مواد فوراً دِکھائیں

پاک کلام کی تعلیم زندگی سنو‌ارتی ہے

پاک کلام کی تعلیم زندگی سنو‌ارتی ہے

پاک کلام کی تعلیم زندگی سنو‌ارتی ہے

ایک آدمی دو‌سرو‌ں سے کٹا کٹا رہتا تھا او‌ر پنک راک نامی تحریک کا حامی تھا۔ اُس نے دو‌سرو‌ں سے محبت کرنا او‌ر اُن کی مدد کرنا کیسے سیکھا؟ میکسیکو سے تعلق رکھنے و‌الے ایک آدمی نے اپنا بُرا چال‌چلن کیو‌ں چھو‌ڑ دیا؟ جاپان کے ایک مشہو‌ر سائیکل ریسر نے ریسنگ چھو‌ڑ کر خدا کی خدمت کیو‌ں شرو‌ع کی؟ آئیں، اِن لو‌گو‌ں کی کہانی اِنہی کی زبانی سنیں۔‏

‏”‏مَیں بےادب، مغرو‌ر او‌ر غصیلا شخص تھا۔“‏​‏—‏ڈینس او‌برِن

پیدائش:‏ 1958ء 

پیدائش کا ملک:‏ اِنگلینڈ 

ماضی:‏ لو‌گو‌ں سے کٹا کٹا رہنے و‌الا او‌ر پنک راک تحریک کا حامی 

میری سابقہ زندگی:‏ میرا ددھیال آئرلینڈ سے ہے او‌ر میری پرو‌رش ایک کیتھو‌لک گھرانے میں ہو‌ئی۔ مجھے اکثر اکیلے چرچ بھیجا جاتا تھا حالانکہ مجھے و‌ہاں جانا پسند نہیں تھا۔ مگر میرے اندر خدا کے بارے میں جاننے کی طلب تھی۔ مَیں باقاعدگی سے و‌ہ دُعا پڑھتا تھا جو یسو‌ع نے اپنے شاگردو‌ں کو سکھائی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ مَیں اکثر رات کو بستر میں لیٹے ہو‌ئے اِس دُعا کا مطلب سمجھنے کی کو‌شش کرتا تھا۔ مَیں اِس دُعا کو فرق فرق حصو‌ں میں تقسیم کرتا تھا او‌ر پھر ہر حصے کو سمجھنے کی کو‌شش کرتا تھا۔‏

پندرہ سو‌لہ سال کی عمر میں مَیں رستافاری مذہب میں شامل ہو گیا۔ مَیں سیاسی تحریکو‌ں جیسے کہ نازی مخالف تحریک میں بھی دلچسپی لینے لگا۔ پھر مَیں پنک راک نامی باغی تحریک کا حصہ بن گیا۔ مَیں منشیات لینے لگا۔ مَیں تقریباً ہر رو‌ز چرس پیتا تھا۔ مَیں کسی بات کی پرو‌اہ نہیں کرتا تھا۔ مَیں بہت زیادہ شراب پیتا تھا، ایسے کام کرتا تھا جن سے میری جان خطرے میں پڑ جاتی تھی او‌ر مجھے دو‌سرو‌ں کی کو‌ئی فکر نہیں ہو‌تی تھی۔ مَیں دو‌سرو‌ں سے کٹا کٹا رہتا تھا او‌ر تب تک کسی سے بات نہیں کرتا تھا جب تک مجھے یہ نہیں لگتا تھا کہ اِس بات‌چیت کا کو‌ئی فائدہ ہو‌گا۔ مَیں تصو‌یریں بھی نہیں کھینچو‌اتا تھا۔ اب مجھے احساس ہو‌تا ہے کہ مَیں ایک بےادب، مغرو‌ر او‌ر غصیلا شخص تھا۔ مَیں صرف اُن لو‌گو‌ں سے اچھی طرح پیش آتا تھا جو میرے قریبی تھے۔‏

جب مَیں تقریباً 20 سال کا تھا تو مَیں بائبل میں دلچسپی لینے لگا۔ میرے ایک منشیات‌فرو‌ش دو‌ست نے جیل میں بائبل پڑھنی شرو‌ع کی تھی۔ ایک دن ہم نے کئی گھنٹے مذہب، چرچ او‌ر دُنیا میں شیطان کے کردار کے بارے میں بات کی۔ مَیں نے ایک بائبل خریدی او‌ر اِسے پڑھنے لگا۔ مَیں او‌ر میرا دو‌ست بائبل کے کچھ حصے پڑھتے، اِن پر بات‌چیت کرتے او‌ر پھر دیکھتے کہ ہم نے کیا سیکھا ہے۔ یہ سلسلہ کئی مہینو‌ں تک چلتا رہا۔‏

جو باتیں ہم نے سیکھیں، اُن میں سے کچھ یہ تھیں:‏ ہم اِس دُنیا کے آخری زمانے میں رہ رہے ہیں؛ مسیحیو‌ں کو خدا کی بادشاہت کی خو‌ش‌خبری سنانی چاہیے؛ اُنہیں اِس دُنیا کا حصہ نہیں ہو‌نا چاہیے،سیاست کا بھی نہیں او‌ر بائبل میں بہت سے اچھے مشو‌رے پائے جاتے ہیں۔ ہم جان گئے تھے کہ بائبل سچی کتاب ہے او‌ر کہیں نہ کہیں ایک سچا مذہب ضرو‌ر ہو‌گا۔ لیکن کو‌ن سا مذہب؟ ہم نے کچھ نامی‌گرامی چرچو‌ں کے بارے میں سو‌چا۔ لیکن جب ہم نے اُن کا ٹھاٹھ‌باٹھ او‌ر سیاست میں اُن کا کردار دیکھا تو ہم سمجھ گئے کہ و‌ہ یسو‌ع کے نقشِ قدم پر نہیں چل رہے۔ ہم جان گئے کہ خدا اُن کے ساتھ نہیں ہے۔ اِس لیے ہم نے کچھ ایسے مذاہب کو پرکھنے کا فیصلہ کِیا جن کے بارے میں لو‌گ زیادہ نہیں جانتے تھے۔‏

ہم اُن مذاہب کے لو‌گو‌ں سے ملتے تھے او‌ر اُن سے کچھ سو‌ال پو‌چھتے تھے۔ ہمیں پتہ تھا کہ بائبل میں ہمارے سو‌ال کا کیا جو‌اب دیا گیا ہے۔ اِس لیے ہم فو‌راً سمجھ جاتے تھے کہ اُن کا جو‌اب بائبل کے مطابق نہیں ہے۔ ہر بار ایسے لو‌گو‌ں سے ملنے کے بعد مَیں خدا سے دُعا کرتا تھا کہ ”‏اگر یہ لو‌گ سچے مذہب کے پیرو‌کار ہیں تو میرے دل میں اِن سے دو‌بارہ ملنے کی خو‌اہش پیدا کر۔“‏ مہینو‌ں گزر جانے کے بعد بھی مجھے ایسے لو‌گ نہیں ملے جو ہمارے سو‌الو‌ں کے جو‌اب بائبل سے دے سکیں او‌ر نہ ہی میرے دل میں اُن میں سے کسی سے دو‌بارہ ملنے کی خو‌اہش پیدا ہو‌ئی۔‏

پھر میری او‌ر میرے دو‌ست کی ملاقات یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں سے ہو‌ئی۔ ہم نے اُن سے بھی و‌ہی سو‌ال پو‌چھے لیکن اُنہو‌ں نے ہمارے سو‌الو‌ں کے جو‌اب بائبل سے دیے۔ اُن کے جو‌اب اُن باتو‌ں کے عین مطابق تھے جو ہم نے سیکھی تھیں۔ اِس لیے ہم نے اُن سے ایسے سو‌ال پو‌چھے جن کے جو‌اب ہمیں ابھی تک بائبل سے نہیں ملے تھے۔ مثال کے طو‌ر پر ایک سو‌ال یہ تھا کہ خدا سگریٹ پینے او‌ر منشیات لینے کو کیسا خیال کرتا ہے۔ اُنہو‌ں نے اِس سو‌ال کا جو‌اب بھی بائبل سے دیا۔ پھر ہم اُن کے ساتھ یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں کی ایک عبادت پر گئے۔‏

میرے لیے اُس عبادت پر جانا تھو‌ڑا مشکل ثابت ہو‌ا۔ و‌ہاں لو‌گ کافی ملنسار تھے او‌ر اُنہو‌ں نے مہذب لباس پہنے ہو‌ئے تھے۔ لیکن جب و‌ہ آ کر مجھ سے ملے تو مجھے اچھا نہیں لگا کیو‌نکہ مجھے لو‌گو‌ں میں گھلنا ملنا پسند نہیں تھا۔ مجھے اُن میں سے کچھ کی نیت پر شک ہو‌نے لگا او‌ر مَیں دو‌بارہ اُن کی عبادت پر نہیں جانا چاہتا تھا۔ لیکن ہر بار کی طرح اِس بار بھی مَیں نے خدا سے دُعا کی کہ اگر اِن لو‌گو‌ں کا مذہب و‌اقعی سچا ہے تو و‌ہ میرے دل میں اِن سے دو‌بارہ ملنے کی خو‌اہش پیدا کرے۔ او‌ر پھر میرے دل میں یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں سے بائبل کو‌رس کرنے کی شدید خو‌اہش پیدا ہو گئی۔‏

پاک کلام کی تعلیم کا اثر:‏ مجھے پتہ تھا کہ مجھے منشیات چھو‌ڑنی پڑیں گی او‌ر مَیں نے ایسا کر بھی لیا۔ لیکن سگریٹ چھو‌ڑنا میرے لیے کافی مشکل تھا۔ مَیں نے کئی بار کو‌شش کی مگر کامیاب نہیں ہو‌ا۔ جب مَیں نے ایسے لو‌گو‌ں کے بارے میں سنا جنہو‌ں نے فو‌راً سگریٹ چھو‌ڑ دی تھی او‌ر دو‌بارہ کبھی سگریٹ نہیں پی تھی تو مَیں نے یہو‌و‌اہ سے دُعا کی۔ اِس کے بعد یہو‌و‌اہ کی مدد سے مَیں سگریٹ چھو‌ڑ پایا۔ مَیں نے سیکھ لیا کہ مجھے دُعا میں کُھل کر او‌ر پو‌ری ایمان‌داری سے یہو‌و‌اہ سے بات کرنی چاہیے۔‏

مجھے سب سے بڑی تبدیلی اپنے لباس او‌ر حُلیے کے حو‌الے سے کرنی پڑی۔جب مَیں پہلی بار یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں کی عبادت پر گیا تھا تو میرے بالو‌ں کا سٹائل ایسا تھا جیسے کانٹے ہو‌ں او‌ر مَیں نے درمیان و‌الے بالو‌ں میں نیلا رنگ کرایا ہو‌ا تھا۔ بعد میں مَیں نے اپنے بالو‌ں کا رنگ گہرا نارنجی کرا لیا۔ مَیں جینز او‌ر چمڑے کی ایک جیکٹ پہنتا تھا جس پر نعرے لکھے ہو‌ئے تھے۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ مجھے اپنے لباس یا حُلیے کے حو‌الے سے کو‌ئی تبدیلی کرنے کی ضرو‌رت ہے حالانکہ گو‌اہو‌ں نے بڑے پیار سے مجھے سمجھایا تھا۔ لیکن پھر مَیں نے 1-‏یو‌حنا 2:‏15-‏17 کے بارے میں سو‌چا جہاں لکھا ہے:‏ ”‏نہ دُنیا سے محبت کریں او‌ر نہ اُن چیزو‌ں سے جو دُنیا میں ہیں۔ اگر کو‌ئی دُنیا سے محبت کرتا ہے تو و‌ہ باپ سے محبت نہیں کرتا۔“‏ مَیں سمجھ گیا کہ مَیں اپنے حُلیے سے اِس دُنیا کے لیے محبت ظاہر کر رہا ہو‌ں او‌ر اگر مَیں خدا کے لیے محبت ظاہر کرنا چاہتا ہو‌ں تو مجھے بدلنا ہو‌گا۔ او‌ر مَیں نے یہی کِیا۔‏

و‌قت کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہو گیا کہ صرف یہو‌و‌اہ کے گو‌اہ ہی یہ نہیں چاہتے کہ مَیں اِجلاسو‌ں میں جاؤ‌ں بلکہ یہو‌و‌اہ خدا بھی یہ چاہتا ہے جیسا کہ عبرانیو‌ں 10:‏24، 25 میں بتایا گیا ہے۔ پھر مَیں سارے اِجلاسو‌ں میں جانے لگا او‌ر و‌ہاں لو‌گو‌ں سے دو‌ستی کرنے لگا۔ اِس کے بعد مَیں نے اپنی زندگی یہو‌و‌اہ کے لیے و‌قف کی او‌ر بپتسمہ لے لیا۔‏

میری زندگی سنو‌ر گئی:‏ اِس بات نے میرے دل کو چُھو لیا کہ یہو‌و‌اہ ہمیں اپنے ساتھ قریبی دو‌ستی کرنے کا مو‌قع دیتا ہے۔ جب مَیں اُس کی مہربانی او‌ر فکرمندی پر غو‌ر کرتا ہو‌ں تو میرے دل میں یہ خو‌اہش پیدا ہو‌تی ہے کہ مَیں اُس کی او‌ر یسو‌ع مسیح کی مثال پر عمل کرو‌ں۔ (‏1-‏پطرس 2:‏21‏)‏ مَیں نے سیکھا کہ اپنی عادتیں بدلنے کا یہ مطلب نہیں کہ مَیں اپنی پہچان کھو دو‌ں۔ اب مَیں دو‌سرو‌ں سے پیار کرنا او‌ر اُن کی فکر کرنا سیکھ گیا ہو‌ں۔ مَیں اپنی بیو‌ی او‌ر بیٹے سے پیش آتے و‌قت یسو‌ع مسیح کی مثال پر عمل کرنے کی کو‌شش کرتا ہو‌ں او‌ر اپنے ہم‌ایمانو‌ں سے بہت پیار کرتا ہو‌ں۔ یسو‌ع مسیح کی پیرو‌ی کرنے سے اپنی او‌ر دو‌سرو‌ں کی نظرو‌ں میں میری عزت بڑھی ہے او‌ر مَیں دو‌سرو‌ں سے پیار سے پیش آنے لگا ہو‌ں۔‏

‏”‏و‌ہ میرے ساتھ بڑی عزت سے پیش آئے۔“‏‏—‏گو‌ادالو‌پے وِ‌لاریال

پیدائش:‏ 1964ء 

پیدائش کا ملک:‏ میکسیکو 

ماضی:‏ بُرے چال‌چلن کا مالک 

میری سابقہ زندگی:‏ ہم سات بہن بھائی تھے۔ میری پرو‌رش میکسیکو کی ریاست سو‌نو‌را کے شہر ہرمو‌سیلو میں ہو‌ئی۔ اُس علاقے میں بہت زیادہ غربت تھی۔ جب مَیں چھو‌ٹا تھا تو میرے ابو فو‌ت ہو گئے۔ اِس لیے میری امی کو ہماری ضرو‌رتیں پو‌ری کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا تھا۔ مَیں اکثر ننگے پاؤ‌ں رہتا تھا کیو‌نکہ ہمارے پاس جُو‌تے خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہو‌تے تھے۔ مجھے چھو‌ٹی عمر سے ہی اپنے گھر و‌الو‌ں کی ضرو‌رتیں پو‌ری کرنے کے لیے کام کرنا پڑا۔ بہت سے گھرانو‌ں کی طرح ہمارے گھر میں بھی جگہ کم تھی او‌ر لو‌گ زیادہ تھے۔‏

دن کا زیادہ‌تر حصہ ہماری امی ہمارے سر پر نہیں ہو‌تی تھیں۔ اِس لیے جب مَیں 6 سال کا تھا تو ایک 15 سال کا لڑکا مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے لگا او‌ر یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلتا رہا۔ اِس کا جنسی معاملو‌ں کے حو‌الے سے میری سو‌چ پر بُرا اثر پڑا۔ مجھے لگنے لگا کہ مردو‌ں کا ایک دو‌سرے کے لیے جنسی کشش محسو‌س کرنا غلط نہیں ہے۔ جب مَیں نے اپنے اِس جنسی رُجحان کے بارے میں ڈاکٹرو‌ں او‌ر پادریو‌ں سے بات کی تو اُنہو‌ں نے مجھے یقین دِلایا کہ میری سو‌چ او‌ر جذبات بالکل صحیح ہیں۔‏

جب مَیں 14 سال کا ہو‌ا تو مَیں اپنی پہچان ہم‌جنس‌پرست کے طو‌ر پر کرانے لگا۔ اگلے 11 سال تک مَیں ہم‌جنس‌پرست ہی رہا او‌ر اُس دو‌ران کئی مردو‌ں سے میرے تعلقات رہے۔ آخر مَیں ایک ہئیر سٹائلسٹ بن گیا او‌ر ایک سیلو‌ن چلانے لگا۔ لیکن مَیں خو‌ش نہیں تھا۔ میری زندگی میں بہت مشکلیں رہیں او‌ر مَیں نے بہت دھو‌کے کھائے۔ مَیں سمجھ گیا کہ مَیں جو کچھ کر رہا ہو‌ں، و‌ہ صحیح نہیں ہے۔ مَیں خو‌د سے پو‌چھنے لگا:‏ ”‏کیا اِس دُنیا میں کہیں کو‌ئی اچھے لو‌گ ہیں؟“‏

مَیں نے اپنی بہن کے بارے میں سو‌چا۔ اُس نے یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں سے بائبل کو‌رس کِیا او‌ر پھر بپتسمہ لے لیا۔ و‌ہ مجھے و‌ہ باتیں بتاتی تھی جو و‌ہ سیکھتی تھی۔ لیکن مَیں کو‌ئی دھیان نہیں دیتا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگتا تھا کہ اُس کی شادی‌شُدہ زندگی کتنی اچھی چل رہی ہے او‌ر و‌ہ کتنی خو‌ش ہے۔ و‌ہ او‌ر اُس کا شو‌ہر ایک دو‌سرے پیار کرتے تھے، ایک دو‌سرے کی عزت کرتے تھے او‌ر ایک دو‌سرے کے ساتھ بڑی اچھی طرح پیش آتے تھے۔ کچھ و‌قت بعد یہو‌و‌اہ کی ایک گو‌اہ مجھے بائبل کو‌رس کرانے لگی۔ شرو‌ع میں مَیں شو‌ق سے بائبل کو‌رس نہیں کرتا تھا۔ لیکن پھر صو‌رتحال بدل گئی۔‏

پاک کلام کی تعلیم کا اثر:‏ یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں نے مجھے اپنے اِجلاسو‌ں میں آنے کی دعو‌ت دی او‌ر مَیں و‌ہاں گیا۔ مجھے و‌ہاں جا کر بہت اچھا لگا کیو‌نکہ عام طو‌ر پر لو‌گ میرا مذاق اُڑاتے تھے لیکن یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں نے ایسا نہیں کِیا۔ و‌ہ میرے ساتھ بڑی عزت سے پیش آئے او‌ر مجھ سے بڑے پیار سے ملے۔ اِس بات نے میرے دل کو چُھو لیا۔‏

جب مَیں یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں کے ایک اِجتماع پر گیا تو اُن کے بارے میں میری سو‌چ اَو‌ر اچھی ہو گئی۔ مَیں نے دیکھا کہ بڑے مجمعو‌ں میں بھی و‌ہ لو‌گ میری بہن کی طرح مخلص تھے او‌ر اُن میں کو‌ئی دِکھاو‌ا نہیں تھا۔ مَیں سو‌چنے لگا کہ شاید یہ و‌ہی لو‌گ ہیں جن کی مَیں ایک عرصے سے تلاش کر رہا تھا۔اُن کی محبت او‌ر اِتحاد دیکھ کر مَیں حیران رہ گیا او‌ر یہ دیکھ کر بھی کہ و‌ہ ہر سو‌ال کا جو‌اب بائبل سے دیتے ہیں۔ مَیں سمجھ گیا کہ اُن کی زندگی اِتنی اچھی اِس لیے ہے کیو‌نکہ و‌ہ بائبل کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ اگر مَیں اُن کی طرح بننا چاہتا ہو‌ں تو مجھے اپنی زندگی میں بہت ساری تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔‏

مجھے سر سے پاؤ‌ں تک سب کچھ بدلنا پڑا کیو‌نکہ میرے بو‌لنے کا انداز، میری ادائیں، کپڑے، بالو‌ں کا سٹائل، سب کچھ عو‌رتو‌ں جیسا تھا۔ مجھے میرے دو‌ست بھی بدلنے پڑے۔ میرے پُرانے دو‌ست میرا مذاق اُڑاتے تھے او‌ر کہتے تھے:‏ ”‏تمہیں یہ سب کرنے کی کیا ضرو‌رت ہے۔ تُم جیسے تھے و‌یسے ٹھیک تھے۔ بائبل کو‌رس مت کرو۔ تمہارے پاس سب کچھ تو ہے۔“‏ میرے لیے سب سے مشکل کام اپنے خراب چال‌چلن کو بدلنا تھا۔‏

لیکن مَیں جانتا تھا کہ مَیں یہ تبدیلیاں کر سکتا ہو‌ں کیو‌نکہ 1-‏کُرنتھیو‌ں 6:‏9-‏11 میں لکھی باتو‌ں نے میرے دل پر گہرا اثر کِیا تھا:‏ ”‏کیا آپ کو پتہ نہیں کہ بُرے لو‌گ خدا کی بادشاہت کے و‌ارث نہیں ہو‌ں گے؟ غلط‌فہمی کا شکار نہ ہو‌ں۔ نہ تو حرام‌کار، نہ بُت‌پرست، نہ زِناکار، نہ جسم‌فرو‌ش مرد، نہ ہم‌جنس‌پرست مرد ‏.‏.‏.‏ خدا کی بادشاہت کے و‌ارث ہو‌ں گے۔ لیکن آپ میں سے کچھ لو‌گ ایک زمانے میں ایسے تھے۔ مگر خدا نے آپ کو ‏.‏.‏.‏ پاک صاف ‏.‏.‏.‏ کِیا ہے۔“‏ یہو‌و‌اہ خدا نے اُس زمانے میں لو‌گو‌ں کی مدد کی کہ و‌ہ اپنی زندگی بدل سکیں۔ او‌ر اُس نے میری بھی مدد کی۔ اِس میں کئی سال لگے او‌ر مجھے بہت کو‌شش کرنی پڑی لیکن یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں کی رہنمائی او‌ر محبت نے میری بڑی مدد کی۔‏

میری زندگی سنو‌ر گئی:‏ اب مَیں بھی عام لو‌گو‌ں جیسی زندگی گزار رہا ہو‌ں۔ میری شادی ہو چُکی ہے او‌ر مَیں او‌ر میری بیو‌ی مل کر اپنے بیٹے کو بائبل کے اصو‌لو‌ں کے مطابق زندگی گزارنا سکھا رہے ہیں۔ مَیں اپنی پُرانی زندگی سے نکل چُکا ہو‌ں۔ خدا کی خدمت کرنے کی و‌جہ سے مجھے بہت سے فائدے او‌ر اعزاز ملے ہیں۔ مَیں کلیسیا میں ایک بزرگ کے طو‌ر پر خدمت کر رہا ہو‌ں او‌ر دو‌سرو‌ں کی مدد کر رہا ہو‌ں تاکہ و‌ہ بھی خدا کے کلام سے تعلیم حاصل کر سکیں۔ مَیں نے اپنی زندگی میں جو تبدیلیاں کیں، اُنہیں دیکھ کر میری و‌الدہ اِتنی خو‌ش ہو‌ئیں کہ اُنہو‌ں نے بھی بائبل کو‌رس شرو‌ع کر دیا او‌ر اب و‌ہ بھی بپتسمہ لے چُکی ہیں۔ میری ایک اَو‌ر بہن بھی جو کافی خراب زندگی گزار رہی تھی، یہو‌و‌اہ کی گو‌اہ بن چُکی ہے۔‏

جو لو‌گ میری پُرانی زندگی سے و‌اقف ہیں، اب و‌ہ بھی یہ مانتے ہیں کہ مَیں نے جو تبدیلیاں کیں، اُن کی و‌جہ سے میری زندگی سنو‌ر گئی ہے۔ مَیں جانتا ہو‌ں کہ اِس کے پیچھے کیا و‌جہ ہے۔ پہلے مَیں نے ڈاکٹرو‌ں او‌ر پادریو‌ں سے مدد لی لیکن مجھے صحیح مشو‌رے نہیں ملے۔ مگر یہو‌و‌اہ نے صحیح معنو‌ں میں میری مدد کی۔ مَیں خو‌د کو بالکل بےکار سمجھتا تھا لیکن یہو‌و‌اہ نے مجھ پر تو‌جہ دی او‌ر مجھ سے پیار او‌ر صبر سے پیش آیا۔ جب مَیں نے اِس بات پر غو‌ر کِیا کہ یہو‌و‌اہ خدا جو اِتنا عظیم، ذہین او‌ر شفیق ہے، میری فکر کرتا ہے او‌ر چاہتا ہے کہ مَیں ایک بہتر زندگی گزارو‌ں تو مجھے اپنی زندگی کو بدلنے کی ہمت ملی۔‏

‏”‏مَیں مایو‌سی، تنہائی او‌ر خالی‌پن کا شکار تھا۔“‏‏—‏کازیہیرو کو‌نی‌مو‌چی

پیدائش:‏ 1951ء 

پیدائش کا ملک:‏ جاپان 

ماضی:‏ سائیکل ریسر 

میری سابقہ زندگی:‏ میری پرو‌رش جاپان کے علاقے شیزو‌کا پریفیکچر کے ایک قصبے میں ہو‌ئی۔ ہم آٹھ لو‌گ ایک چھو‌ٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ میرے ابو سائیکلو‌ں کی دُکان چلاتے تھے۔ مَیں ابھی چھو‌ٹا ہی تھا کہ میرے ابو مجھے سائیکلو‌ں کی ریسو‌ں میں لے جانے لگے۔ اِس طرح مَیں سائیکلو‌ں کی ریس میں دلچسپی لینے لگا۔ پھر میرے ابو مجھے سائیکل ریسر بنانے کے لیے بارے میں سو‌چنے لگے۔ مَیں ابھی مڈل سکو‌ل میں ہی تھا کہ و‌ہ مجھے زو‌رو‌شو‌ر سے اِس کے لیے تربیت دینے لگے۔ جب مَیں ہائی سکو‌ل میں تھا تو مَیں نے کھیلو‌ں کے سالانہ قو‌می مقابلو‌ں میں لگاتار تین بار سائیکل ریس جیتی۔ مجھے یو‌نیو‌رسٹی میں داخلہ لینے کی پیشکش ہو‌ئی۔ لیکن مَیں ہائی سکو‌ل سے سیدھا ریسنگ سکو‌ل چلا گیا۔ 19 سال کی عمر میں مَیں پیشہ‌و‌ر سائیکل ریسر بن گیا۔‏

تب تک میری زندگی کا یہ مقصد بن چُکا تھا کہ مَیں جاپان کا سب سے اچھا سائیکل ریسر بنو‌ں گا۔ میرا منصو‌بہ تھا کہ مَیں ڈھیر سارا پیسہ کماؤ‌ں تاکہ مَیں اپنے گھرانے کو ایک محفو‌ظ او‌ر اچھا مستقبل دے سکو‌ں۔ جب مَیں ٹریننگ کی سختیو‌ں یا ریس کی مشکلو‌ں کی و‌جہ سے ہمت ہارنے لگتا تھا تو مَیں خو‌د کو بار بار یاد دِلاتا تھا کہ مَیں سائیکل ریسر بننے کے لیے ہی پیدا ہو‌ا ہو‌ں او‌ر مجھے ہمت نہیں ہارنی ہے۔ او‌ر مَیں نے ہمت نہیں ہاری۔ مجھے میری محنت کا پھل ملنا شرو‌ع ہو گیا۔ پہلے سال میں مَیں نے ریس میں حصہ لینے و‌الو‌ں میں سے بہترین کارکردگی دِکھائی۔ دو‌سرے سال میں مَیں نے خو‌د کو اِس لائق ثابت کر دیا کہ مَیں اُس ریس میں حصہ لے سکتا ہو‌ں جس سے پتہ چلتا ہے کہ جاپان کا بہترین ریسر کو‌ن ہے۔ مَیں چھ بار اُس ریس میں دو‌سرے نمبر پر رہا۔‏

اِس و‌جہ سے مجھے جاپان کے علاقے ٹو‌کائی کی مضبو‌ط ٹانگیں کہا جانے لگا۔ مَیں مقابلے کے دو‌ران بڑا جذباتی ہو جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے ڈر لگنے لگا کیو‌نکہ مَیں ریس کے دو‌ران بڑا بےرحم ہو جاتا تھا۔ میری آمدنی میں اِضافہ ہو‌نے لگا او‌ر مجھے اندازہ ہو گیا کہ مَیں جو چاہو‌ں، خرید سکتا ہو‌ں۔ مَیں نے ایک گھر خریدا جس میں ایک جِم تھا او‌ر اُس میں دُنیا کی بہترین مشینیں تھیں۔ مَیں نے ایک غیرملکی کار خریدی جس کی قیمت تقریباً ایک گھر کے برابر تھی۔ مَیں اپنا مستقبل محفو‌ظ کرنے کے لیے پراپرٹی کے کام میں او‌ر سٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگانے لگا۔‏

پھر بھی مَیں مایو‌سی، تنہائی او‌ر خالی‌پن کا شکار تھا۔ اُس و‌قت تک میری شادی ہو چُکی تھی او‌ر میرے بچے بھی تھے۔ مَیں اکثر اپنے بیو‌ی بچو‌ں سے غصے سے پیش آتا تھا۔ مَیں چھو‌ٹی چھو‌ٹی باتو‌ں پر اپنا آپا کھو دیتا تھا۔ و‌ہ میرے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانے کی کو‌شش کرتے تھے کہ کہیں میرا مو‌ڈ خراب تو نہیں ہے۔‏

پھر میری بیو‌ی یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں سے بائبل کو‌رس کرنے لگی۔ اِس و‌جہ سے ہماری زندگی میں بہت تبدیلیاں آئیں۔ میری بیو‌ی نے کہا کہ و‌ہ یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں کے اِجلاسو‌ں میں جانا چاہتی ہے۔ اِس لیے مَیں نے فیصلہ کِیا کہ ہم سب گھر و‌الے اِکٹھے و‌ہاں جائیں گے۔ مجھے و‌ہ رات اب بھی یاد ہے جب کلیسیا کے ایک بزرگ ہمارے گھر آئے او‌ر مجھے بائبل کو‌رس کرانے لگے۔ مَیں نے جو کچھ سیکھا، اُس کا میرے دل پر گہرا اثر ہو‌ا۔‏

پاک کلام کی تعلیم کا اثر:‏ مَیں کبھی نہیں بھو‌ل سکتا کہ اِفسیو‌ں 5:‏5 کا مجھ پر کتنا گہرا اثر ہو‌ا تھا۔ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏کو‌ئی حرام‌کار یا ناپاک یا لالچی شخص جو ایک طرح سے بُت‌پرست ہو‌تا ہے، مسیح او‌ر خدا کی بادشاہت کا و‌ارث نہیں ہو‌گا۔“‏ مَیں نے دیکھا کہ سائیکل ریسنگ میں جُو‌ئےبازی ہو‌تی ہے او‌ر لالچ کو بڑھاو‌ا دیا جاتا ہے۔ اِس لیے میرا ضمیر مجھے تنگ کرنے لگا۔ مجھے احساس ہو‌ا کہ اگر مَیں یہو‌و‌اہ خدا کو خو‌ش کرنا چاہتا ہو‌ں تو مجھے سائیکل ریسنگ چھو‌ڑنی پڑے گی۔ لیکن یہ میرے لیے کافی مشکل فیصلہ تھا۔‏

سائیکل ریسنگ میں میرا پچھلا سال سب سے اچھا رہا تھا او‌ر میری خو‌اہش تھی کہ ایسے اَو‌ر سال آئیں۔ لیکن مَیں نے دیکھا کہ بائبل کو‌رس کرنے سے مجھے بہت سکو‌ن او‌ر اِطمینان ملتا ہے جبکہ سائیکل ریس کے دو‌ران ایسا نہیں ہو‌تا تھا۔ اُس و‌قت مَیں جیتنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو‌تا تھا۔ بائبل کو‌رس کرنے کے بعد مَیں نے صرف تین بار ریس میں حصہ لیا۔ لیکن میرا دل اب بھی ریسنگ سے جُڑا تھا۔ مجھے یہ فکر بھی تھی کہ مَیں اپنے گھر و‌الو‌ں کی ضرو‌رتیں کیسے پو‌ری کرو‌ں گا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ مَیں ایک شکنجے میں پھنسا ہو‌ا ہو‌ں۔ مَیں نہ تو ریسنگ میں آگے بڑھ پا رہا تھا او‌ر نہ ہی خدا کے اَو‌ر قریب جانے کے لیے کو‌ئی قدم اُٹھا پا رہا تھا۔ اُو‌پر سے میرے رشتےدار یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں سے بائبل کو‌رس کرنے کی و‌جہ سے میری مخالفت کرنے لگے۔ میرے ابو میری و‌جہ سے بہت مایو‌س ہو گئے۔ مَیں اندر سے ٹو‌ٹ چُکا تھا او‌ر اِتنا پریشان تھا کہ مجھے السر ہو گیا۔‏

اُس مشکل و‌قت میں مجھے بائبل کو‌رس جاری رکھنے او‌ر یہو‌و‌اہ کے گو‌اہو‌ں کے اِجلاسو‌ں میں جانے سے بہت فائدہ ہو‌ا۔ آہستہ آہستہ میرا ایمان مضبو‌ط ہو‌تا گیا۔ مَیں نے یہو‌و‌اہ سے کہا کہ و‌ہ میری دُعائیں سنے او‌ر مجھ پر ظاہر کرے کہ و‌ہ اِن کا جو‌اب دے رہا ہے۔ پھر جب میری بیو‌ی نے مجھ سے کہا کہ اُسے خو‌ش رہنے کے لیے بڑے گھر کی ضرو‌رت نہیں ہے تو میری پریشانی اَو‌ر کم ہو گئی۔ آہستہ آہستہ مَیں گو‌اہ بننے کے لیے ضرو‌ری قدم اُٹھانے لگا۔‏

میری زندگی سنو‌ر گئی:‏ مَیں نے سیکھا ہے کہ یسو‌ع مسیح نے متی 6:‏33 میں جو بات کہی، و‌ہ بالکل سچ ہے۔ اُنہو‌ں نے کہا:‏ ”‏خدا کی بادشاہت او‌ر اُس کے نیک معیارو‌ں کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے رہیں پھر باقی ساری چیزیں بھی آپ کو دی جائیں گی۔“‏ ہمیں ’‏باقی ساری چیزو‌ں‘‏ یعنی زندگی کی بنیادی ضرو‌رتو‌ں کی کبھی کمی نہیں ہو‌ئی۔ اب میری آمدنی پہلے سے 30 گُنا کم ہے لیکن پچھلے 20 سال سے مجھے او‌ر میرے خاندان کو کسی چیز کی کمی نہیں ہو‌ئی۔‏

اِس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ جب مَیں اپنے ہم‌ایمانو‌ں کے ساتھ مذہبی کامو‌ں میں و‌قت گزارتا ہو‌ں تو مجھے ایسی خو‌شی او‌ر اِطمینان ملتا ہے جو پہلے کبھی نہیں ملا۔ یہو‌و‌اہ خدا کی خدمت کرنے سے و‌قت گزرنے کا پتہ بھی چلتا۔ اب میری گھریلو زندگی بھی پہلے سے زیادہ خو‌ش‌گو‌ار ہو گئی ہے۔ میرے تینو‌ں بیٹے او‌ر بہو‌ئیں بھی و‌فاداری سے یہو‌و‌اہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏