مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا واقعی باغِ‌عدن جیسی کوئی جگہ تھی؟‏

کیا واقعی باغِ‌عدن جیسی کوئی جگہ تھی؟‏

کیا واقعی باغِ‌عدن جیسی کوئی جگہ تھی؟‏

پوری دُنیا میں بہت سے لوگ آدم،‏ حوا اور باغِ‌عدن کی سرگزشت سے اچھی طرح واقف ہیں۔‏ بائبل میں یہ سرگزشت پیدایش ۱:‏۲۶–‏۳:‏۲۴ میں درج ہے۔‏ اگر آپ کے پاس بائبل ہے تو کیوں نہ اِن آیات میں درج واقعات کو خود پڑھیں۔‏ اِن آیات کے چند اہم نکات یوں ہیں:‏

یہوواہ خدا * نے زمین کی مٹی سے آدم کو بنایا۔‏ اُس نے آدم کو ایک باغ میں بسایا جو عدن کے علاقے میں واقع تھا۔‏ اِس باغ کی ہر چیز یہوواہ خدا نے خود بنائی تھی۔‏ یہ باغ ندیوں اور دریاؤں سے سیراب تھا۔‏ اِس میں بہت سے پھلوں کے درخت بھی تھے۔‏ اِس باغ کے بیچ میں ”‏نیک و بد کی پہچان“‏ کا درخت تھا۔‏ خدا نے پہلے انسانوں کو اِس درخت کا پھل کھانے سے منع کِیا۔‏ اُس نے واضح کِیا کہ اگر وہ اُس کا یہ حکم توڑیں گے تو اُنہیں موت کی سزا ملے گی۔‏ بعد میں یہوواہ خدا نے آدم کی پسلی میں سے ایک عورت بنائی جو اُس کے لئے ایک مددگار تھی۔‏ خدا نے اُنہیں باغ کی دیکھ‌بھال کرنے کا کام سونپا اور اُنہیں اولاد پیدا کرنے کو کہا تاکہ زمین انسانوں سے بھر جائے۔‏

ایک دن جب حوا اکیلی تھی تو سانپ اُس سے باتیں کرنے لگا۔‏ سانپ نے حوا کو وہ پھل کھانے کے لئے ورغلایا جسے کھانے سے خدا نے منع کِیا تھا۔‏ سانپ نے دعویٰ کِیا کہ خدا نے حوا سے جھوٹ بولا ہے اور اُسے ایسی چیز سے محروم رکھا ہے جس سے وہ خدا کی مانند بن سکتی ہے۔‏ حوا نے سانپ کی باتوں میں آکر پھل کھا لیا۔‏ بعد میں آدم نے بھی خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے پھل کھا لیا۔‏ اِس کے نتیجے میں یہوواہ خدا نے آدم،‏ حوا اور سانپ کو سزا سنائی۔‏ انسانوں کو فردوس سے نکال دیا گیا اور فرشتوں نے باغِ‌عدن میں داخل ہونے کا راستہ بند کر دیا۔‏

ایک وقت تھا جب عالموں اور تاریخ‌دانوں کی اکثریت نے یہ خیال پیش کِیا کہ بائبل میں پیدایش کی کتاب میں درج واقعات سچے اور تاریخی لحاظ سے درست ہیں۔‏ مگر آج‌کل بہت سے لوگ اِن واقعات پر شک کرتے ہیں۔‏ آئیں اِس سرگزشت پر کئے جانے والے چار اعتراضات پر غور کریں۔‏

۱.‏ باغِ‌عدن حقیقی جگہ نہیں تھی۔‏

لوگ کیوں اِس بات پر شک کرتے ہیں کہ باغِ‌عدن ایک حقیقی جگہ تھی؟‏ کئی صدیوں تک چرچ کا نظریہ تھا کہ خدا نے جو باغ لگایا وہ ابھی بھی دُنیا کے کسی نہ کسی خطے میں موجود ہے۔‏ لیکن چرچ کے بعض رہنما ارسطو اور افلاطون جیسے یونانی عالموں کے نظریات سے متاثر ہونے لگے۔‏ اِن یونانی عالموں کے مطابق زمین پر کوئی بھی چیز گُناہ سے پاک نہیں ہے۔‏ صرف آسمان ہی پاک جگہ ہے۔‏ اِسی لئے چرچ کے بعض رہنما یہ تعلیم دینے لگے کہ اصلی فردوس ایک ایسی جگہ پر تھا جو آسمان کے قریب تھی۔‏ * بعض کہتے تھے کہ یہ باغ ایک اُونچی چوٹی پر تھا جہاں کسی طرح کی ناپاکی نہیں پہنچ سکتی تھی۔‏ بعض کہتے تھے کہ یہ باغ قطب جنوبی یا پھر قطب شمالی میں واقع تھا جبکہ دیگر یہ سوچتے تھے کہ یہ چاند پر تھا۔‏ اِن نظریات کے پیشِ‌نظر بہت سے لوگ یہ سوچنے لگے کہ باغِ‌عدن ایک حقیقی نہیں بلکہ فرضی جگہ تھی۔‏ آج‌کل کے بعض عالم یہ سمجھتے ہیں کہ باغِ‌عدن کا کبھی کوئی وجود ہی نہیں تھا۔‏

لیکن بائبل واضح کرتی ہے کہ باغِ‌عدن ایک حقیقی جگہ تھی۔‏ اِس میں باغِ‌عدن کے بارے میں بہت سی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔‏ مثال کے طور پر پیدایش ۲:‏۸-‏۱۴ میں ہم پڑھتے ہیں کہ یہ باغ مشرق کی طرف عدن کے علاقے میں تھا۔‏ اِس باغ میں ایک دریا بہتا تھا جس سے چار اَور دریا نکلتے تھے۔‏ اِن چاروں دریاؤں کے نام دئے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کس‌کس علاقے سے گزرتے تھے۔‏ بہت سے عالموں نے اِن آیات میں درج تفصیلات پر تحقیق کی ہے تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ باغِ‌عدن کہاں پر تھا۔‏ تاہم اِس سلسلے میں وہ فرق‌فرق رائے رکھتے ہیں۔‏ تو پھر کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ باغِ‌عدن اور اِس میں سے نکلنے والے دریاؤں کے متعلق جو معلومات دی گئی ہیں وہ سب فرضی یا جھوٹی ہیں؟‏

غور کریں:‏ باغِ‌عدن میں ہونے والے واقعات تقریباً ۶۰۰۰ سال پہلے رونما ہوئے تھے۔‏ اِن واقعات کو موسیٰ نے تحریر کِیا تھا۔‏ لیکن موسیٰ نے اِن واقعات کو کب لکھا اور اُس کے پاس یہ ساری معلومات کہاں سے آئیں؟‏ موسیٰ نے اِن واقعات کے رونما ہونے کے ۲۵۰۰ سال بعد اِنہیں لکھا۔‏ اُس نے شاید اِن واقعات کو اپنے بڑے بزرگوں سے سنا ہوگا یا شاید اُس کے پاس پہلے سے اِن واقعات کے متعلق کوئی تحریر ہوگی۔‏ موسیٰ نے کافی سالوں بعد باغِ‌عدن میں ہونے والے واقعات لکھے تھے۔‏ اِس لئے ممکن ہے کہ اِس عرصے کے دوران اِس باغ سے نکلنے والے کچھ دریاؤں کا راستہ بدل گیا ہو یا پھر کچھ بالکل ختم ہو گئے ہوں۔‏ زمین کی سطح مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔‏ لوگوں کے خیال میں جس علاقے میں عدن واقع تھا،‏ اُس میں بہت زیادہ زلزلے آتے ہیں۔‏ دراصل دُنیا کے بڑے زلزلوں میں سے تقریباً ۱۷ فیصد زلزلے اِسی علاقے میں آتے ہیں۔‏ اِسی لئے ایسے علاقوں میں زمین کی سطح میں تبدیلی ہونا عام بات ہے۔‏ اِس کے علاوہ نوح کے طوفان کی وجہ سے بھی شاید زمین کی سطح کافی تبدیل ہو گئی ہو گی۔‏ *

تاہم بائبل سے ہمیں باغِ‌عدن کے متعلق کچھ حقائق کا پتہ چلتا ہے۔‏ پیدایش کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ باغِ‌عدن ایک حقیقی جگہ تھی۔‏ باغِ‌عدن سے جو چار دریا نکلتے تھے اُن میں سے دو،‏ دریائے فرات اور دریائے دجلہ ابھی تک بہتے ہیں۔‏ نیز یہ دریا جن چشموں سے نکلتے ہیں،‏ اُن میں سے بعض ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔‏ پیدایش کی کتاب میں اُن علاقوں کے نام اور قدرتی وسائل کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے جہاں سے یہ دریا گزرتے تھے۔‏ موسیٰ نے جو تفصیلات لکھیں اُن سے اُس زمانے کے اسرائیلیوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملی ہوگی کہ باغِ‌عدن کہاں واقع تھا۔‏

کیا قصے کہانیوں میں اتنی تفصیلات دی جاتی ہیں؟‏ جی‌نہیں۔‏ قصے کہانیوں میں ایسی تفصیلات نہیں دی جاتیں جن سے کہانی کی تصدیق ہو سکے۔‏ اکثر کہانیوں کا شروع کچھ یوں ہوتا ہے کہ ”‏ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی دُوردراز ملک میں“‏۔‏ لیکن کسی تاریخی سرگزشت میں عام طور پر بہت سی تفصیلات شامل کی جاتی ہیں جیسے کہ باغِ‌عدن کے متعلق بیان میں کی گئی ہیں۔‏

۲.‏ آدم کو زمین کی مٹی سے اور حوا کو آدم کی پسلی سے بنانا ممکن نہیں۔‏

آج‌کل سائنس‌دانوں نے اِس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ انسانی جسم زمین کی مٹی میں پائے جانے والے مختلف اجزا سے مل کر بنا ہے۔‏ لیکن اِن اجزا سے ایک زندہ انسان کیسے بن گیا؟‏

بہت سے سائنس‌دان سمجھتے ہیں کہ زمین پر زندگی کا آغاز خودبخود ہو گیا۔‏ اُن کے خیال میں پہلے ایک خلیے پر مشتمل جاندار اپنے آپ وجود میں آیا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ اپنے آپ ہی اِس سے اَور بڑےبڑے جاندار بن گئے۔‏ لیکن ایک خلیے پر مشتمل جانداروں کی بناوٹ بھی بہت پیچیدہ ہوتی ہے۔‏ اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ کسی بھی طرح کی زندگی خودبخود وجود میں آئی۔‏ اِس کی بجائے تمام جاندار اِس بات کا جیتاجاگتا ثبوت ہیں کہ اُنہیں کسی ذہین ہستی نے خلق کِیا ہے۔‏ *‏—‏رومیوں ۱:‏۲۰‏۔‏

ذرا سوچیں کہ آپ کوئی بہت ہی سریلی دُھن سنتے ہیں،‏ کوئی بہت ہی خوبصورت تصویر یا پھر کوئی نئی ایجاد دیکھتے ہیں۔‏ آپ کبھی یہ نتیجہ اخذ نہیں کریں گے کہ اِسے بنانے والا کوئی نہیں ہے۔‏ انسانوں کی بنائی ہوئی ایسی چیزوں کی نسبت انسانی جسم کی بناوٹ بہت ہی پیچیدہ اور حیرت‌انگیز ہے۔‏ لہٰذا انسانی جسم کے خودبخود وجود میں آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‏ پیدایش کی کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زمین پر تمام مخلوق میں سے صرف انسان کو ہی خدا نے اپنی صورت پر بنایا ہے۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶‏)‏ لہٰذا اپنے خالق کی طرح انسانوں میں بھی حیرت‌انگیز چیزیں بنانے کی خواہش پائی جاتی ہے۔‏ اِسی لئے انسان موسیقی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مختلف ایجادات کرتے ہیں۔‏ لیکن خدا انسانوں سے کہیں زیادہ بہتر چیزیں بنا سکتا ہے۔‏

بعض یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ آدمی کی پسلی سے عورت کو بنانا ممکن نہیں ہے۔‏ لیکن اصل میں خدا کے لئے ایسا کرنا بالکل مشکل نہیں تھا۔‏ * خدا کسی اَور طرح سے بھی ایسا کر سکتا تھا مگر جس طریقے سے خدا نے حوا کو بنایا،‏ وہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔‏ وہ چاہتا تھا کہ مرد اور عورت شادی کے مضبوط بندھن میں ”‏ایک تن“‏ ہو جائیں۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۲۴‏)‏ واقعی جس طرح شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی بھلائی کے لئے کام کرتے ہیں،‏ اُس سے خالق کی حکمت اور محبت کا ثبوت ملتا ہے۔‏

سائنس‌دان یہ بھی مانتے ہیں کہ تمام انسان ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا ہوئے ہیں۔‏ اِس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پیدایش کی کتاب کا بیان بالکل درست ہے۔‏

۳.‏ حیات کا درخت اور نیک‌وبد کی پہچان کا درخت دونوں فرضی ہیں۔‏

پیدایش کی کتاب میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اِن دونوں درختوں میں کوئی خاص طاقت تھی۔‏ دراصل یہ حقیقی درخت تھے جنہیں یہوواہ خدا نے علامت کے طور پر استعمال کِیا تھا۔‏

بعض اوقات انسان بھی کچھ چیزوں کو علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر بہت سے بادشاہ اپنے تاج اور انگوٹھی کو اپنے اختیار کی علامت کے طور پر استعمال کرتے تھے۔‏

عدن میں لگے ہوئے یہ دونوں درخت کس کی علامت تھے؟‏ اِس سلسلے میں بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں۔‏ تاہم اِس کا جواب بہت آسان ہے مگر نہایت پُرمعنی ہے۔‏ نیک‌وبد کی پہچان کا درخت اِس بات کی علامت تھا کہ صرف یہوواہ خدا ہی صحیح اور غلط کے سلسلے میں معیار قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۱۰:‏۲۳‏)‏ اِس لئے اِس درخت کا پھل کھانا واقعی ایک جُرم تھا۔‏ حیات کا درخت اُس نعمت یعنی ہمیشہ کی زندگی کی علامت تھا جو صرف یہوواہ خدا ہی عطا کر سکتا ہے۔‏—‏رومیوں ۶:‏۲۳‏۔‏

۴.‏ ایک سانپ کا بات کرنا ممکن نہیں۔‏

بہت سے لوگوں کو یہ بات عجیب لگتی ہے کہ ایک سانپ نے حوا سے بات کی۔‏ لیکن اگر ہم بائبل کی دیگر آیات پر غور کریں تو ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ایسا کیسے ہوا ہوگا۔‏

سانپ کے پیچھے کون تھا جو اُس سے بات کرا رہا تھا؟‏ قدیم اسرائیلی یہ جانتے تھے کہ اگرچہ جانور بات نہیں کر سکتے تو بھی ایک فرشتہ کسی جانور سے بات کرا سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر بلعام کی سرگزشت پر غور کریں جسے موسیٰ نے تحریر کِیا۔‏ یہوواہ خدا نے اپنے فرشتے کو بھیجا جس نے بلعام کی گدھی سے انسانوں کی طرح بات کرائی۔‏—‏گنتی ۲۲:‏۲۶-‏۳۱؛‏ ۲-‏پطرس ۲:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

کیا بدروحیں بھی معجزے کر سکتی ہیں؟‏ جب موسیٰ نے خدا کی طاقت سے اپنی لاٹھی کو سانپ بنایا تو مصر کے جادوگروں نے بھی ایسا ہی کِیا۔‏ اِن جادوگروں کو یہ معجزہ کرنے کی طاقت کہاں سے ملی؟‏ واضح طور پر اُنہیں معجزہ کرنے کی طاقت بدروحوں کی طرف سے ملی تھی۔‏—‏خروج ۷:‏۸-‏۱۲‏۔‏

لگتا ہے کہ موسیٰ نے ہی ایوب کی کتاب بھی لکھی تھی۔‏ اِس کتاب سے ہم سیکھتے ہیں کہ خدا کا سب سے بڑا دُشمن شیطان،‏ یہوواہ کے خادموں کی وفاداری پر شک ڈالتا ہے۔‏ (‏ایوب ۱:‏۶-‏۱۱؛‏ ۲:‏۴،‏ ۵‏)‏ اِس بات کو جانتے ہوئے بےشک اسرائیلی یہ سمجھتے ہوں گے کہ باغِ‌عدن میں شیطان نے ہی سانپ کے ذریعے حوا سے بات کرکے اُسے خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا تھا۔‏

پس کیا یہ واقعی سچ ہے کہ شیطان نے سانپ کے ذریعے حوا سے بات کی تھی؟‏ یسوع مسیح نے شیطان کے بارے میں کہا تھا کہ ”‏وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏)‏ اصطلاح ”‏جھوٹ کا باپ“‏ سے ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ شیطان نے ہی سب سے پہلا جھوٹ بولا۔‏ لیکن سب سے پہلا جھوٹ کب بولا گیا تھا؟‏ پہلا جھوٹ ہمیں سانپ کی باتوں میں نظر آتا ہے جو اُس نے حوا سے کی تھیں۔‏ خدا نے کہا تھا کہ اگر آدم اور حوا وہ پھل کھائیں گے جسے کھانے سے اُس نے منع کِیا ہے تو وہ مر جائیں گے۔‏ مگر سانپ نے کہا کہ ”‏تُم ہرگز نہ مرو گے۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۴‏)‏ کیا اِس بات کے اَور بھی ثبوت ہیں کہ شیطان نے ہی سانپ کے ذریعے بات کی تھی؟‏ جی‌ہاں یسوع مسیح نے جو مکاشفہ یوحنا رسول کو دیا اُس میں بھی اُس نے شیطان کو ”‏پُرانا سانپ“‏ کہا۔‏ (‏مکاشفہ ۱:‏۱؛‏ ۱۲:‏۹‏)‏ لہٰذا اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیطان نے ہی سانپ کے ذریعے بات کی تھی۔‏

اگرچہ انسان فرشتوں سے کمتر ہیں پھر بھی اُن میں دوسروں کو یہ تاثر دینے کی صلاحیت ہے کہ کوئی جانور یا کوئی بےجان چیز بات کر رہی ہے۔‏ مثال کے طور پر پُتلیوں کا تماشا دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ کٹھ‌پتلیاں بول رہی ہیں۔‏ لیکن آواز دراصل تماشا دکھانے والے کی ہوتی ہے۔‏ لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ ایک باغی فرشتے نے سانپ کے ذریعے بات کی تھی۔‏

سب سے ٹھوس ثبوت

پس یہ نتیجہ اخذ کرنا موزوں ہے کہ پیدایش کی کتاب میں درج باتوں پر کئے گئے اعتراض بالکل بےبنیاد ہیں۔‏ اِس کتاب میں بیان کئے گئے واقعات بالکل سچے ہیں جن کی تاریخ سے بہت سی شہادتیں ملتی ہیں۔‏

مثال کے طور پر یسوع مسیح کو ”‏سچا اور برحق گواہ“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۳:‏۱۴‏)‏ یسوع مسیح ایک بےعیب انسان تھا جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا۔‏ اِس کے علاوہ اُس نے بتایا کہ وہ زمین پر آنے سے پہلے موجود تھا۔‏ وہ ”‏دُنیا کی پیدائش سے پیشتر“‏ آسمان میں اپنے باپ کے ساتھ رہتا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۵‏)‏ لہٰذا جب خدا نے زمین پر انسانوں کو پیدا کِیا تو یسوع مسیح موجود تھا۔‏ یسوع مسیح نے پیدایش کی کتاب میں آدم اور حوا کے متعلق درج بیان کے بارے میں کیا کہا تھا؟‏

یسوع مسیح کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ آدم اور حوا فرضی انسان نہیں تھے بلکہ وہ حقیقت میں موجود تھے۔‏ جب اُس نے یہ واضح کِیا کہ یہوواہ کے معیار کے مطابق مرد کو صرف ایک ہی بیوی رکھنی چاہئے تو اُس نے آدم اور حوا کی مثال پیش کی۔‏ (‏متی ۱۹:‏۳-‏۶‏)‏ اگر آدم اور حوا کا کوئی وجود ہی نہ ہوتا اور باغِ‌عدن محض ایک فرضی جگہ ہوتی تو اِس کا مطلب ہے کہ یسوع مسیح یا تو جھوٹ بول رہا تھا یا پھر اُسے کوئی بہت بڑا دھوکا ہوا تھا۔‏ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔‏ جب باغِ‌عدن میں آدم اور حوا نے خدا کے خلاف بغاوت کی تو یسوع مسیح آسمان سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔‏ اِس لئے اُس کی گواہی سے بڑی گواہی اَور کوئی نہیں ہو سکتی۔‏

پس جو لوگ پیدایش میں درج بیان پر شک کرتے ہیں وہ دراصل یسوع مسیح کی تعلیم پر شک کرتے ہیں۔‏ اِس شک کی وجہ سے لوگ بائبل میں درج دیگر اہم باتوں اور وعدوں کو سمجھنے سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 بائبل میں خدا کا نام یہوواہ ہے۔‏

^ پیراگراف 7 یہ نظریہ کہ زمین پر کوئی بھی چیز پاک نہیں ہے،‏ بائبل کی تعلیم کے بالکل برعکس ہے۔‏ بائبل میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کے کسی بھی کام میں کوئی نقص نہیں ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ اِس دُنیا میں بُرائی بہت بڑھ گئی ہے لیکن اِس کا ذمہ‌دار خدا نہیں بلکہ کوئی اَور ہستی ہے۔‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴،‏ ۵‏)‏ یہوواہ خدا نے زمین پر تمام چیزوں کو خلق کر لینے کے بعد اُنہیں”‏بہت اچھا“‏ قرار دیا۔‏—‏پیدایش ۱:‏۳۱‏۔‏

^ پیراگراف 9 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والے طوفان نے زمین پر سے باغِ‌عدن کا نام‌ونشان ہی مٹا دیا تھا۔‏ حزقی‌ایل ۳۱:‏۱۸ سے ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ساتویں صدی قبل‌ازمسیح سے کافی دیر پہلے ہی ’‏عدن کے درخت‘‏ ختم ہو گئے تھے۔‏ لہٰذا اِس کے بعد باغِ‌عدن کی تلاش کی ساری کوششیں بیکار تھیں۔‏

^ پیراگراف 14 کتاب دی اوریجن آف لائف—‏فائیو کوسچنز ورتھ آسکنگ کو پڑھیں۔‏ یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔‏

^ پیراگراف 16 میڈیکل سائنس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ انسان کی پسلی میں لگنے والی چوٹ بڑی جلدی ٹھیک ہو جاتی ہے۔‏ دوسری ہڈیوں کی نسبت پسلی کی ہڈی میں دوبارہ بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔‏