مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہر بات میں دیانتداری—‏کیا یہ ممکن ہے؟‏

ہر بات میں دیانتداری—‏کیا یہ ممکن ہے؟‏

ہر بات میں دیانتداری—‏کیا یہ ممکن ہے؟‏

آجکل لوگ دیانتداری کو اہم خیال نہیں کرتے۔‏ وہ سمجھتے ہیں کہ کبھی‌کبھار دیانتداری سے کام لینا ہی کافی ہے۔‏ لیکن کیا اِس دُنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر بات میں دیانتدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں؟‏

آجکل ہر طرف بددیانتی پھیلی ہوئی ہے۔‏ لیکن دیانتداری کے متعلق خدا کا نظریہ بالکل واضح ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ خدا کا کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏تُو چوری نہ کرنا۔‏“‏ (‏خروج ۲۰:‏۱۵‏)‏ اِس کے برعکس بہتیرے لوگوں کا خیال ہے کہ بعض حالات میں چوری کرنا یا بددیانتی کرنا جائز ہے۔‏ آئیں چوری کی تین قسموں پر غور کریں جنہیں عموماً جائز قرار دیا جاتا ہے۔‏

غربت چوری کا بہانہ

روم کے کسی لیڈر نے ایک مرتبہ کہا تھا:‏ ”‏غربت جُرم کو جنم دیتی ہے۔‏“‏ ایک غریب آدمی شاید یہ سوچے کہ اُس کے لئے چوری کرنا جائز ہے۔‏ بہت سے لوگ شاید ایسے آدمی کے لئے ہمدردی محسوس کریں اور اُس کی اِس سوچ کی حمایت کریں۔‏ مگر اِس سلسلے میں یسوع مسیح کا کیا نظریہ تھا؟‏ یسوع مسیح ایک رحم‌دل شخص تھا جو محتاجوں کی بڑی فکر کرتا تھا۔‏ اُسے ”‏لوگوں پر ترس“‏ آتا تھا۔‏ (‏متی ۹:‏۳۶‏)‏ اِس کے باوجود اُس نے چوری کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا تھا۔‏ اِس کے پیشِ‌نظر ایک غریب آدمی مشکل حالات میں کیسے گزارا کر سکتا ہے؟‏

خدا فرمانبردار لوگوں کے لئے رحم دکھاتا ہے اور گزربسر کرنے کے لئے اُن کی کوشش کو برکت دیتا ہے۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۲۵‏)‏ خدا کے کلام میں ایسے لوگوں سے وعدہ کِیا گیا ہے:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ صادق کی جان کو فاقہ نہ کرنے دے گا پر شریروں کی ہوس کو دُورودفع کرے گا۔‏“‏ (‏امثال ۱۰:‏۳‏)‏ آئیں اِس سلسلے میں وکٹرین کی مثال پر غور کریں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک غریب شخص اِس وعدے پر بھروسا کر سکتا ہے۔‏

وکٹرین ایک بیوہ اور پانچ بچوں کی ماں ہے۔‏ اُس کے لئے گزربسر کرنا آسان نہیں ہے۔‏ وہ ایک ایسے ملک میں رہتی ہے جہاں حکومت کی طرف سے بہت کم مالی مدد ملتی ہے۔‏ اُس کا سارا دن گھر سے باہر گزرتا ہے جہاں اُسے چوری کرنے کے بہت سے موقعے بھی ملتے ہیں۔‏ مگر وہ چوری کرنے کے بارے میں سوچتی تک نہیں بلکہ وہ گزربسر کرنے کے لئے بازار میں چیزیں بیچتی ہے۔‏ وہ اپنا کام دیانتداری سے کیوں کرتی ہے؟‏

وکٹرین کہتی ہے:‏ ”‏پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر مَیں دیانتدار رہوں گی تو یہوواہ مجھے برکت دے گا۔‏ اور دوسری یہ کہ میرے بچے بھی ہر بات میں دیانتدار رہنا سیکھیں گے۔‏“‏

دیانتداری کا اُس کے لئے کیا نتیجہ نکلا ہے؟‏ ”‏ہماری روٹی،‏ کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔‏ مگر کبھی‌کبھار مجھے دوستوں سے مدد کی درخواست کرنی پڑتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ بیماری کی وجہ سے اضافی اخراجات پورے کرنے کے لئے مجھے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اِس صورت میں میرے دوست خوشی سے مدد کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مَیں اُن سے ضرورت سے زیادہ مدد نہیں لیتی۔‏

میرے بچے بھی دیانتداری سیکھ رہے ہیں۔‏ ایک مرتبہ میری پڑوسن نے میرے گھر میں کچھ پیسے پڑے ہوئے دیکھے۔‏ اُس نے کہا کہ یہ پیسے یونہی کیوں رکھ چھوڑے ہیں۔‏ کہیں تمہارے بچے یہ پیسے اُٹھا نہ لیں۔‏ جب مَیں نے اُسے بتایا کہ میرے بچے ایسا ہرگز نہیں کریں گے تو اُسے میری بات پر یقین نہ آیا۔‏ اِس لئے اُس نے میرے بچوں کو آزمانے کا سوچا۔‏ اُس نے مجھے بتائے بغیر کچھ پیسے ہمارے گھر میں ایسی جگہ رکھ دئے جہاں بچے اُنہیں آسانی سے لے سکتے تھے۔‏ لیکن جب وہ اگلے دن ہمارے گھر آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پیسے وہیں پڑے تھے۔‏ بچوں نے اُنہیں چھوا تک نہیں تھا۔‏ واقعی،‏ میرے لئے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ میرے بچے بھی دیانتدار ہیں۔‏ شاید اتنی خوشی مجھے دولت سے بھی نہ ملتی۔‏“‏

‏”‏سبھی کرتے ہیں“‏

ملازمت کی جگہ پر بھی چوری بہت عام ہے۔‏ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ”‏جب سبھی کرتے ہیں توپھر مَیں کیوں نہیں؟‏“‏ اِس کے برعکس خدا کا کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏بُرائی کرنے کے لئے کسی بِھیڑ کی پیروی نہ کرنا۔‏“‏ (‏خروج ۲۳:‏۲‏)‏ وکٹوئیر نے اِس نصیحت پر عمل کِیا جس کا اُسے بہت فائدہ ہوا۔‏

جب وکٹوئیر ۱۹ سال کی تھی تو وہ گِری کا تیل نکالنے والے ایک کارخانے میں کام کرتی تھی۔‏ وہاں اُس نے دیکھا کہ کارخانے میں ملازم ۴۰ عورتیں اپنی ٹوکریوں میں گِریاں ڈال کر لے جاتی تھیں۔‏ ہر ہفتے وہ اِنہیں بیچ کر تین یا چار دن کی مزدوری کے برابر پیسے بنا لیتی تھیں۔‏ وکٹوئیر بیان کرتی ہے:‏ ”‏سبھی عورتیں ایسا کر رہی تھیں۔‏ اُنہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ ملانا چاہا مگر مَیں نے انکار کر دیا۔‏ مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں ہر بات میں دیانتدار رہنا چاہتی ہوں۔‏ اُنہوں نے میرا مذاق اُڑایا اور کہا کہ مجھے بھی اِس موقعے سے فائدہ اُٹھانا چاہئے ورنہ پچھتانا پڑے گا۔‏

ایک دن جب ہم چھٹی کرکے جا رہی تھیں تو اچانک مینیجر صاحب آ گئے۔‏ اُس نے سب کی تلاشی لی۔‏ سب کی ٹوکریوں سے گِریاں نکلیں۔‏ مگر میری ٹوکری سے کچھ نہ نکلا۔‏ چوری کرنے والی عورتوں میں سے کچھ کو نوکری سے نکال دیا گیا جبکہ بعض کو دو ہفتے تنخواہ کے بغیر کام کرنا پڑا۔‏ اِن دو ہفتوں میں یہ عورتیں جان گئیں کہ میرا فیصلہ بالکل دُرست تھا۔‏ میری بجائے خود اُنہی کو پچھتانا پڑا۔‏“‏

‏”‏جسے ملا اُسی کا“‏

اگر آپ کو کسی کی کھوئی ہوئی قیمتی چیز ملتی ہے تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏ ایسی صورت میں بعض لوگ اُس چیز کے مالک بن بیٹھتے ہیں اور واپس کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔‏ وہ اِس عام نظریے کو مانتے ہیں کہ ”‏جسے ملا اُسی کا۔‏“‏ اُن کے خیال میں اب اِس چیز کو اپنے پاس رکھنا غلط نہیں ہوگا کیونکہ جس شخص کی چیز کھو گئی اب اُسے تو اِس کے دوبارہ ملنے کی کوئی توقع نہیں ہوگی۔‏ بعض شاید یہ کہیں کہ اصلی مالک کو ڈھونڈنا نہ تو اُن کی ذمہ‌داری ہے اور نہ ہی یہ کوئی آسان کام ہے۔‏

اِس معاملے میں خدا کا نظریہ کیا ہے؟‏ ہم استثنا ۲۲:‏۱-‏۳ میں پڑھتے ہیں کہ جس کسی کو کھوئی ہوئی چیز ملتی تھی وہ اُسے اپنے پاس تب تک رکھ سکتا تھا ”‏جب تک [‏اُس کا مالک]‏ اُس کی تلاش نہ کرے۔‏“‏ پھر اُسے وہ چیز مالک کو واپس کر دینی تھی۔‏ لیکن اگر وہ کسی کو یہ نہیں بتاتا کہ اُسے کوئی کھوئی ہوئی چیز ملی ہے تو اُسی کو چور سمجھا جا سکتا تھا۔‏ (‏خروج ۲۲:‏۹‏)‏ کیا آج بھی یہ اُصول فائدہ‌مند ہے؟‏ جی‌ہاں کرسٹین کی مثال اِس بات کا ثبوت ہے۔‏

کرسٹین ایک سکول کی ڈائریکٹر ہے۔‏ ایک دن وہ اپنی مہینےبھر کی تنخواہ اپنے بیگ میں ڈال کر عبادت پر جانے کے لئے ٹیکسی میں سوار ہوئی۔‏ عبادت کی جگہ پر پہنچ کر اُس نے ٹیکسی والے کو پیسے دینے کے لئے اپنے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور جلدی سے کچھ پیسے نکال کر اُسے دئے۔‏ لیکن اندھیرے میں اُسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب اُس کے بیگ سے اُس کی تنخواہ کے پیسے گِر گئے ہیں۔‏

چند ہی منٹ بعد ۱۹ سالہ بلیز جس کا تعلق کسی دوسرے علاقے سے تھا اُسی جگہ پہنچ گیا جہاں کرسٹین عبادت کے لئے آئی تھی۔‏ وہ یہاں اپنے کسی دوست سے ملنے آیا تھا۔‏ بلیز نے وہ گِرے ہوئے پیسے دیکھے اور اُنہیں اُٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔‏ اِس عبادت کے آخر پر اُس نے اپنے دوست کو بتایا کہ اُسے باہر کچھ پیسے گِرے ہوئے ملے تھے۔‏ لہٰذا،‏ جس کسی کے یہ ہوں وہ اِن کی شناخت کرکے لے سکتا ہے۔‏

جب کرسٹین شام کو اپنے گھر پہنچی تو وہ یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئی کہ اُس کی مہینےبھر کی تنخواہ گم ہو گئی ہے۔‏ ایک ہفتے بعد جب اُس نے اپنی دوست جوزفین کو اِس کے متعلق بتایا تو اُس نے کہا کہ کسی شخص کو اُس دن کچھ پیسے گِرے ہوئے ملے تھے۔‏ کرسٹین نے بلیز کو فون کِیا اور بتایا کہ اُس کی کتنی رقم گم ہوئی ہے۔‏ جب بلیز نے اُسے پیسے واپس کئے تو وہ بہت خوش ہوئی۔‏ لیکن بلیز نے کیسا محسوس کِیا؟‏ اُس کے پاس پیسے تقریباً ایک ہفتہ رہے۔‏ لیکن وہ کہتا ہے کہ ”‏اتنی خوشی مجھے پیسے اپنے پاس رکھ کر نہیں ہوئی جتنی کہ اُنہیں لوٹانے سے ہوئی ہے۔‏“‏

اُن کی دیانتداری کی وجہ

وکٹرین،‏ وکٹوئیر اور بلیز تینوں بالکل فرق علاقوں میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں۔‏ لیکن قابلِ‌غور بات یہ ہے کہ وہ تینوں یہوواہ کے گواہ ہیں اور دیانتداری کے سلسلے میں بائبل کے اُصولوں پر عمل کرتے ہیں۔‏ وہ اُس دُنیا کے منتظر ہیں جس کے بارے میں خدا کا کلام یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏اُس کے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہے گی۔‏“‏ اُس وقت تمام انسان راستباز اور دیانتدار ہوں گے۔‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏۔‏

وکٹرین جانتی ہے کہ جب تک خدا زمین پر سے غربت ختم نہیں کر دیتا تب تک اُس کی مالی حالت بہتر نہیں ہوگی۔‏ پھربھی وہ رُوحانی دولت سے مالامال ہے۔‏ یہ ایسی دولت ہے جو دُنیا کے پیسے سے خریدی نہیں جا سکتی۔‏ اُس کے بچے تمیزدار اور دیانتدار ہیں۔‏ وہ ہر اتوار کو بڑے جوش کے ساتھ اپنے پڑوسیوں سے خدا کی مہربانیوں کے متعلق بات کرتے ہیں۔‏ وہ گواہی دیتے ہیں کہ خدا ”‏اپنے سب محبت رکھنے والوں کی حفاظت کرے گا“‏ اور اُن لوگوں کی ضروریات پوری کرے گا ”‏جو سچائی سے دُعا کرتے ہیں۔‏“‏—‏زبور ۱۴۵:‏۷،‏ ۱۸،‏ ۲۰‏۔‏

کچھ عرصہ بعد وکٹوئیر نے بھی گِری کے تیل کے کارخانے میں کام کرنا چھوڑ دیا۔‏ اُس نے اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کر دیا جو اُس کی دیانتداری کی وجہ سے کامیاب تھا۔‏ لہٰذا،‏ وہ اِس لائق تھی کہ اپنے کاروبار میں کم وقت صرف کرے اور لوگوں کو بددیانتی سے پاک دُنیا میں رہنے کی اُمید کے متعلق بتانے میں زیادہ وقت صرف کرے۔‏ اب اُس کی شادی ہو چکی ہے اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنا سارا وقت یہوواہ کی خدمت میں استعمال کر رہی ہے۔‏

کرسٹین کے پیسے یہوواہ کے گواہوں کی عبادت‌گاہ کے سامنے گرے تھے۔‏ بلیز وہاں آنے والے صرف چند ایک لوگوں کو جانتا تھا۔‏ لیکن اُسے یہ معلوم تھا کہ وہ سب اُس کے مسیحی بہن بھائی ہیں جو ہر بات میں دیانتدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏

آپ ایسے کتنے لوگوں سے واقف ہیں جو ہمیشہ دیانتدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں؟‏ ذرا ایسے ۵۰،‏ ۱۰۰ یا ۲۰۰ لوگوں کے ساتھ ہونے کا تصور کریں جو سب کے سب دیانتدار ہیں۔‏ جب یہوواہ کے گواہ عبادت پر جاتے ہیں تو اُنہیں ایسا ہی تجربہ ہوتا ہے۔‏ کیوں نہ آپ بھی وہاں جائیں اور ایسے دیانتدار لوگوں سے ملیں؟‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر عبارت]‏

‏”‏میرے لئے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ میرے بچے بھی دیانتدار ہیں۔‏ شاید اتنی خوشی مجھے دولت سے بھی نہ ملتی۔‏“‏—‏وکٹرین

‏[‏صفحہ ۳۲ پر بکس]‏

کیا امثال ۶:‏۳۰ کے مطابق چوری کرنا جائز ہے؟‏

امثال ۶:‏۳۰ بیان کرتی ہے:‏ ”‏چور اگر بھوک کے مارے اپنا پیٹ بھرنے کو چوری کرے تو لوگ اُسے حقیر نہیں جانتے۔‏“‏ کیا یہ بات چوری کو جائز قرار دیتی ہے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اِس سے اگلی ہی آیت بتاتی ہے کہ خدا کے نزدیک اِس صورت میں بھی چوری کرنے والا سزا کے لائق ہے۔‏ یہ آیت بیان کرتی ہے:‏ ”‏اگر وہ پکڑا جائے تو سات گُنا بھرے گا۔‏ اُسے اپنے گھر کا سارا مال دینا پڑے گا۔‏“‏ (‏امثال ۶:‏۳۱‏)‏ یہ سچ ہے کہ بھوک کی وجہ سے چوری کرنے والا شاید اتنا سزا کے لائق نہ ہو جتنا کہ لالچ کی وجہ سے چوری کرنے والا۔‏ مگر دونوں صورتوں میں چوری کرنے والے کو نقصان بھرنا ہی پڑتا ہے۔‏ خدا کو خوش کرنے والے لوگ کسی بھی صورت میں چوری نہیں کریں گے۔‏