏ ۶۹ کو پڑھیں۔‏

مسیحا کو قبول کرنا

۱۰.‏ یہوواہ خدا نے اِس بات پر کیوں زور دیا کہ ہم اُس کے بیٹے کی سنیں؟‏

۱۰ خدا کا اکلوتا بیٹا آسمان پر ایک طاقتور روحانی ہستی تھا اور وہ اپنے ”‏باپ کی طرف سے“‏ زمین پر آیا تھا۔‏ (‏یوح ۱۶:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ اُس نے کہا:‏ ”‏میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔‏“‏ (‏یوح ۷:‏۱۶‏)‏ ایک مرتبہ جب پہاڑ پر یسوع کی صورت بدل گئی تھی تو اُس وقت یہوواہ خدا نے اُس کے مسیحا ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا:‏ ”‏اِس کی سنو۔‏“‏ (‏لو ۹:‏۳۵‏)‏ یسوع کی سننے میں اُس پر ایمان لانا اور اُس کے حکموں پر عمل کرنا شامل ہے۔‏ ایسا کرنے سے ہم خدا کی خوشنودی اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔‏—‏یوح ۳:‏۱۶،‏ ۳۵،‏ ۳۶‏۔‏

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏ پہلی صدی کے یہودیوں نے کن وجوہات کی بِنا پر یسوع کو مسیحا کے طور پر قبول نہ کِیا؟‏ (‏ب)‏ کون یسوع پر ایمان لائے؟‏

۱۱ اگرچہ یسوع کے مسیحا ہونے کی بیشمار شہادتیں موجود تھیں توبھی پہلی صدی کے زیادہ‌تر یہودیوں نے اُسے رد کر دیا۔‏ اِس کی کیا وجہ تھی؟‏ دراصل اُنہوں نے مسیحا کے بارے میں کچھ ذاتی نظریات قائم کر رکھے تھے۔‏ وہ سمجھتے تھے کہ مسیحا ایک سیاسی رہنما بھی ہوگا جو اُنہیں روم کی غلامی سے نجات دلائے گا۔‏ ‏(‏یوحنا ۱۲:‏۳۴ کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا،‏ یہودیوں نے ایسے مسیحا کو قبول نہ کِیا جسے پیشینگوئی کے مطابق حقیر جانا گیا،‏ رد کِیا گیا اور بالآخر ہلاک کر دیا گیا۔‏ (‏یسع ۵۳:‏۳،‏ ۵‏)‏ یہانتک کہ یسوع کے بعض شاگرد بھی اِس بات سے مایوس ہو گئے کہ اُس نے اُنہیں رومیوں کے ظلم سے چھٹکارا نہیں دلایا۔‏ پھربھی وہ وفادار رہے اور وقت کے ساتھ‌ساتھ اُنہیں تمام معاملات کے متعلق صحیح سمجھ حاصل ہوئی۔‏—‏لو ۲۴:‏۲۱‏۔‏

۱۲ بعض لوگوں نے یسوع کو مسیحا کے طور پر اِس لئے بھی رد کر دیا کیونکہ اُن کے لئے اُس کی تعلیمات کو قبول کرنا مشکل تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ یسوع نے یہ سکھایا کہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے لئے ’‏اپنی خودی کا انکار کرنا،‏‘‏ ’‏یسوع کا گوشت کھانا اور خون پینا،‏‘‏ ’‏نئے سرے سے پیدا ہونا،‏‘‏ اور ’‏دُنیا کا حصہ نہ بننا‘‏ ضروری ہے۔‏ (‏مر ۸:‏۳۴؛‏ یوح ۳:‏۳؛‏ ۶:‏۵۳؛‏ ۱۷:‏۱۴،‏ ۱۶‏)‏ لیکن مغرور،‏ دولت‌مند اور ریاکار یہودیوں کی نظر میں یہ تعلیمات ناگوار تھیں۔‏ تاہم،‏ خاکسار یہودیوں نے یسوع کو مسیحا کے طور پر قبول کِیا۔‏ اِس کے علاوہ،‏ بعض سامریوں نے بھی یسوع کو قبول کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏یہ فی‌الحقیقت دُنیا کا مُنجی ہے۔‏“‏—‏یوح ۴:‏۲۵،‏ ۲۶،‏ ۴۱،‏ ۴۲؛‏ ۷:‏۳۱‏۔‏

۱۳.‏ یسوع کی ایڑی پر کس طرح کاٹا گیا؟‏

۱۳ یسوع مسیح نے پہلے ہی سے یہ بتا دیا تھا کہ سردار کاہن اُس کے قتل کا حکم دیں گے،‏ اُسے غیر قوم لوگوں کے ہاتھوں سولی پر لٹکایا جائے گا اور وہ تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔‏ (‏متی ۲۰:‏۱۷-‏۱۹‏)‏ جب اُس نے صدرعدالت کے سامنے یہ اقرار کِیا کہ وہ ”‏خدا کا بیٹا مسیح ہے“‏ تو اُس پر کفر بکنے کا جُرم عائد کِیا گیا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۶۳-‏۶۶‏)‏ تاہم،‏ پیلاطُس نے کہا کہ ”‏اُس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہوا جس سے وہ قتل کے لائق ٹھہرتا۔‏“‏ لیکن یہودیوں نے چونکہ اُس پر بغاوت کا الزام بھی لگایا تھا اِس لئے پیلاطُس نے ”‏یسوؔع کو اُن کی مرضی کے موافق سپاہیوں کے حوالہ کِیا۔‏“‏ (‏لو ۲۳:‏۱۳-‏۱۵،‏ ۲۵‏)‏ اگرچہ اِس بات کی بہت سی شہادتیں موجود تھیں کہ یسوع خدا کی طرف سے آیا تھا توبھی اُنہوں نے ”‏زندگی کے مالک“‏ کا ”‏انکار کِیا“‏ اور اُسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔‏ (‏اعما ۳:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ پس،‏ پیشینگوئی کے مطابق ۳۳ عیسوی کی عیدِفسح پر مسیحا کو ”‏قتل“‏ کِیا گیا یعنی سولی پر لٹکا دیا گیا۔‏ (‏دان ۹:‏۲۶،‏ ۲۷؛‏ اعما ۲:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اِس دردناک موت سے پیدائش ۳:‏۱۵ کی پیشینگوئی کے مطابق یسوع کی ”‏ایڑی“‏ پر کاٹا گیا۔‏

مسیحا کو کیوں مرنا پڑا

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ کن دو وجوہات کی بِنا پر یہوواہ خدا نے یسوع کو مرنے دیا؟‏ (‏ب)‏ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد یسوع نے کیا کِیا؟‏

۱۴ یہوواہ نے یسوع کو دو وجوہات کی بِنا پر مرنے دیا جن کا تعلق مسیحا کے ”‏بھید“‏ سے تھا۔‏ پہلی وجہ یہ تھی کہ موت تک یسوع کی وفاداری سے یہ ثابت ہو گیا کہ گُناہ سے پاک ایک انسان شیطان کی طرف سے آنے والی سخت آزمائشوں کے باوجود اپنی راستی پر قائم رہ سکتا ہے۔‏ وہ مشکلات کی صورت میں ”‏دینداری“‏ اور خدا کی حکمرانی کے لئے حمایت ظاہر کر سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیم ۳:‏۱۶‏)‏ دوسری وجہ کو یسوع نے یوں بیان کِیا:‏ ”‏ابنِ‌آدم اِس لئے .‏ .‏ .‏ آیا کہ .‏ .‏ .‏ اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔‏“‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ یہ ”‏فدیہ“‏ آدم کی اولاد کو گُناہ سے چھڑانے کے لئے ادا کِیا گیا۔‏ اِس طرح اُن تمام انسانوں کے لئے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا ممکن ہو گیا جو یسوع کو خدا کی طرف سے نجات کا وسیلہ قبول کریں گے۔‏—‏۱-‏تیم ۲:‏۵،‏ ۶‏۔‏

۱۵ تین دن قبر میں رہنے کے بعد یسوع مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا اور چالیس دن تک اپنے شاگردوں کو دکھائی دیتا رہا۔‏ اِس دوران اُس نے اُنہیں مزید ہدایات دیں۔‏ (‏اعما ۱:‏۳-‏۵‏)‏ اِس کے بعد وہ آسمان پر چلا گیا اور خدا کے حضور اپنی بےعیب انسانی جان کی قیمت فدیے کے طور پر پیش کی۔‏ پھر وہ اُس وقت کا انتظار کرنے لگا جب مسیحا کے طور پر اُس کی حکمرانی شروع ہو گی۔‏ لیکن اِس سے پہلے اُسے اَور بہت کچھ کرنا تھا۔‏

مسیحا اپنا کام پورا کرتا ہے

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ آسمان پر جانے کے بعد یسوع مسیح نے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح مستقبل میں مزید کیا کرے گا؟‏

۱۶ آسمان پر جا کر یسوع نے پہلے مسیحی کلیسیا پر حکمرانی شروع کی اور اُس وقت سے لے کر وہ اِس کے تمام کاموں کی نگرانی کرتا رہا۔‏ (‏کل ۱:‏۱۳‏)‏ پھر جیساکہ بائبل کی پیشینگوئیوں اور دُنیا کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے وہ ۱۹۱۴ میں خدا کی بادشاہت کا بادشاہ بن گیا اور اِس کے ساتھ ہی ’‏دُنیا کے خاتمے‘‏ کا آغاز بھی ہوگیا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳؛‏ مکا ۱۱:‏۱۵‏)‏ اِس کے تھوڑی دیر بعد یسوع مسیح نے اپنے فرشتوں کے ساتھ مل کر شیطان اور اُس کے شیاطین کو آسمان سے نکال دیا۔‏—‏مکا ۱۲:‏۷-‏۱۰‏۔‏

۱۷ یسوع مسیح نے ۲۹ عیسوی میں مُنادی کرنے اور تعلیم دینے کے جس کا م کا آغاز کِیا تھا وہ اب اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔‏ جلد ہی وہ سب لوگوں کی عدالت کرے گا۔‏ جو لوگ اُسے خدا کی طرف سے نجات کا وسیلہ قبول کریں گے اُن سے وہ کہے گا:‏ ”‏آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِ‌عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔‏“‏ (‏متی ۲۵:‏۳۱-‏۳۴،‏ ۴۱‏)‏ مگر جب یسوع تمام بدکاری کو ختم کرنے کے لئے اپنے پاک فرشتوں کے ساتھ آئے گا تو وہ اُن لوگوں کو ہلاک کر دے گا جو اُسے بادشاہ تسلیم نہیں کرتے۔‏ اِس کے بعد یسوع مسیح شیطان اور اُس کے شیاطین کو ”‏اتھاہ گڑھے“‏ میں ڈال دے گا۔‏—‏مکا ۱۹:‏۱۱-‏۱۴؛‏ ۲۰:‏۱-‏۳‏۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ یسوع ہزار سالہ حکومت کے دوران مسیحا کے طور پر انسانوں کے لئے کیا انجام دے گا؟‏

۱۸ ہزار سالہ بادشاہت کے دوران یسوع مسیح ”‏عجیب مشیر خدایِ‌قادِر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ“‏ ثابت ہوگا۔‏ (‏یسع ۹:‏۶،‏ ۷‏)‏ اُس کی بادشاہت میں تمام انسانوں یہاں تک کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے والے انسانوں کو بھی گُناہ سے پاک کر دیا جائے گا۔‏ (‏یوح ۵:‏۲۶-‏۲۹‏)‏ مسیحا فرمانبردار انسانوں کو ”‏آبِ‌حیات کے چشموں کے پاس لے جائے گا“‏ تاکہ وہ یہوواہ خدا کی قربت سے لطف اندوز ہو سکیں۔‏ ‏(‏مکاشفہ ۷:‏۱۶،‏ ۱۷ کو پڑھیں۔‏)‏ آخری امتحان کے بعد شیطان اور شیاطین سمیت تمام باغیوں کو ’‏آگ کی جھیل میں ڈالا جائے گا‘‏ اور یوں یسوع ”‏سانپ“‏ کے سر کو کچل ڈالے گا۔‏—‏مکا ۲۰:‏۱۰‏۔‏

۱۹ مسیحا کے طور پر یسوع کیا ہی عمدہ طریقے سے اپنا کام انجام دیتا ہے!‏ فردوسی زمین پر آباد لوگ گُناہ اور موت کی غلامی سے آزاد ہو چکے ہوں گے۔‏ وہ اچھی صحت اور خوشی کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔‏ یہوواہ خدا کے نام کو تمام الزامات سے پاک ٹھہرایا جائے گا اور یہ ثابت ہو جائے گا کہ صرف وہی کائنات پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔‏ خدا کے ممسوح کی فرمانبرداری کرنے والے کیا ہی شاندار مستقبل کے مالک ہوں گے!‏

کیا آپ کو مسیحا مل گیا؟‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ ہمیں کس وجہ سے دوسروں کو مسیحا کے بارے میں بتانا چاہئے؟‏

۲۰ سن ۱۹۱۴ سے ہم یسوع مسیح کی موجودگی کے دَور میں رہ رہے ہیں۔‏ اگرچہ یسوع کا بادشاہ بننا انسانی آنکھوں سے اوجھل تھا پھربھی بائبل کی پیشینگوئیوں کی تکمیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حقیقت میں پیش آیا تھا۔‏ (‏مکا ۶:‏۲-‏۸‏)‏ اِس کے باوجود پہلی صدی کے یہودیوں کی طرح آج کل بھی بہتیرے لوگ مسیحا کی موجودگی کو نظرانداز کرتے ہیں۔‏ وہ کوئی ایسا رہنما چاہتے ہیں جو سیاسی لوگوں کے ساتھ ملکر انسانی مسائل کو حل کرے۔‏ لیکن جب آپ نے بائبل کی سچائی سیکھی تو آپ کو پتہ چلا کہ یسوع خدا کی بادشاہت کے بادشاہ کی حیثیت سے حکمرانی کر رہا ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ آپ کے لئے یہ خوشی کی بات تھی اِس لئے آپ بھی پہلی صدی کے شاگردوں کی طرح یہ کہہ سکتے تھے کہ ”‏ہم کو .‏ .‏ .‏ مسیح مل گیا۔‏“‏

۲۱ کیا آپ دوسروں کے ساتھ گفتگو کے دوران مسیحا کے طور پر یسوع کے کردار کو نمایاں کرتے ہیں؟‏ ایسا کرنے سے آپ کے دل میں اُن تمام کاموں کے لئے قدر بڑھے گی جو اُس نے آپ کے لئے ماضی میں کئے یا جو وہ اب کر رہا ہے یاپھر جو وہ مستقبل میں کرے گا۔‏ اندریاس اور فلپس کی طرح آپ نے یقیناً اپنے رشتےداروں اور دوستوں کو مسیحا کے بارے میں بتایا ہوگا۔‏ کیوں نہ پھر نئے جذبے کے ساتھ اُنہیں یہ بتائیں کہ یسوع ہی وہ مسیحا اور خدا کی طرف سے نجات کا وسیلہ ہے جس کا وعدہ کِیا گیا تھا۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• پہلی صدی کے شاگردوں نے مسیحا کو کیسے پہچانا؟‏

‏• یسوع کو کن دو اہم وجوہات کی بِنا پر مرنا پڑا؟‏

‏• یسوع مستقبل میں مسیحا کے طور پر کیا کام انجام دے گا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویریں]‏

پہلی صدی کے مسیحی اتنے یقین سے کیوں کہہ سکتے تھے کہ یسوع ہی مسیحا تھا

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

کیا آپ دوسروں سے گفتگو کے دوران مسیحا کے طور پر یسوع کے کردار کو نمایاں کرتے ہیں؟‏