مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باپ،‏ بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ

باپ،‏ بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ

باپ،‏ بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ

‏”‏پس تُم جا کر .‏ .‏ .‏ شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔‏“‏—‏متی ۲۸:‏۱۹‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏۱)‏ یروشلیم میں سن ۳۳ عیسوی کی عیدِپنتِکُست پر کیا واقع ہوا؟‏ (‏ب)‏ اتنے زیادہ لوگوں نے بپتسمہ کیوں لیا؟‏

یہ سن ۳۳ عیسوی کی بات ہے کہ مختلف علاقوں سے ہزاروں لوگ عیدِپنتِکُست منانے کے لئے یروشلیم میں جمع تھے۔‏ اِس دوران ایک عجیب واقعہ رُونما ہوا جس کے بعد پطرس نے دل کو چھو لینے والی تقریر پیش کی۔‏ اُس کی تقریر کا لوگوں پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ تین ہزار یہودیوں اور اُن کے مُریدوں نے اپنے گُناہوں سے توبہ کرکے پانی میں بپتسمہ لیا۔‏ یوں وہ مسیحی کلیسیا میں شامل ہو گئے جو حال ہی میں قائم ہوئی تھی۔‏ (‏اعما ۲:‏۴۱‏)‏ یروشلیم کے آس‌پاس کی جھیلوں میں اتنے زیادہ لوگوں کا بپتسمہ واقعی ایک حیرت‌انگیز منظر ہوگا!‏

۲ اتنے زیادہ لوگوں نے کس بات سے متاثر ہو کر بپتسمہ لیا؟‏ دراصل یروشلیم کے ایک بالاخانے میں یسوع مسیح کے ۱۲۰ شاگرد جمع تھے کہ اچانک ”‏آسمان سے اَیسی آواز آئی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے۔‏“‏ وہ سب روحُ‌القدس سے بھر گئے۔‏ یہ آواز سُن کر لوگ اِس گھر کے باہر جمع ہوگئے اور شاگردوں کو ”‏غیرزبانیں“‏ بولتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔‏ جب پطرس نے اپنی تقریر میں یسوع مسیح کی موت کا ذکر کِیا تو اِسے سُن کر لوگوں کے ”‏دلوں پر چوٹ لگی۔‏“‏ پس وہ پطرس سے پوچھنے لگے کہ ہم کیا کریں؟‏ اُس نے جواب دیا:‏ ”‏تُم میں سے ہر ایک .‏ .‏ .‏ یسوؔع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تُم روحُ‌القدس انعام میں پاؤگے۔‏“‏—‏اعما ۲:‏۱-‏۴،‏ ۳۶-‏۳۸‏۔‏

۳.‏ عیدِپنتِکُست کے موقع پر اپنے گُناہوں سے توبہ کرنے والے یہودیوں اور اُن کے مُریدوں کے لئے کیا کرنا ضروری تھا؟‏

۳ اِس موقع پر حاضر یہودی اور اُن کے مُرید اپنے مذہب سے کتنی واقفیت رکھتے تھے؟‏ وہ یہوواہ کو اپنا خدا مانتے تھے اور عبرانی صحائف سے یہ سیکھ چکے تھے کے روحُ‌القدس خدا کی قوت ہے۔‏ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہوواہ نے اِسی قوت سے نہ صرف کائنات کو خلق کِیا بلکہ اَور بھی بہت سے کام کئے ہیں۔‏ (‏پید ۱:‏۲؛‏ قضا ۱۴:‏۵،‏ ۶؛‏ ۱-‏سمو ۱۰:‏۶؛‏ زبور ۳۳:‏۶‏)‏ لیکن صرف اتنا جاننا ہی کافی نہیں تھا۔‏ اُنہیں یہوواہ خدا کی طرف سے نجات کے وسیلے یعنی یسوع مسیح کو بھی قبول کرنا تھا۔‏ لہٰذا،‏ پطرس نے واضح کِیا کہ اُنہیں ”‏یسوؔع مسیح کے نام پر بپتسمہ“‏ لینے کی ضرورت ہے۔‏ پنتِکُست پر روحُ‌القدس کے نزول سے کچھ ہی دن پہلے یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ ہوا تھا۔‏ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُس نے پطرس اور دیگر شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو ”‏باپ اور بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام“‏ سے بپتسمہ دیں۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ باپ،‏ بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ لینا جتنا پہلی صدی میں ضروری تھا اُتنا ہی آج بھی ضروری ہے۔‏ لیکن ”‏باپ اور بیٹے اور روحُ‌القدس کے نام“‏ سے بپتسمہ لینے کا کیا مطلب ہے؟‏

باپ کے نام سے بپتسمہ

۴.‏ یہوواہ خدا اور یہودی قوم کے درمیان تعلق کے سلسلے میں کیا تبدیلی واقعی ہو چکی تھی؟‏

۴ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پطرس کی تقریر سُن کر بپتسمہ لینے والے لوگ پہلے ہی سے یہوواہ خدا کی عبادت کر رہے تھے۔‏ وہ موسوی شریعت کی پابندی کرتے تھے اور اِسی لئے دوسرے علاقوں سے سفر کرکے یروشلیم آئے تھے۔‏ (‏اعما ۲:‏۵-‏۱۱‏)‏ مگر اب ایک بہت بڑی تبدیلی واقع ہو چکی تھی۔‏ یہوواہ خدا نے یہودی قوم کو رد کر دیا تھا۔‏ اِس لئے اب وہ شریعت پر عمل کرنے سے بھی یہوواہ خدا کو خوش نہیں کر سکتے تھے۔‏ (‏متی ۲۱:‏۴۳؛‏ کل ۲:‏۱۴‏)‏ اِن لوگوں کو یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے کے لئے کچھ اَور بھی کرنے کی ضرورت تھی۔‏

۵،‏ ۶.‏ پہلی صدی کے یہودیوں اور اُن کے مُریدوں کو خدا کی قربت میں رہنے کے لئے کیا کرنا تھا؟‏

۵ پطرس کی تقریر سننے والے لوگ یہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ یہوواہ خدا کتنا مہربان باپ ہے کہ اُس نے اُنہیں بچانے کے لئے مسیحا یعنی یسوع مسیح کو بھیجا۔‏ اب اُنہیں اپنے خالق یہوواہ خدا کے نئے انتظام کی قدر کرنی تھی۔‏ (‏اعما ۴:‏۲۴‏)‏ یہوواہ خدا اُنہیں معاف کرنے کو تیار تھا اِس لئے پطر س نے اُن سے کہا:‏ ”‏اؔسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خدا نے اُسی یسوؔع کو جِسے تُم نے مصلوب کِیا خداوند بھی کِیا اور مسیح بھی۔‏“‏ دراصل اب یہ لوگ یہوواہ خدا کے زیادہ شکرگزار ہو سکتے تھے کہ اُس نے اُنہیں یسوع مسیح کے ذریعے اپنی قربت میں رہنے کا موقع دیا ہے۔‏‏—‏اعمال ۲:‏۳۰-‏۳۶ کو پڑھیں۔‏

۶ بِلاشُبہ،‏ یہودی اور اُن کے مُرید یہ جان گئے تھے کہ یہوواہ خدا کی قربت میں رہنے کے لئے اُنہیں کیا کرنا چاہئے۔‏ اُن کے لئے یہ ایمان لانا ضروری تھا کہ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے ذریعے اُن کی نجات کا بندوبست کِیا ہے۔‏ چونکہ وہ یسوع مسیح کو جانے انجانے میں سولی دینے کے گُناہ میں شریک تھے اِس لئے اُن کا اپنے گُناہوں سے توبہ کرنا لازمی تھا۔‏ نیز،‏ نجات کا بندوبست سمجھ لینے کے بعد یہ بھی ضروری تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں ”‏رسولوں سے تعلیم پانے اور رفاقت رکھنے“‏ میں مشغول رہیں۔‏ (‏اعما ۲:‏۴۲‏)‏ اب وہ یقیناً ”‏فضل کے تخت کے پاس دلیری سے“‏ آ سکتے تھے۔‏—‏عبر ۴:‏۱۶‏۔‏

۷.‏ خدا کے بارے میں بہتیرے لوگوں نے کیسے اپنی سوچ تبدیل کرکے باپ کے نام سے بپتسمہ لیا ہے؟‏

۷ آج مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں نے بائبل سے خدا کے بارے میں سچائی سیکھ لی ہے۔‏ (‏یسع ۲:‏۲،‏ ۳‏)‏ اِن میں سے بعض بالکل ہی خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے جبکہ بعض یہ مانتے تھے کے خدا موجود تو ہے مگر اُسے انسانوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔‏ لیکن بعد میں وہ یہ سمجھ گئے کہ انسانوں کے لئے خدا کی قربت حاصل کرنا ممکن ہے۔‏ اِن میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو تثلیث پر ایمان رکھتے تھے یا مختلف بُتوں کی پوجا کرتے تھے۔‏ مگر اب اُنہوں نے سیکھ لیا ہے کہ یہوواہ ہی قادرِمطلق خدا ہے اور وہ اُسے اُس کے نام سے پکارتے ہیں۔‏ یہ بالکل موزوں ہے کیونکہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ اُس کے شاگردوں کو باپ کے نام سے بپتسمہ لینا چاہئے۔‏

۸.‏ جن لوگوں کو آدم سے ملنے والے گُناہ کے متعلق کچھ معلوم نہیں اُنہیں باپ کے بارے میں کیا سمجھنے کی ضرورت ہے؟‏

۸ وہ اِس حقیقت کو بھی جان گئے ہیں کہ اُنہیں آدم سے گُناہ کا ورثہ ملا ہے۔‏ (‏روم ۵:‏۱۲‏)‏ پہلے وہ اِس بات سے واقف نہیں تھے اِس لئے وہ ایک ایسے بیمار شخص کی مانند تھے جسے اپنی بیماری کا پتہ نہ ہو۔‏ ہو سکتا ہے کہ اُسے کبھی‌کبھار درد ہوتا ہو۔‏ مگر ابھی تک کسی بیماری کی تشخیص نہیں ہوئی۔‏ اِس لئے وہ اپنے آپ کو بالکل تندرست سمجھتا ہے۔‏ تاہم،‏ معائنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ بیمار ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۴ پر غور کریں۔‏)‏ آپ کے خیال میں کیا اب وہ اچھا علاج کروانے کی کوشش نہیں کرے گا؟‏ بالکل اِسی طرح بہتیرے لوگ جب یہ سیکھ لیتے ہیں کہ اُنہوں نے آدم سے گُناہ کا ورثہ پایا ہے تو پھر اُنہیں پاک کلام سے باپ یہوواہ کے بارے میں یہ سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ گُناہ کے اثرات پر قابو پانے کے لئے کیسے مدد فراہم کرتا ہے۔‏ واقعی،‏ باپ سے دُور چلے جانے والے تمام لوگوں کو اُس کے پاس آنے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف وہی گُناہ سے نجات دے سکتا ہے۔‏—‏افس ۴:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

۹.‏ یہوواہ خدا نے کیا کِیا تاکہ انسان اُس کی قربت حاصل کر سکیں؟‏

۹ اگر آپ یہوواہ خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کر کے بپتسمہ لے چکے ہیں تو یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔‏ اب آپ اُس کی قربت میں آ گئے ہیں اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کتنا محبت کرنے والا باپ ہے۔‏ ‏(‏رومیوں ۵:‏۸ کو پڑھیں۔‏)‏ اگرچہ آدم اور حوا نے خدا کا حکم توڑا توبھی یہوواہ نے اِس بات کا خیال رکھا کہ اُن کی اولاد یعنی سب انسان اُس سے دُور نہ ہو جائیں۔‏ لہٰذا،‏ اُس نے اپنے بیٹے کو ہماری خاطر موت کے حوالے کر دیا۔‏ خدا کی ایسی محبت ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا کرتی ہے کہ ہم بھی محبت کی بِنا پر اُس کے اختیار کو مانیں اور اُس کے وفادار رہیں۔‏ پس اگر آپ نے ابھی تک یہوواہ خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کر کے بپتسمہ نہیں لیا تو اب آپ کو ایسا کرنا چاہئے تاکہ آپ یہوواہ کے لئے اپنی محبت ظاہر کر سکیں۔‏

بیٹے کے نام سے بپتسمہ

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ آپ یسوع مسیح کے کتنے احسان‌مند ہیں؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح کی قربانی کے لئے آپ کے احساسات کیا ہونے چاہئیں؟‏

۱۰ ذرا پطرس کی تقریر ایک بار پھر یاد کریں۔‏ اُس نے کہا کہ یسوع مسیح پر ایمان لانا ضروری ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو ”‏بیٹے“‏ یعنی یسوع مسیح کے نام سے بپتسمہ لینا تھا۔‏ ’‏بیٹے کے نام سے بپتسمہ‘‏ لینا اُس وقت کیوں ضروری تھا؟‏ اور آجکل بھی یہ کیوں ضروری ہے؟‏ یسوع مسیح کو قبول کرنے اور اُس کے نام سے بپتسمہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے خالق یہوواہ کی قربت حاصل کرنے میں یسوع کا کردار سمجھیں۔‏ یسوع مسیح نے یہودیوں کو شریعت کی لعنت سے چھڑانے کے لئے اپنی جان سولی پر قربان کی۔‏ تاہم،‏ اُس کی موت کا صرف یہودیوں کو ہی فائدہ نہیں ہوا تھا۔‏ (‏گل ۳:‏۱۳‏)‏ اُس نے تمام انسانوں کے لئے فدیہ فراہم کِیا۔‏ (‏افس ۲:‏۱۵،‏ ۱۶؛‏ کل ۱:‏۲۰؛‏ ۱-‏یوح ۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ یسوع مسیح نے ہر طرح کی ناانصافی،‏ گالی‌گلوچ،‏ تکلیف کو برداشت کِیا اور بالآخر اپنی جان قربان کر دی۔‏ آپ کی نظر میں اُس کی قربانی کی کیا اہمیت ہے؟‏ اِس سلسلے میں ذرا اُس ۱۲ سالہ بچے کے احساسات کا تصور کریں جو ٹائی‌ٹینک جہاز میں سفر کر رہا تھا۔‏ یہ جہاز بڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا۔‏ لیکن ایک برفانی تودے سے ٹکرا گیا اور ڈوبنے لگا۔‏ اِس بچے نے اپنی جان بچانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھنے کی کوشش کی مگر وہ بھر چکی تھی۔‏ ایسے میں ایک آدمی اپنی بیوی کو خداحافظ کہہ کر کشتی سے اُتر گیا اور اِس بچے کو کشتی میں بٹھا دیا۔‏ آپ کے خیال میں اُس بچے کو کیسا محسوس ہوا ہو گا؟‏ وہ یقیناً اُس آدمی کا شکرگزار ہو گا۔‏ اب ذرا سوچیں کہ یسوع مسیح نے تو آپ کے لئے اِس سے بھی کہیں بڑھ کر کِیا ہے۔‏ اُس نے اپنی جان اِس لئے قربان کی کہ آپ کچھ سالوں کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ تک زندہ رہیں۔‏

۱۱ جب آپ نے یہ سیکھا کہ خدا کے بیٹے نے آپ کے لئے اپنی جان قربان کی تو آپ کو کیسا محسوس ہوا تھا؟‏ ‏(‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۴،‏ ۱۵ کو پڑھیں۔‏)‏ آپ یقیناً دل سے شکرگزار ہوئے ہوں گے۔‏ اِسی شکرگزاری کے اظہار میں آپ نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کر دی تاکہ آپ ’‏آئندہ اپنے لئے نہیں بلکہ اُس کے لئے جئیں‘‏ جس نے آپ کی خاطر موت کو گلے لگا لیا۔‏ بیٹے کے نام سے بپتسمہ لینے میں ”‏مالک اور منجّی“‏ کے طور پر یسوع کے اختیار اور اُن تمام کاموں کو سمجھنا شامل ہے جو اُس نے آپ کے لئے کئے ہیں۔‏ (‏اعما ۵:‏۳۱‏)‏ پہلے آپ کو اپنے خالق کی قربت حاصل نہیں تھی اور نہ ہی اچھے مستقبل کی کوئی اُمید تھی۔‏ لیکن یسوع مسیح کے بہائے ہوئے خون پر ایمان لانے اور بپتسمہ لینے سے اب آپ باپ یہوواہ کے نزدیک آ گئے ہیں۔‏ (‏افس ۲:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏[‏خدا]‏ نے اب [‏یسوع]‏ کے جسمانی بدن میں موت کے وسیلہ سے تمہارا بھی میل کر لیا۔‏ جو پہلے خارج اور بُرے کاموں کے سبب سے دل سے دُشمن تھے تاکہ وہ تُم کو مُقدس بےعیب اور بےالزام بنا کر اپنے سامنے حاضر کرے۔‏“‏—‏کل ۱:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ بیٹے کے نام سے بپتسمہ لینا کسی کے ساتھ ناراضگی کی صورت میں کیسے ہماری مدد کرے گا؟‏ (‏ب)‏ یسوع کے نام سے بپتسمہ لینے سے ہم پر کیا ذمہ‌داری عائد ہوتی ہے؟‏

۱۲ بیٹے کے نام سے بپتسمہ لینے کے باوجود ہم جانتے ہیں کہ ہم گنہگار ہیں۔‏ یہ بات ہر روز زندگی کے مختلف معاملات میں ہماری مدد کرتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگر کسی کے ساتھ ہماری ناراضگی ہو جاتی ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم دونوں گنہگار ہیں۔‏ دونوں کو خدا کی طرف سے معافی کی ضرورت ہے۔‏ (‏مر ۱۱:‏۲۵‏)‏ اِس بات کو سمجھانے کے لئے یسوع مسیح نے ایک تمثیل پیش کی:‏ ایک مالک نے اپنے نوکر کو دس ہزار توڑوں (‏۶ کروڑ دینار)‏ کا قرض معاف کر دیا۔‏ مگر اُس نوکر نے اپنے ایک ہم‌خدمت کو سو دینار کا قرض بھی معاف نہ کِیا۔‏ اِس پر یسوع نے یہ کہا کہ جو اپنے بھائی کو معاف نہیں کرتا یہوواہ بھی اُسے معاف نہیں کرتا۔‏ (‏متی ۱۸:‏۲۳-‏۳۵‏)‏ لہٰذا،‏ بیٹے کے نام سے بپتسمہ لینے میں یہ بات شامل ہے کہ ہم یسوع کے اختیار کو مانیں اور اُس کی مثال اور تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو معاف کریں۔‏—‏۱-‏پطر ۲:‏۲۱؛‏ ۱-‏یوح ۲:‏۶‏۔‏

۱۳ یہ سچ ہے کہ ہم گنہگار ہوتے ہوئے پوری طرح یسوع مسیح کی پیروی نہیں کر سکتے۔‏ تاہم،‏ خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کر دینے کی وجہ سے ہم ایسا کرنے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔‏ اِس کے لئے ہمیں اپنی پُرانی انسانیت اُتار کر نئی انسانیت کو پہننا ہوگا۔‏ ‏(‏افسیوں ۴:‏۲۰-‏۲۴ کو پڑھیں۔‏)‏ اگر ہم کسی دوست کی عزت کرتے ہیں تو ہم اُس کی اچھی مثال اور خوبیوں کی نقل کرنا چاہتے ہیں۔‏ بالکل اِسی طرح ہم یسوع مسیح سے سیکھنا اور اُس کی مثال پر ضرور عمل کرنا چاہیں گے۔‏

۱۴.‏ آسمانی بادشاہ کی حیثیت سے یسوع کے اختیار پر آپ اپنے ایمان کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ بیٹے کے نام سے بپتسمہ لینے میں یہ سمجھنا بھی شامل ہے کہ خدا نے ”‏سب کچھ [‏یسوع]‏ کے پاؤں تلے کر دیا اور اُس کو سب چیزوں کا سردار بنا کر کلیسیا کو دے دیا۔‏“‏ (‏افس ۱:‏۲۲‏)‏ پس آپ کو اُس انتظام کے لئے احترام دکھانے کی ضرورت ہے جس سے یسوع مسیح اُن لوگوں کی راہنمائی کر رہا ہے جو خود کو یہوواہ خدا کے لئے وقف کر چکے ہیں۔‏ یسوع مسیح کلیسیا میں بزرگوں کو استعمال کر رہا ہے۔‏ اگرچہ انسان ہونے کے ناطے بزرگوں سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں توبھی وہ روحانی لحاظ سے پُختہ ہوتے ہیں۔‏ کلیسیا میں بزرگ مقرر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ”‏مُقدس لوگ کامل بنیں .‏ .‏ .‏ اور مسیح کا بدن ترقی پائے۔‏“‏ (‏افس ۴:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ اگر کسی بزرگ سے غلطی ہو بھی جاتی ہے تو یسوع مسیح آسمانی بادشاہ کی حیثیت سے معاملات کو اپنے وقت اور اپنے طریقے سے حل کر سکتا ہے۔‏ کیا آپ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں؟‏

۱۵.‏ بپتسمے کے بعد آپ کن برکات کی توقع کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ پس اگر آپ کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ابھی تک اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کرکے بپتسمہ نہیں لیا توپھر کیوں نہ آپ اب ایسا کرنے کا فیصلہ کریں۔‏ کیونکہ اِس سے آپ اپنی محبت اور شکرگزاری کا ثبوت دیں گے۔‏ بیٹے کے نام سے بپتسمہ لینے سے آپ کو بےشمار برکات ملیں گی۔‏‏—‏یوحنا ۱۰:‏۹-‏۱۱ کو پڑھیں۔‏

روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ

۱۶،‏ ۱۷.‏ روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ لینا آپ کے لئے کیا مطلب رکھتا ہے؟‏

۱۶ روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ لینے سے کیا مُراد ہے؟‏ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پنتِکُست کے موقع پر پطرس کی تقریر سننے والے لوگ روحُ‌القدس سے واقف تھے۔‏ اب اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے بھی یہ دیکھ لیا تھا کہ خدا نے اِن لوگوں کو کیسے اپنی رُوح عطا کی ہے۔‏ پطرس بھی اُن لوگوں میں شامل تھا جو ”‏روحُ‌القدس سے بھر گئے اور غیرزبانیں بولنے لگے“‏ تھے۔‏ (‏اعما ۲:‏۴،‏ ۸‏)‏ ”‏نام سے“‏ کی اصلاح کا مطلب یہ نہیں کہ نام کسی شخص کا ہی ہونا چاہئے۔‏ آجکل بہت سے کام ”‏حکومت کے نام پر“‏ کئے جاتے ہیں حالانکہ حکومت کوئی شخص نہیں ہے۔‏ یہ کام حکومت کی طرف سے دئے گئے اختیار سے کئے جاتے ہیں۔‏ اِسی طرح روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ لینے والا شخص یہ قبول کر لیتا ہے کہ روحُ‌القدس کوئی شخص نہیں بلکہ یہوواہ خدا کی طاقت ہے۔‏ نیز،‏ وہ خدا کے مقصد میں روحُ‌القدس کا کردار بھی سمجھ جاتا ہے۔‏

۱۷ یقیناً آپ بھی خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے سے روحُ‌القدس کے بارے میں بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ آپ نے سیکھ لیا ہے کہ پاک صحائف روحُ‌القدس کی ہدایت سے لکھے گئے تھے۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱۶‏)‏ روحانی ترقی کرنے کے ساتھ‌ساتھ آپ یہ بھی سمجھنے لگے کہ ’‏آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو روحُ‌القدس دیتا ہے۔‏‘‏ اور اگر آپ اُس سے روحُ‌القدس مانگیں گے تو وہ آپ کو بھی عطا کرے گا۔‏ (‏لو ۱۱:‏۱۳‏)‏ آپ نے شاید یہ محسوس کِیا ہو کہ روحُ‌القدس آپ کی راہنمائی کر رہی ہے۔‏ اگر آپ نے ابھی تک روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ نہیں لیا تو یسوع کے اِس وعدے کو یاد کریں کہ آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو روحُ‌القدس دیتا ہے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ روحُ‌القدس حاصل کرنے سے آپ کو مستقبل میں بہت سی برکات ملیں گی۔‏

۱۸.‏ روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ لینے والوں کو کونسی برکات حاصل ہوتی ہیں؟‏

۱۸ آج بھی یہوواہ خدا روحُ‌القدس کے ذریعے مسیحی کلیسیا کی راہنمائی کر رہا ہے۔‏ روحُ‌القدس روزمرّہ زندگی میں بھی ہماری مدد کرتی ہے۔‏ روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ لینے میں یہ بات شامل ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اِس کی راہنمائی کو سمجھیں اور اُس کے مطابق عمل کریں۔‏ لیکن سوال یہ ہے کہ رُوح کے موافق چلنا یہ کیسے ظاہر کر تا ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے لئے وقف ہیں؟‏ آئیں اگلے مضمون سے اِس سوال کا جواب حاصل کریں۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• باپ کے نام سے بپتسمہ لینا آپ کے نزدیک کیا مطلب رکھتا ہے؟‏

‏• بیٹے کے نام سے بپتسمہ لینے کا کیا مطلب ہے؟‏

‏• آپ یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ باپ اور بیٹے کے نام سے بپتسمہ لینے کی اہمیت سمجھتے ہیں؟‏

‏• روحُ‌القدس کے نام سے بپتسمہ لینے سے کیا مُراد ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

سن ۳۳ عیسوی کے پنتِکُست کے بعد نئی کلیسیا کیسے باپ یعنی یہوواہ کی قربت میں آ گئی تھی؟‏

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

By permission of

the Israel Museum, Jerusalem